حدیث قرطاس
ایک تحقیقی جائزہ
علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا واقعہ ہے ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آپ کے پاس جمع تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،لکھنے کے لئے لائیں میں تحریر کیے دیتا ہوںتا کہ آپ کو یاد رہے،حاضرین میں سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم شدیدبیمار ہیں ،تکلیف بڑھ گئی ہے ، ایسے عالم یہ زحمت کیوں اٹھائیں؟وحی الٰہی تو آپ پہنچا چکے ہیں اوردین مکمل ہو چکا ہے ،اس خیال کا اظہار دوسرے صحابہ سے کیا،کہا آپ تکلیف میں ہیں ، حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ''ہمیں قرآن و سنت ہی کافی ہے۔''سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بات پر حاضرین میں اختلا ف ہو جاتا ہے،بعض صحابہ آپ کی موافقت کرتے ہیں ،بعض مخالفت ،کاغذ قلم دے دیا جائے ،رہنے دیجئے،دے دیا جائے ،رہنے دیجئے تکرار کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔
سیدنا عمرکی رائے سے اختلاف کرنے والے کہنے لگے،اَہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم،کیوں نہیں دیتے آپ کی گفتگو کسی مریض کی طرح بے معنی تو ہر گز نہیں،اتنے میں نبی کریم کی آواز آتی ہے کاغذ قلم رہنے دیجئے،آپ یہاں سے اٹھ جائیں،مجھے تنہا ئی چاہیے۔تفصیل ملاحظہ ہو۔
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا حُضِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَفِی البَیْتِ رِجَالٌ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، قَالَ: ہَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَلَبَہُ الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ القُرْآنُ فَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ، وَاخْتَلَفَ أَہْلُ البَیْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: قَرِّبُوا یَکْتُبْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلاَفَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُومُوا عَنِّی .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت ہوا تو اس وقت گھرمیں کچھ صحابہ موجودتھے ، ایک سیّدنا عمر بن خطاب بھی تھے ، آپ نے فرمایا: قلم کاغذ لائیں ،میں تحریر کر دوں ، جس کے بعد آپ ہر گز نہ بھولوگے ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں اور قرآن موجود ہے ، لہٰذا ہمیں قرآن و حدیث ہی کافی ہے ۔ گھر میں موجود صحابہ نے اس میں اختلاف کیا اور بحث مباحثہ ہونے لگا ، کچھ کہہ رہے تھے کہ (قلم کاغذ)دیں ، آپ تحریر فرما دیں ،جس کے بعد آپ ہر گز نہیں بھولیں گے ،کچھ کہہ رہے تھے،رہنے دیجئے آپ تکلیف میں ہیں۔اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس سے اُٹھ جائیں۔ ''
(صحیح البخاری :7366، صحیح مسلم :1637)
2 ایک روایت ہے :
ائْتُونِی بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاۃِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاۃِ - أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا ، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہْجُرُ .
'' ہڈی اوردوات یا تختی اوردوات لائیں ،میں تحریر کر دیتا ہوںتاکہ اس کے بعد آپ نہ بھولیں ،صحابہ نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض موت میں تکلیف کی شدت سے تو ہر گز نہیں کہہ رہے۔''
(صحیح البخاری :4431، صحیح مسلم :1637)
3 سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جمعرات کا دن کتنا پریشان کن تھا،آپ روتے ہوئے فرما رہے تھے:
اشتد برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجعہ، فقال: ائتونی أکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ أبدا، فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازع، فقالوا: ما شأنہ، أہجر استفہموہ؟ فذہبوا یردون علیہ، فقال: دعونی، فالذی أنا فیہ خیر مما تدعونی إلیہ .
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرمرض موت کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تھی،آپ نے فرمایا:میرے پاس کچھ لاؤ میں تحریر کر دیتا ہوں ،جس کے بعد کبھی نہیں بھولو گے،صحابہ نے آپس میں اختلاف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں باہمی اختلاف مناسب نہیں تھا،صحابہ کہنے لگے ؛آپ کو کیا معاملہ درپیش ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات شدت تکلیف کی بنا پر تو ہر گز نہیں ہے،اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے،صحابہ آپ کو باربار لکھنے کا کہہ رہے تھے،تو فرمایا؛''مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ،آپ جو مجھے لکھنے کا کہہ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ نہ لکھنا ہی بہتر ہے۔''
(صحیح البخاري : 4431، صحیح مسلم : 1637)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض موت میں شدت تکلیف سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی بیان کر رہے ہیں،اسی بنا پر سیدنا عمر نے اجتہادا کہہ دیا تھاکہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کافی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی رائے کو درست سمجھا تب ہی صحابہ کے اصرار کے با وجود نہیں لکھا۔
لفظ ہَجَرَ کی تحقیق :
ہَجَرَ کا مطلب ہے ''شدت بخار میں بے معنی گفتگو ۔''صحابہ کرام نے اس کی انکار و نفی کی ہے،اَہَجَرَ میںہمزہ استفہام انکاری کاہے،ہَجَرَ فعل ماضی ہے بعض روایات میں بغیر ہمزہ کے ہَجَرَ اور یَہْجُرُ کے الفاظ ہیں،یہاں بھی ہمزہ محذوف ہے ،کلام عرب میں اس طرح کے محذوفات عام ہیں۔
حدیث میںفَقَالُوْا مَالَہ، اَہَجَرَ جمع کا صیغہ صراحت کرتا ہے کہ یہ الفاظ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے نہیں بل کہ دوسرے صحابہ کے ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کر رہے تھے، ان کا منشا یہ تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدت بخار کی حالت میں بے معنی گفتگو نہیں بل کہ شعور و احساس کے ساتھ کلام فرما رہے ہیں، لہٰذا اس حدیث میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں بل کہ یہ حدیث ان کی عظمت کا استعارہ ہے،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موافقت فرمائی اور لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا، صحیح بخاری(114)کے الفاظ ہیں:
قوموا عنی، ولا ینبغی عندی التنازع
''یہاں سے اٹھ جائیں ،میری موجودگی میں اختلاف مناسب نہیں۔''
صحیح بخاری (4431)صحیح مسلم (1637)میں ہے،نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دعونی، فالذی أنا فیہ خیر مما تدعونی إلیہ .
''مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ،میں سمجھتا ہوںنہ لکھنا ہی بہتر ہے۔''
موافقات عمربن خطاب رضی اللہ عنہ :
قرآن و حدیث میں موافقات عمررضی اللہ عنہ کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں،بیسیوں مقامات ہیں ،جہاں سیدنا عمررضی اللہ عنہ رائے دیتے ہیں اور اسے شریعت کا درجہ مل جاتا ہے،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد ہو گا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک اٹھ کر چلے گئے ،کافی دیر تک واپس نہ آئے تو صحابہ کو پریشانی لاحق ہوئی کہ کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچا ئے،چنانچہ وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کوڈھونڈ لیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تھے ،آپ نے اپنا جوتا انہیں دیااور ساتھ پیغام دیا کہ جو بھی کلمہ گو راستے میں ملے اسے جنت کی بشارت دیں ،سیدنا ابو ہریرہ نکلے سب سے پہلے جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ،انہیں جنت کی خوش خبری سنائی تو انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ کو زور سے ہاتھ مارا وہ زمین پر گر گئے اور رسول اللہ کی طرف بھاگے ،سیدنا عمربھی ان کے پیچھے ہو لئے، سیدنا ابو رہریرہ نے نبی کریم سے شکایت کی تو آپ نے سیدنا عمر سے پوچھا :
یَا عُمَرُ، مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، بِأَبِی أَنْتَ، وَأُمِّی، أَبَعَثْتَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ بِنَعْلَیْکَ، مَنْ لَقِیَ یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ بَشَّرَہُ بِالْجَنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّی أَخْشَی أَنْ یَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا، فَخَلِّہِمْ یَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّہِمْ .
''عمر !ایسا کیوں کیا؟کہا آقا میرے ماں باپ آپ پہ قربان ،کیا آپ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام دے کر بھیجا تھا کہ جو کلمہ گو ملے اسے جنت کی خوش خبری دو۔؟فرمایا ،جی ہاں! تو سیدنا عمرکہنے لگے کہ آقا ایسا نہ کیجئے،مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر تکیہ کر لیں گے،ایسے ہی چلنے دیںتا کہ یہ لوگ عمل کرتے رہیں،تو نبی کریم نے فرمایا: ایسے ہی چلنے دیں۔''
(صحیح مسلم : ح ،31 )
دیکھئے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام رساں کو مارا بھی ہے،مگر جب اپنا موقف سامنے رکھا تو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم ان سے موافقت کر لیتے ہیں، جب کہ حدیث قرطاس میں تو سیدنا عمرصحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ نبی شدید تکلیف میں ہیں لہذا آپ کو یہ زحمت نہیں دینی چاہئے، بعض صحابہ اختلاف کرتے ہیں بعض اتفاق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمروغیرہ کی موافقت کر دی جیسا کہ حدیث سے عیاں ہے۔ ،اللہ تعالی نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو فہم ثاقب اور بصیرت تامہ سے نوازا تھا،آپ
نے یہ بات اپنے اجتہاد سے کہی تھی ساتھ دلیل بھی دی۔حافظ نووی a(631۔676ھ)لکھتے ہیں؛
وَأَمَّا کَلَامُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ الْمُتَکَلِّمُونَ فِی شَرْحِ الْحَدِیثِ عَلَی أَنَّہُ مِنْ دَلَائِلِ فِقْہِ عُمَرَ وَفَضَائِلِہِ وَدَقِیقِ نَظَرِہِ .
''شارحین حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بصیرت،فقاہت دین اور دقت نظری پر دلالت کناں ہے۔''(شرح صحیح مسلم : 90/11 )
کیا اختلاف صحابہ خلافت لکھنے میں مانع ہوا؟
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
إِنَّ الرَّزِیَّۃَ کُلَّ الرَّزِیَّۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَنْ یَکْتُبَ لَہُمْ ذٰلِکَ الکِتَابَ مِنَ اخْتِلاَفِہِمْ وَلَغَطِہِمْ .
''بہت بڑی مصیبت تب واقع ہوئی جب صحابہ میں اختلاف اور شورہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔''(صحیح البخاری :7366، صحیح مسلم :1637)
یہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے نہیں بل کہ خود ہی ترک کر دیاتھا،اس سے چند دن پہلے بھی ایسا ہی واقعہ پیش آچکا تھا آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ابوبکر اورعبد الرحمن بن ابی بکر کو بلائیں میں خلافت کا لکھ دیتا ہوں ،پھرارادہ ترک کر دیا فرمایا :
وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
''خلافت کے لئے ابوبکر کے علاوہ نام آئے گا تواللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے۔''
(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
یہاں تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،سیدہ عائشہ ہیں ،لکھنے سے روکنے والا کوئی نہیں مگر آپ ارادہ ترک کر رہے ہیں،کیوں؟جس بنا پر یہاں ارادہ ترک کیااسی بنا پر اس موقعہ پر بھی ترک کر دیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
''اس میں تواختلاف ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا،اگر آپ لکھنا چاہتے تو کس کی مجال تھی کہ آپ کو روکے۔''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 317/6 )
نیز فرماتے ہیں:
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 317/6 )
نیز فرماتے ہیں:
''کسی صحیح حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر نص موجود نہیں ،جب کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحیح ثابت نصوص موجود ہیں، شیعہ کا دعوی ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم علیرضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر قطعی نص قائم کر چکے تھے،اگر ایسا ہی تھا تو لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟شیعہ جو سن کر نہیں مان رہے ،لکھا ہوا مان لیتے؟
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :318/6 )
عبد اللہ بن عباس مصیبت کسے کہتے ہیں ؟
ابن عباس رضی اللہ عنہ خلافت صدیق اکبررضی اللہ عنہ میں شک و انکارکو بڑی مصیبت قرار دے رہے ہیں ،کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تحریر فرما دیتے توگمراہ اور ظالم لوگوں کے لئے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :318/6 )
عبد اللہ بن عباس مصیبت کسے کہتے ہیں ؟
ابن عباس رضی اللہ عنہ خلافت صدیق اکبررضی اللہ عنہ میں شک و انکارکو بڑی مصیبت قرار دے رہے ہیں ،کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تحریر فرما دیتے توگمراہ اور ظالم لوگوں کے لئے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
''سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ خلافت صدیق رضی اللہ عنہ میں شک و انکار کو بڑی مصیبت اور ہلاکت قرار دے رہے ہیں،کیوں کہ اگرخلافت لکھی ہوئی ہوتی توشک دور ہو جاتا،جو سیدنا ابو بکرکی خلافت کو حق سمجھتا ہے ،اس کے لئے کوئی مصیبت نہیں۔''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 25/6 )
سیدنا عبد اللہ بن عباس یہ بات اس وقت فرمایا کرتے تھے جب شیعہ جیسے گمراہ جنم لے چکے تھے،تو آپ خلافت صدیق کے انکار کو امت کی بربادی قرار دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے؟
بعض کہتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خلافت وامامت کے اوّل حقدار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھ کر دینا چاہتے تھے ، لیکن سیّدنا عمروغیرہ نے لکھنے نہیں دی ،ہم کہتے ہیں کہ آپ اس حدیث کابغور مطالعہ کریں، اس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھنا چاہتے تھے حافظ ابنِ کثیرلکھتے ہیں :
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 25/6 )
سیدنا عبد اللہ بن عباس یہ بات اس وقت فرمایا کرتے تھے جب شیعہ جیسے گمراہ جنم لے چکے تھے،تو آپ خلافت صدیق کے انکار کو امت کی بربادی قرار دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے؟
بعض کہتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خلافت وامامت کے اوّل حقدار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھ کر دینا چاہتے تھے ، لیکن سیّدنا عمروغیرہ نے لکھنے نہیں دی ،ہم کہتے ہیں کہ آپ اس حدیث کابغور مطالعہ کریں، اس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھنا چاہتے تھے حافظ ابنِ کثیرلکھتے ہیں :
''اس حدیث سے اہلِ بدعت ، شیعہ وغیرہ کے بعض کندذہن لوگوں نے وہم کھایا ہے ۔ ان میں سے ہرشخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ ہمارا مدعا لکھنا چاہتے تھے ، یہ لوگ متشابہ کو لیتے ہیں اور محکم کو چھوڑ تے ہیں،جبکہ اہل سنت محکم کو لیتے اور متشابہ کو چھوڑتے ہیں، راسخ علماکا یہی طریقہ ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، یہاںاکثر لوگ گمراہ ہو گئے ہیں ۔ اہل سنت کا تو مذہب ہی حق کی پیروی ہے ، حق ہی ان کا دائرہ کا ر ہے،نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم جو لکھنے کا ارادہ فرما رہے تھے ، صحیح احادیث میں اس کی وضاحت آگئی ہے ۔'' (البدایۃوالنہایۃ :227/5۔228)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا کیا چاہتے تھے؟
سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم کاغذ کیوں منگوایا،کیا لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ؟یقینا خلافت ابوبکرلکھنے کا ارادہ تھا، صحیح احادیث حقیقت آشکارا کرتی ہیں :
حدیث نمبر1:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
لَمَّا کَانَ وَجَعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، قَالَ: ادْعُوا لِی أَبَا بَکْرٍ وَابْنَہُ، فَلْیَکْتُبْ لِکَیْلَا یَطْمَعَ فِی أَمْرِ أَبِی بَکْرٍ طَامِعٌ، وَلَا یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ ، ثُمَّ قَالَ: یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ مَرَّتَیْنِ۔۔۔۔۔۔،قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُونَ .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا: ابوبکر اور ان کے فرزندعبدالرحمن کو بلائیں، وہ لکھ لیں تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پرکوئی حریص نہ رہے، پھر دو مرتبہ فرمایا ،اللہ تعالیٰ اور مسلمان کسی دوسرے کی خلافت تسلیم نہیں کریںگے۔۔۔۔۔۔ سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں:چنانچہ اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے میرے باپ کے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کیا ۔''
(مسند الامام أحمد :106/6،وسندہ، حسنٌ )
حدیث نمبر2
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مرض الموت میں فرمایاتھا :
أُدْعِی لِی أَبَا بَکْرٍ، أَبَاکِ، وَأَخَاکِ، حَتَّی أَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ وَیَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَی، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
'' اپنے والدابوبکر اور بھائی عبدالرحمن کو بلائیں تاکہ میں تحریر کردوں ،میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔''(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
حدیث نمبر3:
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:
لَقَدْ ہَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہٖ فَأَعْہَدَ، أَنْ یَقُولَ: القَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی المُتَمَنُّونَ ـ
''میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزندعبد الرحمن کی طرف پیغام بھیجوں ، اور (خلافت کی)وصیت کردوں ، تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کر ے نہ تمنا ۔''(صحیح البخاری:7217)
یہ احادیث واضح پتادے رہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا ، پھر ترک کردیا ، اس لیے کہ جب خلافت کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
دین کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خلافت وامامت اللہ کی طرف سے منصوص ہو ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے اوّل حقدار ہوں، پوری کی پوری امت اس کے خلاف متفق ہوجائے ،عقل کیا کہتی ہے ؟ اس پر سہاگہ یہ کہ سیّدناعلی نے اپنی پوری زندگی اس بات کا کبھی اظہار نہیں کیا کہ میں خلیفہ بلافصل ہوں ، لیکن مجھے میرے حق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ کوئی دلیل ہے جو پیش کی جاسکے ؟ مان لیا جائے کہ سیّدنا علی نے اپنے حق کے لیے اعلانِ جنگ نہیں کیا ، امت کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے ، لیکن اپنے دور ِ خلافت میں اس بات کے اظہار میں کیا رکاوٹ تھی ؟راوی قصہ سیّدنا عبداللہ بن عباس جنہوں نے پریشانی کا اظہار بھی کیا ہے ، ان سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ سیّدنا علیرضی اللہ عنہ سے زیادتی ہوئی ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خلافت لکھنا چاہتے تھے ، لیکن لکھ نہ سکے وغیرہ۔نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھ نہیں سکے تھے توفرماہی دیتے کہ میرے بعد علی خلیفہ بلافصل ہیں کچھ مانع تھا ؟بلکہ سیّدنا عبداللہ بن عباس،سیّدنا عمرکی فضیلت کے معترف تھے اور آپ کی خلافت کو برحق تسلیم کرتے تھے ۔فرماتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ فَقُلْتُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ یَا أَمِیرَ الْمُوْمِنِینَ، أَسْلَمْتَ حِینَ کَفَرَ النَّاسُ، وَجَاہَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ خَذَلَہُ النَّاسُ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْکَ رَاضٍ، وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِی خِلَافِتِکَ اثْنَانِ، وَقُتِلْتَ شَہِیدًا ۔۔۔
'' سیّدناعمررضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو میں نے ان کے پاس آکرکہا:امیرالمومنین! جنت مبارک ہو!جب لوگوں نے اسلام کاانکار کیا تو آپ نے قبول کیا ، آپ نے اس وقت نبی کریم کا ساتھ دیا جب لوگوں نے آپ کوبے یار و مدد گا رچھوڑ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ سے راضی تھے ۔ آپ کی خلافت میںدوانسانوںنے بھی اختلاف نہیں کیا اور اب آپ منصب شہادت پر فائز ہونے والے ہیں۔''
(المستدرک للحاکم :92/3، وصححہ ابن حبان :6891، وسندہ، صحیحٌ)
نیز دیکھیں:(صحیح البخاری:3692)
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟
اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ سیّدناعلی خودکو خلافت کا زیادہ حقدارسمجھتے ہوں یا آپ نے فرمایا ہو کہ میں وصی رسول ہوں ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
1 سیّدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا کیا چاہتے تھے؟
سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم کاغذ کیوں منگوایا،کیا لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ؟یقینا خلافت ابوبکرلکھنے کا ارادہ تھا، صحیح احادیث حقیقت آشکارا کرتی ہیں :
حدیث نمبر1:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
لَمَّا کَانَ وَجَعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، قَالَ: ادْعُوا لِی أَبَا بَکْرٍ وَابْنَہُ، فَلْیَکْتُبْ لِکَیْلَا یَطْمَعَ فِی أَمْرِ أَبِی بَکْرٍ طَامِعٌ، وَلَا یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ ، ثُمَّ قَالَ: یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ مَرَّتَیْنِ۔۔۔۔۔۔،قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُونَ .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا: ابوبکر اور ان کے فرزندعبدالرحمن کو بلائیں، وہ لکھ لیں تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پرکوئی حریص نہ رہے، پھر دو مرتبہ فرمایا ،اللہ تعالیٰ اور مسلمان کسی دوسرے کی خلافت تسلیم نہیں کریںگے۔۔۔۔۔۔ سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں:چنانچہ اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے میرے باپ کے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کیا ۔''
(مسند الامام أحمد :106/6،وسندہ، حسنٌ )
حدیث نمبر2
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مرض الموت میں فرمایاتھا :
أُدْعِی لِی أَبَا بَکْرٍ، أَبَاکِ، وَأَخَاکِ، حَتَّی أَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ وَیَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَی، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
'' اپنے والدابوبکر اور بھائی عبدالرحمن کو بلائیں تاکہ میں تحریر کردوں ،میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔''(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
حدیث نمبر3:
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:
لَقَدْ ہَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہٖ فَأَعْہَدَ، أَنْ یَقُولَ: القَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی المُتَمَنُّونَ ـ
''میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزندعبد الرحمن کی طرف پیغام بھیجوں ، اور (خلافت کی)وصیت کردوں ، تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کر ے نہ تمنا ۔''(صحیح البخاری:7217)
یہ احادیث واضح پتادے رہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا ، پھر ترک کردیا ، اس لیے کہ جب خلافت کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
دین کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خلافت وامامت اللہ کی طرف سے منصوص ہو ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے اوّل حقدار ہوں، پوری کی پوری امت اس کے خلاف متفق ہوجائے ،عقل کیا کہتی ہے ؟ اس پر سہاگہ یہ کہ سیّدناعلی نے اپنی پوری زندگی اس بات کا کبھی اظہار نہیں کیا کہ میں خلیفہ بلافصل ہوں ، لیکن مجھے میرے حق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ کوئی دلیل ہے جو پیش کی جاسکے ؟ مان لیا جائے کہ سیّدنا علی نے اپنے حق کے لیے اعلانِ جنگ نہیں کیا ، امت کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے ، لیکن اپنے دور ِ خلافت میں اس بات کے اظہار میں کیا رکاوٹ تھی ؟راوی قصہ سیّدنا عبداللہ بن عباس جنہوں نے پریشانی کا اظہار بھی کیا ہے ، ان سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ سیّدنا علیرضی اللہ عنہ سے زیادتی ہوئی ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خلافت لکھنا چاہتے تھے ، لیکن لکھ نہ سکے وغیرہ۔نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھ نہیں سکے تھے توفرماہی دیتے کہ میرے بعد علی خلیفہ بلافصل ہیں کچھ مانع تھا ؟بلکہ سیّدنا عبداللہ بن عباس،سیّدنا عمرکی فضیلت کے معترف تھے اور آپ کی خلافت کو برحق تسلیم کرتے تھے ۔فرماتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ فَقُلْتُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ یَا أَمِیرَ الْمُوْمِنِینَ، أَسْلَمْتَ حِینَ کَفَرَ النَّاسُ، وَجَاہَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ خَذَلَہُ النَّاسُ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْکَ رَاضٍ، وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِی خِلَافِتِکَ اثْنَانِ، وَقُتِلْتَ شَہِیدًا ۔۔۔
'' سیّدناعمررضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو میں نے ان کے پاس آکرکہا:امیرالمومنین! جنت مبارک ہو!جب لوگوں نے اسلام کاانکار کیا تو آپ نے قبول کیا ، آپ نے اس وقت نبی کریم کا ساتھ دیا جب لوگوں نے آپ کوبے یار و مدد گا رچھوڑ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ سے راضی تھے ۔ آپ کی خلافت میںدوانسانوںنے بھی اختلاف نہیں کیا اور اب آپ منصب شہادت پر فائز ہونے والے ہیں۔''
(المستدرک للحاکم :92/3، وصححہ ابن حبان :6891، وسندہ، صحیحٌ)
نیز دیکھیں:(صحیح البخاری:3692)
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟
اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ سیّدناعلی خودکو خلافت کا زیادہ حقدارسمجھتے ہوں یا آپ نے فرمایا ہو کہ میں وصی رسول ہوں ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
1 سیّدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:
'' سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس آئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا واقعہ ہے ،صحابہ کرام نے پوچھا:ابو الحسن!رسول اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا:الحمد اللہ!کافی بہتر ہے، پھر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب نے سیّدنا علی کا ہاتھ تھام کر فرمایا:اللہ کی قسم!تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے،اللہ کی قسم!مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم اس مرض سے جانبرنہیں ہو سکیں گے،مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہو تے ہیں،ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے ، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم!اب اگر پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تولوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تونہیں پوچھوں گا۔ ''
(صحیح البخاری :4447)
2 سیّدناابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
(صحیح البخاری :4447)
2 سیّدناابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
''کیا آپ کے پاس کو ئی خاص تحریر ہے ؟ فرمایا ، نہیں ، صرف کتاب اللہ کا فہم اور یہ صحیفہ ہے ۔ میں نے پوچھا: اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ فرمایا:دیت ، قیدیوں کی آزادی اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے(کے مسائل ہیں)۔''
(صحیح البخاری :111)
ثابت ہوا کہ سیّدنا علی وصی رسول نہیں تھے ، نہ ہی خودکو خلیفہ بلافصل سمجھتے تھے ، بلکہ آپ نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت وامامت کی بیعت کررکھی تھی ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہa(م:٧٢٨ھ)لکھتے ہیں:
(صحیح البخاری :111)
ثابت ہوا کہ سیّدنا علی وصی رسول نہیں تھے ، نہ ہی خودکو خلیفہ بلافصل سمجھتے تھے ، بلکہ آپ نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت وامامت کی بیعت کررکھی تھی ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہa(م:٧٢٨ھ)لکھتے ہیں:
''جویہ سمجھتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علیرضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے، سنی وشیعہ علما کے ہاں بالاتفاق گمراہ ہے ۔اہل سنت سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی تفضیل وتقدیم پر متفق ہیں، جبکہ شیعہ کا نظریہ ہے کہ سیّدنا علیرضی اللہ عنہ ہی امامت کے مستحق تھے ، وہ کہتے ہیں کہ ان کی امامت پر نص جلی ہے ،چنانچہ کسی تحریر کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :135/3)
نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا نہ کہ سیّدنا عمررضی اللہ عنہ وغیرہ کی وجہ سے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے روکنے سے تبلیغِ دین سے نہ رکے ، توصحابہ کے روکنے سے کیسے رُک سکتے تھے؟ بھلا صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغِ دین سے کیوں روکتے؟ وہ توآپ کے معاون ومددگار تھے ۔
ع دل صاحب ادراک سے انصاف طلب ہے۔
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ؟
قول عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ میں کتاب اللہ سے مراد حکم اللہ ہے،وہ احکام الہٰی جو قرآن و حدیث کی صورت میں لکھے جا چکے ہیں، قرآن کے ذکر سے حدیث پر التزامی دلالت ہو ہی جاتی ہے، سیدنا عمرکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر ترس آیا تب یہ بات کہہ دی چوں کہ آپ کا مرض موت شدت اختیا ر کر چکا تھا، آپ کے مد نظر یہ بات تھی کہ دین کی تکمیل ہو گئی ہے(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ )''آج ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا۔''نازل ہو چکی ہے،قرآن کریم میں (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْء ٍ )''ہم نے کتا ب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔'' اور (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْء ٍ )''قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے۔''جیسے فرامین الہٰیہ موجود ہیں،قرآن کا بیان حدیث کی صورت میں موجود ہے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے کی تکلیف دینا مناسب نہیں،بس اتنی سی بات تھی،جسے یار لوگوں نے افسانہ بنا دیا ،ویسے جو قرآن و حدیث کو محرف و مبدل سمجھتے ہیں انہیں فرمان عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ(٦٧٣۔٧٤٨ھ)لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ التَّخْفِیفَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حِینَ رَآہُ شَدِیدَ الْوَجَعِ، لِعِلْمِہِ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَکْمَلَ دِینَنَا، وَلَوْ کَانَ ذَلِکَ الْکِتَابُ وَاجِبًا لَکَتَبَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُمْ، وَلَمَا أَخَلَّ بِہِ .
''سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف میں دیکھا اسی لیے تخفیف کا ارادہ فرمایا کہ آپ جانتے تھے دین مکمل ہو چکاہے،خلافت تحریر کرنا واجب ہوتی تو نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اسے ضرور لکھ دیتے،کبھی ترک نہ کرتے۔''
(تاریخ الاسلام:813/1،ت:بشار سیر اعلام النبلائ338/2)
تنبیہ :
اگر کوئی بد باطن یہ کہے کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی لکھنا چاہتے تھے،جوصحابہ کی وجہ سے نہ لکھ سکے ،تو اس کی بات صریح باطل ہے،اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وصیتیں فرمائی تھیں،خلافت علی بلا فصل کے بارے میں لکھ نہیں سکے تھے تو بیان کر دیتے ،پھریہ واقعہ جمعرات کا ہے،جب کہ نبی کریم کی وفات سوموار کو ہوئی،یعنی اس واقعہ کے تین دن بعد تک زندہ رہے خلافت علی کیوں نہ لکھ دی یا کم از کم وصیت ہی فرما دیتے۔
الحاصل :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے چوتھے برحق خلیفہ ہیں،اس پر امت محمدیہ کا اجماع ہے۔خلفائے راشدین کی ترتیب اس دور میں زبان زد عام تھی،کسی کو انکار تھا نہ اشتباہ ،بل کہ خوئے تسلم و رضا تھی،جب شیعہ جیسے گمراہ اور اہل ہوا جنم لیتے ہیں تو اپنے ساتھ خلافت صدیق و فاروق پر سوالات اٹھانے کی بدعت لاتے ہیں،اس گمراہ کن نظریے پر دلائل تراشے جاتے ہیں ،قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کا فتنہ سر اٹھاتا ہے،آل یہود کا اخاذ ذہن اس حقیقت سے واقف تھا کہ اسلام اور مسلمان کے درمیان سے اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ گرا دیا جائے تو اسلام کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی،اسی لئے اس ذہن کو عام کیا گیا کہ نعوذ با للہ صحابہ کرام yنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد گمراہ ہو گئے تھے ،صحابہ کے خلاف بد چلن لو گوں کی بد زبانی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے،اس کے لئے کیا کیا بہانے تراشے جاتے ہیں ،آپ حدیث قرطاس سے اندازہ لگا لیجئے ،جو سیدنا عمرکی عظمت و جلالت پردال ہے ،مگر اسے افسانہ بنا دیا گیا ،اس کی بنیاد پر سیدنا عمرکے خلاف زبان درازی کی مشق جاری رہتی ہے اور کوشش رہتی ہے کہ اسلام سے اہل اسلام کو دورکر دیا جائے ،نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ،خدا غارت کرے کس درجہ ظالم ہیں یہ لوگ۔مگر ان کی تما م کوششیں بے سود ہیں،اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اہل سنت ابھی زندہ ہیں۔حافظ احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی کا قولِ فیصل ملاحظہ ہو:
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :135/3)
نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا نہ کہ سیّدنا عمررضی اللہ عنہ وغیرہ کی وجہ سے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے روکنے سے تبلیغِ دین سے نہ رکے ، توصحابہ کے روکنے سے کیسے رُک سکتے تھے؟ بھلا صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغِ دین سے کیوں روکتے؟ وہ توآپ کے معاون ومددگار تھے ۔
ع دل صاحب ادراک سے انصاف طلب ہے۔
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ؟
قول عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ میں کتاب اللہ سے مراد حکم اللہ ہے،وہ احکام الہٰی جو قرآن و حدیث کی صورت میں لکھے جا چکے ہیں، قرآن کے ذکر سے حدیث پر التزامی دلالت ہو ہی جاتی ہے، سیدنا عمرکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر ترس آیا تب یہ بات کہہ دی چوں کہ آپ کا مرض موت شدت اختیا ر کر چکا تھا، آپ کے مد نظر یہ بات تھی کہ دین کی تکمیل ہو گئی ہے(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ )''آج ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا۔''نازل ہو چکی ہے،قرآن کریم میں (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْء ٍ )''ہم نے کتا ب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔'' اور (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْء ٍ )''قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے۔''جیسے فرامین الہٰیہ موجود ہیں،قرآن کا بیان حدیث کی صورت میں موجود ہے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے کی تکلیف دینا مناسب نہیں،بس اتنی سی بات تھی،جسے یار لوگوں نے افسانہ بنا دیا ،ویسے جو قرآن و حدیث کو محرف و مبدل سمجھتے ہیں انہیں فرمان عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ(٦٧٣۔٧٤٨ھ)لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ التَّخْفِیفَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حِینَ رَآہُ شَدِیدَ الْوَجَعِ، لِعِلْمِہِ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَکْمَلَ دِینَنَا، وَلَوْ کَانَ ذَلِکَ الْکِتَابُ وَاجِبًا لَکَتَبَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُمْ، وَلَمَا أَخَلَّ بِہِ .
''سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف میں دیکھا اسی لیے تخفیف کا ارادہ فرمایا کہ آپ جانتے تھے دین مکمل ہو چکاہے،خلافت تحریر کرنا واجب ہوتی تو نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اسے ضرور لکھ دیتے،کبھی ترک نہ کرتے۔''
(تاریخ الاسلام:813/1،ت:بشار سیر اعلام النبلائ338/2)
تنبیہ :
اگر کوئی بد باطن یہ کہے کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی لکھنا چاہتے تھے،جوصحابہ کی وجہ سے نہ لکھ سکے ،تو اس کی بات صریح باطل ہے،اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وصیتیں فرمائی تھیں،خلافت علی بلا فصل کے بارے میں لکھ نہیں سکے تھے تو بیان کر دیتے ،پھریہ واقعہ جمعرات کا ہے،جب کہ نبی کریم کی وفات سوموار کو ہوئی،یعنی اس واقعہ کے تین دن بعد تک زندہ رہے خلافت علی کیوں نہ لکھ دی یا کم از کم وصیت ہی فرما دیتے۔
الحاصل :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے چوتھے برحق خلیفہ ہیں،اس پر امت محمدیہ کا اجماع ہے۔خلفائے راشدین کی ترتیب اس دور میں زبان زد عام تھی،کسی کو انکار تھا نہ اشتباہ ،بل کہ خوئے تسلم و رضا تھی،جب شیعہ جیسے گمراہ اور اہل ہوا جنم لیتے ہیں تو اپنے ساتھ خلافت صدیق و فاروق پر سوالات اٹھانے کی بدعت لاتے ہیں،اس گمراہ کن نظریے پر دلائل تراشے جاتے ہیں ،قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کا فتنہ سر اٹھاتا ہے،آل یہود کا اخاذ ذہن اس حقیقت سے واقف تھا کہ اسلام اور مسلمان کے درمیان سے اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ گرا دیا جائے تو اسلام کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی،اسی لئے اس ذہن کو عام کیا گیا کہ نعوذ با للہ صحابہ کرام yنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد گمراہ ہو گئے تھے ،صحابہ کے خلاف بد چلن لو گوں کی بد زبانی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے،اس کے لئے کیا کیا بہانے تراشے جاتے ہیں ،آپ حدیث قرطاس سے اندازہ لگا لیجئے ،جو سیدنا عمرکی عظمت و جلالت پردال ہے ،مگر اسے افسانہ بنا دیا گیا ،اس کی بنیاد پر سیدنا عمرکے خلاف زبان درازی کی مشق جاری رہتی ہے اور کوشش رہتی ہے کہ اسلام سے اہل اسلام کو دورکر دیا جائے ،نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ،خدا غارت کرے کس درجہ ظالم ہیں یہ لوگ۔مگر ان کی تما م کوششیں بے سود ہیں،اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اہل سنت ابھی زندہ ہیں۔حافظ احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی کا قولِ فیصل ملاحظہ ہو:
''شیعہ اور رافضیوں نے بہت سی باطل اور جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اور اس قسم کی نصوص گھڑ لی ہیں ،جن میں بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا تھااوران کے متعلق دعوی کیا کہ یہ درجہ تواتر کو پہنچی ہیں۔یہ سب جھوٹ کا مرکب ہے ۔ اگر اس بارے میں کوئی بات بھی صحیح ہوتی یا سقیفہ والے دن صحابہ کرام کے ہاں معروف ہوتی تووہ اس کو ذکر کرتے اوروہ علی کی طرف رجوع کرتے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ اسے اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ، نیز ان کے لیے اس طرح کی بات سے خاموش ہوجانا کسی طرح جائز نہ ہوتا ،کیونکہ یہ اللہ ، اس کے رسول اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کا حق تھا ۔پھر سیدنا علی کی عظمت ِ علم اور دین میں پختگی بھی معلوم ہے اور آپ کی شجاعت بھی اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ اللہ کے دین کے بارے میں کسی سے نہ ڈرتے ، جیسا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ڈرے تھے ، نیز اہلِ شام سے بھی نہیں ڈرتے تھے ، جب انہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی ۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیاگیا تو مسلمانوں نے اپنے اجتہاد سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالیا تھا ، آپ نے خود اور نہ ہی کسی صحابی نے اس بارے میں کوئی نص ذکر کی ۔ چنانچہ قطعی طور پر معلوم ہوگیا ہے کہ اس دعویٰ کا مدعی جھوٹا ہے ۔وما التّوفیق إلّا من عند اللّٰہ۔''
(المفہم لما اشکل من تلخیص صحیح مسلم :557/4)
سیدنا علی کی طرف منسوب کتاب نہج البلاغۃ(ص:٣٦٦،٣٦٧)میں لکھا ہے:
(المفہم لما اشکل من تلخیص صحیح مسلم :557/4)
سیدنا علی کی طرف منسوب کتاب نہج البلاغۃ(ص:٣٦٦،٣٦٧)میں لکھا ہے:
''میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے، جنہوں نے سیدنا ابوبکر،سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کی بیعت کی تھی،جس کے متعلق حاضر شخص من مانی نہیں کر سکتا اور غائب رد نہیں کر سکتا،مجلس شوریٰ صرف مہاجرین و انصار پر مشتمل ہے،اگر وہ کسی کی امامت پراتفاق کر لیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی شامل ہے،اگر کوئی شخص کسی طعن اور بدعت کی بنیاد پر خروج کرنا چاہے تو اسے واپس پلٹایا جائے گا،اگر نہ مانے تو قتل کیا جائے گا،کیونکہ وہ مسلمانوں کے راستے سے انحراف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو اسی طرف پھیر دے گا جس کی طرف وہ پھرنا چاہتا ہے۔''
No comments:
Post a Comment