Dhadi Mundna Jayez Hai ya nahi Kya Dhadi Ko Saving Kar Sakte Hai?
سوال داڑھی سنت ہے یا نہیں جواب تحریری چاہیے ۔۔۔۔
جواب -- داڑھى منڈوانے كا حكم !!!نیز داڑھی رکھنا سنت ہے فرض ہے یا واجب
داڑھی رکھنا ،بڑھانا ، اسلام میں فرض ہے ۔
اکثر لوگ داڑھی کے متعلق ’‘ سنت ’‘ کا لفظ سن کر اس کو ضروری اور فرض نہیں سمجھتے ۔
حالانکہ یہ نری لاعلمی ہے ۔ کیونکہ لفظ ’‘سنت ’‘ ہر وقت ’‘ فرض ’‘ کے مقابل استعمال نہیں ہوتا بلکہ کئی دیگر معانی کے لئے بھی آتا ہے ۔
لفظ ’‘ سنت ’‘کبھی بدعت کے مقابل استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بتانے کےلئے کہ یہ عمل شریعت سے ثابت ہے ،
اور کبھی اس امر کی وضاحت کےلئے لایا جاتا ہے ،کہ یہ عمل قرآن سے نہیں بلکہ حدیث نبوی علی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے
اور کسی وقت لفظ سنت سے مراد غیر فرض عمل ہوتا ہے ۔
اور کبھی اس کے برعکس فرض کام کو بھی سنت سے تعبیر کرتے ہیں : مثلاً صحیح بخاری میں ہے ؛
قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا» ،
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
قَوْلُ عَائِشَةَ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَيْ فَرَضَهُ بِالسُّنَّةِ وَلَيْسَ مُرَادُهَا نَفْيَ فَرْضِيَّتِهَا وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهَا لَمْ يُتِمَّ اللَّهُ حَجَّ أَحَدِكُمْ وَلَا عُمْرَتَهُ مَا لَمْ يَطُفْ بَيْنَهُمَا،، کہ سیدہ کا طواف کو سنت کہنا ۔اس کے فرض ہونے کی نفی نہیں ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت سے طواف کو فرض قرار دیا ہے ۔اس کی فرضیت پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ کسی کا حج اور عمرہ ، طواف کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ داڑھی فرض ، واجب ہے ۔محقق علماء کا یہی تحقیق ہے ،دلائل شرعیہ اسی پر دلالت کرتے ہیں صحيح احاديث اور صريح سنت نبويہ ميں وارد شدہ اخبار اور كفار كى عدم مشابہت كے عمومى دلائل كى بنا پر داڑھى منڈوانا حرام ہے، ان احاديث ميں درج ذيل حديث بھى شامل ہے:
جواب -- داڑھى منڈوانے كا حكم !!!نیز داڑھی رکھنا سنت ہے فرض ہے یا واجب
داڑھی رکھنا ،بڑھانا ، اسلام میں فرض ہے ۔
اکثر لوگ داڑھی کے متعلق ’‘ سنت ’‘ کا لفظ سن کر اس کو ضروری اور فرض نہیں سمجھتے ۔
حالانکہ یہ نری لاعلمی ہے ۔ کیونکہ لفظ ’‘سنت ’‘ ہر وقت ’‘ فرض ’‘ کے مقابل استعمال نہیں ہوتا بلکہ کئی دیگر معانی کے لئے بھی آتا ہے ۔
لفظ ’‘ سنت ’‘کبھی بدعت کے مقابل استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بتانے کےلئے کہ یہ عمل شریعت سے ثابت ہے ،
اور کبھی اس امر کی وضاحت کےلئے لایا جاتا ہے ،کہ یہ عمل قرآن سے نہیں بلکہ حدیث نبوی علی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے
اور کسی وقت لفظ سنت سے مراد غیر فرض عمل ہوتا ہے ۔
اور کبھی اس کے برعکس فرض کام کو بھی سنت سے تعبیر کرتے ہیں : مثلاً صحیح بخاری میں ہے ؛
قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا» ،
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
قَوْلُ عَائِشَةَ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَيْ فَرَضَهُ بِالسُّنَّةِ وَلَيْسَ مُرَادُهَا نَفْيَ فَرْضِيَّتِهَا وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهَا لَمْ يُتِمَّ اللَّهُ حَجَّ أَحَدِكُمْ وَلَا عُمْرَتَهُ مَا لَمْ يَطُفْ بَيْنَهُمَا،، کہ سیدہ کا طواف کو سنت کہنا ۔اس کے فرض ہونے کی نفی نہیں ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت سے طواف کو فرض قرار دیا ہے ۔اس کی فرضیت پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ کسی کا حج اور عمرہ ، طواف کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ داڑھی فرض ، واجب ہے ۔محقق علماء کا یہی تحقیق ہے ،دلائل شرعیہ اسی پر دلالت کرتے ہیں صحيح احاديث اور صريح سنت نبويہ ميں وارد شدہ اخبار اور كفار كى عدم مشابہت كے عمومى دلائل كى بنا پر داڑھى منڈوانا حرام ہے، ان احاديث ميں درج ذيل حديث بھى شامل ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مشركوں كى مخالفت كرو، اور داڑھياں بڑھاؤ اور مونچھيں چھوٹى كرو "
اور ايك روايت ميں ہے:
" مونچھيں پست كرو، اور داڑھيوں كوم عاف كر دو "
اور اس موضوع ميں ان كے علاوہ بھى بہت سارى احاديث ہيں اور اعفاء اللحيۃ كا معنى يہ ہے داڑھى كو اپنى حالت پر چھوڑ ديا جائے اور داڑھى كى توفير يہ ہے كہ اسے بغير كاٹے اور اكھاڑے يا كچھ كاٹے اصل حالت ميں ہى باقى ركھا جائے.
ابن حزم رحمہ اللہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ مونچھيں كاٹنا، اور داڑھى پورى ركھنا فرض ہے، اور انہوں نے كئى ايك احاديث سے استدلال كيا ہے جن ميں مندرجہ بالا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث بھى شامل ہے، اور زيد بن ارق مرضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث بھى:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو اپنے مونچھيں نہيں كاٹتا وہ ہم ميں سے نہيں ہے "
امام ترمذى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے.
الفروع ميں كہتے ہيں: اور يہ صيغہ ہمارے اصحاب كے ہاں ـ يعنى حنابلہ كے ہاں ـ تحريم كا متقاضى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كتاب و سنت اور اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفار كى مخالفت كا حكم ہے، اور اجمالا ان كى مشابہت اختيار كرنا منع ہے؛ كيونكہ ظاہر ميں ان كى مشابہت اخلاق اور افعال مذمہ ميں كفار كى مشابہت كا سبب ہے، بلكہ نفس الاعتقادات ميں بھى، چنانچہ يہ مشابہت باطن ميں ان سے محبت و مودت اور دوستى پيدا كرتى ہے، جس طرح باطن ميں محبت ہو تو وہ ظاہر ميں مشابہت پيدا كرتى ہے.
ترمذى رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو ہمارے علاوہ دوسروں سے مشابہت كرتا ہے وہ ہم ميں سے نہيں، يہود و نصارى سے مشابہت مت اختيار كرو " الحديث.
اور ايك روايت كےالفاظ يہ ہيں:
" جو كوئى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے، وہ انہى ميں سے ہے "
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے.
اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے تو داڑھى كے بال اكھيڑنے والے شخص كى گواہى ہى رد كر دى تھى.
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ " التمھيد " ميں كہتے ہيں:
" داڑھى منڈوانا حرام ہے، اور ايسا كام تو صرف ہيجڑے ہى كرتے ہيں "
يعنى جو مرد عورتوں سے مشابہت اختيار كرتے ہوں وہى يہ كام كرتے ہيں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى گھنى داڑھى كے مالك تھے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
اور ايك روايت ميں كثيف اللحيۃ كے لفظ ہيں، يعنى بہت زيادہ بال تھے.
اور ايك روايت ميں " كث اللحيۃ " كے لفظ ہيں جن سب كا معنى ايك ہى ہے.
عمومى نہى كے دلائل كى بنا پر داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں ہے.
واللہ اعلم
اور ايك روايت ميں " كث اللحيۃ " كے لفظ ہيں جن سب كا معنى ايك ہى ہے.
عمومى نہى كے دلائل كى بنا پر داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں ہے.
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment