نمازقصركےبعض مسائل
مسافركے حق ميں نمازقصر كے مشروع ہونے ميں محدثين وفقهاء كا اتفاق هے.[ الإجماع لابن المنذر ص 41].
مسافركے لئے نمازقصرواجب هے يامستحب اس بارے ميں سلف صالحين كے درميان اختلاف هے:
1: جمهوراهل علم كے نزديک نمازقصرمستحب ہے.[حاشية الدسوقي1/358, المجموع 4/337المغني 2/197].
دليل:اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
حضرت ابويعلى بن اميہ رضى الله كہتے ہيں ميں نے حضرت سے عرض كيا (الله كاحكم ہے)اگرتمہيں كافروں كى طرف سے خوف ہوتونمازقصركرنے ميں كوئى حرج نہيں ليكن اب توزمانه امن ہے (لہذاقصركاجوازختم هوگيا) حضرت عمرنے رضى الله عنه كہنے لگے جس بات پرتمہيں تعجب ہواہے مجہے بہى تعجب ہواتہااسلئے ميں رسول الله عليه افضل الصلاة والسلام سے پوچہاتوآپ نے فرمايا:(قصركى رعايت)"اللہ كى طرف سے تم لوگوں پرصدقہ ہے لہذااللہ كاصدقہ قبول كرو" [صحيح مسلم حديث نمبر:1114، أجزاء أبي علي بن شاذان حديث نمبر:100، بلغة الطالب الحثيث في صحيح عوالي الحديث حديث نمبر:55، جامع الترمذي حديث نمبر:2979، سنن أبي داود حديث 1016، سنن ابن ماجه حديث نمبر:1055، سنن الدارمي حديث نمبر:1077، مسند أحمد بن حنبل حديث نمبر:172، صحيح ابن خزيمة حديث نمبر:904، صحيح ابن حبان حديث نمبر:2807، السنن الكبرى للنسائي حديث:10607 والسنن الصغرى للنسائى ايضا، السنن الكبرى للبيهقي حديث نمبر:4989وغيره].
2: امام مالک كے نزديک سنت مؤكده ہے اورامام شافعيوں اورحنابله كے ہاں نمازقصرافضل هے اورپورى نمازاداكرنابغيركسى كراهت كے جائزهے.[ المهذب 1/193كشاف القناع 1/509-510].
3: امام احمد كى ايک اوررائے ہے كه نمازكومكمل كرنا (يعنى پوراپڑہنا)مجهے پسندنهيں ہے.[ الإنصاف 2/321].
سفركى نماز
سفرميں ظہر،عصراورعشاء كى چارركعتوں كودودوپڑہنا قصر(كم كرنا)كہلاتا ہے فجراورمغرب ميں قصرنہيں ہے جوشخص سفركے ارادے سے اپنے گہرچلے اورگاؤں ياشہرسے كى آبادى سے نكل جائے تووه ازروئے شريعت مسافركہلاتا ہے اوروه اپنى فرض نمازميں قصركرسكتا ہے.
سفركى مسافت
نبى صلى الله عليہ وسلم نے قصركے لئے قطعى مسافت مقررنہيں فرمائى صحابہ كرام سے 9،36،38،40،42،45،اور48 ميل كى متعدد روايات منقول ہيں مذكوره روايات ميں سے نو(9) ميل كى مسافت زياده صحيح معلوم ہوتى ہےـ
[1] نبى صلى الله عليہ وسلم تين ميل ياتين فرسخ(نوميل) سفركرتے توقصركرتے. ميل يافرسخ كاشک يحىى كے شاگرد شعبہ كوہے.[ سنن أبي داود حديث نمبر: 1017،صحيح مسلم حديث نمبر:1122،مسند أبي يعلى الموصلي حديث نمبر:3617، تحفة الاحوذى نمبر: 1671].
اس حديث ميں راوى نے پورى ايماندارى سے كام ليتے ہوئے تين ميل ياتين فرسخ (نوميل) دونوں كاذكركرديا اس سے اندازه ہوتا ہے كہ احاديث بيان كرتے ہوئے انسان كوكتنا امانت علمى سے كام لينا چائے كيونكہ احاديث بيان كرنا دين ہے، پس مسافركوچا ہئے كہ اپنےشہر كى حدود سے نكلنے كے بعد اگرمنزل مقصود9 نوميل يا اسے زياده مسافت پرواقع ہوتومسافرقصركرسكتاہے.
[2] حضرت انس سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے مدينہ ميں ظہرنمازچارركعتيں پڑہيں اورذوالحيفة ميں عصركى نمازدوركعتيں پڑہيں.[بخارى الحج حديث نمبر:1547، مسلم، باب صلاة المسافرين وقصرها، حديث نمبر:690].
ذوالحيفہ يه مدينہ سے صرف(6) چہ ميل كے فاصلے پرہے نبى صلى الله عليہ وسلم مكہ كے لئے روانہ ہوئے توذوالحليفہ پہنچکرنمازعصرقصركى.
قصركى حد
اگركوئى مسافركسى علاقے ميں مترددٹہرے كہ آج جاؤں گا ياكل تو نمازقصركرتارہے خواہ ايک ماہ لگ جائيں:
[1] انس رضى الله عنہ عبد الملک بن مروان كے ساتہ دوماہ شام ميں (مترددحالت) ٹہرے اورنمازدوركعتيں پڑہتے رہے.[بيهقى3/152].
ابوحمزہ نصربن عمران سے روايت ہے کہ ميں نے ابن عباس سے پوچہا کہ ہم غزوه كى غرض سے خراسان ميں طويل قيام كرتے ہيں كياہم پورى نمازيں پڑهيں؟ آپ رضى الله عنہما نے فرمايا:دوركعتيں ہى پڑہاكروخواہ تمہيں (كسى جگہ متردد مسافركى حيثيت) سےدس سال قيام كرناپڑے.[مصنف ابن ابى شيبه].
قصركے لئے قطعى مدت نبى صلى الله عليه وسلم نے مقررنہيں فرمائى صحابہ كرام سے 4،15،اور19 دن كى روايت منقول ہيں ان ميں سے انيس(19) دن كى مدت زياده صحيح معلوم ہوتى ہے.
[2] حضرت ابن عباس رضى اللہ فرماتے ہيں کہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے انيس(19) تک قيام كيا اورقصركرتے تہے ـپس اگرہم انيس(19) دن سفرميں ہوتے توقصركرتے ،اوراگراس سے زياده قيام ميں رہتے تومكل نمازبغيرقصركے پڑہتے.[ البخاري حديث نمبر:1080- 1081].
اس حديث سے معلوم ہوكہ انيس(19) دن ٹہرنے كى نيت كرنے والا مسافرقصركرے گا، اوراگراسے زيادہ ٹہرنے كااراده ہوتوپورى نمازپڑہے گا.
اللہ تعالى سے دعاء هے كہ وه هميں قرآن وحديث كے مطابق عمل كى توفيق عطافرمائے. هذاماعندي والله اعلم.
كتبه/محمديوسف بٹ البزلوي ریاضی۔
No comments:
Post a Comment