Dadhi Kitni Lambi Honi Chahiye?
Dadhi Rakhna wajib hai ya Sunnat?
क्या दाढ़ी एक मूस्ट से ज्यादा हो तो काट सकते है?
दाढ़ी रखना वाजिब है या सुन्नत है?
दाढ़ी काटना हराम है या मकरूह?
दाढ़ी काटना काटना जायज है या नहीं, दाढ़ी कितनी लंबी होनी चाहिए?
السلام علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ
کیا داڑھی ایک مشت سے زیادہ ہو تو کانٹ سکتے ہیں ؟؟؟
*جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف)داڑھی کی شرعی حیثیت کےبارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم مفصل جائزہ پیش کرتےہیں اور اس سلسلے میں درج ذیل امور پر روشنی ڈالیں گے ۔
اول: داڑھی رکھنا واجب ہے یا سنت
دوم: داڑھی منڈوانا حرام ہے یا مکروہ
سوم: داڑھی کتروانا جائز ہے یا نہیں اور یہ کہ داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ داڑھی مردانگی کی علامت اور مردوں کی زینت ہے اور ہر مذہب میں اس کی حیثیت مسلمہ ہے۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں اور حکمرانوں اور علماء اور فلاسفروں کے لئے داڑھی امتیازی نشان سمجھا جاتا تھا۔ داڑھی منڈوانے کا رواج ایران کے آتش پرست حکمرانوں سے ہوا اور پھر اس کے اثرات پھیلتے گئے ۔ یورپ اور مغرب میں مدتوں داڑھی عزت و وقار کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے ۔ طبی نقطہ نظر سے بھی داڑھی منڈانے کو نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں داڑھی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء بھی داڑھی رکھتے تھے۔
چنانچہ سورہ طہ میں حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے غصے سے جب اپنے بھائی حضرت ہارون کے بال پکڑے تو انہوں نے کہا۔
﴿أَلّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيتَ أَمرى ﴿٩٣﴾... سورة طه
اے میری ماں کی بیٹے میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑو۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں :
سبحان الذی من زین الرجال باللحی والنساء بالقرون والذوائب
پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھی سے زینت دی اور عورتوں کو گیسوؤں اور زلفوں سے زینت عطا فرمائی۔
اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے جن چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ فطرت میں سے ہیں ان میں داڑھی بڑھانا بھی شامل ہے ۔ فطرت کی ان چیزوں میں ختنہ ’زیرناف بالوں کی صفائی ’ناخن تراشنا ’داڑھی بڑھانا اور مونچھیں تراشنا شامل ہیں۔
خود سرور عالم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ
کان کثیر شعراللحیة
آپ کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔
(۱) داڑھی کے واجب یا سنت ہونے کے بارے میں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس عمر میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کے ترک کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔جن علماء نے داڑھی رکھنے کو واجب کہا ہے ’ان کے نزدیک بنیاد یہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
احفواالشوارب واعفو االلحی۔(مختصر مسلم کتاب الحیض باب احفوا الشوارب واعفواالحی ص ۱۱۴ رقم الحدیث ۱۸۴)
مونچھیں تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ (بخاری و مسلم)
اور عربی میں لحیہ (داڑھی ) کا لفظ ٹھوڑی اور دونوں رخساروں کے بالوں پر بولاجاتا ہے ۔
بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو اور مونچھیں تراشو اور داڑھی بڑھاؤ۔
وجوب پر دوسری حدیث یہ پیش کی جاتی ہے جو مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ
امرنا باحفاء اشوارب واعفاء اللحیة۔ (سنن ابی داؤد مترجم ج۳ کتاب الترجل باب فی اخذ الشارب ص ۳۱۳ رقم الحدیث ۷۹۷)
کہ حضور ﷺ نے ہمیں مونچھیں کاٹنے اور داڑھی چھوڑنے کاحکم دیا۔
تیسری یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ کسریٰ کےجو مقاصد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے ’انہوں نے داڑھیاں چٹ کرائی ہوئی تھیں اور لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی تھی۔ انہیں دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:
ویلکما من امر کما بهذا ؟ قالا امرنا ربنا۔(تاریخ ابن جریر ۹۱/۳۔۹۰)
کہ تمہیں یہ شکل بنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا ہمارے رب (یعنی بادشاہ کسریٰ) نے یہ حکم دیا۔ تو اس موقع پر آپﷺ نے فرمایا:
ولکن ربی امرنی باحفاء لحیتی وقص شاربی۔ (تاریخ ابن جریر ۹۱/۳۔۹۰)
لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ہے۔
بہرحال اگر واجب نہ بھی ہو تو داڑھی وہ سنت موکدہ ہے جس کا چھوڑنا کسی شکل میں جائز نہیں۔
داڑھی منڈوانا حرام ہے؟
جہاں تک داڑھی منڈوانے کا تعلق ہے تو اس کے حرام ہونے پر تمامائمہ اور علماء کا اتفاق ہے بعض نے اسے مکروہ کہا ہے لیکن اس کے اقوال دلیل کے لحاظ سے کمزور ہیں۔ درج ذیل دلائل داڑھی منڈوانے کی حرمت پر شاہد ہیں
(۱)قرآن حکیم میں سورہ نساء کی یہ آیات جن میں شیطان کے بارے میں ذکر ہے اور شیطان نے کہا تھا‘‘ میں تیرے بندوں میں سے کچھ کو اپنے پیچھے لگاؤں گا ’ان کو گمراہ کروں گا اور ان کو ہوس دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان چیریں گے اور میں ان کو کہوں گا کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑیں گے۔’’ اب اس میں فلیغیرن خلق اللہ سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا اس میں داڑھی منڈانا بھی شامل ہے۔
امام غزالی نے بھی ظاہری صورت کو مرد و عورت کے درمیان امتیاز قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں : ‘‘ داڑھی مردوں کی پوری خلقت میں داخل ہے اور اس سے ظاہری صورت میں عورتوں اور مردوں کے درمیان امتیاز ہے’’
اور خلقت (شکل) میں تبدیلی کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے۔
(۲)آنحضرت ﷺ نے فرمایا
احفو االشوارب واعفو االلحی ولا تشبهو ا بالیهود۔ (الطحاوی فی شرح معانی الاثار ۲ ص ۳۳۳)
مونچھیں کٹاؤ’داڑھیاں بڑھاؤ اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔
ایک روایت میں عیسائیوں اور مجوسیوں کا ذکر ہے کہ داڑھی رکھ کر ان کی مخالفت کرو۔
ان احادیث اور اقوال سے کم از کم اس قدر تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ محض فیشن اور غیروں کی نقالی میں داڑھی منڈواتے ہیں وہ حرام فعل کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے ظاہری چیزوں میں بھی اسلام کے دشمنوں کی بھی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ظاہری چیزوں میں غیروں کی مشابہت کا اثر باطنی چیزوں پر بھی پڑتا ہے اور اپنا اور اپنے دین کا تشخص ختم ہو جاتا ہے اور اس پر متعدد تجربات شاہد ہیں اور پھر قرآن و سنت اور اجماع امت سے یہ ثابت ہے کہ کفار کی ایسے ظاہری امور میں مخالفت ضروری ہے جو ان سے باطنی قربت کا ذریعہ بنتے ہیں یا ان سے ذریعہ بننے کا اندیشہ پیدا ہو۔
اسی طرح جو لوگ نبی کریم ﷺ کی اس سنت مبارکہ کو حقیر سمجھ کر اسے ترک کرتے ہیں اس کے حرام ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ۔ داڑھی تو ایک اہم سنت ہے ایک عام سنت کو بھی حقیر سمجھنا یا اس سے مذاق کرنا نا صرف حرام ہے بلکہ یہ بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
علماء نے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے الا سنھائة والا ستھزاء علی الشریعة کفر(شرح عقائد)
کہ شریعت کے کسی کام کو حقیر سمجھنا یا اس سے مذاق کرنا کفر ہے۔
ملاعلی قاریؒ ترک سنت کے بارےمیں ایک حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‘‘ جو شخص حقارت یا لاپرواہی سے رسول اللہﷺ کی سنت چھوڑتا ہے وہ کافر و ملعون ہے اور جو سستی و کاہلی سے ترک کردیتا ہے’وہ عاصی و نافرمان ہے۔’’
علامہ ابن ھمام ؒ فتح القدیر میں فرماتےہیں کہ جو شریعت کے کسی کام کو کفریہ الفاظ سے مذاق کرے تو وہ کفر کی طرح ہے۔
ہمارے ہاں یہ بیماری موجود ہے کہ لوگ سنت نبویﷺ داڑھی کے طرح طرح کےنام لے کر مذاق کرتے ہیں اور اسے حقیر اس حد تک سمجھا جاتا ہے کہ بعض جاہل عورتیں اپنے خاوندوں کو داڑھی منڈوانے پر مجبور کر دیتی ہیں اور بعض بے دین گھرانے شادی میں داڑھی منڈوانے کی شرطیں لگاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشادات سامنے رکھ کر اپنے انجام کی خیر منانی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل و صورت کو نہ صر ف قبول نہ کیا بلکہ اسے تمسخر و مذاق بھی بنایا ۔ ان کا ٹھکانا آخر کہاں ہوگا یہ معمولی بات نہیں ۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھم یہ بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ’اس لئے اس انداز سے اس سنت کو ترک کرنے کے حرام ہونےمیں کوئی شبہ نہیں۔
داڑھی کی حد
داڑھی کےمنڈوانے کےناجائز ہونے پر تو کوئی اختلاف نہیں ہاں البتہ داڑھی کی حد پر اختلاف ہے یہ کتنی لمبی ہونی چاہئے۔
داڑھی کٹوانے کے جواز میں ترمذی شریف کی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے
ان النبی ﷺ یا خذ من لحته من عرضحا و طولها۔ (ترمذی مترجم ج ۲ ابواب الاستئذان و الادب باب ماجاء فی الاخذ من الحیة ص ۲۴۹)
کہ نبی ﷺ اپنی ریش مبارک کے عرض سے بھی اور طول سے بھی کچھ ترشوا دیتے تھے۔ اس حدیث کی صحت میں کلام ہونے کے باوجود ائمہ دین کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ داڑھی ایک مشت سے کم رکھنے کوجائز نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک بالشت سے زیادہ بال ترشوا دیتے تھے۔
جب کہ داڑھی بڑھانے والی احادیث کے راوی بھی خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔
تمام روایات او اقوال و افعال کا تجزیہکرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شریعت کا اصؒ مدعا تو یہ ہے کہ داڑھی رکھی جائے’ہرگز منڈائی نہ جائے اور افضل و بہتر یہی ہے کہ مکمل داڑھی ہو اور زیادہ دہ کم نہ کرئی جائے۔ ہاں اگر داڑھی کا بے ڈھنگا پن دور کرنے اور اس کوفت سے بچنے کیلئے کچھ بال طول و عرض سے کم کرلئے جائیں تو اس میں بظاہر کوئی شرعی دلیل مائع نہیں۔
اس طرح ایک مشت سےکم کرانے سے پرہیز کی جائے لیکن ایک مشت سے کم پر لفظ داڑھی کا اطلاق ہوگا اور اس داڑھی کو بھی ہم ناجائز نہیں کہہ سکتے اور یہ داڑھی بھی منڈوانے سے تو بہتر ہے۔ خاص کر جب کوئ شخص سنت نبوی سمجھ کر رکھے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے لیکن اسے داڑھی بڑھانے کی تلقین کرنی چاہئے۔ ہاں اگر کوئی تھوڑی سی داڑھی محض فیشن کے طور پر رکھتا ہے تو اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔
آپ نے جو لکھا ہےکہ لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی منڈوانے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے تو پھر دوبارہ نکاح کی ضرورت پیش آئےگی تو اس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ داڑھی منڈوانے کو سنگین گناہ قرار دینے کے باوجود رسول اللہ ﷺ صحابہ کرامؓ اور ائمہ دین سے یہچیز ثابت نہیں کہ اس گناہ کے ارتکاب سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور داڑحی رکھنے کے بعد اسے اپنے نکاح کی تجدید کرنا ہوگی ایسے لوگوں کو اپنے قول کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرنے چاہئے۔
جہاں تک توبہ کا تعلق ہے تو یہ بالکل درست ہے ۔ جس طرح دوسرے گناہوں سے توبہ ضروری ہے اسی طرح اس گناہ سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment