find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Pregnancy me Khoon aane se kya Ghusal Wajib Ho jata hai?

Ager Kisi Aurat ko Hamal ke Dauran Khoon aajaye ek do drop to kya uske liye Ghusl karna wajib ho jata hai?
Agar pregnancy me kuch blood ajaye, ek do drop to kya ghusal karna zarori hai?

جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حیض و حمل کے اعتبار سے عورتوں کو عام طور پر تین اقسام دیکھنے میں آتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

(۱)اکثر عورتیں ایسی ہیں کہ انہیں استقرار حمل کے بعد حیض آنا بند ہو جاتا ہے، وہ عورتیں صرف حیض کے بند ہونے سے حمل کو پہچانتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب نظام ہے کہ جب حمل کی وجہ سے خون حیض بند ہوجاتا ہے تو بچہ کے لئے ماں کے پیٹ میں وہ غذا کے کام آتا ہے جو خون بچے کی غذا سے زائد ہوتا ہے۔ وہ رحم میں جمع ہوتا رہتا ہے ،ولادت کے وقت وہی جمع شدہ خون نفاس کی صورت میں باہر نکلتا ہے۔

(۲) بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں حمل کے دوران اپنی عادت کے مطابق خون آتا ہے جس طرح حمل سے پہلے ہوتا ہے، اس خون کا حکم حیض کا ہے کیونکہ یہ جاری رہتا ہے اور حمل کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا ہ اور یہ خون ہر اس چیز سے روکتا ہے جس سے حیض روکتا ہے اور ہر اس  چیز واجب کرتا ہے جسے حیض واجب کرتا ہے دراصل بچے کی غذا سے فالتو خون رحم میں جمع نہیں ہوتا بلکہ وہ رحم کے ذریعے حسب عادت جاری رہتا ہے۔

(۳) بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جنہیں سرے سے حیض آتا ہی نہیں ہے اور انہیں حمل بھی ٹھہرتا ہے وہ اپنے حمل کو اندرونی یا بیرونی علامات سے پہچان لیتی ہیں، اس قسم کی عورتیں بہت کم ہیں لیکن ہوتی ضرور ہیں۔صورت مسئولہ کی نوعیت  معلوم کرنے کے لئے دوران حمل آنے والے خون کی دو اقسام ہیں:

(الف) اسے حیض کا خون شمار کیا جائے جو عور ت کو اس طرح آرہا ہے جس طرح حمل سے پہلے تھا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ عورت اس دوران نماز روزہ ادا نہیں کرے گی اور اس سے فراغت کے بعد غسل کر کے فوت شدہ روزوں کی قضا دینا ہوگی ، البتہ اس دوران رہ جانے والی نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(ب) وہ خون جو عادت سے ہٹ کر حاملہ کو اچانک آتا ہے اور یہ کسی حادثہ یا کسی چیز سے گرنے کے سبب ہوتا ہے، یہ خون حیض کا نہیں بلکہ رگ کا خون ہے اور یہ نماز روزہ سے رکاوٹ نہیں بنتا ،پھر اگر حادثہ کی وجہ سے حمل ساقط ہو جائے تو اس کی مزید دو اقسام ہیں:

*اگر اس حمل میں انسانی تخلیق ظاہر ہوچکی ہے تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس کا ہے اور عورت اس میں نماز روزہ ترک کردے گی کیونکہ انسانی تخلیق کا ضابطہ یہ ہے کہ چار ماہ بعد جنین میں روح دالی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:‘‘بےشک تم میں سے ہر ایک کا مادہ  اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع کیا جاتا ہے،پھر چالیس دن تک ایک لوتھڑا بنتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا بنتا ہے، پھر فرشتے کے ذریعے اس میں روح پھونک دی جاتی ہےاور اس کا رزق ،اجل ،علم اور اچھا یا برا ہونا لکھ دیا جاتا ہے۔’’(صحیح بخاری،التوحید:۷۴۵۴)

اگر چار ماہ سے قبل ،یعنی اس میں روح پڑنے سے پہلے اسقاط ہوجائے اور اس میں انسانی تخلیق نہیں ہوتی تو وہ نفاس کا خون نہیں ہے، بلکہ بیماری کا ہے  جو نماز روزہ اور دوسری چیزوں سے رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔ سائلہ کو چاہیے کہ وہ تفصیل بالا کے مطابق عمل کرے۔ (واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS