السلام علیکم ورحمةُ اللہ وبرکاتُہ
ایک شخص نے بینک میں پیسہ رکھا ہوا تھا سود پر اور وہ شخص انتقال کر گیا۔اس کے ورثاء اس سود کے پیسے سے درسگاہ کے لئے واش روم بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس رقم کا مصرف کیا ہوگا ؟
واضح رہے کہ وہ سود کی حرمت کے قائل ہیں۔
الجواب بعون رب العباد:
اسے باتھ روم وغیرہ کے استعمال میں خرچ کرسکتے ہیں۔۔
مگر اس حرام مال یعنی سود کے پسہ سے بنائی چیز سے ثواب کی نیت نہ رکھی جائے۔
فتوی لجنہ میں موجود ہے کہ حرام مال جیسے کہ شراب کا مال جوے کا مال ، سود کے مال سے صاحب مال کو نفع اٹھانا جائز نہیں اسلئے کہ اللہ اور اسکے رسول علیہ السلام نے ہمیں پاک مال ، پاک روزی کھانے کا حکم دیا اسلئے حرام مال کھانا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اسے مال حرام کو کسی راہ عام مثلا باتھ روم وغیرہ میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس حرام مال سے کسی بھی ثواب کی نیت نہ رکھے۔[فتاوی لجنہ دائمہ جلد14/ص نمبر:61 ، 62 ، 63]۔
اسلئے آپ میت کے اس حرام مال کو باتھ روم وغیرہ میں استعمال کراسکتے ہیں اور اس پورے مال کو اسی طرح ضائع کردیں اور اسکے ساتھ ساتھ میت کی اولاد اپنے والد کی طرف توبہ استغفار بھی کریں اور انکی طرف انکے حلال کمائی سے صدقہ وخیرات بھی کریں۔
هذا ماعندي والله تعالى أعلم بالصواب.
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
ایک شخص نے بینک میں پیسہ رکھا ہوا تھا سود پر اور وہ شخص انتقال کر گیا۔اس کے ورثاء اس سود کے پیسے سے درسگاہ کے لئے واش روم بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس رقم کا مصرف کیا ہوگا ؟
واضح رہے کہ وہ سود کی حرمت کے قائل ہیں۔
الجواب بعون رب العباد:
اسے باتھ روم وغیرہ کے استعمال میں خرچ کرسکتے ہیں۔۔
مگر اس حرام مال یعنی سود کے پسہ سے بنائی چیز سے ثواب کی نیت نہ رکھی جائے۔
فتوی لجنہ میں موجود ہے کہ حرام مال جیسے کہ شراب کا مال جوے کا مال ، سود کے مال سے صاحب مال کو نفع اٹھانا جائز نہیں اسلئے کہ اللہ اور اسکے رسول علیہ السلام نے ہمیں پاک مال ، پاک روزی کھانے کا حکم دیا اسلئے حرام مال کھانا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اسے مال حرام کو کسی راہ عام مثلا باتھ روم وغیرہ میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس حرام مال سے کسی بھی ثواب کی نیت نہ رکھے۔[فتاوی لجنہ دائمہ جلد14/ص نمبر:61 ، 62 ، 63]۔
اسلئے آپ میت کے اس حرام مال کو باتھ روم وغیرہ میں استعمال کراسکتے ہیں اور اس پورے مال کو اسی طرح ضائع کردیں اور اسکے ساتھ ساتھ میت کی اولاد اپنے والد کی طرف توبہ استغفار بھی کریں اور انکی طرف انکے حلال کمائی سے صدقہ وخیرات بھی کریں۔
هذا ماعندي والله تعالى أعلم بالصواب.
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
No comments:
Post a Comment