Tashahud Me Ungali Ko Harkat dena Kaisa Hai aur ise Kaise Harkat dena chahiye?
میرا سوال ہے کیا التحیات کے لیے قعدہ میں بیٹھتے ہیں تو شہادت کی انگلی لگا تار حرکت کرتے ہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیں اس کی جو حدیث ہیں وہ بھی مطلوب ہے عین نوازش ہوگی
جواب تحریری
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال: تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا چاہیے یا نہیں؟اگر دیناچاہے تو کب ااور کیسے ہو؟اس مسئلے کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوران نماز تشھد کی حالت میں انگشت شہادت کو حرکت دینا نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے بلکہ تمام انبیاء علییہ السلام کا طریقہ مبارکہ ہے۔ چنانچہ امام حمیدی نے ایک آدمی کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔کہ اس نے شام کے کسی گرجا میں انبیاء کے مجسموں کودیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپن انگشت شہادت کو اٹھائے ہوئے تھے۔)مسند حمیدی:ص 183 حدیث نمبر 6489
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی اس سنت کو زندہ رکھا بلکہ اگر کسی سے اس سلسلے میں کوتاہی ہوجاتی۔ تو یہ حضرات اس کا مواخذہ کرتے۔)مصنف اب ابی شیبہ :ج2/ص 368(
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس سنت کو باہمی اختلاف کی نزر کردیا گیا اس اختلاف کی بدترین صورت یہ ہے کہ اس سنت کو صحت نماز کے منافی قرار دیا گیا چنانچہ خلاصہ کیدانی احناف کے ہاں ایک معروف کتاب ہے جس کے متعلق سرورق پر لکھا ہے۔
اگر طریق صلوۃ کہہ وانی اگر نخوانی خلاصہ کیدانی
اگر تو نے خلاصہ کیدانی نہ پڑھا تو نماز کے طریقہ کے متعلق تجھے کچھ پتہ نہیں ہوگا۔ا س کتاب کا پانچواں باب ''محرمات'' کے متعلق ہے اس میں ان چیزوں کی نشان دہی کی گئی ہے جس کا ارتکاب دوران نمازحرام اور ناجائز ہے۔بلکہ ان کے عمل میں لانے سے نماز باطل قرار پاتی ہے۔ان میں سر فہرست باآواز بلند آمین اور رفع الیدین کو بیان کیاگیا ہے اس کی مذید وضاحت بایں الفاظ کی ہے۔الاشارۃ بالسبابۃ کامل الحدیث )خلاصہ کیدانی :ص11(
سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا جیسا کہااہل حدیث کرتے ہیں۔یعنی یہ عمل ان کے ہاں نماز کو باطل کردیتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مذکورہ بالاعربی عبارت کا فارسی زبان میں بایں الفاظ ترجمہ کیا ہے۔''اشارہ کردن بانگشت شہادت مانند قصہ خواناں''اس عبارت میں اہلحدیث کا ترجمہ''قصہ خواناں'' کیا گیا ہے گویا اہل حدیث محض داستان گو اور قصہ خوان ہیں۔مصنف خلاصہ کی ا س ناروا جسارت کے پیش نظر احناف کے معروف فقیہ اور عالم دین ملا علی قاری نے اس آڑے ہاتھوں لیا لکھتے ہیں کہ مصنف نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ قواعد اصول اور مراتب فروع سے ناواقفیت ہے اگر اس کے متعلق حسن ظن سے کام نہ لیں اور اس کے کلام کی تاویل نہ کریں تو اس کا کفر واضح اور ارتداد صریح ہے۔کیا کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ثابت شدہ سنت کو حرام کہے اور ایسی چیز سے منع کرے جس پرعامۃ العلماء پشت در پشت عمل کرتے چلے آتے ہیں۔)تزبین العبارۃ لتحسن الاشارہ :ص 67(
بہرحال دوران تشہد انگشت شہادت کو حرکت دینا مصنف خلاصہ کیدانی کے نزدیک ''خام بدہن''ایک نازیباحرکت ہے جس سے نماز باطل ہوتی ہے۔نعوذ بالله من هفوات الفهم والقلم۔جب کے تشہد کی انگلی اٹھانا بڑی بابرکت اور عظمت و الی سنت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:'' کہ تشہد میں انگلی اٹھانا شیطان کے لئے دہکتے لوہے سے زیادہ ضرب کاری کا باعث ہے۔'')مسند امام احمد :3 ص119(
حضرت امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب نمازی اپنی انگشت شہادت کو حرکت دیتا ہے تو شیطان سے دور رہتا ہے اس وجہ سے نمازی گو خارجی وساوس اور نماز کے منافی سوچ وبچار سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ انگشت شہادت کا براہ راست دل سے تعلق ہے اس کے حرکت کرنے سے دل بھی رکا رہتا ہے جیسا کہ حدیث بالا میں اس کا اشارہ موجود ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دوران نماز شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کے لئے انگشت شہادت کی یہ حرکت بہت کارگر ہے۔)مسند ابی یعلی :ص275/27(
ایک روایت میں ہے کہ شیطان اس سے بہت پریشان ہوتاہے۔)سنن بیہقی :ص 132/27(
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی ترغیب بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز )کے قعدہ( میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دایئں ہاتھ کی وہ انگلی اٹھا لیتے جو انگوٹھے سے متصل ہے پھر اس کے ساتھ دعا مانگتے۔)صحیح مسلم :المساجد 580(
جو حضرات اس اشارہ اور حرکت کے قائل ہیں ان میں سے بعض کا موقف یہ ہے کہ تشہد میں''اشهد ان لا الٰه الا الله’’كہتے وقت انگشت شہادت اٹھائی جائے۔ اور جب یہ شہادت توحید ختم ہوجائے تو اپنی انگلی کو نیچے کرلیا جائے ان کی دلیل مندرجہ زیل حدیث ہے۔
حضرت خفاف بن ایما رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لئے بیٹھے تو انگلی سے اشارہ کرتے جس سے آپ کی مراد توحید ہوتی۔)بیہقی :ج2 ص 133(
علامہ صنعانی لکھتے ہیں کہ دوران تشہد اشارے کا مقام لا الٰہ الا اللہ کہتے وقت ہے۔کیوں کہ امام بیہقی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک نقل فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس اشارہ سے مراد توحید واخلاص ہے۔)سبل السلام :ج1 ص 319(
لیکن اس حدیث میں کسی قسم کی صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا الٰہ الا اللہ کہنے پر اشارہ کرتے تھے پھر یہ حدیث معیار محدثین پر پوری بھی نہیں اُترتی۔اس لئے محل اشارہ کی تعین کےلئے کوئی صریح اور صحیح حدیث مروی نہیں ہے بلکہ بظاہر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع تشہد سے انگلی اٹھانا چاہیے اور سلام پھیرنے تک اسے حرکت دیتے رہنا چاہیے چنانچہ حضرت وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مبارک بایں الفاظ بیان کرتے ہیں ''ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی ہلا رہے تھے اور اس کےساتھ دعا کررہے تھے۔'')ابودائود :الصلاۃ 727(
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں'' کہ اس حدیث میں انگشت شہادت کے متعلق مسنون طریقہ بیان ہوا کہ اس کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیوں کہ دعا سلام سے متصل ہے۔'')صفۃ الصلاۃ : 158(
برصغیر کےنامور محدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ انگشت شہادت کی حرکت شروع تشہد سے آخر تشہد تک جاری رہنی چاہیے۔)عون المعبود:ج1 ص 374:تحفۃ الاحوذی :ج1ص 241 مرعاۃ المفاتیح :ج2 ص 468(
بعض روایات میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد انی انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔)ابو دائود :الصلواۃ 989(
لیکن عدم حرکت کا یہ اضافہ شاذ ہے کیوں کہ مذکورہ روایت محمد بن عجلان کی بیاں کردہ ہے جو متکلم فیہ راوی ہے اس کے بیان کرنے والے خالد الاحمر عمرو بن دینار یحیٰ اور زیادہ چار راوی ہیں۔ مذکورہ اضافہ بیان کرنے والے صرف زیاد ہیں جو باقی رواۃ کی مخالفت کرتے ہیں۔اگرثقہ راوی دوسرے ثقات کی مخالفت کرے تو اس کی بیاں کردہ روایت کو شاذ قرار دیا جاتا ہے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔)تمام المنہ :صفۃ الصلواۃ(
محمد بن عجلان کے علاوہ حضرت عامر بن عبد اللہ سے جب دیگر ثقہ راوی بیان کرتے ہیں تو وہ اس اضافہ کو نقل نہیں کرتے پھر اس اضافہ کے شاذ اور ناقابل حجت ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عجلان سے اس روایت کو مذکورہ حدیث کے بغیر ہی بیان کیا ہے۔)صحیح مسلم :المساجد 579(
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں '' کہ اضافہ والی روایت نافی ہے اور جن رواایت میں اشارہ کا زکر ہے وہ مثبت ہیں اور محدثین کے بیان کردہ اصول کے مطابق مثبت روایت نافی پر مقدم ہوتی ہے۔'')ذادالمعاد:ج 1 ص 238(
مختصر یہ ہے کہ تشہد بیٹھتے ہی انگشت شہادت کو اٹھا کر اسے مسلسل ہلاتے رہنا چاہیے اور اس عمل کے منافی جو روایات ہیں وہ شاذ منکر اور ناقابل حجت ہیں اب ہم تشہد بیٹھتے وقت دایئں ہاتھ اور اس کی انگلیوں کی کیفیت بیان کرتے ہیں محدثین کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس تین طرح سے بیان کیا ہے جو حسب زیل ہے۔
© دایئں ہاتھ کی تین انگلیوں کو بند کرلیا جائے پھر انگوٹھے کو انگشت شہادت کی جڑ میں رکھ کر انگشت شہادت سے اشارہ حرکت ہو۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ بایئں گھٹنے پر رکھتے اور دایاں ہاتھ دایئں گھٹنے پر رکھتے اور تریپن کی گرہ لگاتے پھر انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔)صحیح مسلم ؛المساجد 580(
عرب کے ہاں ایک معروف طریقہ ہے کہ تریپن کا عدد بتانے کےلئے پہلی تین انگلیوں کو بند کرکے انگوٹھے کو انگشت شہادت کی جڑ میں رکھ دیتے حدیث میں تریپن کی گرہ لگانے کا یہی مطلب ہے تمام انگلیوں کو بند کرکے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھا جائے اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا جائے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد اپنے دایئں ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کر لیتے پھر انگوٹھے کے ساتھ متصل انگلی سے اشارہ کرتے۔)صحیح مسلم :المساجد 58(
©ایک روایت میں مذید وضاحت ہے کہ انہی انگشت شہادت سے اشارہ کرکے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھ لیتے۔)صحیح مسلم المساجد :579(
© پہلی دو انگلیوں کو بند کرلیا جائے پھر درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر انگشت شہادت سے اشارہ کیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ '' کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دایئں ہاتھ کی دوانگلیوں کو بند فرمایا پھر درمیانی انگلی اورانگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔'')ابو دائود الصلواۃ 726(
اور تین صورتوں کو گاہے بگاہے کرتے رہنا چاہیے اب ہم اس کا فلسفہ بیا کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں محمد صادق سیالکوٹی مرحوم کے الفاظ مستعار لیتے ہیں مولانا فرماتے ہیں کہ ''جب انگلی کو کھڑا کرکے اس نے توحید کی گواہی دی کہ اللہ ایک ہے پھر جب انگلی کو بار بار ہلانا شروع کیا تو اس نے بار بار ایک ایک ہونے کااعلان کیا مثلا دوران تشہد اگر انگلی کو سات بار ہلایا تو اتنی ہی مرتبہ انگلی نے توحید کا اعلان کیا گویا انگلی کھڑی ہوئی اور بول بول کر ایک اللہ ایک اللہ کہتی رہی اور نمازی ک کیف کا یہ عالم ہو کہ نظر انگلی ک رفع اور حرکت پر اوردماغ وحدانیت کو صلواۃ آبشار دل پر گرائے اور قلب عطشاں ر آب حیات پیا جائے۔)صلواۃ لرسول( حاصل لام یہ ہے کہ انگشت شہادت کو دوران تشہد حرکت دینا چاہیے اور حرکت سلام پھیرنے تک برقرار رہے حرکت نہ دینے کے متعلق جو روایات ہیں شاذ اور ناقابل حجت ہیں نیز نمازی کی نظر دوران حرکت انگلی اور اس کے اشارہ پر مرکوز رہو اور اس سے تجاوز نہ کرے اس کا فائدہ یہ ہے کہ نمازی داخلی انتشار اور خارجی خیالات سے محفوظ رہتا ہے۔)واللہ اعلم بالصواب(
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
Dùng kem mỗi ngày, vào ban đêm trước Khi ngủ.
ReplyDelete