find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Shab-E-Barat Ki Sharai Haisiyat Tafseel Ke Sath.

Shab-E-Barat Ki Sharai Haisiyat Kya Hai



"سلسلہ سوال و جواب نمبر-234
سوال_ شب برات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اور پندرہ شعبان کے دن روزہ رکھنا یا رات کو عبادت کرنا سنت ہے یا بدعت؟علامہ البانی کی 15شعبان والی رات کی فضیلت والی رات کی تخریج کا مسئلہ کیا ہے؟
جواب:  الحمدللہ:
ماہ شعبان کی فضیلت میں بہت سی باتیں معروف ہیں، جن کی کچھ حقیقت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ رسول اللہﷺ اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے اور دوسروں کو اس کی تلقین فرماتے تھے اور وہ بھی استقبال رمضان کے لیے نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ ماہ شعبان میں اعمال نامے اللہ کے ہاں پیش ہوتے ہیں،
ماہ شعبان میں روزوں کی فضیلت کے (( حوالے سے دیکھیں سلسلہ نمبر-50))
شب برات کی حقیقت
ماہِ شعبان کی پندرہ تاریخ کو کچھ واعظین اور صوفی حضرات بہت اہمیت دیتے ہیں اور اس کی فضیلت میں بہت سی من گھڑت باتیں بیان کرتے ہیں، مثلاً اس مہینے میں قبرستان جانا، شب برات کے نام سے روزہ رکھنے والے کو 80 سال کے روزوں کا ثواب،دعا کرنے والے کی دعا رد نہیں ہوتی،اور رزق دیا جاتا ہے پورے سال کا، اور  اللہ کے عرش کے نیچے ایک درخت ہے جس کے ہر پتے پر ہر انسان کا نام لکھا ہوتا ہے، پندرہ شعبان سے لے کر ایک سال تک جنہوں نے مرنا ہوتا ہے ان کے پتے جھڑ جاتے ہیں اور جنہوں نے پیدا ہونا ہوتا ہے ان کے پتے اُگ آتے ہیں۔ پھر اس دن اور رات کو خصوصی نماز، وظائف اور کئی بدعات کرتے اور ان کی ترویج میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ۔ حالانکہ ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں اور نہ ہی ان کا اسلام سے کچھ تعلق ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شب برأت کے لفظی معنی کیا ہیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عرف عام میں پندرہ شعبان کی رات کو”شب برأت“کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ”شب برأت“ فارسی اور عربی یا اُردو کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔
1 شب فارسی میں رات کو کہتے ہیں اور برأت (مہموز) عربی کا لفظ ہے،جس کے معنی”بری ہونے اور نجات پانے“ کے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کا معنی ہوا”بیزاری والی رات“۔
2 اگر لفظ برأت (غیر مہموز) ہو تو یہ سنسکرت سے ماخوذ ہے اور یہ فارسی واُردو میں الگ الگ معنی دے گا۔
اُردو میں اس (برات) سے مراد وہ جلوس جو دُولہا اپنے ساتھ شادی کے لیے لے کر جاتا ہے اور فارسی میں برات (غیر مہموز) یعنی حصّہ، نقد اور تقدیر وغیرہ ہے۔
اس نام "شب برأت" کے خالص عربی نہ ہونے سے ہی اس کے بناوٹی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، اگر دین میں اس کی کوئی اہمیت ہوتی تو اس کا نام ”لیلۃ البرأة“ ہوتا، جبکہ دین حنیف میں اس کا کسی صحیح حدیث سے ثبوت نہیں ملتا۔
بعض کا خیال ہے کہ یہ نام شیعہ نے رکھا ہے، وہ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تبرّا کرتے ہیں، اس لیے اسے ”شب برأت“کہتے ہیں ۔ یعنی ”تبرّا کی رات“ (بیزاری کی رات) اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے ”تبرّا“ کی جگہ اسی کا ہم معنی لفظ ”برأت“ لگا کر مسلمانوں میں عام کر دیا۔
چنانچہ شیعہ کی مشہور کتاب ”حق االیقین از باقر مجلسی“میں اس رات کے متعلق ان کا یہ فاسد عقیدہ لکھا ہے کہ ”اس رات امام مہدی تشریف لائیں گے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان کی قبروں سے نکال کر سولی پر لٹکائیں گے اور شیعہ کو اہل سنت والجماعت سے نجات دلوائیں گے۔“ نعوذ باللہ من ذلك
[ حق الیقین از باقر مجلسی ، ص ۱۴۵ بحوالہ ایرانی انقلاب ،ص۲۱۴ تا ۲۱۹ ]
بعض لوگ سورۂ دخان کی ابتدائی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں جو لیلۃ مبارکہ کا تذکرہ ہوا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے مگر یہ قیاس آرائی محض باطل پر مبنی ہے حالانکہ اس جگہ لیلہ مبارکہ سے مراد” لیلۃ القدر“ ہی ہے کیونکہ قرآن مجید ”لیلۃ القدر“ میں نازل کیا گیا ہے۔
[ تفسیر جامع البیان، رقم (٢٤٠٩) ]
*15 شعبان یعنی شب برات کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔ سب کی سب ضعیف، موضوع اور من گھڑت ہیں ۔اگلی سطور میں ہم ایسی کچھ روایات کی تخریج وتحقیق پیش کریں گے  ان شاء اللہ تعالیٰ
پندرہویں شعبان کی رات (المعروف شب ِ براءت )کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث ''صحیح'' ثابت نہیں ہے،
علامہ ابن العربی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولیس فی لیلۃ النّصف من شعبان حدیث یعوّل علیہ ، لا فی فضلھا ، ولا فی نسخ الآجال فیھا ، ، فلا تلتفتوا الیھا ۔
''پندرہویں شعبان کی رات کے بارے میں کوئی بھی قابل اعتماد حدیث موجود نہیں ہے ، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اورنہ اس میں عمریں لکھے جانے کے بارے میں ، لہٰذا (ثواب کی نیت سے )تم اس کی طرف التفات ہی نہ کرو ۔
''(احکام القرآن لابن العربی : ٤ج/١٦٩٠)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لا یصحّ منھا شیء ۔ ''پندرہویں رات کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں،
(المنار المنیف : ٩٨۔٩٩)
جناب محمد یوسف بنوری دیوبندی لکھتے ہیں: ولم أقف علی حدیث مسند مرفوع صحیح فی فضلھا ۔
''پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں مجھے کوئی متصل سند والی ، مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ملی ۔''
(معارف السنن : ٥/٤١٩)
جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں : ''شب ِ براء ت کی فضیلت میں بہت سی روایات مروی ہیں ، جن میں سے بیشتر علامہ سیوطی نے الدّر المنثور میں جمع کر دی ہیں ، یہ تمام روایات سنداً ضعیف ہیں ۔''
(درسِ ترمذی از تقی : ٢/ ٥٧٩۔٥٨٠)
شب برات کے حوالے سے تقریباً کوئی سو کے قریب روایات،و آثار ملتے ہیں جن میں سے سوائے ایک دو روائیتوں کے باقی تمام روایات کے ضعیف،موضوع ہونے پر علماء متفق ہیں*
*یہاں ہم اسی اختلافی روایت کی تخریج پیش کرتے ہیں جسکو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے،جسکی وجہ سے علماء کرام میں بہت اختلاف ہے*
محدث البانی رحمہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت والی ایک روایت کو مختلف طرق کی بنا پر ''صحیح'' قرار دیا ہے
روائیت یہ ہے! کہ
رسول ﷺ نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ : 1144)
(صحیح الترغیب و الترھیب: 2767‘علامہ البانی۔)
*لیکن بہت سارے علماء کی تحقیق و تخریج اور محدثین کرام کی وضاحت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  علامہ صاحب کا نصف شعبان والی ایک حدیث کو صحیح یا حسن کہنا غلطی ہے*
علامہ البانی رحمہ اللہ نے جن مختلف طرق کی بنا پر اس روائیت کو صحیح کہا ہے وہ تمام طرق ہی اپنی جگہ پر ضعیف ہیں،
*آئیے سب سے پہلے ہم ان سب روایات کی تخریج پیش کرتے ہیں*
*پہلی روائیت*
1_ حدیث ِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ : سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یطّلع اللّٰہ الیٰ خلقہ لیل النّصف من شعبان ، فیغفر لجمیع خلقہ الّا مشرک أو مشاحن ۔''اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں ، مشرک اور اپنے مسلمان بھائی سے بغض و عداوت اور دشمنی و کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرما دیتے ہیں ۔
(کتاب السّنّۃ لابن ابی عاصم : ٥١٢، )
( المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٠/١٠٨،)
( صحیح ابن حبان (الاحسان : ٥٦٣٦) ( المعجم الاوسط للطبرانی : ٧/٢٩٧، ح : ٦٧٧٢،)
( شعب الایمان للبیہقی : ٢/٣٨٢، ح : ٣٨٣٣)
تبصرہ :
اس روایت کی سند ''ضعیف'' ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مکحول لم یلق مالک بن یخامر ۔
''مکحول نے مالک بن یخامر سے ملاقات نہیں کی ۔''
(السلسلۃ الصحیحۃ : ١١٤٤)
لہٰذا یہ سند ''منقطع'' ہوئی اور ''منقطع'' حدیث ''ضعیف'' ہوتی ہے ،
امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ ایک ''منقطع'' روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: ولیس ھذا الخبر من شرطنا ، لأنّہ غیر متّصل ، لسنا نحتجّ فی ھذا الجنس من العلم بالمراسیل المنقطعات
۔''یہ حدیث ہماری شرط پر صحیح نہیں ، کیونکہ اس کی سند متصل نہیں ، ہم (محدثین )اس طرح کی مرسل و منقطع روایات سے حجت نہیں پکڑتے ۔
''(کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ١/٢٤٥۔٢٤٦)
تنبیہ :
مکحول تابعی رحمہ اللہ کا قول ہے :
انّ اللّٰہ یطّلع علی أھل الأرض فی النّصف من شعبان ، فیغفر لھم الّا لرجلین ، الّا کافر أو مشاحن ۔
''اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو اہل زمین پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں ، دو شخصوں ، کافر اور اپنے بھائی سے بغض و عداوت رکھنے والے کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں ۔''
(شعب الایمان للبیہقی : ٣/٣٨١، ح : ٣٨٣٠، وسندہ، حسنٌ)
عین ممکن ہے کہ مکحول تابعی رحمہ اللہ کے اس قول کو ''ضعیف'' اور کمزور راویوں نے ''مرفوع'' حدیث بنا دیا ہو۔تنبیہ :
امام طبرانی کی المعجم الاوسط (١/١٣٠، ح : ٢٠٥)میں مکحول راوی خالد بن معدان عن کثیر بن مرۃ کے واسطہ سے بیان کرتا ہے ، یہ سند بھی ''ضعیف'' ہے ،
اس میں سلیمان بن احمد الواسطی راوی جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' ہے ، نیز اس میں امام طبرانی کے استاذ احمد بن حسین بن مدرک کی توثیق بھی مطلوب ہے
*دوسری روایت*
2_حدیث ِ ابی ثعلبہ رضی اللہ عنہ :
سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا کان لیلۃ النّصف من شعبان یطّلع اللّٰہ علی خلقہ ، فیغفر للمؤمنین ، ویترک أھل الضّغائن ، وأھل الحقد بحقدھم ۔
''جب پندرہویں شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور مومنوں کو معاف فرمادیتے ہیں ، جبکہ مسلمان بھائی سے دشمنی ، حسد و کینہ ، بغض و عداوت رکھنے والوں کو معاف نہیں فرماتے ہیں ۔'
(کتاب السّنّۃ لابن ابی عاصم : ٥١١، )
(المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٢/٢٢٤، )
تبصرہ :
اس کی سند ''ضعیف'' ہے ، اس کا راوی احوص بن حکیم ''ضعیف الحفظ '' ہے ۔(التقریب : ٢٩٠)
 حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
وضعّفہ الجمہور ۔
(مجمع الزوائد : ٣/٤٢)
نیز مہاصربن حبیب کی ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ،
کتاب العرش (٨٧)کی سند میں مکحول کا واسطہ ہے ، لیکن وہ سند بشر بن عمارہ ''ضعیف'' کی وجہ سے ''ضعیف'' ہے
المعجم الکبیر للطبرانی (٢٢/٢٢٣، ح : ٥٩) میں بشر بن عمارہ کی متابعت عبدالرحمن بن محمد المحاربی نے کی ہے ،
لیکن اس کو امام عقیلی رحمہ اللہ (الضعفاء : ٢/٣٤٨)اور امام عجلی رحمہ اللہ (تہذیب التہذیب : ٦/٢٤٤)وغیرہ نے ''مدلس'' قرار دیا ہے ،
نیز اس سند میں ایک علت یہ ہے کہ اس کے راوی محمد بن آدم المصیصی کے حالات معلوم نہیں ہو سکے ، لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں ہے
*تیسری روائیت*
3_حدیث ِ عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :
سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یطّلع اللّٰہ عزّ وجلّ خلقہ لیلۃ النّصف من شعبان ، فیغفر لعبادہ الّا اثنین مشاحن وقاتل نفس۔'
'اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف خصوصی نگاہ فرماتے ہیں ،مسلمان بھائی سے عداوت رکھنے والے اور قاتل کے علاوہ اپنے تمام بندوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔'
'(مسند الامام احمد : ٢/١٧٦)
تبصرہ :
یہ سند''ضعیف'' ہے ،
اس میں ابنِ لہیعہ ''ضعیف'' اور ''مختلط'' راوی موجود ہے اور اس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ موسیٰ بن حسن نے یہ حدیث ابنِ لہیعہ سے اختلاط سے پہلے سنی ہے ۔
اسی لیے حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواہ أحمد باسناد لیّن ۔''اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے ۔''
(الترغیب والترھیب : ٣/٤٦٠)
امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رشدین بن سعد نے ابنِ لہیعہ کی متابعت کی ہے ۔
(حدیث ابن حیویہ : ٣/١٠/١، السلسلۃ الصحیحۃ)
اور رشدین بن سعد ''ضعیف'' ہے
(تقریب التہذیب : ١٩٤٣)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعّفہ الجمہور ۔ ''اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔''
(مجمع الزوائد : ١/١٦٠، ٥/٦٦)
لہٰذا یہ متابعت بے فائدہ ہے ، اس سے ضعف ختم نہیں ہو سکتا ۔
*چوتھی روایت*
4_حدیث ِ ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ :
سیدناابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انّ اللّٰہ لیطّلع فی لیلۃ النّصف من شعبان ، فیغفر لجمیع خلقہ الّا لمشرک أو مشاحن،
''اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات کو خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور اپنی تمام مخلوق کو ماسوائے مشرک اور کینہ پرور کے معاف کر دیتے ہیں ۔
(سنن ابن ماجہ : ١٣٩٠،)
( السند الثانی ، السّنّۃ لابن ابی عاصم : ٥١٠)
تبصرہ :
اس کی سند ''ضعیف'' ہے ،
کیونکہ :
1 اس میں ابنِ لہیعہ راوی ''ضعیف و مدلس و مختلط'' ہے ۔
2 زبیر بن سلیم ''مجہول '' ہے ۔
(تقریب التہذیب : ١٩٩٦)
3 عبدالرحمن بن عرزب بھی ''مجہول'' ہے ۔(التقریب : ٣٩٥٠)
ابنِ ماجہ کی پہلی سند بھی ''ضعیف'' ہے ، کیونکہ :
1 اس میں مذکور راوی ابنِ لہیعہ موجود ہے ۔
2 اس میں ولید بن مسلم موجود ہے ،جو کہ ''تدلیس التسویہ '' کا مرتکب ہے
3 ضحاک بن ایمن ''مجہول '' ہے ۔
(التقریب : ٢٩٦٥)
پانچویں روائیت
5_حدیث ِ ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا کان لیلۃ النّصف من شعبان ، یغفر اللّٰہ لعبادہ الّا لمشرک أو مشاحن
۔''جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ مشرک اور بغض وعداوت رکھنے والے کے علاوہ اپنے تمام بندوں کی بخشش فرماتا ہے ۔
''(کشف الاستار عن زوائد البزار : ٢/٤٣٦، ح : ٢٠٤٦،
( العلل المتناھیۃ : ٢/٧٠)
تبصرہ :
اس کی سند ''ضعیف'' ہے ،
کیونکہ اس کا راوی ہشام بن عبدالرحمن ''مجہول'' ہے ۔
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : ولم أعرفہ ۔ ''میں اس کو نہیں جان سکا ۔'
'(مجمع الزوائد : ٨/٦٥)
راوی کی جہالت موجب ِ ضعف ہوتی ہے ، کیونکہ اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا ، جبکہ روایت کی قبولیت کے لیے اس کے راویوں کا عادل ہونا ضروری ہے ۔امام دارقطنی رحمہ اللہ ایک راویہ کے بارے میں لکھتے ہیں : زینب ھذہ مجہولۃ ، لا تقیم بھا حجّۃ ۔'
'یہ زینب مجہولہ ہے ، اس کی روایت سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔''
(سنن الدارقطنی : ١/١٤١، ح : ٤٩٨)
امام طبری رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔(فتح الباری لابن حجر : ١٠/١٩٥)
 امام ابن المنذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : والمجہول لا یجوز الاحتجاج بحدیثہ ، اذ ھو فی معنی المنقطع الّذی لا تقوم بہ الحجّۃ ۔ ''مجہول راوی کی حدیث سے حجت پکڑنا جائز نہیں ، یہ منقطع ہوتی ہے ، جس سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔'
'(الاوسط لابن المنذر : ٢/٢٢٣)
*چھٹی روائیت*
6_حدیث ِ ابی بکر رضی اللہ عنہ :
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ینزل اللّٰہ تبارک وتعالیٰ فی لیلۃ النّصف من شعبان الی السّماء الدّنیا ، فیغفر لکلّ نفس الّا انسان فی قلبہ شحناء أومشرک باللّٰہ عزوجلّ۔
''شعبان کی پندرہویں رات اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں ، ہر جان کی بخشش فرماتے ہیں ، سوائے اس انسان کے جس کے دل میں بغض و عداوت ہو یا اللہ عزّ وجلّ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہو۔''
(السّنّۃ لابن ابی عاصم : ٥٠٩،)
( کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ح : ٢٠٠، )
(کشف الاستار : ٢/٤٣٥،)
( شعب الایمان للبیہقی : ٣٨٢٧،)
( اخبار اصفھان لابی نعیم : ٢/٢)
تبصرہ :
اس کی سند بھی ''ضعیف'' ہے ،
کیونکہ :
1_ اس کا راوی عبدالملک بن عبدالملک جمہور کے نزدیک مجروح ہے ،
 امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ''متروک'' ہے ۔
(سوالات البرقانی : ٣٠٤)
،امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بارے میں فیہ نظر فرماتے ہیں۔
(التاریخ الکبیر : ٥/٤٢٤)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : منکر الحدیث جدّاً ۔
''یہ سخت ترین منکر الحدیث ہے ۔''
(کتاب المجروحین لابن حبان : ٢/١٣٦)
2_ دوسرے راوی مصعب بن ابی ذئب کے بارے میں
 امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ''متروک'' ہے ۔
(سوالات البرقانی : ٥٠٨)
*ساتویں روائیت*
7_حدیث ِ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ : اس حدیث کو ابنِ لہیعہ نے عبدالرّحمن بن زیاد بن أنعم عن عبادۃ بن نسیّ عن کثیر بن مرۃ عن عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے بیان کیاہے ۔
(کشف الاستار : ٢/٤٣٦، المجلس السابع لابی محمد الجوہری : الصحیحۃ : ٣/١٣٧)
تبصرہ :
اس کی سند بھی ''ضعیف'' ہے ،
اس کی سند میں عبدالرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی راوی جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' ہے
، یہ ''مدلس'' بھی ہے،
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : عبدالرّحمن بن زیاد الأفریقی ، وھو ضعیف بالاّتفاق ۔''عبدالرحمن بن زیاد الافریقی بالاتفاق ضعیف راوی ہے ۔''
(خلاصۃ الاحکام للنووی : ١/٤٤٩)
اس کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے المجروحین (٢/٥٠)میں ذکر کیاہے اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ''مدلس'' قرار دیا ہے ۔
*آٹھویں روائیت*
8_حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اللّٰہ عزّ وجلّ ینزل لیلۃ النّصف من شعبان الی السّماء الدّنیا ، فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب ۔
''اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ انسانوں کی مغفرت فرما دیتے ہیں ۔
''(سنن الترمذی : ١/١٠٦، ح : ٧٣٩، )
(سنن ابن ماجہ : ١٣٨٩، )
(مسند الامام احمد : ٦/٢٣٨،)
( شعب الایمان للبیہقی : ٣٨٢٤،)
( مسند عبد بن حمید : ١٥٠٧، )
(العلل المتناھیۃ : ٢/٦٦)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف'' ہے ، کیونکہ :
1_ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،
اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا ۔'
'(جامع ترمذی : ٧٣٩)
2_حجاج بن ارطاۃ جمہور کے نزدیک ''ضعیف '' اور ''مدلس'' ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''ٖحجاج بن ارطاۃ جمہور کے نزدیک حجت نہیں ہے ۔''
(میزان الاعتدال : ٤/٢٩٦)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الحجّاج بن أرطاۃ ، اتّفقوا علی أنّہ مدلّس وضعّفہ الجمہور ، فلم یحتجّوا بہ ۔
''حجاج بن ارطاۃ راوی بالاتفاق مدلس ہے ، اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے ، انہوں نے اس سے حجت نہیں پکڑی ۔''
(تہذیب الاسماء واللغات للنووی : ١/١٥٢)
حافظ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔
(طرح التثریب لابن العراقی : ٣/٤٢)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فانّ الأکثر علی تضعیفہ ، والاتّفاق علی أنّہ مدلّس ۔'
'اکثر محدثین اسے ضعیف کہتے ہیں ،
اس کے مدلس ہونے پر تو اجماع و اتفاق ہے ۔'
'(التلخیص الحبیر : ٢/٢٢٦)
3_اس حدیث کے تین شواہد ہیں :
#پہلا_
(العلل المتناھیۃ لابن الجوزی : ٢/٦٧، ٦٨، ح : ٩١٧)
یہ سلیمان بن ابی کریمہ کی وجہ سے ''ضعیف'' ہے ،
کیونکہ یہ ''ضعیف '' راوی ہے اور منکر روایات بیان کرتا تھا ۔
#دوسرا_
العلل المتناھیۃ لابن الجوزی : ٢/٦٨۔٦٩، ح : ٩١٨)
اس کی سند بھی ''ضعیف'' ہے ،سعید بن عبدالکریم الواسطی کی توثیق مطلوب ہے ۔
تیسرا_
(العلل المتناھیۃ لابن الجوزی : ٢/٦٩، ح : ٩١٩)
اس کی سند میں عطاء بن عجلان ''کذاب و متروک' ' موجود ہے ، لہٰذا ''ضعیف'' ہے
یہ وہ آٹھ روایات ہیں جن کی بنا پر امام البانی رحمہ اللہ نے نصف شعبان کہ فضیلت والی اس حدیث کو ''صحیح '' کہا ہے ، جبکہ ان تمام طرق کا ضعف واضح ہے ، لہٰذا ان کی بنا پر اس حدیث کو ''صحیح '' کہنا صحیح نہیں ، بلکہ خطا ہے ،کیونکہ ضعیف طرق کی بنا پر حدیث ''صحیح'' نہیں ہوجاتی
الحاصل :
یہ حدیث اپنی جمیع سندوں کے ساتھ ''ضعیف'' ہے ، علماء کی تصریحات بھی گزر چکی ہیں۔ ضعیف حدیث سے حجت پکڑنا صحیح نہیں ہے ،
 جیسا کہ امام الائمہ ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا نحتجّ بالمراسیل ولا بالأخبار الواھیۃ ۔ ''ہم مرسل روایات سے حجت نہیں پکڑتے ، نہ ہی ضعیف حدیثوں سے دلیل لیتے ہیں ۔''
(کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ١/١٣٧)
امام ترمذی رحمہ اللہ ایک ضعیف حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : لا تقوم بمثلہ الحجّۃ ۔''اس طرح کی ضعیف روایات سے حجت قائم نہیں ہوتی ۔'
'(جامع ترمذی ، تحت حدیث : ٩٣١)
__________&__________
نصف شعبان یعنی شب برات میں عبادات یعنی نفل نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے وغیرہ کے بارے بھی تمام روایات ضعیف اور موضوع ہیں اس بارے چند احادیث کی تخریج پیش خدمت ہے
پہلی حدیث
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی ( کسی بیماری یا مصیبت میں ) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں؟
(سنن ابن ما جہ حدیث نمبر-1388)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الجامع 652 • موضوع )
یہ حدیث موضوع یعنی جھوٹی ھے،
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف اس بات کو منسوب کرنا آپ کی طرف جھوٹ باندھنا ھے-
علامہ ہیثمی مجمع الزوائد مے تحریر فرماتے ھیں“اس حدیث کی سند ضعیف ھے اور ضعف ابن ابی سبرہ کی وجہ سے ھے اس کا نام ابو بکر بن عبدالله بن محمد ابن ابی سبرہ ھے-اس کے متعلق امام احمد بن حنبل اور یحیئ بن معین نے کہا کے یے احادیث گھڑا کرتا تھا-
الغرض یے حدیث جھوٹی ھئ. (تہزیب التہزیب٢٨:١٢)
دوسری حدیث
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
(اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادٰی مُنَادٍ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہٗ؟ ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأَعْطِیَہُ؟ فَلَایَسْاَلُ اَحَدٌ شَیْئًا اِلاَّ أُعْطِیَ اِلاَّ زَانِیَۃٌ بِفَرْجِھَا أَوْ مُشْرِکٌ
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو ایک پکار لگانے والا پکار لگاتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والاکہ میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ پس نہیں کوئی سوال کرتا کسی چیز کے بارے میں مگر اس کو وہ چیز دے دی جاتی ہے سوائے اُس عورت کے جو اپنی شرم گاہ کے ساتھ زنا کرتی ہے اور مشرک کے ‘‘۔
یہ روایت بھی ضعیف ہے
دیکھیں
(ضعیف الجامع الصغیر:653‘ علامہ البانی)
تیسری  حدیث
عائشہ رض سے روائیت ہے کہ،
(اِنَّ اللّٰہَ یَطَّلِعُ عَلٰی عِبَادِہٖ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَـیَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِیْنَ وَیَرْحَمُ الْمُسْتَرْحِمِیْنَ وَیُؤَخِّرُ اَھْلَ الْحِقْدِ کَمَا ھُمْ)
’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس استغفار کرنے والوں کو بخش دیتے ہیں اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور اہل بغض کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں ۔‘‘
یہ روایت بھی ضعیف ہے،
(ضعیف الجامع الصغیر:1739‘علامہ البانی)
چوتھی روائیت
راشد بن سعد سے نصف شعبان کی رات کے بارے میں مرسلاً مروی ہے :
یُوْحِی اللّٰہُ اِلٰی مَلَکِ الْمَوْتِ یَقْبِضُ کُلَّ نَفْسٍ یُرِیْدُ قَبْضَھَا فِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ
’’اللہ تعالیٰ( اس رات میں ) ملک الموت کی طرف وحی کرتے ہیں کہ وہ ہر اُس جان کو قبض کر لے جس کو اللہ تعالی ٰنے اس سال میں قبض کرنے کا ارادہ کیا ہے‘‘۔
یہ روایت بھی ضعیف ہے،
(ضعیف الجامع الصغیر:4019‘علامہ البانی)
پانچویں روائیت
۔حضرت ابواسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
خَمْسُ لَـیَالٍ لَا تُرَدُّ فِیْھِنَّ دَعْوَۃٌ : أَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلَیْلَۃُ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃُ الْفِطْرِ وَلَیْلَۃُ النَّحْرِ (۲۲)
’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی: رجب کے مہینے کی پہلی رات ‘ نصف شعبان کی رات ‘ جمعہ کی رات ‘ عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات ۔‘‘
یہ روائیت بھی ضعیف ہے،
(دیکھیں ضعیف الجماع الصغیر ،2852)
چھٹی حدیث
۔قَالَ رَسوْلُ اللّٰہِ ﷺ :
مَنْ صَلّٰی فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ مِائَۃَ رَکْعَۃٍ اَرْسَلَ اللّٰہُ اِلَیْہِ مِائَۃَ مَلَکٍ ثَلاَثُوْنَ یُبَشِّرُوْنَہٗ بِالْجَنَّۃِ وَثَلاَثُوْنَ یَؤْمِنُوْنَہٗ عَنْ عَذَابِ النَّارِ وَثَلاَثُوْنَ یَدْفَعُوْنَ عَنْہُ آفَاتِ الدُّنْیَا وَعَشْرَۃٌ یَدْفَعُوْنَ عَنْہُ مَکَائِدَ الشَّیْطَانِ
’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص بھی اس رات سو رکعات ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کی طرف سو فرشتوں کو بھیجے گا ‘تیس فرشتے اس کو جنت کی خوشخبری دیں گے ‘تیس اس کو آگ کے عذاب سے امن دیں گے ‘ تیس اس سے دنیا کی آفات کودُور کریں گے اور دس اس سے شیطان کی چالوں کو دور کریں گے ۔‘‘
یہ روایت بھی موضوع من گھڑت ہے،
دیکھیں
(ابن جوزی الموضوعات‘‘ کتاب الصلاۃ‘ باب صلاۃ اللیلۃ النصف من شعبان)
ساتویں حدیث
۔مَنْ صَلّٰی لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یَقْرَأُ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ثَلَاثِیْنَ مَرَّۃً لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَرٰی مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ
’’جس نے نصف شعبان کی رات کو بارہ رکعات ادا کیں اور ہر رکعت میں ’’قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ تیس مرتبہ پڑھی تو وہ اپنے مرنے سے پہلے جنت میں اپنا مقام دیکھ لے گا اور گھر کے ان دس افراد کی شفاعت کرے گاجن کے لیے آگ واجب ہو چکی ہو ۔‘‘
یہ روایت بھی منگھڑت موضوع ہے
(دیکھیں: اللآلی المصنوعۃ‘ علامہ سیوطی‘ کتاب الصلاۃ)
آٹھویں حدیث
حضرت علی رض سے
منْ أَصْبَحَ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ صَائِمًا کَانَ کَصِیَامِ سِتِّیْنَ سَنَۃً مَاضِیَۃً وَسِتِّیْنَ سَنَۃً مُقْبِلَۃً
’’جس نے اس دن روزہ رکھا اسے ساٹھ سال ماضی کااور ساٹھ سال مستقبل کا روزہ رکھنے کا ثواب ہو گا ۔‘‘
یہ روائیت بھی من گھڑت ہے
(البيهقي (٤٥٨ هـ)، شعب الإيمان ٣/١٤٠٩ ) (علامہ ابن الجوزي (٥٩٧ هـ)، نے موضوعات (ابن الجوزي ٢/٤٤٥ • میں اسکو موضع من گھڑت قرار دیا ہے،
قارئین کرام::
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شب برات یعنی 15 شعبان کے حوالے سے کوئی ایک روایت بھی صحیح سند سے ثابت نہیں،اور نا ہی رسول الله نے شعبان کے مہینے میں ایسا کوئی کام کیا اور نہ ہی خیرالقرون میں ایسی کوئی رسومات کا ثبوت ملتا ہے-یہ سب خود ساختہ ایجادات ہیں،
اس قسم کی ایسی اور بھی کئ احادیث ہیں مگر وہ بھی یا تو شدید ضعیف یا موضوع ہیں جو قابل عمل اور قابل قبول نہیں۔
ماہ شعبان میں رسول صلی الله علیہ وسلم صرف کثرت سے روزے رکھتے تھے-اس وجہ سے کے اس ماہ میں اعمال الله کے سامنے پیش کہئے جاتے ہیں-لہذا ہمیں بھی اس ماہ میں صرف کثرت سے نفلی روزے رکھنے چاہیے،
اسی طرح اس مہینے یا شب برات کے دن یا رات میں قبرستان جانا کوئی سنت عمل نہیں ہے،بلکہ اس دن قبرستان جانے سے پرہیز کریں،
__________&____
شب برات منانا بدعت ہے اور بدعات کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں
اور اسکے علاوہ جو کچھ لوگ کرتے ہیں اس مہینے میں وہ بدعت اور گمراہی ہے،
جیسا کے احادیث میں آتا ھے کے ہر نئی ایجاد اس دین میں بدعت ھے اور ھر بدعت جہنم کی آگ ہے،کیونکہ دین اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل کر دیا گیا تھا،
جیسا کہ قرآن پاک میں آتا ہے
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تعالی نے فرمایا :
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ
'' آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا ، اورتمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا''۔
(سورہ المائدہ،3)
ایک دوسرے مقام پر اللہ عزوجل نے فرمایا :
اَمۡ لَهُمۡ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَهُمۡ مِّنَ الدِّيۡنِ مَا لَمۡ يَاۡذَنۡۢ بِهِ اللّٰهُ‌ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةُ الۡفَصۡلِ لَقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ وَاِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بیشک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
(سورہ الشوریٰ،آئیت نمبر-21)
فَاِنۡ لَّمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَكَ فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا يَـتَّبِعُوۡنَ اَهۡوَآءَهُمۡ‌ ؕ وَمَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰٮهُ بِغَيۡرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ
ترجمہ:
پھر اگر وہ تیری بات قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(سورہ قصص آئیت نمبر-50)
اور احادیث میں ہے کہ!
صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : '' جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جس کاتعلق دین سے نہیں ہے تووہ مردود ہے ''۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2697)
اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے :'' اما بعد : بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کاطریقہ ہے، اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے ایجاد کئے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے''
(صحیح مسلم حدیث نمبر-867)
اور دوسری ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے،
(أبو نعيم (٤٣٠ هـ)، حلية الأولياء ٣/٢٢٠ )
اس معنی و مفہوم کی آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں ۔
مذکورہ بالا آیات و آثار اور اس مضمون کی دیگر آیات و احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس امت کے لئے دین کو مکمل فرمادیا اور اس پر اپنی نعمت پوری کردی اور اپنے نبی محمدﷺ کو اس وقت وفات دی جب آپ ﷺ نے دین کوپورے طور پر پہنچا دیا اور اس امت کے لئے اللہ کی جانب سے مشروع قول و فعل کوواضح کردیا۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ آپ ﷺ کے بعد جو قول وعمل بھی لوگ گھڑ کر اسلام کی جانب منسوب کریں گے وہ سب بدعت کے زمرے میں ہوگا، جوگھڑنے والے پر لوٹا دیاجائے گا اگرچہ گھڑنے والے کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کے بعد کے علماء اسلام نے بدعات کی قباحت اور سنگینی کومحسوس کیا،
اس لئے وہ بدعات کا انکار کرتے اور ان سے ڈراتے رہے، جیسا کہ تعظیم سنت اور انکار بدعت کے موضوع پرتالیفات کے مصنفین کرام نےسختی کے ساتھ بدعات کی مذمت کی ہے، مثلاً ابن وضاح ، طرطوشی ، ابو شامہ وغیرہ۔
انہیں نو ایجاد بدعات سے شب برات کی بدعت بھی ہے جو شعبان کی پندرہویں شب منعقد کی جاتی ہے جس کی شب میں لوگ جشن مناتے ہیں اور دن میں روزے رکھتے ہیں جبکہ اس بارے میں کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے اور اس شب کی فضیلت اور اس میں نوافل کے اہتمام کے بارے میں وارد احادیث یا تو ضعیف اور یاپھر موضوع ہیں ، جیسا کہ بیشتر اہل علم نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیاہے، اور اس متعلق کچھ روایات اور انکا حکم ہم اوپر بیان کر چکے ہیں،
نیز:
اس رات کی فضیلت کے بارے میں اہل شام وغیرہ سےسلف کے کچھ آثار ملتے ہیں لیکن جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں جشن منانا بدعت ہے ، اور اس کی فضیلت میں وارد سبھی احادیث ضعیف اور بعض موضوع ہیں ،
جیسا کہ حافظ ابن حجر رجب رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (لطائف المعارف) وغیرہ میں اس کی وضاحت کی ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ ضعیف احادیث عبادات کے باب میں لائق عمل اس وقت سمجھی جاتی ہیں جبکہ صحیح احادیث میں ان کا اصل مفہوم ثبت ہو ، شب برات کا یہ جشن و اجتماع توکسی حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ جس کی تائید میں ضعیف حدیثوں سے مدد لی جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ایک عظیم قاعدہ ذکر کیاہے جس کامیں آپ کے سامنے ذکر کرتاہوں جوبعض اہل علم نے اس مسئلہ سے متعلق بیان کیاہے تاکہ آپ کو اس بارے میں پوری واقفیت ہو۔
علماءکرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ شریعت کے جس مسئلہ میں لوگ اختلاف کاشکار ہوجائیں اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی جانب لوٹادیاجائے پھر کتاب وسنت یاان میں سے کوئی ایک جو بھی فیصلہ کردیں وہی واجب الاتباع شریعت ہے، اور جو ان کے مخالف ہوجائے اسے دیوار پر ماردینا ضروری ہے، اور جن عبادات کاذکر ان دونوں میں موجود نہ ہوتووہ عمل بدعت ہے جس کاارتکاب ایک بندہ مسلم کے لئے جائز نہیں ہے چہ جائیکہ لوگوں کو اس کی جانب دعوت دی جائے اور اسے سراہا جائے ،
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ النساء میں فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۵۹ۧ
'' اے ایمان والو۔۔۔ !
فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تمہیں اللہ تعالی پر اورقیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ''۔(سورہ النساء:59)
نیز ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْہِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُہٗٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ
'' اور جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالی ہی کی طرف ہے ''۔
(سورہ الشوریٰ،10)
نیز ارشاد باری تعالی ہے :
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ
'' اے نبی آپ کہہ دیجئے ! اگر اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تومیری تابعداری کروخود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گااورتمہارے گناہوں کومعاف فرمادے گا''۔
(آل عمران: 31)
اور اللہ عزوجل نے فرمایا :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝۶۵
'' سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں''۔
(سورہ نساء،65)
اس مضمون کی آیات بھی بہت زیادہ ہیں ۔
مذکورہ بالا آیات قطعی دلیل ہیں کہ اختلافی مسائل کو کتاب و سنت کی جانب لوٹانا پھر ان دونوں کے فیصلے سے راضی ہونا ہربندہ کی دنیوی و اخروی بھلائی اسی میں مضمر ہے، اور بہ چیز باعتبار انجام کے بہت بہتر ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔آمین  ثم آمین
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS