Private Parts Ke bal ko kis tarah Saf Karni Chahiye aur ager koi Shakhs 40 din ke bad karta hai to kya uska Koi bhi Ebadat Qubool nahi hoga?
اسلام‘ انتہائی پاک، نفیس اور صاف ستھرا دین ہے اور شریعتِ اسلامیہ میں ظاہر و باطن کی طہارت اور پاکیزگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ.
اور اﷲ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔
التَّوْبَة، 9: 108
مُطہرین (صفائی پسند) سے اللہ پاک کا اظہارِ محبت فرمانا‘ اسلام میں صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت کی دلیل ہے۔ اسلام نے جسم کے غیرضروری بالوں کی صفائی کو طہارت کا حصہ اور انسانی فطرت کا تقاضا قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ.
پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کروانا، زیر ناف بال صاف کرنا، بغلوں کی صفائی کرنا، مونچھیں تراشنا اور ناخن کاٹنا۔
بخاری، صحیح، كتاب الاستئذان، باب الختان بعد الكبر ونتف الإبط، 5: 2320، رقم:5939، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحیح، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1: 222، رقم: 257، دار احياء التراث العربي بيروت
اس حدیثِ مبارکہ میں جسم کے غیرضروری بالوں کی صفائی کو انسانی فطرت سے تعبیر کیا گیا ہے، لہٰذا فطرت کا تقاضا تو یہی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار ضرور ان بالوں کی صفائی کی جائے، حسب ضرورت کمی بیشی کی جا سکتی ہے لیکن چالیس دن کی مدت سے زیادہ انہیں چھوڑے رکھنا جائز نہیں ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.
ہمارے لیے مونچھیں ترشوانے، ناخن کاٹنے، بغلوں کے اور زیر ناف بال صاف کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر کی گئی ہے۔
مسلم، الصحیح، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1: 222، رقم: 258
امام ترمذی، امام نسائی، ابو یعلی اور ابن جعد نے بھی کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔ ذیل میں دئیے گئے الفاظ سنن ترمذی کے ہیں:
وُقِّتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَصَّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، وَحَلْقَ الْعَانَةِ، وَنَتْفَ الْإِبْطِ، لَا يُتْرَكُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف بال مونڈنے اور بغلوں کے بال صاف کرنے میں وقت مقرر کیا کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔
ترمذي، السنن، كتاب الأدب عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، باب في التوقيت في تقليم الأظفار وأخذ الشارب، 5: 92، رقم: 2759، دار احياء التراث العربي بيروت
أبو يعلى، المسند، 7: 198، رقم: 4185، دمشق: دار المأمون للتراث
شیخ نظام اور ان کی جماعت نے فتاوی عالمگیری میں جسم کے غیر ضروری بالوں کی صفائی کے حوالے سے لکھا ہے:
وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ في كل أُسْبُوعٍ مَرَّةً فَإِنْ لم يَفْعَلْ فَفِي كل خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا وَلَا يُعْذَرُ في تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ فَالْأُسْبُوعُ هو الْأَفْضَلُ وَالْخَمْسَةَ عَشَرَ الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ وَلَا عُذْرَ فِيمَا وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ.
اور زیر ناف بالوں کی صفائی اور غسل کے ذریعے پورے بدن کی صفائی، ہفتہ میں ایک مرتبہ کرے، اگر نہ کرسکے تو ہر پندرہ دن بعد کرے اور چالیس دن کے بعد کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہفتہ میں ایک مرتبہ کرنا افضل اور پندرہ دن میں ایک بار کرنا اوسط اور چالیس دن میں ایک مرتبہ کرنا بعید کا درجہ ہے اور چالیس دن کے بعد کوئی عذرقبول نہیں اور وہ وعید کا مستحق ہوگا۔
مزید فرماتے ہیں:
وَيَبْتَدِئُ في حَلْقِ الْعَانَةِ من تَحْتِ السُّرَّةِ وَلَوْ عَالَجَ بِالنُّورَةِ في الْعَانَةِ يَجُوزُ
زیر ناف بالوں کی صفائی، ناف کے نیچے سے شروع کرے اور اگر بالوں کی صفائی کے لیےنورہ (پاؤڈر یا کریم) کا استعمال کرے تب بھی جائز ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاويى الهندية، 5: 358، بيروت: دارالفکر
ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ زیرِ ناف بالوں کی صفائی مرد و عورت کی جسمانی صفائی کا حصہ ہے۔ جسم کے غیرضروری بالوں کی ہفتے میں ایک بار صفائی کرنا مستحب، پندرہ دن میں ایک بار کرنا مباح اور چالیس دن میں ایک بار کرنا لازم ہے۔ اس سے زائد عرصہ کی ممانعت ہے، چالیس دن سے زائد عرصے تک جسم کے غیرضروری بالوں کو چھوڑے رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔ ایسا کرنے والے کی نماز ہو جائے گی مگر کراہت کے ساتھ اور وہ سخت گنہگار بھی ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
No comments:
Post a Comment