find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Qurbani ka khal Kaha kaha diya ja sakta hai,Kise Dena Jayez Hai?

Kya Qurbani ke khalon ko Madaris me dena Jayez hai?
Qasayi ya kisi aur se Qurbani ke khal ko bech sakte hai ya nahi?
Logon ko kya Qurbani ka khal de sakte hai?
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
سوال:کیا قربانی کے کھالوں کو مدارس وغیرہ کو دینا جائز ہے؟
الجواب بعون رب  العباد:
**********************
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب۔
بی اے بی ایڈ۔
تخصص:فقہ واصولہ۔
سنة التخرج:2016 ميلادي.
ایم اے اردو۔
ایمیل:

*************************
قربانی کے جانور کے جلد یعنی کھالوں کو بیچنا جائز نہیں ہے البتہ اگر کوئی صرف اس نیت سے بیچے کہ اسے بیچنے کے بعد صدقہ کرے تو ایسے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور قربانی میں سے قصائی کو اجرت دینا جائز نہیں ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ وہ تمام اونٹوں کے گوشت اور انکے کھالوں کو صدقہ کرے اور اس میں سے قصائی کو اجرت نہ دے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم خود اپنی طرف سے قصائی کو اجرت دیتے تھے۔[صحیح بخاری 1717 ، مسلم1317 یہ لفظ مسلم کے ہیں]۔
فقیہ الاسلام علامہ شیخ محمد بن صالح العثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچنا جائز نہیں ہے ، البتہ اسکے جلد کو اپنے کسی ضرورت کے لئے استعمال کرنے میں کویی حرج نہیں ہے۔[زاد المستقنع 514/7].
شيخ محمد شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قربانی کی جلد کوئی شرکہ خریدے اور پہر اسکی قیمت کو فقراء یا کسی خیراتی ادارے کو دے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔[شرح زاد المستقنع]۔
بہت سے اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ کھال کو یا کھال کی قیمت کو صدقہ کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہ اور امام احمد رھمھما اللہ جواز کے قائل ہیں۔[تبيين الحقائق6/9]۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ نے فرمایا کہ قربانی کے کھال وغیرہ کو بیچ کر صدقہ کرنے میں کویی حرج نہیں ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ بیشک ابن عمر رضی اللہ عنھما نے گائے کے جلد کو بیچا اور اسکی قیمت کو صدقہ کیا۔[فة المودود بأحكام المولود" ص 89]۔
اسحاق بن منصور رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ قربانی کی کہالوں کو کیا کیا جائے؟ امام احمد نے جواب میں فرمایا کہ اسے کسی چیز میں استعمال کیا جائے یا اسے صدقہ کیا جائے۔
میں نے پوچھا کہ کیا اسے بیچنا اور اسکی قیمت کو صدقہ کرنا جائز ہے؟
آپ نے فرمایا کہ ہاں اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ دلیل حدیث ابن عمر رضی اللہ عنھما۔[ الإنصاف 93/4]۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر بہت سے اہل علم کا اتفاق ہے کہ قربانی کی کھال بیچنا جائز نہیں ہے ، امام اوزاعی ، احمد ، اسحاق،  ابوثور وغیرہ اسکی قمیت کو صدقہ کرنے میں جواز کے قائل ہیں۔[نيل الأوطار 153/5]۔
ان اقوال کو مدںظر رکھ کر بہت سے اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی کے کھال کو صدقہ کرنا دینی مدارس کو دینا اور باقی دینی خیراتی اداروں کو دینا جائز ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے کھال کو کسی نجی فائدہ کے لئے استعمال کرنا یا کسی خیراتی ادارے کو  یا فقراء کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتاوی لجنہ دائمہ446/10]۔
خلاصہ کلام: مذکورہ اہل علم کے اقوال اور انکا بعض احادیث نبویہ  کے استدلالات سے معلوم ہوا کہ قربانی کے کھال کو صدقہ کرنا جائز ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی مدارس کو کہال صدقہ کرنا جائز اور مباح ہے۔

هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS