السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
میرا سوال یہ ہے کہ باہر سے کچھ بندے جو یہاں مستقل کام کر رہے ہے ( ایمبرائیڈری) سب الگ الگ کماتے ہے لیکن چولا ایک ہی ہے انہوں نے قربانی کے لیے ایک بکری لائی ہے کیا ان سب کے لیے یہ کافی ہے۔۔۔ابن یوسف۔
الجواب بعون رب العباد:
***********************
تحریر/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
**************************
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
چونکہ یہ دو شخص الگ الگ کماتےہیں
، اور ایک ہی فیملی سے بھی انکا تعلق نہیں ہے
اسلئے بکری کی قربانی انکے لئے کافی نہیں ہوگی اور نہ ایسا کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
اگر ان سب لوگوں کا ایک ساتھ قربانی کرنے کا ارادہ ہے تو انکے لئے ایک صورت یہ ہے کہ وہ لوگ ایک گائے، بیل وغیرہ خرید لیں اور اس میں وہ سب لوگ شریک ہوسکتے ہیں۔
دلیل:ایک بکری یا ایک دنبہ صرف ایک آدمی اور اسکے اہل وعیال کی طرف سے قربان کرنا جائز اور کافی ہے۔
عطا بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی علیہ السلام کے زمانے میں قربانی کرنے کا طریقہ کیا تھا؟
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے گھروالوں کی طرف سے قربان کرتا اور وہ لوگ اس میں کھاتے اور کھلاتے تھے۔[ترمذی حدیث نمبر:1505 ، ابن ماجہ 3147]۔
اس حدیث کو امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔[صحیح ترمذی للالبانی رحمه الله تعالى].
صاحب تحفہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی واضح اور بین دلیل ہے کہ ایک بکری صرف ایک آدمی اور اسکے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرنا جائز ہے ، اسکے گھروالوں میں جتنے بھی افراد ہوں۔[تحفة الإحوذي].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ ایک سائل کے جواب میں فرماتے ہیں کہ قربانی میں ایک بکری ایک آدمی اور اسکے گھروالوں کی طرف سے کرنا جائز ہے۔اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے دو دنبے کی قربانی میں سے ایک اپنے طرف اور اپنے گھر والوں کی طرف سے کی اور دوسرا دنبہ کی قربانی اپنی امت کی طرف سے کی۔
اے سائل اگر آپ اپنے مستقل گھر میں رہتے ہیں آپ اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کریں وہی آپ کے لئے مشروع ہے۔
آپ کی قربانی آپ کے والد اور اسکے گھر والوں کی طرف سے کرنا کافی نہیں ہے کیونکہ وہ ایک الگ مستقل گھر میں رہتے ہیں اور اگر قربانی والا قربانی قرض لیکر کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر اسے اس قرض کے ادا کرنے کی طاقت ہو۔[ مجموع فتاوى الشيخ ابن باز18/37]۔
اونٹ گائے وغیرہ میں اشتراک جائز ہے اور بکری وغیرہ میں اشتراک جائز نہیں ہے۔
دلیل:جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے ھدیبہ کے سال نبی علیہ السلام کے سات لوگوں کی طرف سے قربانی کی ، اور گائے کو بھی سات کی طرف سے ذبح کیا۔[صحیح مسلم 1318]۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بڑے جانور اونٹ گائے میں سات افراد یا سات گھر شامل ہوسکتے ہیں۔
اسلئے آپ لوگ بڑا جانور خرید کر اس میں سات افراد شامل اور شریک ہوسکتے ہیں۔
لیکن آپ یہ یہ ایک بکرا سب کی طرف سے کفایت نہیں کرےگا کیونکہ ایسا کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بکری بھیڑ دنبہ وغیرہ میں اشتراک جائز نہیں ہے۔
اس پر علماء نے اجماع بھی نقل کیا ہے۔
علامہ ابن عبد البر رحمہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[التمهيد140/12]۔
امام ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بکری کی قربانی میں اشتراک اتفاقا جائز نہیں ہے۔[المفهم419/3]۔
امام نووی شارح مسلم فرماتے ہیں کہ اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ بکری کی قربانی میں اشتراک جائز نہیں ہے۔[شرح النووي على مسلم67/9].
*********************
خلاصہ:بکری دنبہ وغیرہ میں اشتراک جائز نہیں ہے اسلئے ایسا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اسلئے آپ لوگوں کا ایک ساتھ بکرا خرید کر لانا اور اس میں سب افراد یا ایک سے زائد افراد کا شریک ہونا صحیح نہیں یے اور نہ یہ قربانی سب کے طرف سے کفایت کرے گی آپ کے لئے یہی مشروع ہے کہ آپ میں سے صرف ایک ہی آدمی اس بکرے کو قربان کرے۔
اس سال ایک فرد قربانی کرے اور آئندہ سال دوسرا شخص قربانی کرے اور یہی طریقہ صحیح ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.
No comments:
Post a Comment