Ehraam Ki kitni Halatein Hai?
احرام کی تین حالتیں ہے۔
1۔ بندہ حج کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھے اور یہ تلبیہ پڑھے: "لبيك اللهم عمرة متمتعا بها إلى الحج" پھر مکہ پہنچ کر طواف، سعی اور تقصیر کر کے عمرہ پورا کرے اور احرام سے حلال ہو جائے۔ اس کے بعد اپنے شہر نہ لوٹے اور اسی سال 8 ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے اور حج کے اعمال پورا کرے۔
یہ "حج تمتع"* کی صورت ہے اور اس میں قربانی بھی واجب ہے۔
حج تمتع افضل ہے اس کے لئے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لے جائے۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام صحابہ کرام کو بغرض تمتع حج کی نیت کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر نہیں آئے تھے اور حج کا احرام باندھ رکھے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنی (حج کی) نیت کو عمرہ میں بدل دو سوائے اس کے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر آیا ہو۔(دیکھئے:صحیح بخاری:2506 صحیح مسلم:1240)
اور اس لئے بھی کہ خو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے لئے اسی کی تمنا ظاہر کی تھی لیکن آپ چونکہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے گئے تھے اس لئے اس پر عمل نہیں کر سکے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی حلال ہو جاتا۔ (دیکھئے: صحیح بخاری: 2506 صحیح مسلم:1240)
نیز حج تمتع میں کچھ ایسی سہولتیں اور آسانیاں بھی موجود ہیں جو اور حج میں نہیں پائی جاتی ہیں اور بے شک اللہ اپنے بندوں کے ساتھ آسانی چاہتا ہے۔
2۔ بندہ حج کے مہینے میں حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے اور یہ تلبیہ پڑھے: *"لبيك عمرة وحجا"* یا پہلے عمرہ کا احرام باندھے پھر طواف شروع کرنے سے پہلے اس پر حج کو داخل کر لے۔ پھر مکہ پہنچ کر طواف قدوم کرے، اور حج وعمرہ دونوں کے لئے صفا ومروہ کی ایک سعی کرے، یا اگر وہ چاہے تو سعی کو طواف افاضہ کے بعد تک مؤخر کر دے۔ اس کے بعد احرام کی حالت میں باقی رہے اور پھر 8 ذی الحجہ سے حج کے باقی اعمال پورا کرے۔
یہ حج قران کی کیفیت ہے اور اس میں بھی قربانی واجب ہے۔
بقول بعض اہل علم اگر کسی حاجی نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن وقوف عرفہ سے پہلے تک اسے پورا نہ کر سکا تو وہ طواف شروع کرنے سے پہلے عمرہ پر حج کو داخل کر کے اپنے حج کو حج قران بنا سکتا ہے۔
جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو اور وہ حج قران کا احرام باندھ چکا ہو تو وہ حج کی نیت کو عمرہ میں تبدیل نہیں کر سکتا۔
حج قران افضل ہے اس کے لئے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر جائے۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے گئے تھے اور اس لئے آپ نے حج قران کیا تھا۔ (دیکھئے: صحیح بخاری: 1534صحیح النسائی:2725)
3۔ بندہ حج کے مہینے میں صرف حج کا احرام باندھے اور یہ تلبیہ پڑھے: *"لبيك حجا"* پھر مکہ پہنچ کر طواف قدوم کرے اور حج کی سعی کرے یا اگر وہ چاہے تو سعی کو طواف افاضہ کے بعد تک مؤخر کر دے۔ اور اس کے بعد احرام کی حالت میں باقی رہے اور پھر 8 ذی الحجہ سے حج کے باقی اعمال پورا کرے۔ یہ *"حج افراد"* کی صورت ہے اور اس میں قربانی واجب نہیں ہے۔
بعض اہل علم نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے اور یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خلفاء راشدین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حج افراد کیا۔
احرام کی مذکورہ تینوں حالتوں کی مشروعیت کے لئے ملاحظہ کیجئے: سورہ بقرہ: 196 صحیح بخاری: 1562 صحیح مسلم: 1211)
اور امام نووی اور خطابی نے اس پر اجماع امت بھی نقل کیا ہے۔ (دیکھئے: شرح نووی: 8/235 اور عون المعبود: 5/195)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا بھائی: افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب
No comments:
Post a Comment