America se Darul uloom Dahshatgard ka pata lagane aaye.
jab Ek American reporter Dahshatgard ka pata lagane Dar-ul-uloom deoband Madarse me aaya.
امریکہ سے دارلعلوم دہشت گرد کا پتہ لگانے آگئے ایک امریکن صحافی۔
*امریکہ سے دارالعلوم تک*
*بنوکِ قلم ۔۔ محمد فیضان*
دیپک کمار *(American reporterman)* کے سفرنامے کو اس حقیر نے تحریر میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔!!
میرا نام دیپک کمار ہے، میری جائےپیدائش ہندوستان کے صوبہ یوپی کی ایک قدیم شہر بنارس ہے، والدین نے ہوش سنبھالنے کے بعد ہی اپنے ہمراہ امریکہ لےکر چلے گئے تھے، اور ہمیشہ کیلئے امریکہ میں ہی سفٹ ہوگئے، چونکہ ماں باپ پڑھے لکھے بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اس لئے والدین نے ہماری تعلیم کا آغاز بھی امریکہ میں ہی کروادیا، پڑھائی کے چند سال گزرے تھے کہ مجھے وہاں کے ماحول سے مکمل واقفیت ہوگئی، اور ہم نے بڑا ہوکر کچھ بننے کا عزم بھی کرلیا، جب میں نے ہائی اسکول کے بعد کالج جوائن کیا تو میرے دماغ میں صحافت کا بھوت سوار ہوگیا، پھر میں نے صحافی بننے کا مکمل فیصلہ ہی کرلیا، پڑھائی کی تکمیل کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رنجہ کیا، تو بڑے بڑے ایسے شہسواروں سے ملاقات ہوئی، جو صحافت کے اعلی مقام پر فائز تھے،
جاب جوائن کرنے کے چند سال بعد والدین نے دہلی کی ایک پڑھی لکھی لڑکی سے میری شادی کروادی، جو فی الحال میرے ساتھ ہی امریکہ کے کسی ہیڈ آفس کا جاب جوائن کرکے مجھ سے بھی اعلی تنخواہ کی مالکن بن ہوئی ہیں، ہماری تنخواہ بھی ہندوستانی روپئے کے اعتبار سے کروڑوں سے بھی اوپر ہیں،
خیر میں اپنی بات کو طول نہ دیکر اصل سفرنامے کی طرف رجوع ہوتا ہوں،
چونکہ میں صحافت میں قدم جما چکا تھا، اس لئے ہر روز نئی اور عجیب و غریب خبروں پر مطلع ہوکر اسے شائع کرنا مشغلہ بن گیا تھا ۔
ابھی قریباً چار، پانچ سالوں سے ایک بات کانوں سے ٹکراکر بہت پریشان کرتی تھی، اور اس بابت ہمیشہ فکرمند رہا کرتا تھا، اور جب بھی اس طرف توجہ موڑتا، تو غصے کو تاب نہ لا پاتا، وہ بات یہی تھی، کہ ہمارے ہندوستان ہی میں دیوبند نامی ایک جگہ ہے، جہاں ایک بڑا سا دہشت گردوں کا اڈہ ہے، جہاں کے کارکنان نوجوانانِ مسلم کو تیار کرکے پوری دنیا میں جہاد کے نام پر دہشت پھیلانے میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں، اور ہر جگہ علمائے دیوبند اپنا رعب و دبدبہ بنانے میں کامیاب بھی ہیں، شہرِ دیوبند کے دور سے بھی کسی غیرمسلم کا گزر ہوجائے تو اسکی جان بچنا ناممکن ہوتا ہے، یعنی غیروں کو گاجر مولی کیطرح ریت دیا جاتا ہے، جسے امریکن میڈیا ہر روز اس بات کو ایک قاتلانہ چال سمجھ کر اچھالا کرتی تھی، ہمیں جو سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات تھی، وہ یہی کہ دہشت گردوں کا یہ اڈہ ہمارے آبائی وطن میں ہی کیوں،،؟
پھر میں نے آخری ایک سال سے اپنے دل میں یہ عزم کررہا تھا کہ ضرور اس کے خاتمے کا کوئی حل نکالوں گا، جس کیلئے ہمیں سب سے پہلے ہندوستان جاکر دیوبند کا مکمل جائزہ لینا ہوگا، پھر مشاہدے سے جو بات عمل میں آئیگی، اسے کر گزرنا ہوگا،،،
بالآخر اس ارادے کی تکمیل کیلئے میں نے امریکی حکومت سے چند ایام کی چھٹی لی، اور والدین کو بھی کسی طرح راضی کرلیا، چونکہ والدین بھی ہمارے اس ارادے کو سن کر سہم گئے تھے کہ شائد دوبارہ بچ کر واپس آئیگا بھی یا نہیں، سر پر کفن باندھ کر، بہت خائف ہوکر ہندوستان کا رخ کرلیا، دہلی ایئرپورٹ پہونچتے ہی ہمارے لئے ہندوستانی حکومت کی جانب سے سیکیوریٹی فورس کا انتظام بھی کیا گیا، نہ چاہتے ہوئے بھی دہلی میں چند روز اس وجہ سے مقیم رہنا پڑا کہ پتہ نہیں آگے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے،
دہلی میں تین روز قیام کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، لیکن آگے جو ہونے والا تھا اس سے بےحد خائف تھا، اور دیوبند سے دوبارہ بچ نکلنے کی کوئی ترکیب ڈھونڈ رہا تھا، لیکن یہاں پر دماغ اپنا کام کرنا بھی شائد چھوڑ دیا تھا، بالآخر میں نے مخصوص لباس کو ترک کرکے سادہ لباس زیبِ تن کیا اور سیکیوریٹی کو مطلع کئے بغیر دہلی ریلوئے اسٹیشن کیطرف نکل پڑا، اور دیوبند کیلئے ٹرین پکڑنے میں کامیاب ہوگیا، دہلی سے دیوبند تک سفر کا مکمل وقت خوف و حراس میں گزارا، کسی طرح میری ٹرین دیوبند اسٹیشن پر پہونچ گئی، میں ہانپتے کانپتے ٹرین سے نیچے اتر کر پلیٹفارم پر لگی کرسیوں پر بیٹھ گیا، اسٹیشن پر ہی مدرسے کے چند بچوں پر میری نظر پڑی، جسے دیکھ کر میری حالت خراب ہورہی تھی لیکن ہمت گوارہ نہ کیا کہ کسی کو اپنی طرف مخاطب کرکے کچھ معلومات حاصل کرسکوں، کافی دیر تک ٹوپی کرتا پہنے تمام لڑکوں کی حرکات پر نظر جمائے ہوئے تھا، آخرکار میں نے اپنی نششت سے دس قدم فاصلے پر بیٹھے ایک پنڈت کو دیکھا ، جو پاس بیٹھے مدرسے کے بچوں سے مذاق کر رہا تھا، اور اسی مذاق کے دوران پنڈت اس بچے سے پینے کو پانی طلب کرتا ہے، وہ لڑکا پنڈت کو پانی دیکر پھر مذاق میں محو ہوجاتا ہے، جس نظارے کو دیکھ کر میرا دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے، اور حوصلے میں ایک نکھار پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر میں نے کسی دوسرے لڑکے کو اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دارالعلوم میں قاسم صاحب جو وہاں کے پرنسپل ہیں ان سے ملنا ہے، لڑکے نے نام کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو مولانا ابوالقاسم نعمانی صاحب ہیں،
میں نے کہا، جو بھی ہیں ان سے ملنا ہے، اس لڑکے نے اپنا نام ناظر بتایا، میں نے سب سے پہلے اپنے والدین کو مطمئین کرنے کیلئے ناظر بھائی کے سامنے فون لگایا، میری والدہ میری فکر میں برا حال بنا رکھی تھی، میری گھر والی بھی رو رو کر بےحال تھی، میں انہیں اطمینان دلانے کیلئے ویڈیو کالنگ پر ناظر بھائی کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر بات کی، یہاں تک کہ ناظر بھائی نے بھی تسلی کے کچھ الفاظ میرے گھر والوں کیلئے صرف کئے، جس سے گھر والے کو تشفی ہوگئی،
میں ناظر بھائی کے ہمراہ دیوبند اسٹیشن سے دارالعلوم کیلئے رکشہ لیا، پورا راستہ ناظر بھائی سے گفتگو ہوتی رہی، میں نے اپنے مقصد کو چھپائے ہوئے کچھ حقیقتوں سے ناظر بھائی کو آگاہ کیا، میں نے ناظر بھائی کی اندازِ گفتگو، اور خوش اخلاقی سے بہت متاثر ہوا، دارالعلوم پہونچ کر مہتمم صاحب کیطرف رخ کیا لیکن خبر ملی کہ وہ کہیں نکلے ہوئے ہیں، اس دوران ہم نے مدرسے کی چہاردیواری میں داخل ہوکر بچوں کا آپس میں مل جل کر رہنا، ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا، ایک ساتھ سونا دیکھ کر مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا اور بڑا پیار بھی آرہا تھا، چونکہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی باہمی محبت ایسا سلوک دیکھا تھا، جو میرے لئے ناقابلِ تردید حقیقت تھی، جس نظارے کو دیکھ کر میری آنکھیں یقین نہیں کر رہی تھی، بلکہ مجبوراً دل کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ یہ مدرسہ محض امن کا گہوراہ ہے، جہاں صرف محبت کا پیغام، اور اخلاقِ نبوی کی تعلیم دی جاتی ہے، اب میں ہر طرح کے خوف سے نجات پاچکا تھا، اور اپنے آپ کو مطمئین بھی کرلیا تھا،
اس کے بعد دفترِ اہتمام میں تشریف لے گئے جہاں شعبہء کمپیوٹر کے چند افراد سے ملاقات ہوئی، جن سے انگریزی زبان میں کچھ گفتگو ہوئی، چونکہ بچپن سے امریکہ رہتے ہوئے مادری زبان پر قدرت نہ رکھ سکا تھا، گفتگو کے دوران ایسا لگ رہا تھا گویاں انکی زبان سے پھول برس رہے ہوں، بہت اخلاق مندی سے گفتگو ہوتی رہی، جس گفتگو میں دارالعلوم کا مقصدِ قیام، اور اسکی حقیقت پر مطلع ہوئے، پھر میں نے کچھ دیر کمپیوٹر پر بیٹھنے کی اجازت طلب کی، کمپیوٹر پر بیٹھ کر میں نے قریباً دو گھنٹے میں اسلام اور دارالعلوم کی مناسبت پر قریباً دو سو صفحات پر مشتمل ایک پی ڈی ایف بناکر محفوظ کرلیا،،،
اس کے بعد میں نے ناظر بھائی سے کسی ہوٹل چلنے کی درخواست کی، چونکہ دور اندیشی کی وجہ سے میری بھوک بھی مر چکی تھی، لیکن جب معاملہ برعکس دیکھا تو کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی، ناظر بھائی ہمیں چکن فرائی سینٹر لےگئے جہاں میں نے ناظر بھائی کیلئے الگ اور اپنے لئے الگ چکن فرائی کا آڈر دیا، مجھے بھوک شدید تھی اس لئے اپنےلئے زیادہ مقدار میں چکن فرائی طلب کیا، لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ مجھ سے کھایا نہیں گیا، اس لئے میں ویٹر سے اسے پھینکنے کو کہہ دیا، ناظر بھائی یہ سن کر فوراً بول پڑے، کہ دیپک بھائی کیوں پھینک رہے ہیں اسے، آپ مجھے دیدیں، میں نے ناظر بھائی کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا کہ ہمارے یہاں تو جس گلاس پر ہاتھ لگادیا جائے اس سے پانی پینا تو دور، کوئی دوسرا شخص ہاتھ تک لگانا گوارہ نہیں کرتا، اور تم لوگ ایک غیرمسلم کا جوٹھا تک کھانے کو تیار، اتنی محبت اور ایسی تعلیم،،؟ میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈباگئے، میں نے ناظر بھائی کو اپنے گلے سے لگالیا، اور پیار سے گندھے پر ہاتھ کی تھپکیاں دینے لگا، ناظر بھائی کہنے لگے، ہم جس رزق کو برباد کردیتے ہیں، اسی رزق کیلئے غریب کتنے آس لگائے، ترستے رہتے ہیں، لیکن وہ انسان رزق کی قدر کو کیا جانے، جو ہمیشہ پیسوں سے کھیلا ہو، بلکہ رزق کی قدر تو کوئی ان سے پوچھے جن کے پاس کھانے کو ایک لقمہ بھی میسر نہیں ہوتے،
اس کے بعد ناظر بھائی ہمیں مہمان خانے تک ساتھ لائے اور آرام کرنے کو کہا، پھر کچھ ہی دیر بعد مہتمم صاحب کے آنے کی خبر ملی، مہمان خانے سے اٹیچ مہتمم صاحب کے روم میں جانے کی اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر میں اندر داخل ہوگیا، مہتمم صاحب خندہ پیشانی سے میرے استقبال کیلئے کھڑے ہوگئے، اتنا حسین چہرہ جس پر خوشیوں کے آثار نمایا تھے، دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوگیا، گفتگو میں بہت ہی مٹھاس تھی، مہتمم صاحب مجھے بیٹھنے کو کہہ کر خود گلاس میں پانی ڈھال کر مجھے پلائے، پھر چائے طلب کی گئی، مہتمم صاحب ناشتے پر بضد تھے، لیکن میں پہلے سے فارغ تھا، اسلئے چائے پر اتفاق کیا، گفتگو میں بہت ساری حقیقتوں پر مطلع بھی ہوئے، اور ہم نے بھی اپنی سرگرمیاں بتائی، پھر ایک ارادہ بھی ظاہر کیا، کہ اگلی بار ہم اُن صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ یہاں آئیں گے جو اِس امن کے گہوارے کو دہشت گردوں کا اڈہ بتاکر لوگوں کی ذہنیت کو خراب کر رہے ہیں، اخیر میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے رخصت لیا کہ مہتمم صاحب، آج تک ہم نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا، لیکن سیرت و اخلاق میں، محمؑد کے جیسا کسی انسان کو نہیں پایا، اور میری آنکھوں نے آج تک کروڑوں انسانوں کو دیکھا، لیکن آپ جیسا خوبصورت، اور نورانی چہرہ کبھی نہیں دیکھ.
No comments:
Post a Comment