Kya Alag Ghar me Rahne ke bawjood ager Qurbani karta Hai To kya Uska Swab Pure ghar wale ko bhi Milega?
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
آسلاعلیکم محترم میرا ایک سوال ہے ۔۔۔۔میرے دو بھائی الگ الگ ہے۔ مطلب ان کا اپنا گھر پری وار ہے۔ ۔۔اور میں باپ کے ساتھ ہی ہوں۔ ۔۔۔۔تو اب ہمے قربانی کرنی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا اس قربانی کا ثواب میرے بھائیوں کو بھی ملے گا کیا ۔۔۔۔اگر ان کیلے بھی نیت کی جائے۔ ۔۔۔
اور ان سے پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہ لیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون رب العباد:
اگر آپ کے بھائی الگ ہیں اور آپ الگ ہو۔
انکی شراکت اس اضحیہ میں صحیح نہیں ہے بلکہ اگر وہ لوگ قربانی پر قادر ہیں وہ لوگ الگ سے اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کریں۔
آپ کی قربانی انکی طرف سے کافی نہیں ہے کیونکہ آپ کے بھائی حضرات الگ گھر میں رہتے ہیں اور انکا الگ گھر الگ کاروبار وغیرہ ہے لھذا انکی طرف سے یہ قربانی جائز نہیں ہے۔
مفتی المملکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قربانی کرنا راجح قول کے مطابق سنت موکدہ ہے واجب نہیں ایک بکری ایک آدمی اور اسکے اپل وعیال کی طرف سے کافی ہے۔
دلیل:نبی علیہ السلام پر سال دودنبے قربان کیا کرتے تھے
ایک بکری اپنے طرف اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے اور دوسرا دنبہ اپنی پوری امت کی طرف سے۔
آگے مفتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ مستقل گھر میں رہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے قربانی کریں۔
انکی طرف سے آپ کی قربانی کرنا جائز اور کافی نہیں ہے کیونکہ انکا الگ مستقل گھر ہے اگر کوئی قرض لیکر بھی قربانی کرنا چاھئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرط کہ وہ اس قرض کو ادا کرنے کی طاقت رکھتاہو۔[مجموع فتاوى ابن باز رحمه الله 18/37].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ بھی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر آپ سگے بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو آپ سب کی ایک قربانی سب کے لئے کافی ہے۔[فتاوى نور على الدرب]۔
اسے معلوم ہوا کہ ایک ہی گھر میں رہنے کی صورت میں ایک ہی قربانی سب گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگی لیکن الگ گھر میں رہنے کی صورت میں انکی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
اور ان سے پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہ لیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون رب العباد:
اگر آپ کے بھائی الگ ہیں اور آپ الگ ہو۔
انکی شراکت اس اضحیہ میں صحیح نہیں ہے بلکہ اگر وہ لوگ قربانی پر قادر ہیں وہ لوگ الگ سے اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کریں۔
آپ کی قربانی انکی طرف سے کافی نہیں ہے کیونکہ آپ کے بھائی حضرات الگ گھر میں رہتے ہیں اور انکا الگ گھر الگ کاروبار وغیرہ ہے لھذا انکی طرف سے یہ قربانی جائز نہیں ہے۔
مفتی المملکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قربانی کرنا راجح قول کے مطابق سنت موکدہ ہے واجب نہیں ایک بکری ایک آدمی اور اسکے اپل وعیال کی طرف سے کافی ہے۔
دلیل:نبی علیہ السلام پر سال دودنبے قربان کیا کرتے تھے
ایک بکری اپنے طرف اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے اور دوسرا دنبہ اپنی پوری امت کی طرف سے۔
آگے مفتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ مستقل گھر میں رہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے قربانی کریں۔
انکی طرف سے آپ کی قربانی کرنا جائز اور کافی نہیں ہے کیونکہ انکا الگ مستقل گھر ہے اگر کوئی قرض لیکر بھی قربانی کرنا چاھئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرط کہ وہ اس قرض کو ادا کرنے کی طاقت رکھتاہو۔[مجموع فتاوى ابن باز رحمه الله 18/37].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ بھی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر آپ سگے بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو آپ سب کی ایک قربانی سب کے لئے کافی ہے۔[فتاوى نور على الدرب]۔
اسے معلوم ہوا کہ ایک ہی گھر میں رہنے کی صورت میں ایک ہی قربانی سب گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگی لیکن الگ گھر میں رہنے کی صورت میں انکی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
كتبه/ابوزهير محمد يوسف بٹ ریاضی ۔
No comments:
Post a Comment