Sunnat Kya Hai? Iski wazahat
ترميم
لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ امام کسائی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی میں دوام کی کیفیت ہے:"یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیر محمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے،
جیسے قرآن مجید میں ہے: اچھے طریقے کے بارے میں:
ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ
تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ان کی سنت (یعنی ان کا قابل_پیروی طریقہ رہ_حق پر ثابت قدمی ہے)
برے طریقے میں استعمال:
فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ
وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ
اسی طرح ہم اس (تکذیب وضلال) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے .
جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا ہے:
"من سن سنۃ حسنۃ فلہ اج رہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ"۔[1]
جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔
لیکن محدثین اور فقہا جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛ چنانچہ محدثین سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ہی ماصدر عن النبیﷺ قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبد الحق دہلویؒ:3) مگرفقہاء سنت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے علاوہ صحابہ کرام کے اقوال اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں، امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "والمراد بھا شرعاً ماسنہ رسول اللہﷺ والصحابۃ بعدہ عندنا"۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:47)
قولِ رسول
قولِ رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول اللہﷺ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے علاوہ ادا ہوا ہو، اس کی مثال حضورﷺ کا ارشاد ہے: انماالاعمال بالنیات، البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔[2]
فعلِ رسول
سنت میں افعالِ رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ کو امام ومقتدیٰ بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِـي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ " (نبی) کا اتباع کرو؛ تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
تم لوگوں کے لیے رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔
اس لیے علما اصول نے سنت قولیہ کے ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ مؤخر ،یہی وجہ ہے کہ علما اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے ہیں۔[2]
تقریرِ رسول
حضورﷺ نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور یہ اس بات پر دلالت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے سنت سکوتی کے بارے میں لکھا ہے: "وصورته أن يسكت النبيﷺ عن إنكار قول قيل بين يديه أوفي عصره وعلم به، أويسكت عن إنكار فعل فعل بين يديه أوفي عصره وعلم به، فإن ذلك يدل على الجواز"۔[3] سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے سامنے کچھ کہا گیا، یاآپﷺ کے زمانے میں کہا گیا اور آپﷺ کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپﷺ کے سامنے یاآپﷺ کے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپﷺتک اس کی خبر پہنچی مگرآپﷺ نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔ مثلاً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" [4] تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضورﷺ کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔
نفل کی تعریف
نَفْلٌ
[ن ف ل]. (مص. نَفَلَ). : مَا شُرِعَ زِيَادَةً عَلَى الْفَرَائِضِ وَالْوَاجِبَاتِ، مَا هُوَ مَنْدُوبٌ وَمُسْتَحَبٌّ.
No comments:
Post a Comment