Shab-E-Meraj Ke Mauke Pe Roze ki Fazilat.
Kis Rat Ko Roze Rakhni chahiye?
27 رجب، واقعۂ معراج اور شبِ معراج کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے اور ان سے متعلق متعدد غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ایک اہم اور مفید تحریر… پڑھیے، عمل کیجیے اور دوسروں تک پہنچائیے!!
معراج سے متعلق ہمارا عقیدہ:
قرآن وسنت سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور ﷺ کو بیداری کی حالت میں جسمانی طور پر معراج عطا ہوئی کہ حضور ﷺ حالتِ بیداری میں جسمانی طور پر مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور پھر وہاں سےاوپر آسمانوں میں تشریف لے گئے۔ یہی ہمارا حق عقیدہ ہے۔
(معارف القرآن، عقائد اسلام از شیخ التفسیر مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ)
واقعہ معراج اور التحیات کا پسِ منظر:*
بعض کتب میں التحیات سے متعلق یہ پسِ منظر لکھا ہے کہ معراج کی رات حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا: اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ (تمام قولی عبادتیں، فعلی عبادتیں اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں)، تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُهٗ (سلام ہو آپ پر اے نبی! اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں)، تو حضور ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ (سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر)۔
🔅حکم: معراج سے متعلق جتنی معتبر احادیث کتبِ احادیث میں موجود ہیں ان میں یہ واقعہ موجود نہیں، حتی کہ امام العصر خاتمۃ المحدثین محقق جلیل حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ ’’العرف الشذی شرح سنن الترمذی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئی سند نہیں مل سکی۔ اس لیے التحیات کا یہ پسِ منظر معتبر ذرائع سے ثابت نہیں۔
▫العرف الشذی شرح سنن الترمذی میں ہے:
وذكر بعض الأحناف: قال رسول الله ﷺ في ليلة الإسراء: «التحيات لله» إلخ، قال الله تعالى: السلام عليك أيها النبي إلخ، قال رسول الله ﷺ: «السلام علينا وعلى عباد الله» إلخ، ولكني لم أجد سند هذه الرواية، وذكره في الروض الأنف.
(باب ما جاء في التشهد)
🌺 *معراج کی رات حضور ﷺ کا عرش پر جانے کا ثبوت:*
احادیث مبارکہ میں واقعہ معراج تفصیلی طور بیان کیا گیا ہے، جس میں حضور ﷺ کا ساتویں آسمان تک جانا، سدرۃ المنتہی تک پہنچنا، تقدیر لکھنے والے قلم کی آواز سننا، جنت اور جہنم کے چند مناظر دیکھنا، اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا اور اللہ سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرنا اور اس جیسے دیگر امور تو واضح طور پر ثابت ہیں (جن کی تفصیل حضرات اکابر کی کتب میں موجود ہے۔)، لیکن سدرۃ المنتہی اور دیگر مذکورہ بالا مقامات سے بھی اوپر حضور ﷺ کا عرشِ الٰہی پر جانا ان میں سے کسی بھی معتبر روایت میں مذکور نہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ دارالعلوم زکریا1/37-42
🌺 *کیا ستائیس رجب کی رات معراج کا واقعہ پیش آیا؟*
ماہِ رجب سے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے کی ستائیس تاریخ کو معراج کا واقعہ پیش آیا۔ واضح رہے کہ معراج کا یہ واقعہ کس مہینے میں اور کس تاریخ کو پیش آیا، اس سے متعلق یقینی طور پر کچھ کہنا بہت ہی مشکل ہے، عام طور پر مشہور تو یہی ہے کہ 27 رجب کی رات کو یہ عظیم واقعہ پیش آیا لیکن واضح رہے کہ قرآن وسنت سے اس حوالے سے کوئی واضح اور معتبر بات ثابت نہیں حتی کہ اس رات کی تعیین میں حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور اکابرِ امت کا شدید اختلاف رہا ہے۔ اس لیے حضرات اکابر کے نزدیک رجب کی 27 تاریخ ہی کو یقینی طور پر شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔
🌺 *کیا شبِ معراج کی کوئی فضیلت یا عبادت ثابت ہے؟*
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ رات بڑی ہی فضیلت اور سعادت والی تھی جس میں معراج کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا، لیکن شبِ معراج کے بارے میں قرآن و حدیث سے کسی قسم کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں، اور نہ ہی حضور ﷺ اور ان کے صحابہ کرام نے شبِ معراج منانے یا جاگ کر گزارنے کا اہتمام کیا ہے، اسی طرح اس رات سے متعلق مخصوص عبادات یا اس طرح کا کوئی بھی عمل معتبر دلائل سے ثابت نہیں۔ آجکل بعض لوگوں نے ستائیس رجب کے حوالے سے اپنی طرف سے ایک نماز ایجاد کر رکھی ہے کہ دو یا چار رکعات اس طرح ادا کی جائیں کہ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد فلاں سورت اتنی بار پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی بار پڑھی جائےتو واضح رہے کہ یہ بھی قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔ اس لیے اپنی طرف سے کسی رات سےمتعلق فضائل بیان کرنا یا عبادات خاص کرنا شریعت کے خلاف اور بہت بڑا جرم ہے۔ اس لیے آجکل لوگوں نے شبِ معراج یا ستائیس رجب سے متعلق جس قدر بھی فضائل اور عبادات ایجاد کی ہیں وہ سب خود ساختہ ہیں، جن سے اجتناب ضروری ہے۔ امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’تبیین العجب بما ورد فی شہر رجب‘‘ کے نام سے ایک بہترین کتاب تحریر فرمائی ہے جس میں انھوں نے ماہِ رجب سے متعلق لوگوں میں رائج بے بنیاد اور غیر معتبر روایات اور فضائل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، ان کی تحقیقی کے مطابق لوگوں میں شبِ معراج یا ستائیس رجب سے متعلق جس قدر بھی فضائل اور عبادات رائج ہیں وہ سب غیر معتبر اور بے اصل ہیں۔
🌺 *27 رجب کی رات کو معراج سے متعلق جلسہ کرنے کا حکم:*
ماقبل کی تفصیل سے جب یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرات اکابر کے نزدیک رجب کی 27 تاریخ ہی کو یقینی طور پر شبِ معراج قرار دینا درست نہیں تو اس سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس رات کو شبِ معراج قرار دے کر معراج سے متعلق جلسہ منعقد کرنا بھی درست نہیں بلکہ دورِ حاضر میں یہ متعدد مفاسد کا سبب ہے۔ بہت سی مساجد میں اس رات خصوصیت کے ساتھ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے، مساجد کو سجایا جاتا ہے، رات بھر عمومی اسپیکر کے ذریعے بیان اور نعت خوانی کرکے محلے والوں کی آرام وراحت میں خلل ڈالا جاتا ہے، ماہِ رجب سے متعلق بے بنیاد فضائل بیان کیے جاتے ہیں اور اسی طرح دیگر غیر شرعی امور کا بھی ارتکاب کیا جاتا ہے، تو یاد رہے کہ یہ بھی غیر شرعی کام ہیں۔
(امداد الفتاویٰ، فتاویٰ محمودیہ، کفایت المفتی، اصلاحی خطبات، ماہِ رجب کے فضائل واحکام)
🌺 *واقعۂ معراج کا حقیقی درس:*
واقعۂ معراج کی رات کوئی ایسی رات نہیں کہ جس کو ایک تہوار کی صورت دے کر منانے کا اہتمام کیا جائے، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس واقعۂ معراج میں پیش آنے والے واقعات اور مشاہدات سے ہم سبق لیں، اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس پورے واقعہ سے جن اعمال کو کرنے کی اہمیت معلوم ہورہی ہے ان کو سرانجام دینے کی کوشش کی جائے اور جن کاموں سے بچنے کی دعوت دی گئی ہے ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
(احسن الفتاویٰ، اصلاحی خطبات، ماہِ رجب کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب)
🌺 *ستائیس رجب کے بعض دیگر غیر شرعی اعمال:*
ماہِ رجب کی ستائیس تاریخ کو آتش بازی کرنا، پٹاخے پھاڑنا، جھنڈیاں لگانا، قمقمے لگانا، چراغاں کرنا سراسر ناجائز ہے۔
(امداد الفتاویٰ، فتاویٰ محمودیہ، کفایت المفتی، اصلاحی خطبات، ماہِ رجب کے فضائل واحکام)
🌺 *ماہِ رجب میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنے کا حکم:*
بہت سے لوگ رجب کے مہینے میں بائیس، ستائیس یا کسی اور تاریخ کو خصوصی طور پر کھانے پینے کی چیزیں تیار کرکے محلے والوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں اور اس کے فضائل اور فوائد بیان کرتے ہیں، یاد رہے کہ ایسا کرنا ناجائز اور بدعت ہیں۔ اس سے بائیس رجب کے کونڈوں کا حکم بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ لوگ اس تاریخ کو کچھ چاول، میٹھا یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں تیارکرکے تقسیم کرتے ہیں تو یہ رسم بھی دین کے خلاف ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ، احسن الفتاویٰ، ماہِ رجب کے فضائل واحکام)
🌺 *27 رجب کے روزے کی حقیقت:*
اس مہینے میں دیگر عبادات کی طرح روزے رکھنے کی بھی فضیلت ہے، خودحضور ﷺ سے بھی، اسی طرح بعض صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھی اس ماہ میں روزے رکھنا ثابت ہے، اس لیے رجب کے پورے مہینے میں کسی بھی دن روزہ رکھا جاسکتا ہے، عمومی طور پر ہر دن کے روزے کی فضیلت ہے، چنانچہ ہر شخص اپنی وسعت و طاقت کے مطابق پورے مہینے میں جتنے بھی چاہے روزے رکھ سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رجب کے مہینے میں روزہ رکھنے کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں، اور نا ہی معتبر احادیث سے ماہِ رجب کے کسی خاص دن کے روزے کی فضیلت ثابت ہے، اس لیے جو لوگ ستائیس رجب یا کسی اور تاریخ کو روزے کے لیے خاص کرکے اس کے لیے اپنی طرف سے فضائل بیان کرتے ہیں وہ واضح غلطی کا شکار ہیں۔ جیسے آجکل لوگ ستائیس رجب کے روزے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، اس کو ہزاری کا روزہ کہتے ہیں، تو اس کی خاص فضیلت معتبر احادیث سے ثابت نہیں، بلکہ یہ رجب کے عام دنوں کی طرح ایک دن ہے، البتہ ان بے بنیاد باتوں سے بچتے ہوئے اگر کوئی شخص ستائیس تاریخ کو رجب کی عام تاریخ سمجھتے ہوئے روزہ رکھ لیتا ہے تو یہ جائز ہے کیوں کہ یہ بھی رجب ہی کا ایک دن ہے۔ ساتھ میں یہ بات بھی واضح رہے کہ رجب میں روزے رکھنا زیادہ سے زیادہ مستحب عمل ہے، اس لیے اس کو ضروری سمجھنا اوراس معاملے میں حدود سے تجاوز کرنا ناجائز ہے۔
(سنن ابی داود حدیث: 2432، فتاویٰ عالمگیریہ، فتح الملہم، امداد الفتاویٰ، فتاویٰ محمودیہ، ماہِ رجب کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب)
۔۔۔مبین الرحمٰن
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
متخصص جامعہ اسلامیہ طیبہ کراچی
No comments:
Post a Comment