Filisteen Me Musalmano Ka Halaat Aur Humari Ikdamaat.
موضوع: اٹھے گا کب تلک شعلہ فلسطیں کے مکانوں سے.
تحریر عبدالســـــــلام ندوی*Tahreer 2017
مسئلہ فلسطیں کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی یہ رسائل ومجلات کی زینت اور اخبارات وجرائد کی سرخی بنا رہا ہے،خصوصا قیام اسرائیل کے بعد پوری دنیا کیلئے درخور اعتناء بن گیا ہے،اور اب جبکہ ہزارہ سوم کی دوسری دہائی کا نصف حصہ گزر چکا ہے،پوری دنیا خصوصا یہودی طبقہ نے اپنی پوری توجہ اسکی جانب مبذول کردی ہے،یہودیوں کی نظر میں بیت المقدوس کا حصول اور اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر پوری دنیا پر حکمرانی کی ہری جھنڈی اور عظیم اسرائیل(جوکہ پورے عالم عرب پہ محیط ایک اسرائیلی ملک بنانے کا خواب ہے، جیساکہ انہوں اپنے قومی پرچم میں دو دریاؤوں کی تصویر کے ذریعہ ظاہر کیا ہے جن سے مراد دریائے نیل وفرات ہے،Google پہ Greater Israel کی تصاویر دیکھیں) کے قیام کے خواب کی تکمیل ہوگی،چنانچہ اسکے لئے انہوں نے بیسوی صدی کی پہلی دہائی سے ہی سیاسی اور عسکری اعتبار سے ہی کوششیں شروع کردی ہیں، اور روز افزوں ظلم،جبر،سازش،روباہ بازی،اور غیرمعمولی ذہانت کا استعمال کرکےاپنے مقصد کےحصول ونفاذ کے قریب ہوتے جارہے ہیں،
ان تمام جارحانہ کاروائیوں سے یہودیوں کا اصل مقصد بیت المقصد کو منہدم کرکے اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے،انکی نظر میں ہیکل سلیمانی اپنے اصل شکل میں موجود نہیں ہے،لہذا اسے اسکی پہلی اور اصل شکل میں تعمیر کرنا ہی انکے تمام ظالمانہ وجابرانہ اقدامات کا ھدف اصلی ہے،(واضح رہے بیت المقدس قبل از عہد اسلام دو مرتبہ منہدم کیا گیا تھا،پہلی مرتبہ بخت نصر کے ذریعہ 570 ق م میں اور دوسری مرتبہ رومن حاکم ٹائٹس کے ہاتھوں 70ء میں)
ایک طرف یہودیوں کا یہ بخار اور جنون ہے اور دوسری طرف مسلمان خواب خرگوش میں محو ہیں،ملت اسلامیہ کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو دل دردمند اور فکر سوزمند رکھتا اور مسئلہ فلسطین کو سنجیدگی سے لیتا ہو،
علماء عالمی حالات سے ناواقف بوسیدہ فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور حکمراں وبرسر اقتدار طبقہ شکم پروری ،حصول جاہ،اور شاہ کی مصاحبت میں بدمست ہیں،تنگ خیال، پست حوصلہ، تہی ظرف دشمن اسلام فتوے باز دوسروں کی تکفیر میں لگے ہوئے ہیں اور آرام طلب،تن پرور،پست ہمت عوام انکی اندھی تقلید میں، نہ کوئی تنظیم اسکی جانب توجہ کررہی ہے نہ ہی کوئی تحریک -حالانکہ ۵۸ مسلم ملکوں پہ مشتمل اسلامی دنیا کی سب سے بڑی تنظیمO.I.C کا قیام ہی بیت المقدس میں آتش زنی کی مجرمانہ حرکت کے بعد عمل میں آیاتھا، لیکن اسکا بھی کوئی اقدام سامنے نہیں آرہا ہے،ایسے موقعہ پر تو حسین آزاد کا وہ ناصحانہ شعر ہی یاد آتا ہے،جس میں انہوں نے عالم اسلام خصوصا عالم عرب کو مخطب کرکے کہا تھا کہ،
مسئلہ فلسطیں کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی یہ رسائل ومجلات کی زینت اور اخبارات وجرائد کی سرخی بنا رہا ہے،خصوصا قیام اسرائیل کے بعد پوری دنیا کیلئے درخور اعتناء بن گیا ہے،اور اب جبکہ ہزارہ سوم کی دوسری دہائی کا نصف حصہ گزر چکا ہے،پوری دنیا خصوصا یہودی طبقہ نے اپنی پوری توجہ اسکی جانب مبذول کردی ہے،یہودیوں کی نظر میں بیت المقدوس کا حصول اور اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر پوری دنیا پر حکمرانی کی ہری جھنڈی اور عظیم اسرائیل(جوکہ پورے عالم عرب پہ محیط ایک اسرائیلی ملک بنانے کا خواب ہے، جیساکہ انہوں اپنے قومی پرچم میں دو دریاؤوں کی تصویر کے ذریعہ ظاہر کیا ہے جن سے مراد دریائے نیل وفرات ہے،Google پہ Greater Israel کی تصاویر دیکھیں) کے قیام کے خواب کی تکمیل ہوگی،چنانچہ اسکے لئے انہوں نے بیسوی صدی کی پہلی دہائی سے ہی سیاسی اور عسکری اعتبار سے ہی کوششیں شروع کردی ہیں، اور روز افزوں ظلم،جبر،سازش،روباہ بازی،اور غیرمعمولی ذہانت کا استعمال کرکےاپنے مقصد کےحصول ونفاذ کے قریب ہوتے جارہے ہیں،
ان تمام جارحانہ کاروائیوں سے یہودیوں کا اصل مقصد بیت المقصد کو منہدم کرکے اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے،انکی نظر میں ہیکل سلیمانی اپنے اصل شکل میں موجود نہیں ہے،لہذا اسے اسکی پہلی اور اصل شکل میں تعمیر کرنا ہی انکے تمام ظالمانہ وجابرانہ اقدامات کا ھدف اصلی ہے،(واضح رہے بیت المقدس قبل از عہد اسلام دو مرتبہ منہدم کیا گیا تھا،پہلی مرتبہ بخت نصر کے ذریعہ 570 ق م میں اور دوسری مرتبہ رومن حاکم ٹائٹس کے ہاتھوں 70ء میں)
ایک طرف یہودیوں کا یہ بخار اور جنون ہے اور دوسری طرف مسلمان خواب خرگوش میں محو ہیں،ملت اسلامیہ کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو دل دردمند اور فکر سوزمند رکھتا اور مسئلہ فلسطین کو سنجیدگی سے لیتا ہو،
علماء عالمی حالات سے ناواقف بوسیدہ فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور حکمراں وبرسر اقتدار طبقہ شکم پروری ،حصول جاہ،اور شاہ کی مصاحبت میں بدمست ہیں،تنگ خیال، پست حوصلہ، تہی ظرف دشمن اسلام فتوے باز دوسروں کی تکفیر میں لگے ہوئے ہیں اور آرام طلب،تن پرور،پست ہمت عوام انکی اندھی تقلید میں، نہ کوئی تنظیم اسکی جانب توجہ کررہی ہے نہ ہی کوئی تحریک -حالانکہ ۵۸ مسلم ملکوں پہ مشتمل اسلامی دنیا کی سب سے بڑی تنظیمO.I.C کا قیام ہی بیت المقدس میں آتش زنی کی مجرمانہ حرکت کے بعد عمل میں آیاتھا، لیکن اسکا بھی کوئی اقدام سامنے نہیں آرہا ہے،ایسے موقعہ پر تو حسین آزاد کا وہ ناصحانہ شعر ہی یاد آتا ہے،جس میں انہوں نے عالم اسلام خصوصا عالم عرب کو مخطب کرکے کہا تھا کہ،
ذرا سوچو عرب والوں فلسطیں کی مصیبت پر
یہ کیوں خاموش بیٹھے ہو سگے بھائی کی رحلت پر
چنانچہ ایسے پرخطر حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کا ہر طبقہ اپنے روایتی اور بوسیدہ فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھ کے مسئلہ فلسطین کیلئے سنجیدہ ہوں اور ایک مقام پر سر جوڑ کر بیٹھ کے شہر قدس کی بازیابی کی فکر کرے ورنہ مسقبل میں جو خطرات رونما ہونے کے اندیشے ہیں وہ کس قدر تباہ کن ہوں گے اسکا تخمینہ کرنا بھی ناممکن ہے-
No comments:
Post a Comment