Qurbani Ke Ahkaam-O-Masail
قربانی اہل علم کے نزدیک سنت مؤكده ہے۔امام ترمذی -رحمہ اللہ- قربانی کی سنیت پر حضرت عبد اللہ بن عمر کا ایک اثر ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
" والعمل على هذا عند أهل العلم أن الأضحية ليست واجبة، ولكنها سنة من سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستحب أن يعمل بها."*(سنن ترمذی:1506)
*"اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، البتہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے جس پر عمل کرنا مستحب ہے۔"
قربانی حکم الہی ہے۔
"فصل لربك وانحر."(سورة الكوثر:2)
"تو آپ اپنے رب کے لئے قربانی کریں اور نماز پڑھیں۔"
قربانی سنت نبوی ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا نصلي، ثم نرجع فننحر، من فعله فقد أصاب سنتنا...(صحيح البخاري:5545)
یعنی آج (عید) کے دن ہم سب سے پہلے (عید کی) نماز پڑھیں گے پھر (عید گاہ سے) واپس لوٹ کر قربانی کریں گے، جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔۔۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
"أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي كل سنة."(رواه الترمذي وقال حديث حسن:1507)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا اور (اس دوران) آپ ہر سال قربانی کرتے رہے۔* (دیکھئے:سنن ترمذی:1507)
صحابہ کرام سے بھی بدستور قربانی کرنے کا عمل ثابت ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ:
"ضحى رسول الله والمسلمون."*(رواہ الترمذي وقال حدیث حسن صحیح:1506)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔"
مذکورہ بالا روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا حکم صرف حاجیوں کے لئے خاص نہیں ہے جیساکہ منکرین حدیث کا باطل نظریہ ہے، بلکہ دیگر مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے اور یہی اہل سنت وجماعت اور تمام امت کا شروع سے آج تک موقف رہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ حاجیوں پر واجب ہے (سوائے مفرد حاجیوں کے) اور دیگر مسلمانوں کے لئے مسنون ہے۔
✍ قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
*"وفديناه بذبح عظيم."*(الصافات:107)
*"اور ہم نے (ابراہیم علیہ السلام کو) بدلے میں ایک بڑا ذبیحہ دیا۔"*
✍ رسم قربانی ہر امت میں ادا کی جاتی رہی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"ولكل أمة جعلنا منسكا"*(سورة الحج:34)
"اور ہم نے ہر امت میں قربانی کا طریقہ مقرر کیا۔"*
ہر صاحب استطاعت اہل خانہ کو ہر سال ایک قربانی کرنی چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"أيها الناس! إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية."*(سنن أبو داود:2788 سنن ترمذی:1518)
"اے لوگو! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ہے۔"
استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنا قدرے ناپسندیدہ عمل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"من وجد سعة لأن يضحي فلم يضح فلا يحضر مصلانا."*(صحيح الترغيب والترهيب:1087)
"جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔"
قربانی ایک عبادت ہے، قربت الہی کا ذریعہ ہے، دینی وملی شعار ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو شریعت میں مقصود اور مطلوب ہے، لہذا جانور قربان کرنے بجائے اس کو یا اس کی قیمت کو صدقہ کر دینا درست نہیں ہے اور اس سے نہ رسم قربانی ادا ہوگی اور نہ قربانی کا ثواب ہوگا۔
✍ جیساکہ اوپر حدیث گزری قربانی ہر صاحب استطاعت گھر پر ہے، فرد پر نہیں ہے، لہذا قربانی گھر کے کسی ایک فرد یا بعض افراد کے بجائے گھر کے سرپرست اور پورے گھر والوں کی طرف سے ہونی چاہئے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے کہ گھر کا سرپرست اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے یہ فرماتے تھے کہ:
*"بسم الله، اللهم تقبل من محمد وآل محمد..."*(صحيح مسلم:1967)
✍ تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے، گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے الگ الگ قربانی ضروری نہیں ہے۔
چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة الواحدة عن جميع أهله."*(رواه الطبراني الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح، مجمع الزوائد:4/21) یعنی *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے قربان کرتے تھے۔*
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نو بیویاں تھیں، تین بیٹے تھے اور چار بیٹیاں تھیں، اور آپ ہر سال قربانی کرتے تھے اس کے باوجود یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے کبھی ان کی طرف سے یا ان میں سے کسی ایک کی طرف سے قربانی کی ہو۔
اور صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا جیساکہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
*"كان الرجل في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته۔۔۔حتى تب
قربانی حکم الہی ہے۔
"فصل لربك وانحر."(سورة الكوثر:2)
"تو آپ اپنے رب کے لئے قربانی کریں اور نماز پڑھیں۔"
قربانی سنت نبوی ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا نصلي، ثم نرجع فننحر، من فعله فقد أصاب سنتنا...(صحيح البخاري:5545)
یعنی آج (عید) کے دن ہم سب سے پہلے (عید کی) نماز پڑھیں گے پھر (عید گاہ سے) واپس لوٹ کر قربانی کریں گے، جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔۔۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
"أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي كل سنة."(رواه الترمذي وقال حديث حسن:1507)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا اور (اس دوران) آپ ہر سال قربانی کرتے رہے۔* (دیکھئے:سنن ترمذی:1507)
صحابہ کرام سے بھی بدستور قربانی کرنے کا عمل ثابت ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ:
"ضحى رسول الله والمسلمون."*(رواہ الترمذي وقال حدیث حسن صحیح:1506)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔"
مذکورہ بالا روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا حکم صرف حاجیوں کے لئے خاص نہیں ہے جیساکہ منکرین حدیث کا باطل نظریہ ہے، بلکہ دیگر مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے اور یہی اہل سنت وجماعت اور تمام امت کا شروع سے آج تک موقف رہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ حاجیوں پر واجب ہے (سوائے مفرد حاجیوں کے) اور دیگر مسلمانوں کے لئے مسنون ہے۔
✍ قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
*"وفديناه بذبح عظيم."*(الصافات:107)
*"اور ہم نے (ابراہیم علیہ السلام کو) بدلے میں ایک بڑا ذبیحہ دیا۔"*
✍ رسم قربانی ہر امت میں ادا کی جاتی رہی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"ولكل أمة جعلنا منسكا"*(سورة الحج:34)
"اور ہم نے ہر امت میں قربانی کا طریقہ مقرر کیا۔"*
ہر صاحب استطاعت اہل خانہ کو ہر سال ایک قربانی کرنی چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"أيها الناس! إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية."*(سنن أبو داود:2788 سنن ترمذی:1518)
"اے لوگو! بے شک ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ہے۔"
استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنا قدرے ناپسندیدہ عمل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"من وجد سعة لأن يضحي فلم يضح فلا يحضر مصلانا."*(صحيح الترغيب والترهيب:1087)
"جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔"
قربانی ایک عبادت ہے، قربت الہی کا ذریعہ ہے، دینی وملی شعار ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو شریعت میں مقصود اور مطلوب ہے، لہذا جانور قربان کرنے بجائے اس کو یا اس کی قیمت کو صدقہ کر دینا درست نہیں ہے اور اس سے نہ رسم قربانی ادا ہوگی اور نہ قربانی کا ثواب ہوگا۔
✍ جیساکہ اوپر حدیث گزری قربانی ہر صاحب استطاعت گھر پر ہے، فرد پر نہیں ہے، لہذا قربانی گھر کے کسی ایک فرد یا بعض افراد کے بجائے گھر کے سرپرست اور پورے گھر والوں کی طرف سے ہونی چاہئے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے کہ گھر کا سرپرست اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے یہ فرماتے تھے کہ:
*"بسم الله، اللهم تقبل من محمد وآل محمد..."*(صحيح مسلم:1967)
✍ تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے، گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے الگ الگ قربانی ضروری نہیں ہے۔
چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة الواحدة عن جميع أهله."*(رواه الطبراني الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح، مجمع الزوائد:4/21) یعنی *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے قربان کرتے تھے۔*
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نو بیویاں تھیں، تین بیٹے تھے اور چار بیٹیاں تھیں، اور آپ ہر سال قربانی کرتے تھے اس کے باوجود یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے کبھی ان کی طرف سے یا ان میں سے کسی ایک کی طرف سے قربانی کی ہو۔
اور صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا جیساکہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
*"كان الرجل في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته۔۔۔حتى تب
اهى الناس فصارت كما ترى.*(سنن الترمذي:1505)
*یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربان کرتا تھا۔۔۔یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے تو اب جو صورت حال ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔*
معلوم ہوا کہ ایک گھر میں کئی ایک قربانیوں کو ضروری معمول بنا لینا یا تمام افراد خانہ کی طرف سے الگ الگ قربانیوں کی لازمی پابندی کرنا نہ صرف یہ کہ ایک غیر ضروری عمل اور عہد رسالت وصحابہ کے معمول کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاکاری وشہرت طلبی اور فخر ومباہات میں پڑنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
✍ جیساکہ اہل علم کا موقف معلوم ہوا کہ قربانی سنت ہے، واجب نہیں ہے، اور یہ صاحب استطاعت پر ہے، اس لئے جس کے پاس استطاعت نہ ہو اور مستقبل قریب میں اس کی امید بھی نہ ہو تو اس کو قربانی کے کے لئے قرض لینے کی زحمت نہیں اٹھانی چاہئے۔
✍ قربانی زندہ لوگوں پر ہے، فوت شدگان پر نہیں ہے، لہذا مردوں کی طرف سے خصوصی یا مستقل قربانی کرنا مسنون نہیں ہے۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اپنی کسی فوت شدہ بیوی یا فوت شدہ بیٹے اور بیٹی یا فوت شدہ چچا کی طرف سے خصوصی یا مستقل قربانی کی ہو۔
فوت شدہ لوگوں کی طرف سے قربانی کے جواز میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں وہ محدثین کے نزدیک یا تو ضعیف ہیں یا مختلف فیہ ہیں پھر وہ محمول ہیں اس پر کہ فوت شدگان نے قربانی کی وصیت کی ہو تو ان کی طرف سے قربانی کی جائے گی یا اس پر کہ مستقل طور پر نہیں بلکہ زندہ لوگوں کی طرف سے کی جانے والی قربانی میں تبعا اور ضمنی طور پر ان کو بھی شامل کر لیا جائے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا آپ کی خصوصیات میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔
✍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرنا مسنون نہیں ہے، کیونکہ نہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اس کا حکم دیا ہے اور نہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی ترغیب دی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے معاملے میں بے نیاز ہیں اور کسی امتی کے ایصال ثواب کے محتاج نہیں ہیں۔
اور ویسے بھی ایک مسلمان جو بھی نیکی کرتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا برابر اجر ملتا ہے۔
ایک ہی جانور کو قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور یوں بھی قربانی اور عقیقہ دونوں الگ اور مستقل عبادت ہے، لہذا ایک کو دوسرے میں داخل کرنا مناسب نہیں ہے۔ قربانی گھر کی طرف سے ہوتی ہے اور عقیقہ فرد کی طرف سے ہوتا ہے، قربانی ہر سال یوم عید اور ایام تشریق میں مسنون ہے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار بچے کی ولادت کے ساتویں دن مسنون ہے، قربانی میں بڑا جانور بھی مسنون ہے اور اس میں شراکت بھی ہوتی ہے اور عقیقہ میں چھوٹا جانور مسنون ہے اور اس میں شراکت بھی نہیں ہوتی ہے، کیونکہ عقیقہ نو مولود بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے اس لئے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح اس کے فدیے (یعنی عقیقے) میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہئے۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب
*یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربان کرتا تھا۔۔۔یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے تو اب جو صورت حال ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔*
معلوم ہوا کہ ایک گھر میں کئی ایک قربانیوں کو ضروری معمول بنا لینا یا تمام افراد خانہ کی طرف سے الگ الگ قربانیوں کی لازمی پابندی کرنا نہ صرف یہ کہ ایک غیر ضروری عمل اور عہد رسالت وصحابہ کے معمول کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاکاری وشہرت طلبی اور فخر ومباہات میں پڑنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
✍ جیساکہ اہل علم کا موقف معلوم ہوا کہ قربانی سنت ہے، واجب نہیں ہے، اور یہ صاحب استطاعت پر ہے، اس لئے جس کے پاس استطاعت نہ ہو اور مستقبل قریب میں اس کی امید بھی نہ ہو تو اس کو قربانی کے کے لئے قرض لینے کی زحمت نہیں اٹھانی چاہئے۔
✍ قربانی زندہ لوگوں پر ہے، فوت شدگان پر نہیں ہے، لہذا مردوں کی طرف سے خصوصی یا مستقل قربانی کرنا مسنون نہیں ہے۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اپنی کسی فوت شدہ بیوی یا فوت شدہ بیٹے اور بیٹی یا فوت شدہ چچا کی طرف سے خصوصی یا مستقل قربانی کی ہو۔
فوت شدہ لوگوں کی طرف سے قربانی کے جواز میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں وہ محدثین کے نزدیک یا تو ضعیف ہیں یا مختلف فیہ ہیں پھر وہ محمول ہیں اس پر کہ فوت شدگان نے قربانی کی وصیت کی ہو تو ان کی طرف سے قربانی کی جائے گی یا اس پر کہ مستقل طور پر نہیں بلکہ زندہ لوگوں کی طرف سے کی جانے والی قربانی میں تبعا اور ضمنی طور پر ان کو بھی شامل کر لیا جائے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا آپ کی خصوصیات میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔
✍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرنا مسنون نہیں ہے، کیونکہ نہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اس کا حکم دیا ہے اور نہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی ترغیب دی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے معاملے میں بے نیاز ہیں اور کسی امتی کے ایصال ثواب کے محتاج نہیں ہیں۔
اور ویسے بھی ایک مسلمان جو بھی نیکی کرتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا برابر اجر ملتا ہے۔
ایک ہی جانور کو قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور یوں بھی قربانی اور عقیقہ دونوں الگ اور مستقل عبادت ہے، لہذا ایک کو دوسرے میں داخل کرنا مناسب نہیں ہے۔ قربانی گھر کی طرف سے ہوتی ہے اور عقیقہ فرد کی طرف سے ہوتا ہے، قربانی ہر سال یوم عید اور ایام تشریق میں مسنون ہے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار بچے کی ولادت کے ساتویں دن مسنون ہے، قربانی میں بڑا جانور بھی مسنون ہے اور اس میں شراکت بھی ہوتی ہے اور عقیقہ میں چھوٹا جانور مسنون ہے اور اس میں شراکت بھی نہیں ہوتی ہے، کیونکہ عقیقہ نو مولود بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے اس لئے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح اس کے فدیے (یعنی عقیقے) میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہئے۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب
क़ुर्बानी के अहकाम व मसाएल
क़ुर्बानी सुन्नते मुअक्कदा है, जैसाकि इमाम तिर्मिज़ी रहिमहुल्लाह फ़रमाते हैं:
"والعمل على هذا عند أهل العلم أن الأضحية ليست واجبة، ولكنها سنة من سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستحب أن يعمل بها."*(سنن ترمذی:1506)
“और उलमा के नज़दीक इसी पर अमल है कि क़ुर्बानी वाजिब नहीं है, अलबत्ता यह रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम की सुन्नतों में से एक सुन्नत है जिसपर अमल करना मुस्तहब है”|क़ुर्बानी हुक्मे इलाही है, जैसाकि क़ुरआन मजीद में है:
"فصل لربك وانحر."(سورة الكوثر:2)
“तो आप अपने रब के लिए नमाज़ पढ़ें और और क़ुर्बानी करें”|क़ुर्बानी सुन्नते नबवी है, जैसाकि हदीस में है:
"إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا نصلي، ثم نرجع فننحر، من فعله فقد أصاب سنتنا..."(صحيح البخاري:5545)
“आज (ईद) के दिन हम सबसे पहले (ईद की) नमाज़ पढ़ेंगे, फिर (ईदगाह से) वापस लौटकर क़ुर्बानी करेंगे, जिसने यह किया उसने हमारी सुन्नत को पा लिया”|और हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ियल्लाहु अन्हुमा ब्यान करते हैं कि:
"أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي كل سنة." (رواه الترمذي وقال حديث حسن:1507)
“नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने मदीना में दस साल क़ियाम फ़रमाया और (इस दौरान) आप हर साल क़ुर्बानी करते रहे”|साहबा किराम से भी बदस्तूर क़ुर्बानी करने का अमल साबित है, जैसाकि हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ियल्लाहु अन्हुमा फ़रमाते हैं कि:
"ضحى رسول الله والمسلمون."(رواہ الترمذي وقال حدیث حسن صحیح:1506)
“रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने और मुसलमानों ने क़ुर्बानी की है”|इन रिवायतों से यह भी मालूम हुआ कि क़ुर्बानी का हुक्म सिर्फ़ हाजियों के लिए नहीं है जैसाकि हदीस का इंकार करने वालों का कहना है, बल्कि अन्य मुसलमानों के लिए भी है और यही अहले सुन्नत व जमाअत और तमाम उम्मत का शुरू से आज तक मानना रहा है, फ़र्क सिर्फ़ इतना है कि क़ुर्बानी हाजियों पर वाजिब है (सिवाए मुफ़रिद हाजियों के) जबकि अन्य मुसलमानों के लिए मुस्तहब है |
क़ुर्बानी सुन्नते इब्राहिमी की यादगार है, जैसाकि अल्लाह तआला का फ़रमान है:
"وفديناه بذبح عظيم."(الصافات:107)
“और हमने (इब्राहीम अलिहिस्सलाम) को बदले में एक बड़ा ज़बीहा दिया”✍क़ुर्बानी की रस्म हर उम्मत में अदा की जाती रही है, जैसाकि अल्लाह तआला का फ़रमान है:
"ولكل أمة جعلنا منسكا"(سورة الحج:34)
“और हम ने हर उम्मत में क़ुर्बानी का तरीक़ा मुक़र्रर किया”ताक़त रखने वाले हर परिवार को हर साल क़ुर्बानी करनी चाहिए, जैसाकि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम का फ़रमान है:
"أيها الناس! إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية." (سنن أبو داود:2788 سنن ترمذی:1518)
“ऐ लोगो ! बेशक हर घर वालों पर हर साल एक क़ुर्बानी है”ताक़त रखने के बावजूद क़ुर्बानी न करना पसंदीदा अमल नहीं है , क्योंकि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम इरशाद है:
"من وجد سعة لأن يضحي فلم يضح فلا يحضر مصلانا." (صحيح الترغيب والترهيب:1087)
“जो आदमी ताक़त के बावजूद क़ुर्बानी न करे वह हमारी ईदगाह में हाज़िर न हो”क़ुर्बानी एक इबादत, कुर्बते इलाही का ज़रिया, और दीनी व मिल्ली शिआर है, यह एक ऐसा अमल है जो शरीअत में मतलूब है, इसलिए जानवर क़ुर्बान करने के बजाए उसको या उसकी क़ीमत को सदक़ा कर देना दुरुस्त नहीं है और इससे न क़ुर्बानी की रस्म अदा होगी और न क़ुर्बानी का सवाब मिलेगा |
जैसाकि ऊपर हदीस गुज़री क़ुर्बानी ताक़त रखने वाले हर घर पर है, हर सदस्य पर नहीं है, इसलिए क़ुर्बानी घर के किसी एक या अनेक सदस्य के बजाए घर के गार्जियन और पूरे घर वालों की तरफ़ से होनी चाहिए |
नबी करीम सल्लल्लाहु का अमल भी इसी पर दलालत करता है कि परिवार का सदस्य अपनी और अपने घर वालों की तरफ़ से क़ुर्बानी करे, चुनांचे हदीस में है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम क़ुर्बानी का जानवर ज़बह करते हुए यह फ़रमाते थे कि:
"بسم الله، اللهم تقبل من محمد وآل محمد..."(صحيح مسلم:1967)
“शुरू करता हूं अल्लाह के नाम से, ऐ अल्लाह ! क़बूल फ़रमा मुहम्मद से और आले मुहम्मद से...”तमाम घर वलों की तरफ़ से एक क़ुर्बानी काफ़ी है, घर के हर हर सदस्य की तरफ़ से अलग अलग क़ुर्बानी ज़रुरी नहीं है, नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व् सल्लम का मामूल इसी पर दलालत करता है, चुनांचे हदीस में है कि:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة الواحدة عن جميع أهله."(رواه الطبراني الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح، مجمع الزوائد:4/21)
“नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम एक बकरी अपने तमाम घर वालों की तरफ़ से कुर्बान करते थे”स्पष्ट रहे कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को नौ बीवियां थीं, तीन बेटे थे, और चार बेटियां थीं और आप हर साल क़ुर्बानी करते थे इसके बावजूद यह साबित नहीं है कि आपने कभी उनकी तरफ़ से या उनमें से किसी एक की तरफ़ से अलग से कोई क़ुर्बानी की हो
यहां तक कि सहाबा किराम का भी यही मामूल था, जैसा कि हज़रत अबू अय्यूब अंसारी रज़ियल्लाहु अन्हु बयान करते हैं कि:
"كان الرجل في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته۔۔۔حتى تباهى الناس فصارت كما ترى."(سنن الترمذي:1505)
“नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के ज़माने में एक आदमी अपने और अपने घर वालों की तरफ़ से एक ही बकरी क़ुर्बान करता था...यहां तक कि लोग एक दूसरे पर फ़ख्र जताने लगे तो अब जो सूरते हाल है वह तुम देख रहे हो”मालूम हुआ कि घर के हर एक सदस्य की तरफ़ से अलग अलग क़ुर्बानी को या एक घर में अनेक क़ुर्बानियों को लाज़िमी मामूल बना लेना न सिर्फ़ यह कि एक ग़ैर ज़रुरी अमल और रसूल व सहाबा के ज़माने के मामूल के ख़िलाफ़ है बल्कि यह दिखावे और फ़ख्र जताने का ज़रिया भी बन सकता है |
✍जैसाकि मालूम हुआ कि क़ुर्बानी सुन्नत है, वाजिब नहीं, और वह उसकी ताक़त रखने वाले पर है, इसलिए जिसके पास इसकी ताक़त न हो और आने वाले क़रीबी दिनों में इसकी उम्मीद भी न हो तो उसको क़ुर्बानी के लिए क़र्ज़ लेने का कष्ट नहीं उठाना चाहिए |
✍क़ुर्बानी ज़िन्दा लोगों पर है, वफ़ात पा चुके लोगों पर नहीं है, इसलिए वफ़ात पा चुके लोगों की तरफ़ से ख़ुसूसी या मुस्तक़िल क़ुर्बानी करना मसनून नहीं है |
क्योंकि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम से साबित नहीं है कि आप ने अपनी किसी वफ़ात पा चुकी बीवी या बेटे या बेटी या चचा की तरफ़ से कभी कोई ख़ुसूसी या मुस्तक़िल क़ुर्बानी की हो |
वफ़ात पा चुके लोगों की तरफ़ से क़ुर्बानी के जवाज़ में जो रिवायतें पेश की जाती हैं वह मुहद्देसीन के नज़दीक या तो ज़ईफ़ हैं या उनके सही और ज़ईफ़ होने में मतभेद है, या फिर वह इस सूरत पर महमूल हैं कि अगर वफ़ात पा चुके लोगों ने वसीयत की हो तो उनकी तरफ़ से क़ुर्बानी की जाएगी या इस सूरत पर कि ज़िन्दा लोगों की तरफ़ से की जाने वाली क़ुबानी में उनको भी ज़िमनी तौर पर शामिल कर लिया जाए, और यह भी संभव है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम का अपनी उम्मत की तरफ़ से क़ुर्बानी करना आपकी ख़ुसूसियात में शामिल हो |
नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम की तरफ़ से भी क़ुर्बानी करना मसनून नहीं है, क्योंकि न अल्लाह तआला ने अपने बन्दों को इसका हुक्म दिया है और न ख़ुद नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने अपनी उम्मत को इसकी तालीम दी है |
नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम की तरफ़ से क़ुर्बानी करने की कोई ज़रूरत भी नहीं है, क्योंकि आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम नेकी के मामले बेनियाज़ हैं और किसी उम्मती के ईसाले सवाब के मोहताज नहीं हैं, और वैसे भी एक मुसलमान जो भी नेकी करता है नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को उसका बराबर सवाब मिलता है |
एक ही जानवर को क़ुर्बानी और अक़ीक़े की साझा नीयत से ज़बह करना दुरुस्त नहीं है, क्योंकि शरीअत में इसका कोई सुबूत नहीं मिलता, और यूं भी क़ुर्बानी और अक़ीक़ा दोनों अलग और मुस्तक़िल इबादत है, इसलिए एक को दूसरे में दाख़िल करना मुनासिब नहीं है, चुनांचे क़ुर्बानी पूरे परिवार की तरफ़ से होती है जबकि अक़ीक़ा किसी सदस्य की तरफ़ से होता है, क़ुर्बानी हर साल ईद के दिन और तशरीक़ के दिनों में मसनून है जबकि अक़ीक़ा ज़िन्दगी में सिर्फ़ एक बार बच्चे के जन्म के सातवें दिन मसनून है, क़ुर्बानी में बड़ा जानवर भी मसनून है और उसमें साझेदारी भी होती है जबकि अक़ीक़ा में छोटा जानवर मसनून है और उसमें साझेदारी भी नहीं होती है क्योंकि अक़ीक़ा नवजात बच्चे की तरफ़ से फ़िदया होता है इसलिए जिस तरह बच्चा एक सम्पूर्ण जान है उसी तरह उसके फ़िदये (यानी अक़ीक़े) में ज़बह किया जाने वाला जानवर भी मुकम्मल जान होना चाहिए.
आप का भाई: इफ्तिख़ार आलम मदनी
इस्लामिक गाइडेंस सेंटर जुबैल सऊदी अरब
No comments:
Post a Comment