Mangni ki haqeeqat Quran-o-Hadees ki raushani me.
Mangni ka شرعی tareeqa kya Hai?
Mangni ki jo rasmein hoti hein mu'ashrey mein in ki Islam mein kya haisiyat hai?
Kya Mangni (Engagement) jaisa koi Lafj Quran me aaya hai?
Mangni Karna Sahi hai ya Galat?
منگنی کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟
*جواب تحریری
الحمد للہ
شریعت میں منگنی شادی کے پیغام کو کہتے ہیں :
کہ مرد عورت سے شادی کرنے کا پیغام دے ، اور اہل علم کے ہاں شادی کرنے والے کے لیے منگنی کرنا مشروع ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو. البقرۃ ( 235 ) ۔
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو شادی کا پیغام دیا تھا اور ان سے منگنی کی تھی دیکھیں صحیح بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر ( 4793 ) ۔
اور صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا سے منگنی کی تھی ۔ دیکھیں صحیح بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر ( 4830 ) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منگنی کرنے والے کو اپنی منگیتر دیکھنے کی رغبت دلائي ہے ، حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جب تم میں سے کوئي ایک کسی عورت سے منگنی کرے تو اگر اس سے نکاح میں رغبت دلانے والی چيز دیکھ سکے تو اسے ایسا کرنا چاہیے ) سنن ابوداود کتاب النکاح حدیث نمبر ( 2082 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ابوداود ( 1832 ) میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔
لیکن شریعت اسلامیہ میں منگنی کے لیے کوئي محدد چيز بیان نہيں کی گئي جو منگنی میں واجب ہوں ، اور مسلمانوں میں جو کچھ منگنی کےنام سے کیا جارہا ہے وہ سب عادات اور رسم ورواج ہیں جو منگنی کے اعلان اور خوشی میں منعقد کی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کو ھدیہ اور تحفے تحائف دیے جاتے ہیں جو کہ اصل ميں مباح ہیں ۔
لیکن منگنی میں وہ کام کرنے جائز نہيں جس کی شریعت نے ممانعت یا پھر اسے حرام کیا ہو ، اسی ممنوعہ اور حرام میں منگنی کی انگوٹھی کا تبادلہ بھی شامل ہے جو کہ لڑکی اور لڑکا آپس میں ایک دوسرے کو پہناتے ہیں یا جسے بعض ممالک میں ڈبلہ کا نام دیا جاتا ہے ، تویہ ایسی تقالید اور رسم ہے جس میں مندرجہ ذيل شرعی مخالفات پائي جاتی ہیں :
اول : بعض لوگوں کا عقیدہ اور خیال ہے کہ ان انگوٹھیوں سے لڑکی اور لڑکے کے مابین محبت بڑھتی ہے اور خاوند اور بیوی کے تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے ، ایسا اعتقاد رکھنا جاہلی اعتقاد ہے اور وہ تعلق ہے جس کی نہ تو کوئی حسی اور نہ ہی شرعی اصل اور دلیل ملتی ہے ۔
دوم : اس رسم میں غیر مسلم یھود و نصاری اور ھندووں وغیرہ سے مشابہت ہے ، یہ کسی بھی دور میں مسلمانوں کی عادات میں شامل نہیں رہی اور نہ ہی ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے بچنے کا بھی حکم دیا ہے۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی مکمل طور پر پیروی کرو گے حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے)
صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یھودی اور عیسائي تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اور کون ؟ ) صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ حدیث نمبر( 6889 ) صحیح مسلم حدیث نمبرکتاب اللباس ( 6723 ) ۔
اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جو بھی کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے ) سنن ابوداود کتاب اللباس حدیث نمبر ( 4031 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 3401 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سوم : ایک دوسرے کو منگنی کی انگوٹھی پہنانا عادتا نکاح سے پہلے ہوتا ہے ، اور اس حالت میں لڑکے کے لیے اپنی مگیتر کو انگوٹھی پہنانا جائز نہیں کیونکہ ابھی تک تو وہ اس سے اجنبی ہے اور اس کی بیوی نہیں بنی جس سے اس کا چھونا جائز ہو ۔
آخر میں اس مسئلہ میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کی کلام نقل کرتے ہوئے جواب ختم کرتے ہیں :
دبلہ منگنی کی رسم یہ ایک انگوٹھی پہنانے کی رسم ہوتی ہے اور اصل میں صرف انگوٹھی میں تو کچھ نہیں لیکن جب اس میں اعتقاد شامل ہو جاتا ہے جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ انگوٹھی پر دونوں طرف سے منگیتر لڑکے اور لڑکی کا نام لکھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے خاوند اور بیوی دونوں کے تعلقات میں مضبوطی پیدا ہوگی ۔
تو اس حالت میں یہ پہننا حرام ہے ، اس لیے کہ اس کا ایسی چيز سے تعلق ہے جو غیر شرعی ہے جس کی شرعی اور حسی طور پر کوئی اصل نہيں ۔
اور اسی طرح یہ انگوٹھی رسم میں لڑکا اپنی مگیتر کو خود اپنے ہاتھ سے پہناتا ہے جو کہ جائز نہيں اس لیے کہ وہ ابھی تک اس کی بیوی نہيں بنی بلکہ وہ اس کے لیے اجنبی ہی ہے کیونکہ اس کی بیوی تو عقد نکاح کے بعد ہے بنے گی ۔
دیکھیں : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 914 - 915 ) ۔
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment