Kya Qabro Me Dafan Hue Murde Sunte Hai
کیا قبروں میں مدفون مردے سنتے ھیں۔؟؟
ہمارا عقیدہ سماعِ موتٰی کے بارے میں: "قدرت کا اصول، ضابظہ اور قانون ہے کہ جو شخص اس دنیا سے چلا گیا اس کا کسی قسم کا رابطہ اس دنیا سے قائم نہیں رہتا،کوئی مردہ دنیا والوں کا کلام ہر وقت نہیں سن سکتا۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو سنوا دے وہ پر چیز پہ قادر ہے لیکن یہ خرقِ عادت ہے قانون نہیں"
آیت نمبر 1 : سورۃ الانعام آیت نمبر 36 :
اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ ؕؔ وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ
وہ ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں (١) اور مردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے
یہاں پر اصول اور کلیہ بیان کیا گیا ھے کہ بات کا جواب وہی دیتا ھے جو سنتا ھے۔جو سنتا نہیں وہ جواب بھی نہیں دیتا اور یہی حقیقت ھے۔کیونکہ کی قران پاک کے واضح الفاظ موجود ھیں
اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی کا قول نقل ھے:
جن کے بارے میں آپ سے حرص کرتے ھیں کہ وہ آپ کی تصدیق کریں گے وہ تو مردوں کی طرح ھیں جو نہیں سنتے""
تفسیر کبیر جلد 4، صفحہ 37، تفسیر بحر محیط جلد 4 صفحہ 117
تفسیر کبیر جلد 4، صفحہ 37، تفسیر بحر محیط جلد 4 صفحہ 117
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا
اور یہ کافر مردوں کی طرح ھیں جو نھیں سنتے۔۔۔
تفسیر بیضاوی جلد 7 صفحہ 186
تفسیر جالالین میں ھے: شبہ فی عدم السماع----
یعنی ان کفار کو نہ سننے پر مردوں سے تشبیہ دی ہے۔
تفسیر جالالین صفحہ 114
یعنی ان کفار کو نہ سننے پر مردوں سے تشبیہ دی ہے۔
تفسیر جالالین صفحہ 114
تفسیر خارزن میں علامہ علاؤالدین محمد خارزن رحمہ اللہ علیہ نے لکھا "ولھذاشبہ بہ الکفار بالموتٰی لان المیت لا یسمع ولا یسمع ولا یتکلم
اسی لیئے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے کیونکہ مردہ یقیناً نہیں سنتا اور نہ کلام کرتا ہے۔
تفسیر خارزن جلد 2 صفحہ 15
تفسیر مدراک میں علامہ ابو البرکاۃ رحمہ اللہ علیہ نے لکھا:
مردوں کو اللہ تعالٰی قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھائے گا۔۔۔۔۔تب وہ سنیں گے اس سے پہلے نہیں۔
تفسیر مدراک جلد 2 از سورۃ الانعام
تفسیر ابن جریر میں لکھا ھے:
پس اللہ تعالٰی نے ان کے ذکر کو مردوں میں شمار کر دیا ھے، مردے نہ تو آواز سنتے ہیں اور نہ پکار کو سمجھتے ھیں۔
تفسیر ابن جریر صفحہ 185، از سورہ الانعام
آیت نمبر2: سورۃ فاطر 19-22
مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ۔ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوۡرُ ۔وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ۔ وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ۔
اور اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں اور نہ اندھیرا اور روشنی اور نہ سایہ اور دھوپ اور نہ زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے
دیکھیں یہاں کس قدر صراحت کے ساتھ کہ دیا گیا ہے کہ "اور نہ زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں" جب کہ حیاتی حضرات کے مولانا سرفراز صاحب لکھتے ہیں کہ
"کہ ادراک ،شعور ،فہم اور سماع میں مردے اور زندہ برابر ہیں ۔ سماع الموتٰی صفحہ 221
اسی آیت کی تائید میں ۔ فقیہ ابو اللیث سمر قندی حنفی رحمہ اللہ علیہ کا قول علامہ عینی رحمہ نے عمدۃ القاری جلد 4 صفحہ 225 میں نقل فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی تو مطلب ہوا کہ جیسے تو مردوں کو نہیں سنا سکتا ایسے ہی مکہ کے کافروں کو تو سمجھا سکتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ھلاک ھونے والوں کو خطاب فرمایا کہ:
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روز بدر قریش کے چوبیس سربرآوردہ اشخاص کو بدر کے کنوؤں میں ایک گندے پلید کنویں میں پھنکوادیا، حضور کاطریقہ یہ تھا کہ جب کسی قوم پر فتحیاب ہوتے تو میدان میں تین دن قیام فرماتے، جب بدرکا تیسرا دن تھا تو سواری مبارک پر کجاوہ کسوایا، پھر چلے، صحابہ نے ہمر کابی کی، اور کہا ہمارا یہی خیال ہے کہ اپنے کسی کام سے تشریف لے جارہے ہیں، یہاں تک کہ کنویں کے سرے پر ٹھہر کران کا اور ان کے آباء کانام لے لے کر اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں کہہ کر پکارنے لگے، فرمایا ''کیا اس سے تمھیں خوشی ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تم نے مانا ہوتا، ہم نے تو حق پایا وہ جس کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا، کیا تم نے اس کو ثابت پایا جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ''۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سوال
۔۔ ( ذرا غور سے پڑھئیے گا انشاء اللہ سب سمجھ آجائے گا)
۔۔ ( ذرا غور سے پڑھئیے گا انشاء اللہ سب سمجھ آجائے گا)
یا رسول اللہ کیف تکلم اجساد الا ارواح فیھا؟
(یا رسول اللہ آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رھے جن میں روح موجود نہیں!)
بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۶۶ ، مسند احمد جلد صفحہ ۳۵۷
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1176
اسی طرح دوسری روایت میں موجود ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
یارسول اللہ کیف اتنا دیھم بعد ثلاث و ھل یسمعون یقول اللہ عزوجل "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی"
یارسول اللہ آپ ان سے گفتگو فرما رھے ھیں جن کو ھلاک ہوئے تین دن گزر چکے ہیں حالانکہ اللہ رب العزت فرماتے ھیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۸۷
یہ چیزیں معلوم ہوئیں:
1- حضرت عمر رضی اللہ عنہ اعادہ روح،اور جسم میں روح کے حلول و دخول کے قائل نہیں تھے۔
1- حضرت عمر رضی اللہ عنہ اعادہ روح،اور جسم میں روح کے حلول و دخول کے قائل نہیں تھے۔
2-حضرت عمر رضی اللہ عنہ سماع موتٰی کے قائل نھیں تھے۔اگر قائل ہوتے تو کبھی یہ سوال نہ کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے کلام کر رہے ہیں ؟؟
3- "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی سے سماع موتیٰ کی نفی ھوتی ھے تب ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطور دلیل یہ آیت پیش کی۔ اور اس آیت سے استدلال کیا کہ مردے نہیں سنتے۔
ظاہر ہے اب جس کا عقیدہ یہ ہو کہ مردے سنتے ہیں تو وہ ایسے سوال کیوں پوچھے گا ازراہِ تعجب سے ۔۔ اور کیوں دلیل پیش کرے گا! جبکہ آپ نے دیکھا حضرت عمر نے سوال کے ساتھ دلیل بھی پیش کی "انک لا تسمع الموتٰی "۔۔۔
یہ آیت قرآن میں ہے ۔۔۔
-Surah Roum 52
فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ
بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (١) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں (٢) جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔
تو میرے خیال میں ہم،تم سے ذیادہ قرآن سمجھنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے یہ آیت پیش کر کے بتا دیا کہ اس آیت سے سماعِ موتٰی کی نفی ہوتی ہے۔اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ تقرری بھی بنتی ہے کہ آپﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی اور منع نہیں کیا کہ نہیں عمر اس آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم لے رہے ہو ۔۔ آگے آپ جواب ملاحظہ کریں بات واضح ہو جائے گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب:
’’انھم الان یسمعون ما اقول لھم‘‘ بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۷۶
جو بات میں ان سے کہ رھا ھوں وہ اس وقت اسکو سن رھے ھیں
ایک اور جگہ ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے میری بات تم ان سے زیادہ نہیں سنتے،
اب جواب پر غور فرمائیں یہ جواب آگے خود واضح ھو جائے گا
صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں) بات سن رھے ھیں
حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ کا قول نقل کر رھا ھوں۔
قال قتادہ احیا ھم اللہ حتی اسمعھم قولہ تو بیحا و تصغیرا و نقمۃ و حسرۃ و ند ما (بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۲۶۶)
حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ھے کہ اللہ نے کچھ دیر کے لیئے ان مردوں کو زندہ کر دیا تھا کہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کی بات سنا دے، افسوس دلانے اور ندامت کے لئیے ،
(گویا یہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کا معجزہ تھا)
ما کلامہ علیہ السلام اھل القلیب فقد کانت معجزۃ لہ علیہ السلام
بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔
شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴
فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷
روح المعانی صفحہ ۵۰
مشکوٰۃ ، باب المعجزات صفحہ ۵۴۳
اب جواب دوبارہ پڑھئیے ، غور کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا:
صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں)
بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۶۷
"پس ثابت ہوا کہ بدر کے مردوں سے کلام کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور عموم میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ معجزہ تھا (خرقِ عادت) اور اس پر ہم عقیدہ قائم نہیں کر سکتے کہ تمام مردے ہر وقت سنتے ہیں ۔ "
اور اللہ کا بڑافضل واحسان ھے کہ اشاعت توحید والسنۃ والے اسی عقیدے و مسلک سے جڑے ھیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اور تمام صحابہ اکرام کا تھا۔
انشاء اللہ جلد ہی میں حضرت عائشہ کا عقیدہ پیش کروں گا کہ وہ بھی سماعِ موتٰی کی منکر تھیں ۔۔
اللہ سب کو ہدایت دے اور ضد سے بچائے ۔
یہ آپ نے صحیح فرمایا قرآن وسنت کی نصوص نے بھی اسی طرف رہنمائی فرمائی ہے حدیث میں آتاہے کہ اللہ کے رسول نے آخر وقت میں یہود ونصاری پر اسی وجہ سے لعنت فرمائی کہ انہووں نے اپنے انبیاکی قبروں کو مساجد بنالیا تھااللہ مسلمانوں کو اس قبور پرستی کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔
[کیا ھرمردہ سنتا ھے؟] ----
[کیا ھرمردہ سنتا ھے؟] ----
قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-معجزہ الله تعالى کافعل ھوتا ھےجو نبی کےھاتھ پر ظاھر ھوتا ھے، معجزے کےظاھر ھونےمیں نبی کا قطعا" کوئی اختیارو تصرف نہیں ھوتا- الله سبحانه تعالی معجزات یاخرق عادت واقعات سےاپنی قدرت کا اظہار فرماتا ھے- چنانچہ جسطرح معجزات یا خرق عادت کا انکارالله تعالی کی قدرت کا انکارھےبالکل ویسےھی معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا صریح کفرھے، دونوں صورتوں میں الله کی کتاب کی تکذیب و تکفیر لازم آتی ھے- اس آخری امت کی بدنصیبی کہ اس میں جہاں معدودے چند ایسےلوگ پائےجاتےھیں جنہوں نےمعجزات کا صاف انکارکردیاجیسےمنکرین حدیث وغیرہ، وھیں ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ھےجنہوں نےمعجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا برملا مذاق اڑایا- تفصیل اس اجمال کی یہ ھےکہ قرآن کا فیصلہ اوراٹل قانون ھےکہ: "مردےنہیں سنتے" لیکن چونکہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا-جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی صلى الله عليه وسلم کی بات سننا، احادیث میں اس واقعےکی تمام تر تفصیلات درج ھیں،جس سے واضح ھوجاتا ھےکہ یہ ایک معجزہ تھا- ھرمردہ سنتا ھے یہ کسی صحابی کاعقیدہ نہیں تھا- لیکن اس کےباوجود اکابرین دیوبند، بریلوی اور اھلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھر مردےکوسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بناڈالا- ان سب کا عقیدہ ھےکہ " ھرمردہ لاشہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے"
معجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا انکار اورمذاق اڑانےمیں ویسےتو تینوں فرقوں کےاکابرین کا اپنا اپنا کردار ھےلیکن اھلحدیث کےاکابرین کا کلیدی کردار (key role) ھے-اور آج بھی اس کفریہ عقیدہ کی تبلیغ وترویج میں اھلحدیث "محققین"سب سےآگےھیں،
جسکا خمیازہ ذلت ورسوائی کی شکل میں یہ امت صدیوں سےبھگت رھی ھےتباھی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےھیں،موجودہ حالات تو ماضی سےزیادہ کربناک ھیں، اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
معجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا انکار اورمذاق اڑانےمیں ویسےتو تینوں فرقوں کےاکابرین کا اپنا اپنا کردار ھےلیکن اھلحدیث کےاکابرین کا کلیدی کردار (key role) ھے-اور آج بھی اس کفریہ عقیدہ کی تبلیغ وترویج میں اھلحدیث "محققین"سب سےآگےھیں،
جسکا خمیازہ ذلت ورسوائی کی شکل میں یہ امت صدیوں سےبھگت رھی ھےتباھی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےھیں،موجودہ حالات تو ماضی سےزیادہ کربناک ھیں، اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
[وما علینا الا البلاغ]
No comments:
Post a Comment