Kya Asar Se Magrib tak Nafil Namaz (Salat) Padh Sakte Hai?
سوال عصر سے مغرب تک نفلی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب تحریری
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه
عصر کے بعد دو رکعت ۔۔۔۔
اسود اور مسروق کہتے ہیں،
"ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں".
صحیح مسلم : 835 ، سنن ابوداؤد : 1279، باب: "ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کی اجازت دی ہے"، یہاں الفاظ ابوداؤد کے ہیں، درجہ: صحیح (البانی)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں،
"دو نمازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں فرمایا، پوشیدہ ہو یا عام لوگوں کے سامنے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعات اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعات"۔
صحیح مسلم : 1818
ہشام کے والد نے کہا:
عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا،
"میرے بھانجے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات میرے یہاں کبھی ترک نہیں کیں"۔
صحیح بخاری : 591
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،
"اللہ کی قسم! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ پاک سے جا ملے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ پھر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ( صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح ) امت کو گراں باری ہو، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا"۔
صحیح بخاری : 590
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
"یہ ایک نماز ہے، جسے بھلایا گیا ہے، اور اس سنت کو دوبارہ زندہ کرنا چاہئے". (صحیحہ : 3174)
ان دو رکعتوں کے بارے میں علماء کا تجزیہ....
امام الطحاوی رحمہ الله فرماتے ہیں،
"کچھ لوگ عصر کے بعد کے دو رکعتوں میں کوئی نقصان نہیں دیکھتے، اور انہیں وہ سنت سمجھتے ہیں".
(شرح معانی الآثار : 1-301)
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
"... تیسری بات یہ ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ ہمارے لئے دلیل ہے، یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ عصر کے بعد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے تھے،
اگر یہ ممنوع اور ناپسند نماز ہوتی تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ان دو رکعتوں کو نہ پڑھتے، ان کے اعمال ہی رہنمائی ہے، ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک دفعہ کہ ہو یا ہزار دفعہ" (المحلی)
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
"ان روایات سے چِپکنے سے عصر کے بعد دو نفل رکعت پڑھنے کی اجازت ملتی ہے، ہر لحاظ سے، اس کے ساتھ ساتھ یہ غروبِ آفتاب کے وقت نہیں پڑھنے چاہئے" (فتح 2/85)
شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
"فقہ کی کتابوں میں تسلیم شدہ غلطیوں میں سے ان دو رکعتوں سے منع کرنا ہے، اور نوافل کی فہرست میں ان کا ذکر نہ کرنا ہے، اس کے باوجود کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعتوں کو اسی طرح پڑھا جس طرح وہ صبح کی (نماز سے پہلے) دو رکعت (سنت) پڑھتے تھے، ان کے منسوخ ہونے یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہونے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت نے ان دو رکعتوں کی حفاظت کی ہے، ساتھ ساتھ صحابہ کرام اور سلف کے نیک لوگوں نے بھی".
سلسلۃ الصحیحہ : 7/528
الشيخ محمد آدم الاثيوبي اللہ ان کو محفوظ رکھے فرماتے ہیں،
"زیادہ قابلِ قبول بات یہ ہے کہ عصر کے بعد نماز پڑھنا جائز ہے جب تک کہ سورج خالص سفید ہو، اس عمل کی رائے صحیح احادیث، صحابہ کرام اور تابعین کے فعل کی بنیاد پر ہے".
ذخيرة العقبى في شرح المجتبی 7/202
شیخ عبید الجابری (اللہ ان کی حفاظت کرے) فرماتے ہیں،
"بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ عصر کے بعد بھی سنت ہیں، عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی تجویز کی گئی ہے، بہت سے لوگ آج کل اس سنت سے ناآشنا ہیں اس لئے وہ کنفیوز ہوجاتے ہیں، ۔۔۔۔۔ اور یہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے جیسے کہ امام مسلم، بخاری وغیرہ نے اس کو روایت کیا ہے"۔
واللہ اعلم ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment