find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Musafa Karne ka Sahi Tarika Kya Hai?

Musafa KA Sahi TArika Kya Hai?

Hath Milane Ka Sahi TArika Kya Hai?

وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنَا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَضَّاحٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ حَسَّانَ بْنِ نُوحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ تَرَوْنَ يَدِي هَذِهِ صَافَحْتُ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت عبد اللہ ابن بسر فرماتے ہیں کہ میرے اس ہاتھ کو دیکھتے ہو ، میں نے اس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا ہے ۔
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (12/ 247)
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری اس حدیث پر حکم لگاتے ہیں :
رِجَالُهُ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ وَإِسْنَادُهُ مُتَّصِلٌ
اس حدیث کے سارے رواۃ ثقہ اور اس کی سند متصل ہے ۔
تحفة الأحوذي (7/ 430)
حدیث میں ید کا لفظ ہے جو اسم جنس ہے جو ایک اور دو ہاتھ دونوں کےلیے استعمال ہوتا ہے لیکن ید کے بعد ھذہ کی زیادتی سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ ید سے یہاں ایک ہاتھ مراد ہے ۔ اگر ید سے دو ہاتھ مراد ہوتے تو ھذہ واحد کے بجائے ھذان تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔
امید ہے مطلع صاف ہو گیا ہوگا ۔
مصافحہ کے لئے دوسری احادیث موجود ہیں‌وہ ملاحظہ ہوں۔
''براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں ، مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے قبل ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔''
(ابنِ ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۳)، ترمذی(۲۷۲۷)ابو دائود۳۵۴/۴(۵۲۱۲)، مسند احمد ۴/۲۸۹،۳۰۳)
اور مصافحہ کے معنی معلوم کرنے کے لیے آپ لغت کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ وہاں‌سے بھی واضح ہو سکتا ہے۔
اور اسی طرح‌ایک حدیث میں‌کچھ اسطرح وارد ہوا ہے
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ملاقات کی اور میں جنبی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (ایک نسخہ میں ہے کہ میرا دایاں ہاتھ پکڑا) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے پس میں کھسک گیا۔''
(صحیح بخاری:281)
امام طحاوی نے شرح معانی الاثار۱۶/۱ پر یہ الفاظ ذکر کئے ہیں:
''میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حالتِ جنابت میں ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں جنبی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ) مسلم نجس نہیں ہوتا۔''
یہ حدیث ایک ہاتھ کے مصافحہ پر نص قطعی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے وقت مصافحہ کے لئے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ایک ہاتھ جو مصافحہ کے لئے بڑھانا تھا پیچھے کھینچا اور عذر پیش کیا کہ میں جنبی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ مسلم نجس نہیں ہوتا۔
''عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اس ہتھیلی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔''مسند احمد۴/۸۹، موارد الظلمآن (۹۴۰)
''انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرے ۔ کیا س کے لئے جھکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! نہیں۔ اس نے کہا ، کیا اس سے چمٹ جائے؟ اور اس کو بوسہ دے؟ فرمایا نہیں پھر اُس نے کہا، کیا اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟ فرمایا! ہاں۔ امام ترمذی نے فرمایا، یہ حدیث حسن ہے۔'' (ترمذی ۷۰/۵(۲۷۲۸)، ابن ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۲) اس حدیث کو البانی نے بھی صحیح کہا ہے دیکھیں سلسلة الصحیحہ 881۔
''انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعائوں میں موجود رہے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے ان کو ۔۔۔بخش دے۔''
(مسند احمد۱۴۲/۳، کشف الاستارص۴۱۹)
مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات عیاں‌ہو جاتی ہے کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ثابت ہے۔
جناب ابوبکر سلفی
📚 دو ہاتھ سے مصافحہ کی دلیل کا جائزہ :
صحیح بخاری (ج:۲ ص:۹۲۶) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
“علمنی النبی صلی الله علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ۔”
ترجمہ:… “مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔”
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث “باب المصافحة” کے تحت ذکر فرمائی ہے
👈 جائزہ :
صحیح بخاری کی یہ روایت دو ہاتھ سے مصافحہ کےلیے دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ:
👈 1. حدیث میں مصافحہ کا ذکر نہیں ۔
👈 2. اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ تعلیم کی تاکید کےلیے پکڑا تھا نہ کہ مصافحہ کی نیت سے ۔
👈 3. علامہ عبد الحئی لکھنوی مجموع فتاوی عبد الحئی میں لکھتے ہیں:
صحیح بخاری میں عبد اللہ بن مسعود سے مروی روایت کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلی کے درمیان تھی ، سو یہ ظاہر ہے کہ یہ مصافحہ متوارثہ جو بوقت ملاقات مسنون ہے نہ تھا بلکہ طریقہ تعلیمیہ تھا جیسا کہ اکابر کسی چیز کی تعلیم کے وقت دونوں یا ایک ہاتھ سےاصاغر کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔
[مجموع فتاوی عبد الحئی: ج ۲ ص ۱۵۳، بحوالہ : ایک ہاتھ سے مصافحہ: علامہ عبد الرحمن مبارکپوری]
👈 4. ہدایہ کا ایک جملہ اور اس کی وضاحت:
والأخذ بهذا أولى من الأخذ بتشهد ابن عباس رضي الله عنهما وهو قوله التحيات المباركات ۔ ۔ ۔ إلى آخره لأن فيه الأمر وأقله الاستحباب والألف واللام وهما للاستغراق وزيادة الواو وهي لتجديد الكلام كما في القسم وتأكيد التعليم
ابن عباس کی تشہد کی حدیث التحیات المبارکات ۔۔۔ آخر تک ، سے بہتر ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کی حدیث کو لیا جائے اس لئے کہ اس میں حکم کی زیادتی ہے اور استحباب سے زیادہ قریب ہے ، الف لام استغراق کے لئے ہے اور واو کی زیادتی تجدید کلام کے لئے ہے جیسا کہ قسم میں ہوتا ہے اس میں تعلیم کی تاکید بھی ہے۔ [ہدایہ:۱/۱۱۱]
قَوْلُهُ وَتَأْكِيدُ التَّعْلِيمِ ) يَعْنِي بِهِ أَخْذَهُ بِيَدِهِ لِزِيَادَةِ التَّوْكِيدِلَيْسَ فِي تَشَهُّدِ ابْنِ عَبَّاسٍ
صاحب ہدایہ کا [تاکید التعلیم ] کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا تاکہ تاکید میں اضافہ ہوجائے اور یہ تاکید ابن عباس کے تشہد میں نہیں ۔
[فتح القدیر : ابن الھمام:۲/۱۰۷]
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS