Muharram ke mahine me hone wali biddat.
Muharram ka mahina aur Karbala ka waqya.Ahemad Raza Khan ka Fatwa Taziyadari karna haram hai?
سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ محترم و مکرم علمائے کرام امید ہیکہ تمام حضرات خیر وعافیت سے ہونگے عرض ہیکہ محرم الحرام اور واقعہ کربلا اور شھادت حسین کے بارے میں کچھ ارسال کریں؟
*جواب تحریری
*محرم الحرام کی رسومات و بدعات
یکم محرم الحرام کی ابتداء ہی سے بدعات و خرافات کی رسمیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ کچھ رسمیں کھانے پکانے سے متعلق ہیں تو کچھ رسمیں ماتم و عزا سے متعلق ۔ اور کچھ رسمیں شرک و بدعات سے متعلق*
جیساکہ ہمیں معلوم ہے یہ مہینہ اشہرحرم میں سے ہے ۔اس لئے جہاں ایک طرف اس مہینے کی حرمت کو بچانا ہے وہیں اس مہینے کے افضل اعمال میں سے روزہ رکھنا ہے اس وجہ سے جس قدر ہوسکے روزہ رکھنا ہے،
کم از کم عاشوراء کا روزہ ۔
مگر افسوس صد افسوس بدعتی لوگوں نے شیعہ کی تقلید میں اس مہینے کو ایک طرف غم کا مہینہ قرار دے کر بدعات وخرافات کا ارتکاب کیا تو دوسری طرف سبیل حسین اور نذرنیاز کے نام پہ نوع بنوع کھانے کا اہتمام کیا۔
کجا حرمت محرم ،کجا صوم عاشوراء ؟
ایسے حالات میں ہمیں ان رسم و رواج کا جائزہ لینا ہے تاکہ اپنا ایمان و عمل سلامت رکھ سکیں۔
1 *ماتمی جلوس اور سوگ :
ایک سے دسویں محرم تک مجالس عزاداری قائم ہوتی ہیں جن میں ماتم کیا جاتا ہے خصوصا کربلاسے متعلق جھوٹی اور فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ۔ اس پس منظر میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر درپردہ حملے کئے جاتے ہیں ۔جیسے شیعہ کھلم کھلا صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اسی طرح یہ چاہتے ہیں کہ ہماری طرح مسلمان بھی صحابی کو گالی دے کر اپنا ایمان ضائع کریں۔ بغیر ثبوت کے یزید کو سب وشتم کیا جاتاہے ۔یاد رہے ہم مسلمانوں کو اسلام نے ماتم سے منع کیا ہے جو ماتم کرے یا ماتم کی مجلس قائم کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ليس مِنَّا من ضربَ الخدودَ ، وشَقَّ الجيوبَ ، ودعا بدَعْوَى الجاهليَّةِ
(صحيح البخاري:1297)
ترجمہ: جس نے منہ پیٹا ،گریبان چاک کیا اور دور جاہیلت کی پکار لگائی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اسی طرح شہادت حسین اور ماتم کے پس منظر میں جس طرح صحابی رسول امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کا جو دروازہ کھولاجاتا ہے ایسے لوگ
پیارے نبی ﷺ کا یہ فرمان سن لیں ۔
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم :لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه۔
(صحيح البخاري:3673،صحيح مسلم:2541)
ترجمہ : جنابِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، کیونکہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا،
٭یہ الگ مسئلہ ہے کہ کسی کی وفات پہ تین دن سوگ مناسکتے ہیں، سوگ منانا تین دن جائز ہے مگر ماتم کرنا یعنی رونا، پیٹنا، گریبان چاک کرنا ، نوحہ کرنا کبھی بھی جائز نہیں ہے،
*یہاں لوگ من گھڑت دلیل دیتے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف کے غم میں ماتم کیا*؟
یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے ایک نبی علیہ السلام پر،
اللہ انکو غارت کرے جو یہ جھوٹ باندھتے ہیں!!
سیدنا يعقوب عليہ السلام نے سينہ كوبى نہيں كى، اور نہ ہى اپنے چہرے كو زخمى كيا، اور نہ خون بہايا، اور نہ ہى اس دن كو جس ميں يوسف عليہ السلام گم ہوئے تھے تہوار بنايا اور نہ ہى اس روز كو ماتم كے ليے مختص كيا، بلكہ وہ تو اپنے پيارے اور عزيز بيٹے كو ياد كرتے اور اس كى دورى سے پريشان و غمزدہ ہوتے تھے، اور يہ ايسى چيز ہے جس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا اور كوئى بھى روك نہيں سكتا، بلكہ ممانعت و برائى تو اس ميں ہے جو جاہليت كے امور بطور وراثت لے كر اپنائے جائيں جن سے اسلام نے منع كر ديا ہو.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے ايسى كوئى چيز مشروع نہيں فرمائى اور نہ ہى اس ماتم كے قريب بھى كچھ مشروع كيا ہے كہ اگر كوئى عظيم مقام و رتبہ والا شخص فوت ہو جائے يا كوئى دوسرا شہيد ہو تو اس كے ماتم ميں ايسى خرافات كى جائيں،
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں كئى ايك كبار صحابہ كرام كى شہادت ہوئى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان كى موت پر غمزدہ بھى ہوئے مثلا حمزہ بن عبد المطلب اور زيد بن حارثہ اور جعفر بن ابى طالب اور عبد اللہ بن رواحہ ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كوئى عمل نہيں كيا جو شيعہ حضرات كرتے ہيں، اور اگر يہ كام خير و بھلائى ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے،
چنانچہ محرم کے دنوں میں شيعہ حضرات جو غلط كام كرتے ہيں اس كى دين اسلام ميں كوئى دليل نہيں ملتى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ ميں سے كسى ايك كو بھى اس كى تعليم نہيں دى، اور نہ ہى كسى صحابى يا كسى دوسرے كى موت پر ايسے اعمال كيے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت پر صحابہ كرام نے بھى ايسا نہيں کیا،
*حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كى مصيبت تو حسين رضى اللہ تعالى كى موت سے بھى زيادہ تھی*
٭٭٭حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ہر مسلمان كو چاہيے كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے شہید ہونے پر غمزدہ ہونا چاہيے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ مسلمانوں كے سردار اور علماء صحابہ كرام ميں سے تھے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نواسے اور آپ كى اس بيٹى كى اولاد ميں سے جو سب بيٹيوں سے افضل تھى، اور پھر حسين رضى اللہ تعالى عنہ عابد و زاہد اور سخى و شجاعت و بہادرى كا وصف ركھتے تھے.
ليكن شيعہ حضرات جو كچھ كرتے ہيں اور جزع و فزع اور غم كا اظہار جس ميں اكثر طور پر تصنع و بناوٹ اور رياء ہوتى ہے ان كا يہ عمل اچھا نہيں،
حالانكہ جنابِ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد سیدناعلى رضى اللہ تعالى عنہ تو اپنے صاحبزادےحسين سے افضل تھے انہيں شہيد كيا گيا ليكن وہ اس كے شہید ہونے پر ماتم نہيں كرتے تھے جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے شہید ہونے والے دن ماتم كرتے ہيں.
كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ كو چاليس ہجرى سترہ رمضان المبارك جمعہ كے روز اس وقت شہید كيا گيا جب وہ نماز فجر كى ادائيگى كے ليے جا رہے تھے،
اور اسى طرح عثمان رضى اللہ تعالى عنہ على رضى اللہ تعالى عنہ سے افضل ہيں انہيں محاصرہ كر كے ان كے گھر ميں چھتيس ہجرى ماہ ذوالحجہ كے ايام تشريق ميں شہيد كيا گيا، اور انہيں رگ رگ كاٹ كر ذبح كيا گيا، ليكن لوگوں نے انکی شہادت كے دن كو ماتم نہيں بنايا.
اور اسى طرح عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ جو كہ عثمان اور على رضى اللہ تعالى عنہما سے افضل ہيں انہيں نماز فجر پڑھاتے ہوئے محراب ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرتے ہوئے شہيد كيا گيا ليكن لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم كا دن نہيں بنايا.
اور اسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ ان سے افضل تھے اور لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم والا دن نہيں بنايا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو دنيا و آخرت ميں اولاد آدم كے سردار ہيں آپ كو بھى اسى طرح قبض كيا گيا اور فوت كيا گيا جس طرح پہلے انبياء كو فوت كيا گيا، ليكن كسى ايك نے بھى ان كى موت كو ماتم نہيں بنايا، اور وہ ان رافضى جاہلوں كى طرح كريں جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے شہید ہونے كے دن خرافات كرتے ہيں…
*اس طرح كى مصيبتوں كے وقت سب سے بہتر وہى عمل ہے جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے اپنے نانا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا*
جس كسى مسلمان كو بھى كوئى مصيبت پہنچى ہو اور وہ مصيبت ياد آئے چاہے وہ پرانى ہى ہو چكى ہو تو وہ نئے سرے سے دوبارہ
انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے تو اللہ تعالى اسے اس مصيبت كے پہنچنے والے دن جتنا ہى اجر و ثواب عطا كرتا ہے ”
اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے ” انتہى
(ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 221 )
اور ايك مقام پر لكھتے ہيں:
” چوتھى صدى ہجرى كے آس پاس بنو بويہ كے دور حكومت ميں رافضى شيعہ حضرات اسراف كا شكار ہوئے اور بغداد وغيرہ ميں يوم عاشوراء كے موقع پر ڈھول پيٹے جاتے اور راستوں اور بازاروں ميں ريت وغيرہ پھيلا دى جاتى اور دكانوں پر ٹاٹ لٹكا ديے جاتے، اور لوگ غم و حزن كا اظہار كرتے اور روتے، اور ان ميں سے اكثر لوگ اس رات پانى نہيں پيتے تھے تا كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى موافقت ہو؛ كيونكہ وہ پياسے شہید ہوئے تھے.
پھر عورتيں چہرے ننگے كر كے نكلتيں اور اپنے رخسار پيٹتيں اور سينہ كوبى كرتيں ہوئى بازاروں سے ننگے پاؤں گزرتيں اور اسكے علاوہ بھى كئى ايك قبيح قسم كى بدعات اور شنيع خواہشات اور اپنى جانب سے ايجاد كردہ تباہ كن اعمال كرتے، اور اس سے وہ حكومت بنو اميہ كو برا قرار ديتے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ ان كے دور حكومت ميں شہید ہوئے تھے.
ليكن اہل شام كے نواصب نے شيعہ و رافضيوں كے برعكس كام كيا، وہ يوم عاشوراء ميں دانے پكا كر تقسيم كرتے اور غسل كر كے خوشبو لگا كر بہترين قسم كا لباس زيب تن كرتے اور اس دن كو تہوار اور عيد بنا ليتے اور مختلف قسم كے كھانے تيار كر كے خوشى و سرور كا اظہار كرتے، ان كا مقصد رافضيوں كى مخالفت اور ان سے عناد ظاہر كرنا تھا ” انتہى
(ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 220 )
*جس طرح اس دن ماتم كرنا بدعت ہے اسى طرح اس دن خوشى و سرور ظاہر كرنا اور جشن منانا بھى بدعت ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:*
٭” حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سبب ميں شيطان نے لوگوں ميں دو قسم كى بدعات ايجاد كروائيں ايك تو يوم عاشوراء كے دن ماتم كرنا اور غم و حزن كا اظہار اور سينہ كوبى كرنا اور مرثيے پڑھنا… اور دوسرى بدعت خوشى و سرور كا اظہار كرنا…
ان لوگوں نے غم و حزن اور ماتم ايجاد كيا اور دوسروں نے اس كے مقابلہ ميں خوشى و سرور كى ايجاد كى اور اس طرح وہ يوم عاشوراء كو سرمہ ڈالنا اور غسل كرنا اور اہل و عيال كو زيادہ كھلانا پلانا اور عادت سے ہٹ كر انواع و اقسام كے كھانا تياركرنا جيسى بدعت ايجاد كر لى، اور ہر بدعت گمراہى ہے آئمہ اربعہ وغيرہ دوسرے مسلمان علماء نے نہ تو اسے اور نہ ہى اس كو مستحب قرار ديا ہے ” انتہى
(ماخوذ از: منھاج السنۃ ( 4 / 554 ) مختصرا)
*يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ ان غلط قسم كے اعمال كى پشت پناہى دشمنان اسلام كرتے ہيں تا كہ وہ اپنے گندے مقاصد تك پہنچ سكيں اور اسلام اور مسلمانوں كى صورت كو مسخ كركے دنيا ميں پيش كريں*
اسى سلسلہ ميں موسى الموسوى اپنى كتاب ” الشيعۃ و التصحيح ” ميں لكھتے ہيں:
” ليكن اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سوگ ميں دس محرم كے دن سينہ كوبى كرنا اور سروں پر تلواريں مار كر سر زخمى كرنا اور زنجير زنى كرنا ہندوستان سے انگريز دور حكومت كے وقت ايران اور عراق ميں داخل ہوا، اور انگريزوں نے شيعہ كى جہالت اور امام حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے محبت كو موقع غنيمت جانتے ہوئے انہيں سروں پر بيرنگ مارنے كى تعليم دى، حتى كہ ابھى قريب تك طہران اور بغداد ميں برطانوى سفارت خانے ان حسينى قافلوں كى مالى مدد كيا كرتے تھے جو اس دن سڑكوں پر نكالنے جاتے، اس كے پيچھے غرض صرف سياسى اور انگريزى استعمار و غلبہ تھا تا كہ وہ اس كو بڑھا كر اس كى آبيارى كريں، اور اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ اپنے معاشرے اور آزاد ميڈيا كے سامنے ايك معقول بہانا مہيا كرنا چاہتے تھے جو برطانيہ كا ہندوستان اور دوسرے اسلامى ملكوں ميں قبضہ كى مخالفت كرتے تھے.
اور وہ يہ ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ ان ممالك ميں بسنے والے وحشى ہيں جو تربيت كے محتاج ہيں كہ انہيں جہالت اور وحشيوں كى وادى سے نكال كر ترقى يافتہ معاشرہ بنايا جائے، اس طرح يورپى اور انگريزي روزناموں اور ميگزينوں ميں تصاوير شائع كى جاتيں كہ ہزاروں افراد كے قافلے عاشوراء كے موقع پر زنجير زنى سے ماتم كر كے بازاروں ميں گھوم رہے ہيں اور سروں پر تلوار اور بيرنگ سے خون نكالا گيا ہے.
2 *ماتمی ہیئت وکیفیت:*
سیاہ لباس پہنا، غسل چھوڑدینا، زیورات اتاردینا،چولہے اوندھے کردینا،نوبیاہی عورتوں کا میکہ میں قیام کرنا وغیرہ سارے ماتمی اعمال ہیں، اور میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ سوگ صرف تین دن جائز ، پھرکبھی اس میت كا دوسرے یا تیسرے سال سوگ نہیں منانا ہے۔اور ماتم کسی بھی قسم کی جائز نہیں ہے ۔ اور پھر سالہا سال ماتم منانا اسے سنت کا قائم مقام بناناہے،
٭٭٭ ایسے لوگوں کو نبی ﷺکا یہ فرمان سناتاہوں ۔
من سنَّ في الإسلامِ سُنَّةً حسنةً ، فعُمِل بها بعده ، كُتِبَ له مثلُ أجرِ مَن عمل بها . ولا ينقصُ من أجورِهم شيءٌ . ومن سنَّ في الإسلامِ سُنَّةً سيئةً ، فعُمِل بها بعدَه ، كُتب عليه مثلُ وِزرِ من عمل بها ، ولا ينقصُ من أوزارِهم شيء
ٌ(صحيح مسلم:1017)
ترجمہ : جس کسی نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس پر بعد میں عمل ہونے لگا تو اس کے لئے بھی اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر لکھا جائے گااور کسی کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ اور جس کسی نے اسلام میں برا طریقہ جاری کیا اور بعد میں اس پر عمل کیا جانے لگا تواس کے لئے اس پر عمل کرنے والے کے برابر گناہ لکھا جائے گا اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی،
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ماتم کی ساری رسمیں شیعہ کی ایجاد ہیں،
352 ہجری میں غالی شیعہ ابن بویہ نے دوکانیں بند کرنے ، ماتمی لباس لگانے ، چہرہ نوچنے، گریبان چاک کرنے ، عورتوں کو سیاہ لباس لگانے ، ماتم کرتے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیہ پڑھتی چھاتیاں پیٹتے نکلنے کا حکم دیا۔ شیعہ نے یہ حکم سنیوں پر بھی بالجبر نافذ کیا جو آج تک چلتا آرہاہے یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی شیعہ حکمرانوں کے دور میں رواج پاگیا۔
(3) *قبروقبرستان کی رونق*
محرم کی ابتداء ہی سے قبروں کی صفائی ، لپائی پتائی اور قبرستان کو بارونق بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ دس محرم کو قبریں منور اور قبرستان بارونق ہوجاتا ہے ۔ پھر مردوعورت ، جوان بوڑھے ، چھوٹے بڑے تمام ہجوم کے ساتھ قبروستان پہنچتے ہیں جہاں میلہ لگاہوتا ہے ۔ پھول ، مالا، اگربتی ، موم بتی کاروبار ایک طرف اور عورت ومرد کا اختلاط دوسری طرف ۔ پھر قبروں پہ نذرونیاز، پھول مالے اور اگربتی وموم بتی کی رسمیں انجام دینا ،قل و فاتحہ سے مردوں کو ثواب بخشنا، اور ان سے استغاثہ کرنا ،
*قبروں کی زیارت مسنون عمل ہے مگر قبروں کو میلہ ٹھیلہ کی جگہ بنانا، اس کو سجدہ کرنا، اس سے مراد مانگنا، اس کے لئے نذر و نیاز کرنا، وہاں نماز پڑھنا یہ سب شرکیہ وبدعیہ اعمال ہیں ۔
ان چیزوں سے نبی ﷺ نے منع فرمایاہے :
اللهم لا تَجْعَلْ قبري وثنًا يُعْبَدُ، اشتد غضبُ اللهِ على قومٍ اتخذوا قبورَ أنبيائِهم مساجدَ
(تخريج مشكاة المصابيح للالبانی : 715، اسنادہ صحیح)
ترجمہ: یا اللہ!میری قبر کو بت نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب اور قہر نازل ہوا جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔
*عورتوں کا وہاں اختلاط حرام ہے، قل وفاتحہ ، اگربتی وموم بتی کی رسم بدعت ہے اورقبروں کو لیپنا پوتنا،قبرستان کو بارونق بنانا اس بات کی علامت ہے کہ ایسا آدمی قبر کا پجاری اور آخرت سے مغفل ہے ورنہ جس سے عبرت لینی ہے اسے چمکانا نہیں ہے وہاں آنسو بہانا ہے اور آخرت کی یاد تازہ کرنی ہے*
(4) *سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی نذرونیاز اورسبیل :
یہ مہینہ مکمل نذرونیاز کا ہی ہے ۔شروع دن سے خواتین گھروں میں نذرونیاز کا خوب اہتمام کرتی ہیں ۔کھچڑا، حلیم،بریانی ، مٹرپلاؤ،زردہ اور فرنی وغیرہ پکائے جاتے ہیں ۔اسے لوگوں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے اور قبروں ودرگاہوں پر بطور نذر پیش کیا جاتا ہے خصوصاعلی ہجویری المعروف داتا گنج بخش،حضرت میاں میر،حضرت پیر مکی،حضرت مادھو لال حسین،حضرت خواجہ طاہر بندگی،حضرت عنایت حسین قادری،حضرت موج دریا اور دیگر درگاہوں پر۔ امام حسین کی نذرونیاز بھی بطور خاص پیش کی جاتی ہے ۔
غیراللہ کے نام کے چڑھاوے ، نذر، قربانی، ذبیحہ سب شرک کے قبیل سے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ (البقرة: 173)
ترجمہ : تم پر مردہ اور (بہاہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہروہ چیز جس پراللہ کے سوا دوسروں کا نام پکاراگیاہوحرام ہے،
اسی طرح امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی سبیلیں لگائی جاتی ہے ۔
دلیل میں کبھی کہتے ہیں کہ ان پر پانی بند کیا گیاتھا تو کبھی کہتے ہیں :” جس شخص نے عاشوراء کے روز اپنے اہل و عیال (کے رزق کے معاملہ) پر فراخی وکشادگی کی، اللہ تعالیٰ سال بھر اس پر کشادگی فرماتے رہیں گے۔”
*اولا پانی بند کرنے والی بات ہی غلط ہے،*
*اگرمان بھی لیا جائے تو دس محرم جو کہ عاشوراء کا دن ہے آج پانی کی سبیل نہیں لگنی چاہئے ۔ آل بیت اور محمد ﷺ سے محبت کرنے والو ں کو عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہئے*
*صحابہ سمیت نبی ﷺ کو شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور کرکے دانا پانی بند کیا گیا کیا ہم صحابہ اور نبی ﷺ کی یاد میں اپنے اوپر تین سال تک دانہ پانی بند کرتے ہیں ؟*
پیٹ کے پجاری کبھی ایسا نہیں کرسکتے انہیں بہانہ بنا بنا کر اچھا اچھا کھانے کی لت پڑی ہے ۔ اس کام کے لئے جو حدیث پیش کی جاتی ہے موضوع ومن گھڑت ہے ۔ اس لئے اس کام سے ہمیں کلیۃ باز رہنا ہے ۔
(5) *دوپر والے گھوڑوں کا جلوس:*
یہ گھوڑا جس کا نام ذوالجناحین ہوتا ہے شکلا ہندؤں کی مورتی سے ملتا ہے ۔ اسے جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکالاجاتا ہے اور اس میں شرکت باعث ثواب سمجھاجاتاہے ۔ یہ منظر دیکھ کر ہندوقوم اور مسلم قوم کا فرق مٹ سا جاتاہے ۔اسلام میں مورتی کا تصور ہی نہیں ہے ، اس پر مستزاد اس کے جلوس میں شرکت باعث اجر سمجھنا یہ اللہ کی عبادت میں شامل کرنا ہے۔ اسی طرح سے غیراللہ کی عبادت کا دروازہ کھلتا ہے ۔ بے جان شئ کسی نفع ونقصان کا مالک نہیں مگر اسے اس قدر درجہ دینا اپنی دیگر عبادتوں کو ضائع کرنا ہے ۔ الحفظ والامان
(6) *رسم تعزیہ :
تعزیہ کی وہی ایجاد ہے جو اوپر ماتم کی ایجاد میں دو نمبر شق کے تحت مذکور ہے ۔ یعنی یہ شیعہ کی ایجاد ہے ۔ پھرواقعہ کربلا کو کافی رنگ وروغن دے کر بیان کیاگیا تاکہ اس کی ایک عجیب وغریب تاریخ شہادت بن سکے ۔ اس کے لئے مبالغہ آمیز جھوٹے قصے کہانیاں وضع کئے گئے ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کربلا سے متعلق یہ سب عجیب وغریب قصے، جھوٹے افسانے، بناوٹی کہانیاں شیعہ حضرات کے توسط سے پھیلائے گئے ہیں جن میں ابومخنف لوط بن یحی،محمد بن سائب کلبی اور ہشام بن سائب کلبی وغیرہ شامل ہیں۔
تعزیہ جو کہ امام حسین کی قبر کی نقل ہے جسے کاغذوں ، بانس اور کمچیوں سے تیار کیا گیاہوتا ہے ۔ یہ ماتم کی حد وانتہاہے ۔ اس میں انسانی جسم کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ایسے اعمال وعقائد پائے جاتے ہیں جن سے ایمان دل سے نکل جاتا ہے ۔
٭ تعزیہ میں موجودقبر امام کو زندہ تصور کیا جاتا ہے اور انہیں عالم الغیب سمجھاجاتاہے ، ان کی تعظیم بجالائی جاتی ہے یہاں تک کہ انہیں مدد کے لئے بھی پکارا جاتا ہے ۔
٭ جب تعزیہ اٹھایا جاتا ہے تو چھوٹے بچے اس کے نیچے سے گذارے جاتے ہیں اس عقیدے سے کہ امام صاحب کی پناہ میں آجائیں گے۔
٭ جس طرح مزار پہ قبرپرست سجدہ کرتاہے ،قیام کرتاہے ، نذرمانتاہے، استغاثہ کرتاہےہوبہو وہی عقیدہ اور وہی عمل یہاں بھی انجام دیا جاتا ہے ۔
٭ تعزیہ کے جلوس میں شرکیہ مرثیہ ڈھول وطبلے کی آواز پر گائے جاتے ہیں ۔ اور اسلام کے نام پر شرمناک کرتب وکھیل کا مظاہرہ ہوتاہے ۔ بدن کو آگ وتلوار سے نقصان پہنچایاجاتاہے ۔
٭ اس جلوس میں مسلمان عورتوں کا ہجوم مردوں کے شانہ بشانہ ہوتا ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں نیم برہنہ ، بال کھولے دھمال ڈال رہی ہوتی ہیں ۔
٭ بڑے چھوٹے سب مل کر ایک ساتھ ناچتے گاتے اور حیاسوز حرکتیں کرتے ہیں ۔
ان کے علاوہ نہ جانے کیا کیا کام انجام دئے جاتے ہیں ؟ ، بھلا ان کاموں کا کربلا سے، شہادت سے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے کیا واسطہ ؟
ان کاموں کا واقعہ کربلا سے تو کیا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ اکثر شرک میں داخل ہیں اور شرک کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا(النساء : 116)
ترجمہ : بے شک اللہ یہ گناہ ہرگز نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے سوا جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، تو وہ یقینا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ تاریخ اسلامی کا ایک دلخراش واقعہ ہے اس سے کسی کو انکار نہیں مگر لوگوں نے اس واقعہ کی وجہ سے اسلامی تاریخ کی ساری شہادتوں کے واقعات بھلادئے ۔ خلفاء اربعہ میں سے تین کی شہادت ہوئی کسی کا ماتم، تعزیہ اور غم نہیں منایا جاتا، نہ ہی تذکرہ کیا جاتا ہے صرف واقعہ کربلا کی کیوں اس قدر تشہیر کی جاتی ہے ؟
جب اس کی حقیقت جانیں گے تو پتہ چلے یہ سب شیعہ کی کارستانی ہے وہ کربلا کی آڑ میں اسلام کا چہرہ مسخ کررہا ہے ، اس بہانے مسلمانوں میں شرک وبدعات پھیلاتاجارہاہے ، صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے ، ایک مسلمان کو دوسرے کے خلاف ورغلایاجاتا ہے تاکہ مسلمان کی طاقت کبھی مجتمع نہ ہوسکے ۔ ان چیزوں کے بارے میں ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی کب ملا ؟
*خلاصہ کلام یہ ہے کہ ماہ محرم میں نفلی روزوں کے علاوہ اور کسی قسم کی عبادت یا کارخیر قرآن وسنت سے ثابت نہیں اس کے باوجود آج ہمارے مسلم معاشرے میں ترقی زمانہ کے ساتھ ساتھ نت نئی بدعات نے رواج پالیا ہے ، میں یہاں ماہِ محرم سے متعلق چندمشہور بدعات مروجہ کا ذکر قارئین کرام کو متنبہ کرنے کی غرض سے کر کررہا ہوں :
(١) شیعوں کی طرح واقعہ کربلا کو مبالغے اور رنگ آمیزی سے بیان کرنا .
(٢) حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کی بحث کے ضمن میں جلیل القدر صحابہ کرام (خاص کر حضرت معاویہ اور مغیرہ رضی اللہ عنہما )کو ہدف طعن وتشنیع بنانے میں بھی تأمل نہ کرنا .
(٣) ماہ محرم کو سوگ کا مہینہ سمجھ کر اس مہینے میں شادی بیاہ نہ کرنا .
(٤) دس محرم کو تعزیے نکالنا ،انہیں قابل تعظیم وپرستش سمجھنا ، ان سے مرادیں اور منتیں مانگنا.
(٥) کھیچڑا پکانا ،حلیم پکانا اور پانی کی سبیلیں لگانا ، اپنے بال بچوں کو ہرے رنگ کے کپڑے پہنا کر انہیں حسین رضی اللہ عنہ کا فقیر بنانا.
(٦) دس محرم کو تعزیوں اور ماتم کے جلوس میں ذوق وشوق کے ساتھ شرکت کرنا اور کھیل وکود سے ان محفلوں کی رونق میں اضافہ کرنا .
(٧) ذوالجناحین (دو پر والے گھوڑے) کے جلوس میں ثواب کا کام سمجھ کر شرکت کرنا .
(٨) دس محرم کو مرثیہ خوانی اور سینہ کوبی کرنا ، ماتم اور نوحہ میں شرکیہ کلمات ادا کرنا.
(٩) دس محرم کو اظہار غم کی خاطر زیب و زینت اور عمدہ لباس کو چھوڑ کر ننگے سر ،ننگے پاؤں اور ننگے بدن رہنا .
(١٠) دس محرم کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر فاتحہ اور نذر و نیاز دینا .
بطور مثال میں نے مذکورہ چند مروجہ بدعات کا ذکر کیاہے ورنہ یہ اور اس جیسی بے شمار واہیات اعمال ماہ محرم میں آج مسلمانوں کا ایک طبقہ کارخیر اور ثواب سمجھ کر انجام دے رہاہے حالانکہ انہیں اس بات پر غوروفکر کرنا چاہئے کہ ہر وہ عمل جس کی قرآن وسنت اور خلفاء راشدین نیز خیر القرون میں کوئی دلیل نہ ہو وہ عمل لایعنی اور بے کار ہے اور یہ بات گزر چکی ہے کہ ماہ محرم میں نفلی روزوں کے علاوہ اور کوئی عبادت ثابت نہیں پس روزہ کے علاوہ ہرعمل قابل رد ہوگا جیسا
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:٫٫من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہورد،،٫٫جس نے کار خیر سمجھ کر کوئی کام کیااور اس کا میں نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے ،،.
(مسلم حدیث نمبر :1718)
ایک مسلمان کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی اتباع ہی کافی ہے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:،٫٫مسلمانو!تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچاکررکھنا اس لئے کہ دین میں نیا کام ( چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے ،،
(سنن ابو داود، حدیث نمبر : 4607)
(سنن نسائی، حدیث نمبر :1576)
*اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کی توفیق دے اور بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
No comments:
Post a Comment