اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ 🌷
مقتدی امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ کہے یا نہیں اور حمدا کثیرا طیّبا.....پڑھنا کیا ضروری ہے دلیل کے ساتھ بیان کیجھے گا ہمیں یہ بھی کہا جاتا ہے ایک صحابی کے بعد یہ صابت نہیں ہے.
الجواب بعون رب العباد:
****************************
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
*************************
جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے کہ امام کے لئے تسمیع اور تحمید یعنی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمده اور ربنا ولك الحمد پڑھنا ضروری ہے۔
اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے اس پر مداومت اور موظبت اختیار فرمائی آپ علیہ السلام نے کبھی کسی بھی نماز میں اسے ترک نہیں فرمایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام کے لئے تسمیع وتحمید دونوں کہنے ہیں۔
ائمہ حنابلہ اور شوافع کی رائے ہے کہ یہ امام کے حق میں واجب ہے اور اسی رائے کو بہت سے علماء نے راجح قرار دیا ہے۔
دلیل:ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم علیہ السلام جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو آپ علیہ السلام ربنا ولك الحمد کہا کرتے تھے۔[رواه البخاري795 ، مسلم 392]۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ استفادہ ہوا کہ امام کے لئے مقتدی کے مقابلے میں تحمید کہنا مستحب ہے۔[فتح الباري367/2]۔
جمہور اہل علم ائمہ حنیفہ ائمہ موالک اور حنابلہ وغیرہ کی رائے ہے کہ مقتدی کے لئے صرف تحمید کہنا مشروع ہے یعنی وہ صرف تحمید ہی پر اکتفا کرے۔
بعض اہل علم اس کے قائل ہیں کہ تحمید اور تسمیع دونوں مقتدی کے حق میں کہنا مستحب ہے۔
اسی رائے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔[صفة الصلاة للالباني رحمه الله تعالى ص نمبر:135 ، رسالة السيوطي في "الحاوي للفتاوي35/1].
اہل علم نے اسی رائے کو راجح قرار دیا ہے.
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو مقتدی ربنا ولك الحمد كهے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب امام سمع اللہ کہے تو تم ربنا ولك الحمد كہو۔[لقاء الباب المفتوح 320/1]۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام یا منفرد شخص چاھئے مرد ہو یا عورت کے لئے مشروع ہے کہ وہ رکوع سے اٹھتے ہوئے تسمیع اور تحمید کہیں لیکن مقتدی کے لئے یہ مشروع ہے کہ وہ صرف تحمید پر ہی اکتفاء کرے اسلئے کہ اسکے حق میں تسمیع کہنا مشروع نہیں ہے اور یہی اس مسئلے میں صواب اور صحیح ہے۔[مجموع فتاوی ابن باز رحمہ اللہ تعالی]۔
امام مالک ، امام ابو حنیفہ اور انکے دونوں شاگرد ، امام احمد امام ثوری رحمهم الله کی یہی رائے ہے۔[التمهيد لاين عبد البر رحمه الله150/6].
یہ قول ابن مسعود ابوھریرہ ابن عمر رضي الله عنهم اور امام شعبی رحمہ اللہ کا ہے۔[شرح سنن ابن ماجه لمغلطاي1486 ، الأوسط لابن المنذر161/3 ، تحفة الإحوذي 106/2].
امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس ہر اتفاق نقل کیا ہے کہ مقردی صرف تحمید پر ہی اکتفاء کرے اسکے لئے صرف تحمید کہنا ہی مشروع ہے۔[
شرح معاني الآثار 240/1 ، الاستذكار لاين عبد البر178/2].
خلاصہ کلام/مقتدی کے لئے مشروع یہی ہے کہ وہ صرف تحمید ہی پر اکتفاء کرے لیکن امام کے حق میں تسمیع اور تحمید دونوں ہی کہنے مشروع اور سنت ہے بلکہ بعض نے اسکے حق میں واجب قرار دیا ہے۔۔
التبہ اگر مقتدی بھی تسمیع اور تحمید کھ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا وحبينا وعلى آله وصحابته أجمعين.
No comments:
Post a Comment