Kya Namaj Me Quran Ki Kisi Aayat Ko Shuruwat,Akhiri Ya Bich Se Padh Sakte Hai?
سوال. کیا نماز میں قرآن کے کسی سورت کی آخری آیات یا بیچ کی آیات پڑھ سکتے ہیں؟
الجواب بعون رب العباد: نماز میں ترتیب مصحف سے پڑھنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح امام نمازی منفرد ہو یا امام دونوں ہی کو جہاں سے چاھے قرآن میں پڑھ سکتا ہے چاھئے سورت کے ابتداء سے ہو یا کسی سورت کے وسط سے ہو یا کسی سورت کی آخری آیات ہوں ہر صورت میں جائز ہے۔ بعض لوگ جو ہمارے ملکوں میں اعتراض کرتے ہیں کہ سورت کے وسط یا اواخر سے پڑھنا جائز نہیں انکا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔
بلکہ قرآن کریم میں جہاں سے آسان لگے نماز چاھئے فرائض ہوں یا نوافل دونوں ہی طریقہ سے پڑھنا جائز ہے۔ دلیل:اللہ کا فرمان:(فاقرؤا ماتيسر من القرآن ) [سورة المزمل ايت نمبر:20].
جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو۔ یہ آیت مبارکہ عموم پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض ہو یا نفل جو کچھ آسان لگے پڑھ لیا کرو۔
دوسری دلیل:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوجاو تو تکبیر کھو اور قرآن میں سے جو کچھ آسان لگے پڑھ لیا کرو۔[بخاری ، صحیح مسلم في الصلاة باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة. حدیث نمبر: 397]۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نمازی قرآن کی جس بھی سورت اور جہاں سے بھی چاھئے پڑھ سکتا ہے۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام سے فرائض نماز میں ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے سورت کے بیچ سے قرآن پڑھا ہو البتہ نبی علیہ السلام سے سورت کے اوائل اور اواخر سے پڑھنا ثابت ہے جیساکہ آپ علیہ السلام نے سورہ اعراف دو رکعتوں میں پڑھا ہے۔
اسی طرح آپ علیہ السلام نے سورہ مومنون دو رکعتوں میں نماز میں پڑھا ہے۔البتہ بیچ سورت سے نبی علیہ السلام سے پڑھنا ثابت نہیں اسلئے بعض اہل علم فرائض میں بیچ سورت سے پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن صحیح یہی ہے کہ قرآن میں کسی بھی سورت سے چاھئے شروع سورت سے ہو یا وسط سے یا اواخر سے ہر صورت میں جائز ہے۔
یاد رہے شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت اور مذکورہ حدیث بطور دلیل پیش کی ہے۔[فتاوی نور علی الدرب114/19]۔
ایک اور جگہ علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سورت کے وسط سے اور آخری سورت سے پڑھنا جائز ہے ایسا ممنوع نہیں ہے۔
دلیل:نبی علیہ السلام نماز فجر کی دو سنتوں کی پہلی رکعت میں سورہ بقرہ آیت نمبر: 136(قولوا آمنا باللہ وماأنزل إلينا). اور دوسری رکعت میں سورہ آل عمران آیت نمبر64(فل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم). پڑھا کرتے تھے۔
اور بعض اوقات سورہ کافروں پہلی رکعت میں اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
اسی طرح نبی علیہ السلام فرائض میں بھی شروع سورہ اور آخری سورہ سے پڑھا کرتے تھے
اس سے ثابت ہوا کہ فرائض ونوافل دونوں ہی میں سورہ کے شروع اور سورت کے آخر سے پڑھنا جائز ہے۔[الشرح الممتع260/3].
علامه امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام سنت فجر کی پہلی رکعت میں قولوا آمنا اور دوسری رکعت میں قل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة پڑھا کرتے تھے.
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں سورت وسط سے یا یا کسی سورت کے آخر سے پڑھنا جائز ہے۔[نيل الأوطار 255/2]۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک نماز میں اواخر السورو یا وسط سورہ پڑھنا مکروہ نہیں ہے یعنی جائز ہے اسے اہل علم کی ایک جماعت نے ان سے نقل کیا ہے۔
دلیل:اللہ کا ارشاد گرامی ہے:(فاقرأوا ما تيسر من القرآن).[سورہ مزمل آیت نمبر:20]۔۔
قرآن میں جو آسان لگے اسے پڑھو۔
بعض آثار:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم کیا گیا کہ ہم سورہ فاتحہ کے برڈ جو کچھ قرآن میں آسان لگے وہ پڑھیں۔ ۔ ۔[ابو داود بات من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب ، كتاب الصلاة188/1 ، مسند احمد جلد3 ص نمبر:3 ، 45 ، 97]۔
امام خلال رحمہ اللہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ صبح کی نماز سورہ آل عمران اور سورہ فرقان کے اوخر میں سے پڑھتے تھے۔[مرعاة المفاتيح جلد3 ص نمبر:144، كتاب الصلاة ، حاشية الروض المربع جلد2 ص نمبر:110 ، كتاب المقنع والشرح الكبير والانصاف جلد 3/ص نمبر:620 ، النور الساري من فيض صحيح الإمام البخاري رحمه الله جلد 2 ص نمبر: 594، المغني لابن قدامه مسئلة نمبر: 684 جلد1 ، كتاب الصلاة باب صفة الصلاة].
ابراھیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب نماز میں قرآن کی بعض آیات پڑھتے تھے۔[حواله:المغني كما سبق].
ابوبرزہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نماز میں ساٹھ آیات سے لیکر سو آیات تک پڑھاکرتے تھے۔[بخاری جلد 1/ص نمبر:143، 155 ، صحیح مسلم کتاب المساجد447/1 ، ابو داود 196/1 ، کتاب الصلاة].
اسے ثابت ہوا کہ اواخر السورہ سے بعض آیات کے پڑھنے میں یا وسط سورہ سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سورت کے وسط سے یا سورت کے آخری آیات میں سے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ایک روایت کے مطابق اسے جائز قرار دیا ہے۔[المغني لابن قدامه].
شيخ صالح الفوزان حفظه الله فرماتے ہیں کہ کسی سورت کے آخری آیات میں سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے میں جواز ہے۔ ۔ ۔ [دروس لشيخ صالح الفوزان حفظه الله تعالى].
مذکورہ تمام ادلہ اور اہل علم کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ کسی سورت کے اواخر سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
. کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض۔ تخصص/فقہ واصولہ۔
الجواب بعون رب العباد: نماز میں ترتیب مصحف سے پڑھنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح امام نمازی منفرد ہو یا امام دونوں ہی کو جہاں سے چاھے قرآن میں پڑھ سکتا ہے چاھئے سورت کے ابتداء سے ہو یا کسی سورت کے وسط سے ہو یا کسی سورت کی آخری آیات ہوں ہر صورت میں جائز ہے۔ بعض لوگ جو ہمارے ملکوں میں اعتراض کرتے ہیں کہ سورت کے وسط یا اواخر سے پڑھنا جائز نہیں انکا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔
بلکہ قرآن کریم میں جہاں سے آسان لگے نماز چاھئے فرائض ہوں یا نوافل دونوں ہی طریقہ سے پڑھنا جائز ہے۔ دلیل:اللہ کا فرمان:(فاقرؤا ماتيسر من القرآن ) [سورة المزمل ايت نمبر:20].
جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو۔ یہ آیت مبارکہ عموم پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض ہو یا نفل جو کچھ آسان لگے پڑھ لیا کرو۔
دوسری دلیل:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوجاو تو تکبیر کھو اور قرآن میں سے جو کچھ آسان لگے پڑھ لیا کرو۔[بخاری ، صحیح مسلم في الصلاة باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة. حدیث نمبر: 397]۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نمازی قرآن کی جس بھی سورت اور جہاں سے بھی چاھئے پڑھ سکتا ہے۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام سے فرائض نماز میں ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے سورت کے بیچ سے قرآن پڑھا ہو البتہ نبی علیہ السلام سے سورت کے اوائل اور اواخر سے پڑھنا ثابت ہے جیساکہ آپ علیہ السلام نے سورہ اعراف دو رکعتوں میں پڑھا ہے۔
اسی طرح آپ علیہ السلام نے سورہ مومنون دو رکعتوں میں نماز میں پڑھا ہے۔البتہ بیچ سورت سے نبی علیہ السلام سے پڑھنا ثابت نہیں اسلئے بعض اہل علم فرائض میں بیچ سورت سے پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن صحیح یہی ہے کہ قرآن میں کسی بھی سورت سے چاھئے شروع سورت سے ہو یا وسط سے یا اواخر سے ہر صورت میں جائز ہے۔
یاد رہے شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت اور مذکورہ حدیث بطور دلیل پیش کی ہے۔[فتاوی نور علی الدرب114/19]۔
ایک اور جگہ علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سورت کے وسط سے اور آخری سورت سے پڑھنا جائز ہے ایسا ممنوع نہیں ہے۔
دلیل:نبی علیہ السلام نماز فجر کی دو سنتوں کی پہلی رکعت میں سورہ بقرہ آیت نمبر: 136(قولوا آمنا باللہ وماأنزل إلينا). اور دوسری رکعت میں سورہ آل عمران آیت نمبر64(فل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم). پڑھا کرتے تھے۔
اور بعض اوقات سورہ کافروں پہلی رکعت میں اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
اسی طرح نبی علیہ السلام فرائض میں بھی شروع سورہ اور آخری سورہ سے پڑھا کرتے تھے
اس سے ثابت ہوا کہ فرائض ونوافل دونوں ہی میں سورہ کے شروع اور سورت کے آخر سے پڑھنا جائز ہے۔[الشرح الممتع260/3].
علامه امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام سنت فجر کی پہلی رکعت میں قولوا آمنا اور دوسری رکعت میں قل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة پڑھا کرتے تھے.
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں سورت وسط سے یا یا کسی سورت کے آخر سے پڑھنا جائز ہے۔[نيل الأوطار 255/2]۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک نماز میں اواخر السورو یا وسط سورہ پڑھنا مکروہ نہیں ہے یعنی جائز ہے اسے اہل علم کی ایک جماعت نے ان سے نقل کیا ہے۔
دلیل:اللہ کا ارشاد گرامی ہے:(فاقرأوا ما تيسر من القرآن).[سورہ مزمل آیت نمبر:20]۔۔
قرآن میں جو آسان لگے اسے پڑھو۔
بعض آثار:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم کیا گیا کہ ہم سورہ فاتحہ کے برڈ جو کچھ قرآن میں آسان لگے وہ پڑھیں۔ ۔ ۔[ابو داود بات من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب ، كتاب الصلاة188/1 ، مسند احمد جلد3 ص نمبر:3 ، 45 ، 97]۔
امام خلال رحمہ اللہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ صبح کی نماز سورہ آل عمران اور سورہ فرقان کے اوخر میں سے پڑھتے تھے۔[مرعاة المفاتيح جلد3 ص نمبر:144، كتاب الصلاة ، حاشية الروض المربع جلد2 ص نمبر:110 ، كتاب المقنع والشرح الكبير والانصاف جلد 3/ص نمبر:620 ، النور الساري من فيض صحيح الإمام البخاري رحمه الله جلد 2 ص نمبر: 594، المغني لابن قدامه مسئلة نمبر: 684 جلد1 ، كتاب الصلاة باب صفة الصلاة].
ابراھیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب نماز میں قرآن کی بعض آیات پڑھتے تھے۔[حواله:المغني كما سبق].
ابوبرزہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نماز میں ساٹھ آیات سے لیکر سو آیات تک پڑھاکرتے تھے۔[بخاری جلد 1/ص نمبر:143، 155 ، صحیح مسلم کتاب المساجد447/1 ، ابو داود 196/1 ، کتاب الصلاة].
اسے ثابت ہوا کہ اواخر السورہ سے بعض آیات کے پڑھنے میں یا وسط سورہ سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سورت کے وسط سے یا سورت کے آخری آیات میں سے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ایک روایت کے مطابق اسے جائز قرار دیا ہے۔[المغني لابن قدامه].
شيخ صالح الفوزان حفظه الله فرماتے ہیں کہ کسی سورت کے آخری آیات میں سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے میں جواز ہے۔ ۔ ۔ [دروس لشيخ صالح الفوزان حفظه الله تعالى].
مذکورہ تمام ادلہ اور اہل علم کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ کسی سورت کے اواخر سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
. کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض۔ تخصص/فقہ واصولہ۔
No comments:
Post a Comment