Talaq Aur Khola Tafseel Se
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
خلع : خلع وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ (اللہ اور اس کے رسول) نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔
یہ معاملہ اگر گھر ہی کے اندر طے پاجاتا ہے اور خاوند یہ محسوس کرتے ہوئے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں خوشگوار تعلقات، جو نکاح کا اصل مقصد ہیں، قائم نہیں رہ سکتے تووہ عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم کرکے طلاق دے دے اور حق مہر واپس لے لے جو وہ شرعاً لینے کا حق دار ہے یامعاف کردے (بطورِ احسان کے) تو اس طرح خلع ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے۔ خلع ایک ہی مجلس میں واقع ہو جائے گی ؛ کیونکہ اس میں رجوع نہیں ہوتا
سنن ابوداود ، باب في الخلع
باب: خلع کے احکام و مسائل۔
حدیث نمبر : 2227
عن عمرة بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارة، أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهل الأنصارية، أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه في الغلس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "من هذه ". فقالت أنا حبيبة بنت سهل . قال "ما شأنك ". قالت لا أنا ولا ثابت بن قيس . لزوجها فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم "هذه حبيبة بنت سهل ". وذكرت ما شاء الله أن تذكر وقالت حبيبة يا رسول الله كل ما أعطاني عندي . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس "خذ منها ". فأخذ منها وجلست هي في أهلها ‘‘
( قال الشيخ الألباني: صحيح )
عمرہ بنت عبدالرحمٰن، حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ یہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے جانے لگے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس کھڑے پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”یہ کون ہے؟“ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے پوچھا ”کیا بات ہے؟“ کہنے لگی میں نہیں اور ثابت بن قیس نہیں! یعنی اپنے شوہر کے متعلق کہا۔ (مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں) پھر جب سیدنا ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”حبیبہ بنت سہل آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا اس نے مجھ سے بیان کیا۔“ حبیبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو کچھ انہوں نے مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا ”اس سے وصول کر لو۔“ چنانچہ انہوں نے مال لے لیا اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے ہاں بیٹھ رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عائشة، أن حبيبة بنت سهل، كانت عند ثابت بن قيس بن شماس فضربها فكسر بعضها فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الصبح فاشتكته إليه فدعا النبي صلى الله عليه وسلم ثابتا فقال "خذ بعض مالها وفارقها ". فقال ويصلح ذلك يا رسول الله قال "نعم ". قال فإني أصدقتها حديقتين وهما بيدها فقال النبي صلى الله عليه وسلم "خذهما ففارقها ". ففعل .
(سنن ابوداود ، باب في الخلع ۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح )
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حبیبہ بنت سہل، سیدنا ثابت بن قیس بن شماس کی زوجیت میں تھی تو ثابت نے اس کو مارا اور اس کا کچھ توڑ بھی دیا، تب وہ فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور شوہر کی شکایت کی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو بلایا اور فرمایا ”اس سے کچھ مال لے لو اور اس کو علیحدہ کر دو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ صحیح ہے؟ آپ نے فرمایا ”ہاں۔“ انہوں نے کہا: میں نے اس کو مہر میں دو باغ دیے ہیں اور وہ اسی کے قبضے میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ دونوں لے لو اور اسے علیحدہ کر دو۔“ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] خلع وقت حاجت اور معقول ضرورت کے تحت مشروع ہوگا ورنہ نفاق شمار کیا جائے گا ، ارشاد نبوی ہے {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
{ سنن النسائی ، مسند احمد } ۔
[۲] خلع کے لئے وقت و عدد کی وہ شرطیں نہیں ہیں جو طلاق کے لئے ہیں ، یعنی خلع حالت حیض میں ہوسکتا ہے اور ایک سے زائد بار بھی ہو سکتا ہے ۔
[۳] خلع کے بعد عورت پر عدت صرف ایک حیض ہوگی اور اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا بلکہ بصورت اتفاق عقد جدید ضروری ہے ۔
[۴] خلع میں بہتر تو یہ ہے کہ شوہر مہر سے زیادہ واپس نہ لے البتہ جائز ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بلا کسی معاوضہ کے چھوڑ دے ۔
[۵] شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ عورت کو تنگ کرے کہ وہ خلع لینے پر مجبور ہو ، تاکہ مہر وغیرہ معاف کرائے ۔
[6]خلع کے لئے ضروری ہے کہ یہ معاملہ میاں بیوی کی موافقت سے ہو ، کسی فریق کو مجبور نہ کیا جائے
عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
کیا میاں بیوی کے درمیان عدالتی تفریق(بذریعہ خلع)کے بعد میاں بیوی نکاحِ جدید کے ذریعے دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرسکتے ہیں؟
جواب : اس کا جواب اثبات میں ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں دوبارہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو باہم رضا مندی اور نئے نکاح کے ذریعے سے یہ تعلق زوجیت دوبارہ بحال ہوسکتا ہے۔
خلع کے بعد میاں و بیوی کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے ۔ طلاق کی طرح اس کی تعداد محدود نہیں ، اور نہ ہی اس میں حلالہ وغیرہ کی نوبت آتی ہے کیونکہ ’ حتی تنکح زوجا غیرہ ‘ کی شرط طلاق کے لیے ہے ، خلع کے لیے نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
خلع طلاق شمار نہیں ہوتا
البتہ عورت کا بار بار خلع لینا ( یا اس پر مجبور کیا جانا ) اور پھر نکاح کرنا ، یہ زوجین کی طرف سے نکاح جیسے عظیم بندھن کے ساتھ مذاق سی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔
حافظ صلاح الدین یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی معاوضہ دے کر علیحدہ ہو تو اسے خلع کہا جاتا ہے ، اس طرح خاوند معاوضہ لے کر اپنی بیوی کو چھوڑ دے چاہے وہ یہ معاوضہ مہر جو کہ خاوند نے دیا تھا وہ ہو یا اس سے زيادہ اور یا پھر کم ہو ۔
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورتمہارے لیے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ دونوں اس سے خوفزدہ ہوں کہ وہ اللہ تعالی کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ، توپھر ان پر کوئي گناہ اورجرم نہیں کہ وہ اس کا فدیہ دیں }
{ البقرۃ ( 229 ) }
سنت نبویہ میں اس کی دلیل ثابت بن شماس رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی کی حدیث ہے ۔
ثابت بن شماس رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اور کہنے لگي : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میںیا کہ یا تواس کا باغ واپس کرتی ہے ؟ یہ باغ انہوں نے اسے مہر میں دیا تھا ، تووہ کہنے لگی جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اپنا باغ قبول کرلو اوراسے چھوڑدو ۔ صحیح { بخاری حديث نمبر ( 5273 ) }
علماء کرام نے اس قصہ سے یہ استنباط کیا ہے کہ جب عورت اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کی طاقت نہ رکھے توولی الامر اورحکمران اس کے خاوند سے خلع طلب کرے بلکہ اسے خلع کا حکم دے ۔
خلع کی صورت یہ ہے کہ :
خاوند کے عوض میں کچھ لے یا پھر وہ کسی عوض پر متفق ہوجائيں اورپھر خاوند اپنی بیوی کوکہے کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا خلع کرلیا یا اس طرح کے دوسرے الفاظ کہے ۔
اورطلاق خاوند کا حق ہے یہ اس وقت تک واقع نہیں ہوسکتی جب تک وہ طلاق نہ دے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( طلاق اس کا حق ہے جوپنڈلی کوپکڑتا ہے ) یعنی خاوند سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2081 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 2041 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اسی لیے علماء کرام نے یہ کہا ہے کہ : جسے اپنی بیوی کوطلاق دینے پرظلم کے ساتھ مجبور کیا جاۓ اوراس نے طلاق دے دی تو اس کی یہ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
{ المغنی ابن قدامہ ( 10 / 352 ) }
اورآّّپ نے جویہ ذکر کیا ہے کہ بعض اوقات بیوی حکومتی قوانین کے مطابق اپنے آپ کوطلاق دے دے ۔ تواس کےبارہ میں ہم کہيں گے کہ :
اگر تویہ کسی ایسے سبب کی بنا پر ہے جس کی بنا پرطلاق مباح ہوجاتی ہے مثلا اگروہ خاوند کوناپسند کرنے لگے ، اوراس کے ساتھ زندگی نہ گزارسکے ، یا پھر خاوند کے فسق وفجوراورحرام کام کرنے کی جرات کرنے کی بنا پر اسے دینی اعتبار سے ناپسند کرنے لگے وغیرہ ، تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن ایسی حالت میں وہ خاوند سے خلع کرلے اوراس کا دیا ہوا مھر واپس کردے ۔
اوراگر وہ طلاق کا مطالبہ کسی سبب کے بغیر کرے توایسا کرنا اس کے لیے جائز نہيں اوراس حالت میں عدالت کا طلاق کےمتعلق فیصلہ شرعی نہيں ہوگا بلکہ عورت بدستور اس آدمی کی بیوی ہی رہے گی ۔
تویہاں پرایک مشکل پیش آتی ہے کہ قانونی طور پر تو یہ عورت مطلقہ شمار ہوگی اورعدت گزرنے کے بعد اورکہیں شادی کرلےگی لیکن حقیقت میں بیوی کوطلاق ہوئی ہی نہيں ۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اس جیسے مسئلہ میں کچھ اس طرح کہا ہے :
اب ہمارے سامنے ایک مشکل ہے ، اس کی زوجیت اورعصمت میں رہتے ہوۓ کہیں اورشادی کرنا اس کے لیے حرام ہے ، اور ظاہری طور پر عدالت کے حکم کے مطابق اسے طلاق ہوچکی ہے اورجب عدت ختم ہوجاۓ تو وہ کہیں اورشادی کرسکتی ہے ۔
تومیری راۓ یہ ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل خیر اوراصلاح کرنے والے لوگ ضرور اس مسئلہ میں دخل دیں تا کہ خاوند اوربیوی کے درمیان صلح ہوسکے ، وگرنہ وہ عورت اپنے خاوند کوعوض ادا کردے تا کہ شرعی طور پر خلع ہوسکے ۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے ملاقات کا دروازہ کھلا ہے نمبر ( 54 ) دیکھیں کتاب لقاء الباب مفتوح نمبر ( 54 ) ( 3 / 174 ) طبع دار البصیرہ مصر ۔
خلع کی عدت :
1 - خلع اصل میں بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔
2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اوریا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :
{ اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو } الاحزاب ( 49 ) ۔
3 - اورخلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جوحکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :
پہلا :
یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اورصریح موجود ہے ۔
امیر المومنین عثمان بن عفان اورعبداللہ بن عمر بن خطاب اور ربیع بنت معوذ اوران کے چچا جو کبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اور ان کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔
لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :
انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔
اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔
اورجب بیوي کےلیے رجعت اورواپسی ہے ہی نہيں توپھرعدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کےلیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اوررجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد { 5 / 196 / 197 }
اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :
خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :
پہلا :
یہ کہ خاوند کواس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔
دوسرا :
اس کی تعداد تین ہے توتین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔
تیسرا :
اس میں عدت تین حیض ہیں ۔
تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پرحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فضیلةالشیخ محمد صالح المنجد حفظ اللہ
حافظ صلاح الدین یوسف
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
خلع : خلع وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ (اللہ اور اس کے رسول) نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔
یہ معاملہ اگر گھر ہی کے اندر طے پاجاتا ہے اور خاوند یہ محسوس کرتے ہوئے کہ طلاق نہ دینے کی صورت میں خوشگوار تعلقات، جو نکاح کا اصل مقصد ہیں، قائم نہیں رہ سکتے تووہ عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم کرکے طلاق دے دے اور حق مہر واپس لے لے جو وہ شرعاً لینے کا حق دار ہے یامعاف کردے (بطورِ احسان کے) تو اس طرح خلع ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے اور یوں معاملہ نہایت خوش اُسلوبی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے۔ خلع ایک ہی مجلس میں واقع ہو جائے گی ؛ کیونکہ اس میں رجوع نہیں ہوتا
سنن ابوداود ، باب في الخلع
باب: خلع کے احکام و مسائل۔
حدیث نمبر : 2227
عن عمرة بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارة، أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهل الأنصارية، أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه في الغلس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "من هذه ". فقالت أنا حبيبة بنت سهل . قال "ما شأنك ". قالت لا أنا ولا ثابت بن قيس . لزوجها فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم "هذه حبيبة بنت سهل ". وذكرت ما شاء الله أن تذكر وقالت حبيبة يا رسول الله كل ما أعطاني عندي . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس "خذ منها ". فأخذ منها وجلست هي في أهلها ‘‘
( قال الشيخ الألباني: صحيح )
عمرہ بنت عبدالرحمٰن، حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ یہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے جانے لگے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس کھڑے پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”یہ کون ہے؟“ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے پوچھا ”کیا بات ہے؟“ کہنے لگی میں نہیں اور ثابت بن قیس نہیں! یعنی اپنے شوہر کے متعلق کہا۔ (مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں) پھر جب سیدنا ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”حبیبہ بنت سہل آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا اس نے مجھ سے بیان کیا۔“ حبیبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو کچھ انہوں نے مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا ”اس سے وصول کر لو۔“ چنانچہ انہوں نے مال لے لیا اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے ہاں بیٹھ رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عائشة، أن حبيبة بنت سهل، كانت عند ثابت بن قيس بن شماس فضربها فكسر بعضها فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الصبح فاشتكته إليه فدعا النبي صلى الله عليه وسلم ثابتا فقال "خذ بعض مالها وفارقها ". فقال ويصلح ذلك يا رسول الله قال "نعم ". قال فإني أصدقتها حديقتين وهما بيدها فقال النبي صلى الله عليه وسلم "خذهما ففارقها ". ففعل .
(سنن ابوداود ، باب في الخلع ۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح )
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حبیبہ بنت سہل، سیدنا ثابت بن قیس بن شماس کی زوجیت میں تھی تو ثابت نے اس کو مارا اور اس کا کچھ توڑ بھی دیا، تب وہ فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور شوہر کی شکایت کی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو بلایا اور فرمایا ”اس سے کچھ مال لے لو اور اس کو علیحدہ کر دو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ صحیح ہے؟ آپ نے فرمایا ”ہاں۔“ انہوں نے کہا: میں نے اس کو مہر میں دو باغ دیے ہیں اور وہ اسی کے قبضے میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ دونوں لے لو اور اسے علیحدہ کر دو۔“ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] خلع وقت حاجت اور معقول ضرورت کے تحت مشروع ہوگا ورنہ نفاق شمار کیا جائے گا ، ارشاد نبوی ہے {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
{ سنن النسائی ، مسند احمد } ۔
[۲] خلع کے لئے وقت و عدد کی وہ شرطیں نہیں ہیں جو طلاق کے لئے ہیں ، یعنی خلع حالت حیض میں ہوسکتا ہے اور ایک سے زائد بار بھی ہو سکتا ہے ۔
[۳] خلع کے بعد عورت پر عدت صرف ایک حیض ہوگی اور اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا بلکہ بصورت اتفاق عقد جدید ضروری ہے ۔
[۴] خلع میں بہتر تو یہ ہے کہ شوہر مہر سے زیادہ واپس نہ لے البتہ جائز ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بلا کسی معاوضہ کے چھوڑ دے ۔
[۵] شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ عورت کو تنگ کرے کہ وہ خلع لینے پر مجبور ہو ، تاکہ مہر وغیرہ معاف کرائے ۔
[6]خلع کے لئے ضروری ہے کہ یہ معاملہ میاں بیوی کی موافقت سے ہو ، کسی فریق کو مجبور نہ کیا جائے
عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
کیا میاں بیوی کے درمیان عدالتی تفریق(بذریعہ خلع)کے بعد میاں بیوی نکاحِ جدید کے ذریعے دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرسکتے ہیں؟
جواب : اس کا جواب اثبات میں ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں دوبارہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو باہم رضا مندی اور نئے نکاح کے ذریعے سے یہ تعلق زوجیت دوبارہ بحال ہوسکتا ہے۔
خلع کے بعد میاں و بیوی کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے ۔ طلاق کی طرح اس کی تعداد محدود نہیں ، اور نہ ہی اس میں حلالہ وغیرہ کی نوبت آتی ہے کیونکہ ’ حتی تنکح زوجا غیرہ ‘ کی شرط طلاق کے لیے ہے ، خلع کے لیے نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
خلع طلاق شمار نہیں ہوتا
البتہ عورت کا بار بار خلع لینا ( یا اس پر مجبور کیا جانا ) اور پھر نکاح کرنا ، یہ زوجین کی طرف سے نکاح جیسے عظیم بندھن کے ساتھ مذاق سی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔
حافظ صلاح الدین یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی معاوضہ دے کر علیحدہ ہو تو اسے خلع کہا جاتا ہے ، اس طرح خاوند معاوضہ لے کر اپنی بیوی کو چھوڑ دے چاہے وہ یہ معاوضہ مہر جو کہ خاوند نے دیا تھا وہ ہو یا اس سے زيادہ اور یا پھر کم ہو ۔
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورتمہارے لیے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ دونوں اس سے خوفزدہ ہوں کہ وہ اللہ تعالی کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ، توپھر ان پر کوئي گناہ اورجرم نہیں کہ وہ اس کا فدیہ دیں }
{ البقرۃ ( 229 ) }
سنت نبویہ میں اس کی دلیل ثابت بن شماس رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی کی حدیث ہے ۔
ثابت بن شماس رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اور کہنے لگي : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میںیا کہ یا تواس کا باغ واپس کرتی ہے ؟ یہ باغ انہوں نے اسے مہر میں دیا تھا ، تووہ کہنے لگی جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اپنا باغ قبول کرلو اوراسے چھوڑدو ۔ صحیح { بخاری حديث نمبر ( 5273 ) }
علماء کرام نے اس قصہ سے یہ استنباط کیا ہے کہ جب عورت اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کی طاقت نہ رکھے توولی الامر اورحکمران اس کے خاوند سے خلع طلب کرے بلکہ اسے خلع کا حکم دے ۔
خلع کی صورت یہ ہے کہ :
خاوند کے عوض میں کچھ لے یا پھر وہ کسی عوض پر متفق ہوجائيں اورپھر خاوند اپنی بیوی کوکہے کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا خلع کرلیا یا اس طرح کے دوسرے الفاظ کہے ۔
اورطلاق خاوند کا حق ہے یہ اس وقت تک واقع نہیں ہوسکتی جب تک وہ طلاق نہ دے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( طلاق اس کا حق ہے جوپنڈلی کوپکڑتا ہے ) یعنی خاوند سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2081 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 2041 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اسی لیے علماء کرام نے یہ کہا ہے کہ : جسے اپنی بیوی کوطلاق دینے پرظلم کے ساتھ مجبور کیا جاۓ اوراس نے طلاق دے دی تو اس کی یہ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
{ المغنی ابن قدامہ ( 10 / 352 ) }
اورآّّپ نے جویہ ذکر کیا ہے کہ بعض اوقات بیوی حکومتی قوانین کے مطابق اپنے آپ کوطلاق دے دے ۔ تواس کےبارہ میں ہم کہيں گے کہ :
اگر تویہ کسی ایسے سبب کی بنا پر ہے جس کی بنا پرطلاق مباح ہوجاتی ہے مثلا اگروہ خاوند کوناپسند کرنے لگے ، اوراس کے ساتھ زندگی نہ گزارسکے ، یا پھر خاوند کے فسق وفجوراورحرام کام کرنے کی جرات کرنے کی بنا پر اسے دینی اعتبار سے ناپسند کرنے لگے وغیرہ ، تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن ایسی حالت میں وہ خاوند سے خلع کرلے اوراس کا دیا ہوا مھر واپس کردے ۔
اوراگر وہ طلاق کا مطالبہ کسی سبب کے بغیر کرے توایسا کرنا اس کے لیے جائز نہيں اوراس حالت میں عدالت کا طلاق کےمتعلق فیصلہ شرعی نہيں ہوگا بلکہ عورت بدستور اس آدمی کی بیوی ہی رہے گی ۔
تویہاں پرایک مشکل پیش آتی ہے کہ قانونی طور پر تو یہ عورت مطلقہ شمار ہوگی اورعدت گزرنے کے بعد اورکہیں شادی کرلےگی لیکن حقیقت میں بیوی کوطلاق ہوئی ہی نہيں ۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اس جیسے مسئلہ میں کچھ اس طرح کہا ہے :
اب ہمارے سامنے ایک مشکل ہے ، اس کی زوجیت اورعصمت میں رہتے ہوۓ کہیں اورشادی کرنا اس کے لیے حرام ہے ، اور ظاہری طور پر عدالت کے حکم کے مطابق اسے طلاق ہوچکی ہے اورجب عدت ختم ہوجاۓ تو وہ کہیں اورشادی کرسکتی ہے ۔
تومیری راۓ یہ ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل خیر اوراصلاح کرنے والے لوگ ضرور اس مسئلہ میں دخل دیں تا کہ خاوند اوربیوی کے درمیان صلح ہوسکے ، وگرنہ وہ عورت اپنے خاوند کوعوض ادا کردے تا کہ شرعی طور پر خلع ہوسکے ۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے ملاقات کا دروازہ کھلا ہے نمبر ( 54 ) دیکھیں کتاب لقاء الباب مفتوح نمبر ( 54 ) ( 3 / 174 ) طبع دار البصیرہ مصر ۔
خلع کی عدت :
1 - خلع اصل میں بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔
2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اوریا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :
{ اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو } الاحزاب ( 49 ) ۔
3 - اورخلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جوحکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :
پہلا :
یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اورصریح موجود ہے ۔
امیر المومنین عثمان بن عفان اورعبداللہ بن عمر بن خطاب اور ربیع بنت معوذ اوران کے چچا جو کبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اور ان کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔
لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :
انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔
اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔
اورجب بیوي کےلیے رجعت اورواپسی ہے ہی نہيں توپھرعدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کےلیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اوررجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد { 5 / 196 / 197 }
اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :
خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :
پہلا :
یہ کہ خاوند کواس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔
دوسرا :
اس کی تعداد تین ہے توتین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔
تیسرا :
اس میں عدت تین حیض ہیں ۔
تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پرحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فضیلةالشیخ محمد صالح المنجد حفظ اللہ
حافظ صلاح الدین یوسف
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment