find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya koi Apne Aap ko kisi Aur Ke Taraf jo uska Walid Nahi ho to Nisbat Kar Sakta Hai?

Jisne Jan Bujhakar Kisi Dusre Ko Taraf Apne Aap ko Mansoob  Kiya
─━══★ لے پالک کا حکم★══━─
لے پالک بیٹا بنانے کا رواج دور جاہلیت میں بعثت نبوی سے قبل تھا، جو شخص اپنے بچے کے علاوہ کسی کو منہ بولا بیٹا بناتا تو اسے اپنی جانب منسوب کرتا، اسے وراثت میں حصہ دیتا، اور اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خلوت کی اجازت دیتا، اور باپ پر اپنے لے پالک کی بیوی حرام ہوتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ لے پالک اولاد تمام معاملات میں حقیقی اولاد کی طرح سمجھی جاتی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ بن شراحیل الکلبی کو بعثت سے قبل منہ بولا بیٹا بنایا تھا، اور انہیں زید بن محمد کہکر پکارا جاتا تھا، لے پالک بیٹا بنانے کا عمل سنہ 3 ھجری یا 5 ھجری تک اسی طرح جاری رہا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔
پھر اللہ تعالی نے لے پالک بیٹوں کو ان کے حقیقی ان باپوں کی طرف منسوب کرنے کا حکم دیا، جن باپوں سے وہ اولاد پیدا ہوئی، جبکہ ان باپوں کے بارے میں معلوم بھی ہو، لیکن اگر ان کے حقیقی باپ کا پتہ نہ چل پائے، تو وہ دینی بھائی اور ان کو لے پالک بنانے والے یا دوسروں کے لئے موالی سمجھے جائیں، اور اللہ تعالی نے بیٹے کو گود لینے والے کی طرف حقیقی نسبت کرنےکو حرام قراردیا ہے، بلکہ خود لڑکے پر حرام کیا ہے کہ وہ خود کو حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے، الا یہ کہ زبان پرغلطی سے غلط طور پر نسبت آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اللہ نے یہ وضاحت کی کہ اسی حکم میں خالص انصاف ہے، کیونکہ اسی میں سچائی، عزت نفس کا تحفظ اور اس شخص کے لئے مالیاتی حقوق کی حفاظت پائی جاتی ہے جو اس کا مستحق ہے،
اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی
السَّبِیۡلَ ﴿۴﴾ اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی
الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ
وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵﴾
ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﮯ ﭘﺎﻟﻚ ﻟﮍﻛﻮﮞ ﻛﻮ ( ﻭﺍﻗﻌﯽ ) ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ
ﻛﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺣﻖ ﺑﺎﺕ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ( ﺳﯿﺪﮬﯽ ) ﺭﺍﮦ ﺳﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻟﮯ ﭘﺎﻟﻜﻮﮞ
ﻛﻮ ﺍﻥ ﻛﮯ ( ﺣﻘﯿﻘﯽ ) ﺑﺎﭘﻮﮞ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﺴﺒﺖ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺑﻼﻭ ﺍﹴ ﻛﮯ ﻧﺰﺩﯾﻚ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﻛﮯ(ﺣﻘﯿﻘﯽ)ﺑﺎﭘﻮﮞ ﰷ ﻋﻠﻢ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﯾﻨﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﻮﻙ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻛﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﰷ ﺗﻢ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻛﺮﻭ۔ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺑﮍﺍ ﮨﯽ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ۔
اور نبي كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
جس نے جان بوجھـ کر خود کو اپنے والد كے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کیا اس پر جنت حرام ہے
صحیح بخاري، باب المغازي: حدیث نمبر 4327،
صحيح مسلم، الإيمان: حدیث نمبر 63،
ابو داؤد، باب الأدب: حدیث نمبر 5113،
ابن ماجہ، باب الحدود: حدیث نمبر 2610،
مسند أحمد 5/46،
سنن دارمي، باب السير: حدیث نمبر 2530
اسے احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے،
اور نبي كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
جو شخص اپنے آپ کو اپنے والد یا اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف
منسوب کرے گا ، تو اس پر اللہ کی مسلسل لعنت برستی رہے گی
باب الْأَدَبِ، ابو داؤد: حدیث نمبر 5115.
اسےامام ابو داود نے روايت كيا ہے -
لے پالک بیٹا بنانے کا رواج ختم کر کے اللہ تعالی نے زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں جاری ان احکام کا خاتمہ کردیا جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی: الف- اللہ تعالی نے لے پالک بیٹے اور بیٹا بنانے والے کے درمیان وراثت کے سلسلے کو ختم کردیا، کیونکہ اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اور ہر ایک کے لئے دوسرے کے ساتھـ زندگی میں بھلائی اور نیکی کا عمل کرنے کو کہا، نیز بیٹا بنانے والے کو اس کے لئے وصیت کرنے کومشروع قرار دیا، بشرطیکہ یہ وصیت موصی کے مال میں سے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، اور شریعت اسلامیہ نے وراثت اور اس کے مستحقین کو تفصیل سے بیان کیا، اور ان تفصیلات میں وراثت پانے والے مستحقین میں لے پالک کا ذکر نہیں کیا، اور اللہ تعالی نے اجمالی طور سے میراث، صدقہ اور احسان وغیرہ کا بھی ذکرکیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے
ﺍﻭﺭ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ ﻛﺘﺎﺏ اللہ ﻛﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﺑﮧ ﻧﺴﺒﺖ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﺍﻭر ﻣﮩﺎﺟﺮﻭﮞ ﻛﮯ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ ( ﮨﺎﮞ ) ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎتھـ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮک ﻛﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ-
اللہ تعالی نے بیٹا بنانے والے شخص کے لئے یہ جائز قرار دیا کہ لے پالک کی بیوی سے اس کے طلاق کے بعد شادی کرسکتا ہے، جو زمانہ جاہلیت میں حرام تھا، اور اس کی ابتداء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، تاکہ حلت اور زیادہ قوی اور موکد ہوجائے، اور زمانہ جاہلیت کی رسم سختی کے ساتھـ حرام ہوجائے،
اللہ تعالی نے فرمایا
فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ
اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا
﴿الاحزاب /۳۷ ﴾
پس ﺟﺐ ﻛﮧ ﺯﯾﺪ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺮﺽ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻟﯽ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﻧﲀﺡ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺗﺎﻛﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﮯ ﭘﺎﻟﻜﻮﮞ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻛﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﻛﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﻛﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﺟﺐ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺮﺽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻟﯿﮟ،ﺍﹴ ﰷ
( ﯾﮧ ) ﺣﻜﻢ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻛﺮ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔
لہذا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش کے ساتھ اللہ کے حکم سے اس وقت شادی کی جب زید بن حارثہ نےانہیں طلاق دی تھی-
🌟 تنبیہ :
مذکورہ بالا امور سے پتہ چلتا ہے کہ لے پالک بنانے کی رسم ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانیت اور اسلامی حقوق مثلا بھائی چارگی، الفت ومحبت، صلہ رحمی اور احسان وغیرہ جیسی قدریں ختم کردی گئيں:
الف-
لہذا انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے سے چھوٹے شخص کو شفقت کے طور پر اپنا بیٹا کہکر پکارے، اور اسے انسیت اور محبت کا احساس دلائے، تاکہ وہ اس کی نصیحت سنے، یا اس کی کوئی ضرورت پوری کرے، اسی طرح انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے سے بڑے شخص کو عزت واحترام کے طور پر اے میرے والد کہکر پکارے، تاکہ وہ اس کی اطاعت و نصیحت اور تعاون حاصل کرسکے، اور اس لئے کہ معاشرہ میں ادب واحترام کی فضاء قائم ہو، اور انسانی سماج میں تعلقات مضبوط ہوں، اور سبھی افراد سچی بھائی چارگی، انسانیت اوردین داری کا احساس کریں،
ب –
شریعت نے نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی ترغیب دی ہے، اور تمام لوگوں کو محبت اور احسان کرنے کی دعوت دی ہے،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ﻧﯿﻜﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻛﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻛﺮﺗﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ۔
اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمانوں کا حال آپسی محبت، رحم و کرم اور نرمی میں بالکل ایک جسم کی طرح ہے،
کہ اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور جاگنے میں اس کا ساتھـ دیتا ہے۔
اسے امام احمد اور مسلم نے روايت كيا ہے،
باب الأدب، صحيح بخاري: حدیث نمبر 6011،
باب البر والصلة والآداب، صحيح مسلم: حدیث نمبر 2586،
مسند احمد 4/270.
اور فرمایا:
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے کسی عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تھامے رکھتا ہے
اسےامام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اور نسائی نے روايت كيا ہے
صحيح بخاري، باب المظالم والغصب: حدیث نمبر 2446،
صحيح مسلم، باب البروالصلة والآداب 2585،
ترمذي، باب البر والصلة: حدیث نمبر 1928،
نسائي، باب الزكاة: حدیث نمبر 2560.
اور انہی مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ یتیموں اور مسکینوں اور روزی کمانے سے عاجز یا لاوارث افراد کی نگہداشت و تربیت کی جائے، اوران کے ساتھـ احسان کا معاملہ کیا جائے، تاکہ اس معاشرہ میں بدحال اور بے مایہ افراد نہ پائے جائیں، اور بچے کی بری تربیت کا خمیازہ امت کو نہ برداشت کرنا پڑے، یا اس کو معاشرہ کی سخت دلی یا غفلت کا احساس ہونے کی وجہ سے اس کے اندر سرکشی نہ اُبھر آئے، اور اسلامی حکومتوں پر واجب ہے کہ وہ معذوروں، یتیموں اور گرے پڑے و لاوارث بچوں کے لئے تربیتی مراکز قائم کریں، اگربیت المال سے ان افراد کی ضرورت پوری نہ ہوسکے تو امت کے خوشحال افراد سے تعاون حاصل کریں،
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جس کسی مومن نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہو، تو اس کے جو قریبی رشتہ دار ہوں وہ اس کے وراث ہوں گے، اور جو مومن قرض یا چھوٹی اولاد چھوڑ کر مرا ہو، تو وہ میری کفالت میں آ جائے، میں اس کا سرپرست ہوں
صحيح بخاری،تفسير القرآن (4781) ،
صحيح مسلم،الفرائض (1619) ،
سنن ترمذی،الجنائز (1070) ،
سنن نسائی،الجنائز (1963) ،
سنن أبو داود،الخراج والإمارة والفيء (2955) ،
سنن ابن ماجہ،الأحكام (2415) ،
مسند أحمد بن حنبل (2/453) ،
سنن دارمی،البيوع (2594).
🌟 نوٹ :اسے امام بخاری نے روايت كيا ہے۔ اسی فتوی پردستخط کیا گیا ہے۔
📚 ایسا بچہ جسکی ولدیت نا معلوم ہو :
کسی ایسے بچے کو گود لینا جسے ولادت کے بعد یونہی کہیں چھوڑ دیا گيا تھا، اور اسی طرح اگر ہم کسی ایسے بچہ کو گود لینا چاہتے ہیں جسے ہم نے adopt کیا ہو اور ہم اسکی ولدیت سے نا واقف ہیں تو ہمارے لئے اس چھوڑے ہوئے بچہ کو اور ذکر کردہ بچہ کو گود لینا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی ان بچوں کو گود لینا جائز ہے جو شرعی طور پر ہمارے نہیں ہیں، کیونکہ اسلام میں یہ چیز حرام ہے، یہ چیز شروع اسلام میں اور دور جاہلیت میں روا تھی لیکن حکم آ پہنچنے کے بعد اسکے لیے راہیں نکالنا بھی حرام ہے ۔اسی طرح اس بات کو بھی ناجائز ٹھرایا گیا ہے کہ آدمی یونہی اپنی نسبت کسی غیر شخص، خاندان اور قبیلہ کی طرف کرے،یا جان بوجھ کر کسی بچہ کو اپنا نسب دے ۔ اس کی دلیل ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے، اس کا شمار کافروں میں ہے، یا اور جو اپنے آپ کو کسی ایسی قوم کی طرف منسوب کرے جس میں اس کا نسب ہی نہ ہو، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے
اوراس حدیث پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے،
باب المناقب، صحيح بخاري: حدیث نمبر 3508،
باب الإيمان، صحيح مسلم: حدیث نمبر 61،
مسند احمد 5/166.
اور ايک روايت ميں ہے:
یقیناً سب سے بڑی تہمت یہ ہے کہ کسی شخص کو اس کے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے
باب المناقب : صحيح بخاري: حدیث نمبر 3509،
مسند احمد 3/490.
باقی رہا ولدیت کا نا معلوم ہونا تو اس صورت میں اس کے آقا کی طرف نسبت کی جائے، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو اسے دینی بھائی سمجھا جائے، یعنی اسے یوں کہکر پکارا جائے اے میرے بھائی، اے میری بہن، جیسا کہ الله تعالى كا فرمان ہے
اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
﴿الاحزاب /۵ ﴾
لے پالکوں کو ان کے ( حقیقی ) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے پھر اگر تمہیں ان کے ( حقیقی ) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے ۔
اور اسی طرح شوہر بیوی کے لئے ان بچوں کے نکاح کا ولی بننا بھی درست نہیں ہے، اگر لڑکی کا ولی، وصی اور کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہ ہو تو ولی بننے کا حق امام یا پھر نائب امام جیسے قاضی وغیرہ کا ہوگا
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹیِ

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS