Tahiyatul Masjid Ke Masail
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــاتُه
─━══★سببی نماز " تحیةالمسجد " ★══━─
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ مسجد میں جب باجماعت نماز پڑھنے کے لیے آتے ہیں تو وقت کی تنگی کی وجہ سے کھڑے رہتے ہیں چاہے ان کو مشقت ہی کیوں نا ہو رہی ہو۔حتی کہ اگر کسی بیٹھے ہوئے بھائی سے بات کرنی پڑے تو صحیح طرح بیٹھتے بھی نہیں بلکہ اکڑوں ہو کر (یعنی پنجوں کے پر وزن ڈال کر) بیٹھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مسجد میں تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھنا منع ہے ۔
⛔ تحیۃ المسجد کی تعریف اور حکم:
تحیۃ المسجد دو رکعات نمازہے جس کو نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت ادا کرتا ہے۔اور یہ نماز مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کے حق میں بالاجماع سنت ہے ۔[فتح الباری:۲/۴۰۷]
⛔ تحیۃ المسجد سے مستثنی لوگ:
مسجد کا خطیب تحیۃ المسجد سے مستثنی ہے ،جب وہ خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں داخل ہوتو دو رکعات تحیۃ المسجد نہیں پڑھے گا۔اسی طرح مسجد کا متولی بھی مستثنی ہے ،کیونکہ اس کا بار بار مسجد میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور تحیۃ المسجد کی ان رکعات کو بار بار پڑھنے سے مشقت پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح وہ شخص بھی مستثنی ہے جو مسجد میں داخل ہوا تو امام فرض نماز پڑھا رہا تھا یا فرض نماز کی اقامت ہو چکی تھی،کیونکہ فرض نماز کی موجودگی تحیۃ المسجد سے مستغنی کر دیتی ہے۔[سبل السلام:۱/۳۲۰]
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کا تکرار مستحب ہے ،جب بھی کوئی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھے۔یہ قول امام نووی ؒ کا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے اور حنابلہ کی کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔[المجموع:۴/۵۷]
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ ظاہر حدیث سے تحیۃ المسجد مشروع ہے اگرچہ کثرت دخول ہی کیوں نہ ہو۔[نیل الأوطار:۳/۷۰]
⛔ تحیۃ المسجد کی حکمت:
تحیۃ المسجد پڑھنے سے دل میں مسجد کا احترام پیدا ہوتاہے ،یہ بمنزل سلام کے ہے کہ آدمی جب کسی کے گھر جاتا ہے تو گھر والے کوملتے وقت سلام کہتا ہے۔امام نووی ؒفرماتے ہیں :کہ بعض نے تحیۃ المسجد کو مسجد کے رب کو سلام قرار دیا ہے ،کیونکہ اس کامقصدحصول قرب الہی ہے نہ کہ حصول قرب مسجد، جیسا کہ بادشاہ کے گھر میں داخل ہونے والا بادشاہ کو سلام عرض کرتا ہے نہ کہ اس کے گھر کو۔
[حاشیہ ابن قاسم: ۲/ ۲۵۲]
⛔ تحیۃ المسجد سے متعلق مسائل
➖ مسئلہ ➊
تحیۃ المسجد تمام اوقات میں مشروع ہے،کیونکہ یہ ایک سببی نماز ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوں تحیۃ المسجد ادا کریں۔اس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیاہے۔[الفتاوی لابن تیمیہ]اور شیخ صالح العثیمین ؒ وشیخ ابن بازؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الشرح الممتع لابن عثیمین:۴/۱۷۹،وفتاوی مھمۃ تتعلق بالصلاۃلابن باز ؒ]
➖ مسئلہ ➋
تحیۃ المسجد کی نماز مسجد میں داخل ہوتے وقت بیٹھنے سے پہلے پہلے ادا کی جائے گی ،اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیٹھ گیا تو اس کے لئے اس کی مشروعیت ختم ہو جائے گی کیونکہ بیٹھ جانے سے اس کا وقت ہی فوت ہو گیا۔
➖ مسئلہ ➌
جو شخص جہالت کی وجہ سے یا بھول کر بیٹھ گیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اٹھ کر دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کرے کیونکہ وہ معذور ہے ۔بشرطیکہ بیٹھنے کا فاصلہ زیادہ لمبا نہ ہوا ہو۔[فتح الباری:۲/۴۰۸]
➖ مسئلہ ➍
تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت ہے ،واجب نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔اس کے سنت ہونے پر امام نووی ؒنے اجماع نقل کیا ہے ۔ [نیل الاوطار:۳/۶۸]
➖ مسئلہ ➎
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور مؤذن اذان دے رہا ہو تو بہتر یہی ہے کہ پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر تحیۃ المسجد ادا کی جائے تاکہ اذان کے جواب کی فضیلت کو بھی حاصل کیا جا سکے۔ہاں البتہ جمعہ کے دن اگر خطبہ کی اذان ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہے کہ اذان کا جواب دینے کی بجائے تحیۃ المسجد ادا کر لی جائے کیونکہ خطبہ جمعہ سننا زیادہ اہم ہے۔[الانصاف:۱/۴۲۷]
➖ مسئلہ ➏
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور خطیب خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو اس کے لئے تحیۃ المسجد ادا کرنا مسنون ہے ،اور ترک کر دینا مکروہ ہے ۔[الفتاوی لابن تیمیہؒ:۲۳/۲۱۹]؛کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:((فلا یجلس حتی یصلی رکعتین)) [بخاری،مسلم]’’وہ دو رکعات ادا کرنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘دوسری حدیث میں ہے:((فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما)) [بخاری،مسلم]’’اس کو چاہئیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا کرے ۔‘‘اگر خطیب آخر خطبہ میں ہو اور غالب گمان یہی ہو کہ تحیۃ المسجد ادا کرنے سے فرض نماز کا شروع حصہ نہیں پا سکے گا ،تو نماز قائم ہونے تک کھڑا ہو جائے اور بیٹھے نہیں تا کہ فرض نماز ہی تحیۃ المسجدکے قائم مقام ہو جائے۔
➖ مسئلہ ➐
مسجد حرام کا تحیۃ اکثر فقہاء کے نزدیک طواف ہے ۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں:((تحیۃ المسجد الحرام الطواف فی حق القادم ،أما المقیم فحکم المسجد الحرام وغیرہ فی ذلک سوائ))[فتح الباری:۲/۴۱۲]’’باہر سے آنے والے کے لئے مسجد حرام کا تحیۃ طواف ہے۔جب کہ مقیم کے لئے مسجد حرام اور باقی مساجد سب کا ایک ہی حکم ہے۔‘‘شاید امام نووی ؒ کی مراد وہ شخص ہو جو طواف کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔البتہ جو شخص طواف کرنا چاہتاہے اس کو یہ طواف تحیۃ المسجدکی دو رکعات سے مستغنی کر دے گا۔اور یہی درست ہے۔[حاشیہ ابن قاسم:۲/۴۸۷]
➖ مسئلہ ➑
نمازوں سے پہلے کی سنن تحیۃ المسجد سے کفایت کر جائیں گی،کیونکہ تحیۃ المسجد کا مقصود مسجد میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلا کام نماز ادا کرنا ہے ،جو ان سنن کی ادائیگی سے پورا ہو جاتاہے۔اور اگر کوئی شخص سنن یا فرائض کے ساتھ ساتھ تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لیتا ہے تو دونوں ہی حاصل ہو جائیں گی۔امام نووی ؒ نے اس کو بلا اختلاف نقل کیا ہے۔[کشاف القناع:۱/۴۲۳]
➖ مسئلہ ➒
تحیۃ المسجد ایک رکعت اداکرنے یا نماز جنازہ پڑھنے یا سجدہ سہو وسجدہ شکر اد اکرنے سے حاصل نہیں ہو گی۔[کشاف القناع ]
➖ مسئلہ ➓
اگر امام مسجد فرض نماز کا ٹائم ہو جانے کی وجہ سے فرض نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد سے کفایت کرنا چاہے تو اس کو یہی کافی ہو جائے گا۔[سبل السلام :۱/۳۲۹]’’حضرت جابرسے روایت ہے کہ بلال سورج ڈھل جانے پر اذان کہہ دیا کرتے تھے اور اس وقت تک اقامت نہیں کہتے تھے جب تک نبی کریم ﷺ کو دیکھ نہ لیتے ،جب اللہ کے نبی ﷺ گھر سے نکلتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘[مسلم ]اور اگر امام بیٹھنے کی نیت سے آئے تو اس کے حق بھی میں حدیث کے عموم کی وجہ سے تحیۃ المسجد مشروع ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((اذا دخل أحد کم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین))[بخاری ،مسلم]’’تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘صحراء میں نماز کے وقت تحیۃ نہیں ہے۔[الفواکہ العدیدیہ:۱/۹۹]الا یہ کہ راستے پر موجود مسجد میں آپ نماز پڑھ رہے ہوں تب تحیۃ المسجد ادا کیجائے گی۔فرض نماز کے ساتھ اگر تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لی جائے تو کافی ہوجائے گا۔
➖ مسئلہ ⓫
امام کے لئے جمعہ اور نماز عید سے پہلے تحیۃ المسجد مشروع نہیں ہے ،بلکہ جمعہ کو خطبہ اور عید کے دن نماز عید سے ابتداء کرے گا۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا۔لیکن مقتدی کے لئے بیٹھنے سے پہلے پہلے تحیۃ المسجد مشروع ہے ۔اگر نماز عید دیوار سے باہر ادا کی جارہی ہے تو تحیہ مشروع نہیں ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں کہ:((أمرنا أن نخرج العواتق،والحیض فی العیدین ،یشھدن الخیر ودعوۃ المسلمین ،ویعتزل الحیض المصلی))[بخاری ،مسلم]’’ہمیں حکم دیا گیا کہ سب عورتوں کو عید گاہ کی طرف نکالیں حتی کہ حیض والیوں کو بھی ،تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو سکیں،لیکن حکم دیا گیا کہ حیض والی عورتیںعید گاہ سے دور رہیں۔‘‘یہی مذہب امام شافعی ؒکا بھی ہے اور اسی کو شیخ صالح العثیمین ؒنے اختیار کیا ہے ۔
➖ مسئلہ ⓬
اگر کسی شخص نے فرض نماز ادا کر لی ہو اور پھر وہ کسی مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں فرض نماز کھڑی تھی تو اس کے لئے اس فرض نماز میں داخل ہو جانا مسنون ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثابت ہے:((اذا صلیتما فی رحالکما ثم أتیتما مسجد جماعۃ فصلیا معھم ، فانھا لکما نافلۃ))[رواہ الترمذی]’’جب تم دونوں نے اپنی رہائش پر نماز پڑھ لی پھر مسجد میں آئے تو ان مسجد والوں کے ساتھ بھی نماز پڑھو،یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔‘‘
⛔ فجر کی اذان کے بعد نوافل اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم
فجر کی اذان اور اقامت میں کافی وقت ہوتا ہے اس لئے مسجد میں پہلے حاضر ہونے والے نمازی سنت کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھنا چاہتے ہیں اورسوال کرتے ہیں کہ کیا فجر کی اذان کے بعد اگر ہم سنت ادا کرلیں تو نوافل ادا کرسکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل صرف دو رکعت سنت پڑھنا منقول ہے ۔ اس لئے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل دو رکعت فجر کی سنت کے علاوہ نوافل پڑھنا مکروه ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ (سنن الترمذي:427)
ترجمہ: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی ، احمد شاکر اور شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے ۔
صحیح مسلم میں حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں:كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ، إذا طلع الفجرُ ، لا يُصلِّي إلا ركعتَينِ خفيفتَينِ .(صحيح مسلم:723)
ترجمہ: جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان کے بعد فرض سے پہلے صرف دو رکعت سنت ادا کرنا چاہئے اورنبی ﷺ صحابہ کرام کو دو سے زائد رکعت پڑھنے سے منع کیا کرتے تھے ۔ جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں :
رآني ابنُ عمرَ وأنا أصلِّي ، بعدَ طلوعِ الفجرِ ، فقالَ : يا يَسارُ ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ خرجَ علينا ونحنُ نصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ، فقالَ : ليبلِّغ شاهدُكم غائبَكم ، لا تصلُّوا بعدَ الفجرِ إلَّا سجدتينِ( صحيح أبي داود:1278)
ترجمہ:سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا : اے یسار ! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارا حاضر ( موجود ) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو ۔
عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ برجُلٍ يصلِّي . وقد أُقيمت صلاةُ الصبحِ . فكلَّمه بشيءٍ ، لا ندري ما هو . فلما انصرفْنا أَحطْنا نقول : ماذا قال لك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؟ قال : قال لي " يوشِكُ أن يُصلِّيَ أحدُكم الصبحَ أربعًا " (صحيح مسلم:711)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جونمازپڑھ رہاتھا جبکہ فجرکی نمازکی اقامت ہوچکی تھی پس آپ نے کچھ کہا مگر پتہ نہیں کیا کہا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سارے اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں کیا کہا؟توانہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھناچاہئے سوائے فرض کے کیونکہ نبی ﷺ نے اس صحابی کو منع کیا جو اقامت کے بعد بھی نماز ادا کررہے تھےاور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ فرض سے پہلے صرف دو رکعتیں ہیں۔
شیخ البانی ارواء الغلیل میں فرمایا ہیں کہ صحیح سند کے ساتھ بیہقی نے روایت ہے :
عن سعيد بن المسيب أنه رأى رجلا يصلي بعد طلوع الفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه فقال : يا أبا محمد ! أيعذبني الله على الصلاة ؟ ! قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة(إرواء الغليل :2 / 236)
ترجمہ: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو فجر کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعتوں سے زیادہ رکوع اور سجود کرتے دیکھا تو اس کو منع کیا ۔اس شخص نے کہا کہ اسے ابومحمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا ؟ تو ابن مسیب نے کہا کہ نہیں ، لیکن سنت کی مخالفت پر اللہ تمہیں عذاب دے گا۔
شیخ البانی نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ابن المسیب ایسے بدعتیوں کے لئے مضبوط ہتھیار تھے جو نماز وروزہ سے متعلق بدعتیوں کو اچھا کرپیش کرتے تھے ۔
ان تمام ادلہ سے معلوم ہوگیا کہ جنہوں نے فجر کی اذان کے بعد سنت کی ادائیگی کرلی ہو وہ مزید کوئی نفل نہ پڑھے بلکہ فجر کی جماعت کا انتظار کرے یہاں تک کہ فجر پڑھ لے ۔ امام ترمذی نے اذان فجر کے بعد نوافل کی ادائیگی پر کراہت لکھا ہے بلکہ اس کراہت پر اجماع ذکر کیا ہے اور صاحب تحفہ نے بھی کہا کہ اس باب میں صراحت کے ساتھ احادیث کی دلالت کی وجہ سے میری نظر میں ان لوگوں کا قول راحج ہے جو مکروہ قرار دیتے ہیں ۔
یہاں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلی ہو اور مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی جماعت میں کچھ وقت باقی ہے کیا وہ تحیہ المسجد پڑھ سکتا ہے ؟
فجر کی اذان کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ عام نفلی نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں مگر تحیۃ المسجد سبب والی نماز ہے جنہوں نے گھر میں سنت ادا کرلی ہو وہ مسجد آئے اور دو رکعت پڑھنے کا وقت پائے تو تحیۃ المسجد ادا کرے گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔
اس حدیث کی روشنی میں علماء نے ممنوع اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنا جائز کہا ہے لہذا جو آدمی گھر میں فجر کی سنت پڑھ چکا ہو وہ مسجد میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے گا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لو صلى الراتبة في بيته صلى سنة الفجر في بيته ثم جاء إلى المسجد قبل أن تقام الصلاة؛ فإنه يصلي تحية المسجد حينئذ قبل أن يجلس؛ لأنه حينئذ ليس عنده سنة الفجر قد صلاها في بيته، فيصلي تحية المسجد ثم يجلس.(موقع شیخ ابن باز)
ترجمہ: اگر کوئی اپنے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلے پھر مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی نماز کھڑی ہونے میں وقت ہے تو وہ اس وقت بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد پڑھے گا اس لئے کہ اس وقت اس پرفجر کی سنت پڑھنا باقی نہیں ہے کیونکہ اس نے گھر میں ادا کرلیا ہے پس وہ تحیۃ المسجد ادا کرے گا پھر بیٹھے گا۔
⛔ اوقاتِ ممنوعہ میں تحیةالمسجد
اس مسئلہ ميں اہل علم كے درميان اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح يہ ہے كہ سب اوقات ميں تحيۃ المسجد كى ادائيگى مشروع ہے، حتى كہ فجر اور عصر كى نماز كے بعد بھى اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث كا عموم ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى مسجد ميں جائے تو دو ركعت ادا كرنے سے قبل نہ بيٹھے"
متفق عليہ
اور اس ليے بھى كہ اسباب كى بنا پر ادا كى جانے والى نماز مثلا طواف كى دو ركعات، اور صلاۃ خسوف جو سورج گرہن كے وقت ادا كى جاتى ہے، اس ميں صحيح يہى ہے كہ ممنوعہ اوقات ميں يہ نمازيں ادا كى جائينگى، جس طرح كہ فرضى فوت شدہ نماز كى قضاء ادا كى جاتى ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طواف كى دو ركعتوں كے متعلق فرمان ہے:
" اے بنى عبد مناف اس گھر كا طواف كرنے والے كو نہ روكو، وہ جس وقت چاہے طواف كرے اور دن يا رات ميں جب چاہے نماز ادا كرے"
اسے امام احمد نے اور اصحاب سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورج گرہن كى نماز كے متعلق فرمايا:
" بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے دو نشانياں ہيں يہ كسى كى موت يا پيدا ہونے سے گرہن زدہ نہيں ہوتے"
۔( 1 / 332 )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ قاری مصطفیٰ راسخ حفظہ اللہ
الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
الشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
السَّـــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــاتُه
─━══★سببی نماز " تحیةالمسجد " ★══━─
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ مسجد میں جب باجماعت نماز پڑھنے کے لیے آتے ہیں تو وقت کی تنگی کی وجہ سے کھڑے رہتے ہیں چاہے ان کو مشقت ہی کیوں نا ہو رہی ہو۔حتی کہ اگر کسی بیٹھے ہوئے بھائی سے بات کرنی پڑے تو صحیح طرح بیٹھتے بھی نہیں بلکہ اکڑوں ہو کر (یعنی پنجوں کے پر وزن ڈال کر) بیٹھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مسجد میں تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھنا منع ہے ۔
⛔ تحیۃ المسجد کی تعریف اور حکم:
تحیۃ المسجد دو رکعات نمازہے جس کو نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت ادا کرتا ہے۔اور یہ نماز مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کے حق میں بالاجماع سنت ہے ۔[فتح الباری:۲/۴۰۷]
⛔ تحیۃ المسجد سے مستثنی لوگ:
مسجد کا خطیب تحیۃ المسجد سے مستثنی ہے ،جب وہ خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں داخل ہوتو دو رکعات تحیۃ المسجد نہیں پڑھے گا۔اسی طرح مسجد کا متولی بھی مستثنی ہے ،کیونکہ اس کا بار بار مسجد میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور تحیۃ المسجد کی ان رکعات کو بار بار پڑھنے سے مشقت پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح وہ شخص بھی مستثنی ہے جو مسجد میں داخل ہوا تو امام فرض نماز پڑھا رہا تھا یا فرض نماز کی اقامت ہو چکی تھی،کیونکہ فرض نماز کی موجودگی تحیۃ المسجد سے مستغنی کر دیتی ہے۔[سبل السلام:۱/۳۲۰]
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کا تکرار مستحب ہے ،جب بھی کوئی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھے۔یہ قول امام نووی ؒ کا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے اور حنابلہ کی کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔[المجموع:۴/۵۷]
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ ظاہر حدیث سے تحیۃ المسجد مشروع ہے اگرچہ کثرت دخول ہی کیوں نہ ہو۔[نیل الأوطار:۳/۷۰]
⛔ تحیۃ المسجد کی حکمت:
تحیۃ المسجد پڑھنے سے دل میں مسجد کا احترام پیدا ہوتاہے ،یہ بمنزل سلام کے ہے کہ آدمی جب کسی کے گھر جاتا ہے تو گھر والے کوملتے وقت سلام کہتا ہے۔امام نووی ؒفرماتے ہیں :کہ بعض نے تحیۃ المسجد کو مسجد کے رب کو سلام قرار دیا ہے ،کیونکہ اس کامقصدحصول قرب الہی ہے نہ کہ حصول قرب مسجد، جیسا کہ بادشاہ کے گھر میں داخل ہونے والا بادشاہ کو سلام عرض کرتا ہے نہ کہ اس کے گھر کو۔
[حاشیہ ابن قاسم: ۲/ ۲۵۲]
⛔ تحیۃ المسجد سے متعلق مسائل
➖ مسئلہ ➊
تحیۃ المسجد تمام اوقات میں مشروع ہے،کیونکہ یہ ایک سببی نماز ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوں تحیۃ المسجد ادا کریں۔اس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیاہے۔[الفتاوی لابن تیمیہ]اور شیخ صالح العثیمین ؒ وشیخ ابن بازؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الشرح الممتع لابن عثیمین:۴/۱۷۹،وفتاوی مھمۃ تتعلق بالصلاۃلابن باز ؒ]
➖ مسئلہ ➋
تحیۃ المسجد کی نماز مسجد میں داخل ہوتے وقت بیٹھنے سے پہلے پہلے ادا کی جائے گی ،اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیٹھ گیا تو اس کے لئے اس کی مشروعیت ختم ہو جائے گی کیونکہ بیٹھ جانے سے اس کا وقت ہی فوت ہو گیا۔
➖ مسئلہ ➌
جو شخص جہالت کی وجہ سے یا بھول کر بیٹھ گیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اٹھ کر دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کرے کیونکہ وہ معذور ہے ۔بشرطیکہ بیٹھنے کا فاصلہ زیادہ لمبا نہ ہوا ہو۔[فتح الباری:۲/۴۰۸]
➖ مسئلہ ➍
تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت ہے ،واجب نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔اس کے سنت ہونے پر امام نووی ؒنے اجماع نقل کیا ہے ۔ [نیل الاوطار:۳/۶۸]
➖ مسئلہ ➎
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور مؤذن اذان دے رہا ہو تو بہتر یہی ہے کہ پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر تحیۃ المسجد ادا کی جائے تاکہ اذان کے جواب کی فضیلت کو بھی حاصل کیا جا سکے۔ہاں البتہ جمعہ کے دن اگر خطبہ کی اذان ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہے کہ اذان کا جواب دینے کی بجائے تحیۃ المسجد ادا کر لی جائے کیونکہ خطبہ جمعہ سننا زیادہ اہم ہے۔[الانصاف:۱/۴۲۷]
➖ مسئلہ ➏
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور خطیب خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو اس کے لئے تحیۃ المسجد ادا کرنا مسنون ہے ،اور ترک کر دینا مکروہ ہے ۔[الفتاوی لابن تیمیہؒ:۲۳/۲۱۹]؛کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:((فلا یجلس حتی یصلی رکعتین)) [بخاری،مسلم]’’وہ دو رکعات ادا کرنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘دوسری حدیث میں ہے:((فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما)) [بخاری،مسلم]’’اس کو چاہئیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا کرے ۔‘‘اگر خطیب آخر خطبہ میں ہو اور غالب گمان یہی ہو کہ تحیۃ المسجد ادا کرنے سے فرض نماز کا شروع حصہ نہیں پا سکے گا ،تو نماز قائم ہونے تک کھڑا ہو جائے اور بیٹھے نہیں تا کہ فرض نماز ہی تحیۃ المسجدکے قائم مقام ہو جائے۔
➖ مسئلہ ➐
مسجد حرام کا تحیۃ اکثر فقہاء کے نزدیک طواف ہے ۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں:((تحیۃ المسجد الحرام الطواف فی حق القادم ،أما المقیم فحکم المسجد الحرام وغیرہ فی ذلک سوائ))[فتح الباری:۲/۴۱۲]’’باہر سے آنے والے کے لئے مسجد حرام کا تحیۃ طواف ہے۔جب کہ مقیم کے لئے مسجد حرام اور باقی مساجد سب کا ایک ہی حکم ہے۔‘‘شاید امام نووی ؒ کی مراد وہ شخص ہو جو طواف کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔البتہ جو شخص طواف کرنا چاہتاہے اس کو یہ طواف تحیۃ المسجدکی دو رکعات سے مستغنی کر دے گا۔اور یہی درست ہے۔[حاشیہ ابن قاسم:۲/۴۸۷]
➖ مسئلہ ➑
نمازوں سے پہلے کی سنن تحیۃ المسجد سے کفایت کر جائیں گی،کیونکہ تحیۃ المسجد کا مقصود مسجد میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلا کام نماز ادا کرنا ہے ،جو ان سنن کی ادائیگی سے پورا ہو جاتاہے۔اور اگر کوئی شخص سنن یا فرائض کے ساتھ ساتھ تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لیتا ہے تو دونوں ہی حاصل ہو جائیں گی۔امام نووی ؒ نے اس کو بلا اختلاف نقل کیا ہے۔[کشاف القناع:۱/۴۲۳]
➖ مسئلہ ➒
تحیۃ المسجد ایک رکعت اداکرنے یا نماز جنازہ پڑھنے یا سجدہ سہو وسجدہ شکر اد اکرنے سے حاصل نہیں ہو گی۔[کشاف القناع ]
➖ مسئلہ ➓
اگر امام مسجد فرض نماز کا ٹائم ہو جانے کی وجہ سے فرض نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد سے کفایت کرنا چاہے تو اس کو یہی کافی ہو جائے گا۔[سبل السلام :۱/۳۲۹]’’حضرت جابرسے روایت ہے کہ بلال سورج ڈھل جانے پر اذان کہہ دیا کرتے تھے اور اس وقت تک اقامت نہیں کہتے تھے جب تک نبی کریم ﷺ کو دیکھ نہ لیتے ،جب اللہ کے نبی ﷺ گھر سے نکلتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘[مسلم ]اور اگر امام بیٹھنے کی نیت سے آئے تو اس کے حق بھی میں حدیث کے عموم کی وجہ سے تحیۃ المسجد مشروع ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((اذا دخل أحد کم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین))[بخاری ،مسلم]’’تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘صحراء میں نماز کے وقت تحیۃ نہیں ہے۔[الفواکہ العدیدیہ:۱/۹۹]الا یہ کہ راستے پر موجود مسجد میں آپ نماز پڑھ رہے ہوں تب تحیۃ المسجد ادا کیجائے گی۔فرض نماز کے ساتھ اگر تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لی جائے تو کافی ہوجائے گا۔
➖ مسئلہ ⓫
امام کے لئے جمعہ اور نماز عید سے پہلے تحیۃ المسجد مشروع نہیں ہے ،بلکہ جمعہ کو خطبہ اور عید کے دن نماز عید سے ابتداء کرے گا۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا۔لیکن مقتدی کے لئے بیٹھنے سے پہلے پہلے تحیۃ المسجد مشروع ہے ۔اگر نماز عید دیوار سے باہر ادا کی جارہی ہے تو تحیہ مشروع نہیں ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں کہ:((أمرنا أن نخرج العواتق،والحیض فی العیدین ،یشھدن الخیر ودعوۃ المسلمین ،ویعتزل الحیض المصلی))[بخاری ،مسلم]’’ہمیں حکم دیا گیا کہ سب عورتوں کو عید گاہ کی طرف نکالیں حتی کہ حیض والیوں کو بھی ،تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو سکیں،لیکن حکم دیا گیا کہ حیض والی عورتیںعید گاہ سے دور رہیں۔‘‘یہی مذہب امام شافعی ؒکا بھی ہے اور اسی کو شیخ صالح العثیمین ؒنے اختیار کیا ہے ۔
➖ مسئلہ ⓬
اگر کسی شخص نے فرض نماز ادا کر لی ہو اور پھر وہ کسی مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں فرض نماز کھڑی تھی تو اس کے لئے اس فرض نماز میں داخل ہو جانا مسنون ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثابت ہے:((اذا صلیتما فی رحالکما ثم أتیتما مسجد جماعۃ فصلیا معھم ، فانھا لکما نافلۃ))[رواہ الترمذی]’’جب تم دونوں نے اپنی رہائش پر نماز پڑھ لی پھر مسجد میں آئے تو ان مسجد والوں کے ساتھ بھی نماز پڑھو،یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔‘‘
⛔ فجر کی اذان کے بعد نوافل اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم
فجر کی اذان اور اقامت میں کافی وقت ہوتا ہے اس لئے مسجد میں پہلے حاضر ہونے والے نمازی سنت کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھنا چاہتے ہیں اورسوال کرتے ہیں کہ کیا فجر کی اذان کے بعد اگر ہم سنت ادا کرلیں تو نوافل ادا کرسکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل صرف دو رکعت سنت پڑھنا منقول ہے ۔ اس لئے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل دو رکعت فجر کی سنت کے علاوہ نوافل پڑھنا مکروه ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ (سنن الترمذي:427)
ترجمہ: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی ، احمد شاکر اور شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے ۔
صحیح مسلم میں حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں:كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ، إذا طلع الفجرُ ، لا يُصلِّي إلا ركعتَينِ خفيفتَينِ .(صحيح مسلم:723)
ترجمہ: جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان کے بعد فرض سے پہلے صرف دو رکعت سنت ادا کرنا چاہئے اورنبی ﷺ صحابہ کرام کو دو سے زائد رکعت پڑھنے سے منع کیا کرتے تھے ۔ جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں :
رآني ابنُ عمرَ وأنا أصلِّي ، بعدَ طلوعِ الفجرِ ، فقالَ : يا يَسارُ ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ خرجَ علينا ونحنُ نصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ، فقالَ : ليبلِّغ شاهدُكم غائبَكم ، لا تصلُّوا بعدَ الفجرِ إلَّا سجدتينِ( صحيح أبي داود:1278)
ترجمہ:سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا : اے یسار ! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارا حاضر ( موجود ) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو ۔
عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ برجُلٍ يصلِّي . وقد أُقيمت صلاةُ الصبحِ . فكلَّمه بشيءٍ ، لا ندري ما هو . فلما انصرفْنا أَحطْنا نقول : ماذا قال لك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؟ قال : قال لي " يوشِكُ أن يُصلِّيَ أحدُكم الصبحَ أربعًا " (صحيح مسلم:711)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جونمازپڑھ رہاتھا جبکہ فجرکی نمازکی اقامت ہوچکی تھی پس آپ نے کچھ کہا مگر پتہ نہیں کیا کہا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سارے اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں کیا کہا؟توانہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھناچاہئے سوائے فرض کے کیونکہ نبی ﷺ نے اس صحابی کو منع کیا جو اقامت کے بعد بھی نماز ادا کررہے تھےاور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ فرض سے پہلے صرف دو رکعتیں ہیں۔
شیخ البانی ارواء الغلیل میں فرمایا ہیں کہ صحیح سند کے ساتھ بیہقی نے روایت ہے :
عن سعيد بن المسيب أنه رأى رجلا يصلي بعد طلوع الفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه فقال : يا أبا محمد ! أيعذبني الله على الصلاة ؟ ! قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة(إرواء الغليل :2 / 236)
ترجمہ: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو فجر کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعتوں سے زیادہ رکوع اور سجود کرتے دیکھا تو اس کو منع کیا ۔اس شخص نے کہا کہ اسے ابومحمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا ؟ تو ابن مسیب نے کہا کہ نہیں ، لیکن سنت کی مخالفت پر اللہ تمہیں عذاب دے گا۔
شیخ البانی نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ابن المسیب ایسے بدعتیوں کے لئے مضبوط ہتھیار تھے جو نماز وروزہ سے متعلق بدعتیوں کو اچھا کرپیش کرتے تھے ۔
ان تمام ادلہ سے معلوم ہوگیا کہ جنہوں نے فجر کی اذان کے بعد سنت کی ادائیگی کرلی ہو وہ مزید کوئی نفل نہ پڑھے بلکہ فجر کی جماعت کا انتظار کرے یہاں تک کہ فجر پڑھ لے ۔ امام ترمذی نے اذان فجر کے بعد نوافل کی ادائیگی پر کراہت لکھا ہے بلکہ اس کراہت پر اجماع ذکر کیا ہے اور صاحب تحفہ نے بھی کہا کہ اس باب میں صراحت کے ساتھ احادیث کی دلالت کی وجہ سے میری نظر میں ان لوگوں کا قول راحج ہے جو مکروہ قرار دیتے ہیں ۔
یہاں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلی ہو اور مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی جماعت میں کچھ وقت باقی ہے کیا وہ تحیہ المسجد پڑھ سکتا ہے ؟
فجر کی اذان کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ عام نفلی نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں مگر تحیۃ المسجد سبب والی نماز ہے جنہوں نے گھر میں سنت ادا کرلی ہو وہ مسجد آئے اور دو رکعت پڑھنے کا وقت پائے تو تحیۃ المسجد ادا کرے گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔
اس حدیث کی روشنی میں علماء نے ممنوع اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنا جائز کہا ہے لہذا جو آدمی گھر میں فجر کی سنت پڑھ چکا ہو وہ مسجد میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے گا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لو صلى الراتبة في بيته صلى سنة الفجر في بيته ثم جاء إلى المسجد قبل أن تقام الصلاة؛ فإنه يصلي تحية المسجد حينئذ قبل أن يجلس؛ لأنه حينئذ ليس عنده سنة الفجر قد صلاها في بيته، فيصلي تحية المسجد ثم يجلس.(موقع شیخ ابن باز)
ترجمہ: اگر کوئی اپنے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلے پھر مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی نماز کھڑی ہونے میں وقت ہے تو وہ اس وقت بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد پڑھے گا اس لئے کہ اس وقت اس پرفجر کی سنت پڑھنا باقی نہیں ہے کیونکہ اس نے گھر میں ادا کرلیا ہے پس وہ تحیۃ المسجد ادا کرے گا پھر بیٹھے گا۔
⛔ اوقاتِ ممنوعہ میں تحیةالمسجد
اس مسئلہ ميں اہل علم كے درميان اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح يہ ہے كہ سب اوقات ميں تحيۃ المسجد كى ادائيگى مشروع ہے، حتى كہ فجر اور عصر كى نماز كے بعد بھى اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث كا عموم ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى مسجد ميں جائے تو دو ركعت ادا كرنے سے قبل نہ بيٹھے"
متفق عليہ
اور اس ليے بھى كہ اسباب كى بنا پر ادا كى جانے والى نماز مثلا طواف كى دو ركعات، اور صلاۃ خسوف جو سورج گرہن كے وقت ادا كى جاتى ہے، اس ميں صحيح يہى ہے كہ ممنوعہ اوقات ميں يہ نمازيں ادا كى جائينگى، جس طرح كہ فرضى فوت شدہ نماز كى قضاء ادا كى جاتى ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طواف كى دو ركعتوں كے متعلق فرمان ہے:
" اے بنى عبد مناف اس گھر كا طواف كرنے والے كو نہ روكو، وہ جس وقت چاہے طواف كرے اور دن يا رات ميں جب چاہے نماز ادا كرے"
اسے امام احمد نے اور اصحاب سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورج گرہن كى نماز كے متعلق فرمايا:
" بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے دو نشانياں ہيں يہ كسى كى موت يا پيدا ہونے سے گرہن زدہ نہيں ہوتے"
۔( 1 / 332 )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ قاری مصطفیٰ راسخ حفظہ اللہ
الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
الشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
No comments:
Post a Comment