find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

20 rakat Taraweeh ke Dalail ka jayeza.

20 rakat Taraweeh ka jayeza.
Taraweeh ki namaj kitni rakat hai 8 ya 20?
20 rakat Taraweeh ke Dalail ka jayeza.


20 رکعت تراویح پر مکمل دلیل

بیس رکعت تراویح کے دلائل کا جائزہ

اب ہم ان لوگوں  کے دلائل کا علمی وتحقیقی ، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش کرتے ہیں جو بیس رکعت نمازِ تراویح کو “سنتِ مؤکدہ” کہتے ہیں ۔

  دلیل نمبر 1:

        سید نا عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبار ک میں بیس رکعتیں اور وتر پڑ ھا کرتے تھے ۔

(مصنف ابن بی شیبۃ: ۲۹۴/۲، السنن الکبری للبیھقی: ۴۹۶/۲، المعجم الکبیر للطبرانی: ۳۹۳/۱۱ ، وغیرہ ہم)

تبصرہ :

یہ جھوٹی روایت ہے، اس کی سند میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان راوی “متروک الحدیث” اور “کذاب” ہے، جمہورنے اس کی ” تضعیف” کر رکھی ہے۔

امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں :

         وھو معلو ل بأبی شیبۃ ابراہیم بن عثمان ، جدّ الامام أبی  بکر بن أبی شیبۃ، وھو متّفق علیٰ ضعفۃ، الیّنۃ ابن عدیّ فی الکامل ، ثمّ مخالف للحدیث الصّحیح عن أبی سلمۃ بن عبد الرّحمٰن أنّہ سأل عائشۃ: کیف کانت صلاٰ رسول ﷺ فی رمضان ؟ قالت : ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ٰ احدیٰ عشرۃ رکعۃ۔۔۔۔۔

” یہ روایت ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے ، جو کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادا ہیں ، ان کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، امام ابن عدی نے بھی الکامل میں ان کو کمزور قرار دیا ہے ، پھر یہ اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے سید ہ عائشہؓ سے رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا تو سید ہ عائشہ ؓ نے فرمایا، آپ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔۔۔۔۔”

(نصب الرایۃ للزیلعی: ۱۵۳/۲)

ا)        جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں :

    أما النّبیّ ﷺ فصحّ عنہ ثمان رکعات وأ مّا عشرون رکعۃ فھو عنہ علیہ السّلام بسند  ضعیف وعلی ضعفہ اتّفاق۔

” آٹھ رکعات نمازِ تراویح رسول اللہ ﷺ سے صحیح  ثابت ہیں اور جو بیس رکعت کی روایت ہے ، وہ ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ “(العرف الشذی: ۱۶۶/۱)

بالا تفاق” ضعیف ” راوی کی روایت وہی پیش کرسکتا ہے جو خود اس کی طرح بالا تفاق ” ضعیف ” ہو۔

ب)     جناب عبد الشکور فاروقی دیوبندی نے بھی اس کو ” ضعیف ” قرار دیا ہے۔ ( علم الفقۃ : ص ۱۹۸)

ج)      ابن ِ عابدین شامی حنفی (م ۱۲۵۲) لکھتے ہیں :

فضعیف بأبی شیبۃ، متّفق علی ضعفہ مع مخالفۃ للصّحیح۔ ”

یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس میں راوی ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے ، ساتھ ساتھ یہ حدیث ( صحیح بخاری و صحیح مسلم کی) صحیح (حدیث ِ عائشہ ؓ) کے بھی خلاف ہے۔ “(منحۃ الخالق: ۶۶/۲)

یہی بات امام ابنِ ہمام حنفی(فتح القدیر : ۴۶۸/۱) امام عینی حنفی (عمدۃ القاری : ۱۲۸/۱۱) نے بھی کہی ہے۔ علامہ سیوطی (۹۱۱-۸۴۹ھ)لکھتے ہیں : ھذا الحدیث ضعیف جدّ ا، لاتقوم بہ حجّۃ۔ ” یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت ودلیل قائم نہیں ہوسکتی ۔” (المصابیح فی صلاۃ التراویح : ۱۷)

تنبیہ:  امام بریلویت احمد یار رخان گجراتی ( ۱۳۹۱-۱۳۲۴ھ)اپنی کتاب ” جاء الحق (۲۴۳/۲)”  میں ” نمازِ جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو” کی بحث میں امامِ ترمذی ؒ سے نقل کرتے ہیں :

” ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ منکر ِ حدیث ہے۔”

لیکن اپنی اسی کتاب ( ۴۴۷/۱) کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ  لمعات المصابیح علی رکعات التراویح میں اس کی حدیث کو بطور ِ حجت پیش کرتے ہیں ، دراصل انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں  دیتے ، ایسے بدیانت اور جاہل ، بلکہ اجہل لوگوں سے خیر کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جو اس طرح کی واہی  تباہی مچاتے ہیں ؟

قارئین کرام! بعض الناس کی یہ کل کائنا ت تھی جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے، نہ معلوم اس کے باوجود ان لوگو ں کو بیس رکعات نمازِ تراویح کو” سنتِ مؤ کدہ” کہتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی؟

دلیل نمبر 2:

سید نا جابر ؓ سے روایت ہے کہ رمضان المبار ک میں ایک رات نبیﷺ باہر تشریف لائے اور صحابہ  کرام کو چوبیس رکعتیں پڑھائیں اور تین رکعات وتر پڑھے۔ ( تاریخ جر جان لابی قاسم حمزۃ بن یوسف السھی المتوفی۷۶۷، من الھجریۃ: ص ۲۷۵)

تبصرہ :

یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے، اس میں دوراوی عمر بن یارون البلخی اور محمد بن حمید الرازی ” متروک وکذاب” ، نیز ایک غیر معروف راوی بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیس تراویح کے سنتِ مؤ کدہ ہونے کا راگ الا پنے والے اس چوبیس والی  حدیث کو کس منہ سے پیش کرتے ہیں ؟

دلیل نمبر 3:

سید نا ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب ؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رمضان میں رات کو لوگوں کو نماز پڑ ھا یا کریں ، آپ نے فرما یا ، لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں ، لیکن اچھی طرح قراء ت نہیں کرسکتے، اگر تم رات کو ان پر قرآن پڑ ھا کرو تو اچھا ہو، سید نا ابی  بن کعب نے عرض کی ، اے امیر المؤمین ! پہلے ایسا نہیں ہوا تو آپ نے فرما یا، مجھے بھی معلوم ہے، تاہم یہ ایک اچھی چیز ہے، چنا نچہ ابی بن کعب ؓ نے لوگوں کو بیس رکعات پڑ ھائیں ۔ (کنز العمال : ۴۰۹۸)

تبصرہ:

” کنز العمال” میں اس کی سند مذکور نہیں ، دین سند کا نام ہے ، بے سند روایات وہی پیش کرتے ہیں ، جن کی اپنی کوئی” سند ” نہ ہو۔

دلیل نمبر 4:

         عن الحسن أنّ عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ جمع النّاس علی أبیّبن کعب، فکان یصلّی لھم عشر ین رکعۃ۔ “

حسن بصری ؒ سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کو سید نا ابی بن کعب ؓ پر اکٹھا  کیا ، وہ انہیں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے ۔”

(سنن ابی داؤد ، سیر اعلام النبلاء: ۴۰۰/۱۰، جامع المسانید والسنن للحافظ ابن کثیر : ۵۵/۱)

تبصرہ:

عشر ین رکعۃ کے الفاظ دیو بندی تحریف ہے، محمود الحسن دیوبندی(۱۲۶۸-۱۳۳۹ھ) نے یہ تحریف کی ہے، عشر ین لیلۃ” بیس راتیں ” کی بجائے عشر ین رکعۃ ” بیس رکعتیں ” کر دیا ہے۔ جبکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخہ میں عشرین رکعۃ نہیں ہے، تمام نسخوں میں عشرین لیلۃ ہی ہے، حال ہی میں محمد عوامہ کی تحقیق سے جو سنن ابی داؤد کا نسخہ چھپا ہے، جس میں سات آٹھ نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، اس میں بھی عشر ین لیلۃ ہی ہے، محمد عوامہ لکھتے ہیں : من الأ صول کلّھا۔

” سارے کے سارے بنیادی نسخوں میں یہی الفاظ ہیں ۔” (سنن ابی داؤد بتحقیق محمد عوامہ : (۲۵۶/۲)

عشر ین رکعۃ کے الفاظ محرف ہونے پر ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام بیہقی ؒ (السنن الکبری: ۴۹۸/۶)نے یہی روایت امام ابوداؤد ؒ کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں عشر ین لیلۃ کے الفاظ ہیں ۔ یہی الفاظ حنفی فقہا ء اپنی اپنی کتابوں  میں ذکر کرتے رہے ہیں ۔ رہا مسئلہ” سیر اعلام النبلاء” اور ” جامع المسانیدو والسنن” میں عشر ین رکعۃ کے الفاظ کا پا یا جا نا تو یہ ناسخین کی غلطی ہے، کیونکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخے میں یہ الفاظ نہیں  ہیں ، یہاں تک کہ امام عینی حنفی (۸۵۵ھ) نے ” شرح أبی داؤد (۳۴۳/۵) میں عشرین لیلۃ کے الفاظ ذکر کر کیے ہیں ، نسخوں کا اختلا ف ذکر نہیں  کیا ،ا گر رکعۃ کے الفاظ کسی نسخے میں ہوتے تو امام عینی حنفی ضرور  بالضر ور نقل کرتے ، اسی لیے غالی حنفی نیموی (م۱۳۲۲ھ) نے بھی اس کو بیس رکعت تراویح کی دلیلوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔

۲۔       اگر مقلدین کی بات کو صحیح  تسلیم کر بھی لیا جائے  تو پھر بھی یہ روایت ان کی دلیل نہیں بن سکتی ، جیسا کہ خلیل احمد سہار نپوری دیوبندی صاحب (۱۳۴۶-۱۲۶۹ھ) لکھتے ہیں کہ ایک عبارت بعض نسخوں میں ہوا اور بعض میں نہ ہو تو وہ مشکوک ہوتی ہے۔ ( بزل المجھود : ۴۷۱/۴، بیروت)

لہذا اس دیو بندی اصول سے بھی یہ روایت مشکوک ہوئی۔

تنبیہ:

امام بریلوت احمد یار خان نعیمی گجراتی (۱۳۹۱-۱۳۲۴ھ)  نے عشر ین لیلۃ کے الفاظ ذکر کیے ہیں ۔ ( جاء الحق” : ۹۵/۶ بحث” قنوتِ نازلہ پڑھنا منع ہے”)

جناب سر فراز خان صفدر دیوبندی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : ” جب عام اور متداول نسخوں میں یہ عبارت نہیں  تو شاذ اور غیر مطبوعہ نسخوں کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے؟” ( خزائن السنن : ۹۷/۲)

مقلدین کے اصول کے مطابق اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ۔

۔      امام زیلعی حنفی ( م ۷۶۲ھ) اور امام عینی حنفی لکھتے ہیں :

لم ید رک عمر بن الخطّاب ۔ ”

اس روایت کے راوی  امام حسن بصری ؒ نے سیدنا عمر بن خطاب  کا زمانہ نہیں  پا یا”

( نصب الرایۃ : ۱۲۶/۲، شرح ابی داؤد از عینی حنفی: ۳۴۳/۵)

لہذا یہ روایت ” منقطع” ہوئی ، کیا شریعت ” منقطع” روایات کا نام ہے؟

۴۔      امام عینی حنفی نے اس کو ” ضعیف ” قرار دیا ہے۔ ( شرح سنن ابی داؤد از عینی حنفی : ۳۴۳/۵)

۵۔       اس روایت کو حافظ ؒ نے بھی ” ضعیف ” کہا ہے۔ ( خلاصۃ الا حکام للنووی: ۵۶۵/۱)

۶۔       سید نا عمر بن خطاب ؓ کا گیارہ رکعت تراویح بمع وتر کا حکم دینا ثابت ہے۔

( موطا امام مالک : ۱۳۸، السنن الکبری للبھقی: ۴۹۶/۲، شرح معانی الآثار للطحاوی : ۲۹۳/۱، معرفۃ السنن والآ ثار للبیھقی : ۴۲/۴ ،فضائل الاوقات للبیھقی: ۲۷۴: قیام اللیل للمروزی : ۲۲۰، مشکاۃ المصابیح : ۴۰۷ وسندہ صحیح)

امام طحاوی حنفی (۳۲۱-۲۳۹ھ) نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔

دلیل نمبر 4:

        یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ سید نا عمر بن خطاب ؓ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں تیس رکعات پڑ ھا کرتے تھے۔( موطا امام مالک: ۹۷/۱، السنن الکبر ی للبیھقی: ۴۹۴/۲) ۔

تبصرہ:

یہ روایت ” انقطاع” کی وجہ سے ” ضعیف”  ہے، کیونکہ راوی یزید بن رومان نے سید نا عمر بن خطاب ؓ کا زمانہ ہی نہیں پایا ، امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں : یزید بن رومان لم ید رک عمر  بن الخطّاب۔ ” یزید بن رومان نے سید نا عمر بن خطاب ؓ کا زمانہ نہیں پا یا۔” نصب الرایۃ للز یلعی: (۱۶۳/۲) لہذا یہ روایت ” منقطع” ہوئی ، جبکہ مؤ طا امام مالک میں اس  اس “منقطع” روایت سے متصل پہلے ہی”صحیح ومتصل ” سند کے ساتھ ثابت ہے کہ امیر المؤمنین سید نا عمر بن خطاب ؓ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے  ہیں : ترجیح المسّصل علی المنقطع.

” ضابطہ یہ ہے کہ متصل کو منقظع پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔” (العرف الشذی: ۱۱) ہم کہتے ہیں کہ یہاں بے ضابطگیاں کیوں ؟ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : ” روایتِ مؤ طا مالک منقظع ہے۔”(اشرف الجواب:۱۸۲)

صحیح احادیث کے مقابلہ میں ” منقطع ” روایت سے حجت پکڑنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

دلیل نمبر 5:

یحیٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب ؓ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑحائے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۹۳/۲)

تبصرہ:

یہ روایت ” منقطع” ہونے کی وجہ سے ” ضعیف ” ہے، نیموی حنفی لکھتے ہیں : یحیی بن سعید لم یدرک عمر۔ ” یحیٰ بن سید الانصاری نے سید نا عمر ؓ کا زمانہ نہیں  پایا۔ “) التعلیق الحسن از نیموی حنفی: ۲۵۳)      ۔

دلیل نمبر 6:

عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ سید نا ابی بن کعب ؓ رمضان میں لوگوں کو مدینہ میں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے اور وتر تین رکعات۔         ( مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۹۳/۲)

تبصرہ:

یہ رویات بھی ” انقطاع” کی وجہ سے ” ضعیف” ہے، نیموی حنفی لکھتے ہیں :

عبد العزیز بن رفیع لم ید رک أ بیّ بن کعب۔ ” عبد العزیز بن رفیع نے سید نا ابی بن کعب ؓ کو نہیں پا یا۔ ” (التعلیق الحسن :  ۲۵۳)

دلیل نمبر 7:

سائب  بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ لوگ سید نا عمر ؓ کے دورِ خلافت میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑ ھتے تھے۔( مسند علی بن الجعد : ۲۷۲۵، السنن الکبری للبیھقی: ۴۹۶/۲، وسندہ صحیح)

تبصرہ:
      یہ بیس رکعتیں پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام کے علاوہ اور لوگ تھے ، کیونکہ صحابی رسول سید نا سائب بن یزید خود فرما تے ہیں : کنا (أی الصّحابۃ) نقوم فی عھد عمر بن الخظّاب با حدٰ ی عشرۃ رکعۃ۔۔۔” ہم (صحابہ) سید نا عمر بن خطاب ؓ کے دور میں گیارہ رکعات (نمازِ تراویح بمع وتر) پڑھتے ۔” (حاشیۃ آثار السنن : ۲۵، وسندہ صحیح)

صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کا عمل حجت نہیں ، یہ کہا ں ہے کہ یہ نامعلوم لوگ بیس کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑ ھتے تھے ، اگر کوئی آٹھ کو سنت، رسولﷺ اور بارہ کو زائد نفل سمجھ کر پڑ ھے تو صحیح  ہے، یہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔

جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م ۱۳۴۶ھ) لکھتے ہیں : ” ابنِ ہمام (نے ) آٹھ رکعات کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے ، سو یہ قول قابل طعن کے نہیں ۔” ( براھین قاطعۃ : ۱۸)

مزید لکھتے ہیں : ” سنتِ مؤ کدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں ۔” ( براھین قاطعہ: ۱۹۵)

دلیل نمبر 8:

سائب بن یزید ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سید نا عمر ؓ کے دور میں  بیس رکعات تراویح اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔ ( معرفۃ السفن والآثار للبیھقی: ۴۲/۴)

تبصرہ:
یہ روایت ” شاذ” ہے، امام مالک ،ا امام یحیٰ بن سعید القظان اور امام الدراوردی وغیر ہم ؒ کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس میں ” شذوذ” ہے ، اگر چہ خالد بن  مخلد ” ثقہ” راوی ہے، لیکن کبار ثقات کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہ ہوگی ، اسی روایت میں کبار ثقافت گیارہ رکعات بیان کررہے ہیں ۔

دلیل نمبر 9:

ابو عبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ سید نا علی ؓ نے رمضان میں قراء کو بلا یا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑ ھائیں ، سید نا علی ؓ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ ( السنن الکبری للبیھقی:۴۹۶/۲)

تبصرہ:

( ا)              یہ روایت ” ضعیف” ہے، اس کی سند میں حماد بن شعیب راوی ” ضعیف” ہے، اس کو امام یحیٰ بن معین ، امام ابوززرعہ ، امام نسائی اور حافظ ذہبیؒ نے ” ضعیف ” کہا ہے۔

ب)     دوسری وجہ ضعیف یہ ہے کہ عطاء بن السائب ” مختلط” راوی ہے ، حماد بن شعیب  ان لوگوں میں سے نہیں ، جنہوں نے اس سے قبل الا ختالط سنا ہے۔

دلیل نمبر 10:

ابو الحسناء سے رویات ہے کہ سید نا علی ؓ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترایح، یعننی بیس رکعات تراویح پڑ ھا یا کرے۔( مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۹۳/۲)

تبصرہ:

اس روایت کی سند ” ضعیف” ہے، اس کی سند مین ابو الحسنا ء راوی ” مجہول” ہے۔ حافظ ذہبی ؒ لکھتے ہیں : لایُعرف۔ ” یہ غیر معروف راوی ہے۔” ( میزان الاعتدال : ۵۱۵/۴)۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معروف راویوں کی روایات کا مکلّف نہیں ٹھہرایا ۔

دلیل نمبر 11:

اعمش کہتے ہیں کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود ؓ بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔” ( مختصر قیام اللیل للمروزی : ۱۵۷)

تبصرہ

اس کی سند ” ضعیف ” ہے ، عمدۃ القاری( ۱۲۸/۱۱) میں یہ حفص بن غیاث عن الأ عمش کے  طریق سے ہے ، جبکہ حفص بن غیاث اور اعمش دونوں زبردست” مدلس” ہیں اور ” عن ” سے بیا ن کررہے ہیں ، لہٰذا سند” ضعیف” ہے۔

باقی امام عطاء امام ابن ابی ملیکہ ، امام سوید بن غفلہ وغیر ہم کا بیس رکعت پڑھنا بعض  الناس کو مفید نہیں ، وہ یہ بتائیں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں یا امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ  کے ؟ اور اس بات کو کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیس رکعت کو سنتِ مؤکدہ سمجھ کر پڑ ھتے تھے۔

اھل تقلید پر لازم ہے کہ وہ باسندِ صحیح امام ابوحنیفہ سے بیس رکعت تراویح کا جواز یا سنتِ مؤکدہ ہونا ثابت کریں ، ورنہ مانیں کہ وہ اندھی تقلید میں سر گرداں ہیں ۔

الحاصل:
رسول اللہ ﷺ یا کسی صحابی سے بیس رکعت نمازِ تراویح پڑ ھنا قطعاً ثابت نہیں ہے، سنت صرف آٹھ رکعات ہیں ۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق سمجھنے والا اور اس پر ڈٹ جانے والا بنائے۔ آمین !۔۔۔۔۔۔۔۔

واللہ اعلم ۔

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS