Aazab_E_Qaber HAque HAi (Part 2)
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُهعذاب ِقبر حق ہے ┈┈┈• پارٹ2
Aazab-E-Qaber Haque Hai (Part 1)
”ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ نظریہ کہ قبر میں صرف روح کو سوال ہو گا، درست نہیں۔ ان کا نظریہ تو اور بھی برا ہے، جو کہتے ہیں کہ عذاب صرف جسم کو ہو گا روح کو نہیں۔ احادیث صحیحہ سے دونوں نظریات کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر روح اور بدن دونوں کو ہو گا، جزا و سزا روح کو الگ سے بھی ملے گی اور جب بدن کے ساتھ ہو گی تب بھی۔ یاد رکھئے ! کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے، ہر مستحق عذاب مرنے کے بعد اپنی سزا پا لے گا، اسے قبر میںدفنایا جائے، درندوں کی خوراک بن جائے، جل جائے، مٹی بن جائے، ہوا میںبکھر جائے یا پانیوں میں غرق ہو جائے، اس کی روح اور بدن کو وہ عذاب پہنچتا رہے گا جو قبر میں ہونا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر بلا کمی بیشی ایمان لے آئیے، آپ کی حدیث میں بے وجہ احتمالات نہ پیدا کیجئے، اس کے ہدایت پر مبنی مفہوم میں جھول نہ لائیے، اللہ ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کیا ہے ، جو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنا کر جادہ حق سے بھٹک گئے، یاد رکھئے! الٹا فہم ہی ہر بدعت و ضلالت کی ما ں ہے ، یہ ہر خطا کی اصل ِاصول ہے، گو کہ برا ارادہ بھی ان برائیوں کا موجب ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جہان تین ہیں، دنیا، جہان ِبرزخ اور جہان ِقرار، ہر جہان کے احکام اس کے ساتھ ہی خاص ہیں، انسان بدن و روح کا مرکب ہے، تو احکام دنیا، بدن و روح پر لاگو ہوں گے، احکام برزخ بھی بدن و روح پر لاگو ہیں، جب حشر کا دن ہو گا ، تو عذا ب و ثواب بدن اور روح دونوں پر ہو گا، آپ جان چکے ہیں کہ قبر کا باغیچہ جنت ہونا یا پاتال جہنم ہونا عقل کے عین موافق ہے، حق ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں، اسی سے مومن و غیر مومن کی تمییز ہو تی ہے، لازما جا ن لیجئے! کہ قبر کی جزاء و سزاء دنیا کی جزاء و سزاء سے الگ ہیں، ممکن ہے کہ اللہ قبر کی مٹی اور پتھروں ہی کو مرنے والے کے لئے اتنا گرم کر دے کہ وہ انگارے سے زیادہ تکلیف دہ ہو، جب کہ زندہ اسے ہاتھ لگائیں تو انہیں محسوس بھی نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ساتھ لیٹے دو شخص ایک نار جہنم میں ہو دوسرا باغ جنت میں۔ اس کو پڑوس سے جہنم کی آگ نہ لپیٹے، جہنم والے کو پڑوسی کی جنت سے مس نہ ہو، اللہ کی قدرت اس سے بھی بلند اور بالا ہے، لیکن مصیبت ہے کہ انسان ان چیزوں کا انکاری ہو جاتا ہے جو اس کی عقل میں سما نہ پائیں، حالاں کہ اللہ نے ہمیں اس دنیا میں ہی ایسے عجائب دکھا رکھے ہیں جو عذاب قبر سے بھی زیادہ تعجب خیز ہیں، جب اللہ چاہتا ہے اپنے بندوں پر بعض چیزیں ظاہر کر دیتا ہے، اگر اللہ ہر بندے پر یہ چیزیں ظاہر کردے تو مکلف بنانے اور ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہ رہتی، لوگ مردوںکو دفنانا چھوڑ دیتے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ آپ کو قبر میں عذاب دئیے جانے والوں کی آواز سنا دیتا۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ٤٠٠، ٤٠١)
( مفسر قرآن، مورخ اسلام، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذِہِ الْآیَۃُ أَصْلٌ کَبِیرٌ فِي اسْتِدْلَالِ أَہْلِ السُّنَّۃِ عَلٰی عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِي الْقُبُورِ، وَہِيَ قَوْلُہ، : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) .
”قبر میں برزخی عذاب کے اثبات پر یہ آیت اہل سنت کی عظیم دلیل ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔)”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/١٤٦)
) علامہ مفسر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) لکھتے ہیں:
فَتَضَمَّنَتِ السُّورَۃُ الْقَوْلَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِي کِتَابِ التَّذْکِرَۃِ أَنَّ الْإِیمَانَ بِہٖ وَاجِبٌ، وَالتَّصْدِیقَ بِہٖ لَازِمٌ، حَسْبَمَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، وَأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحْيِ الْعَبْدَ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ، بِرَدِّ الْحَیَاۃِ إِلَیْہِ، وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ فِي مِثْلِ الْوَصْفِ الَّذِي عَاشَ عَلَیْہِ، لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ، وَمَا یُجِیبُ بِہٖ، وَیَفْہَمَ مَا أَتَاہُ مِنْ رَبِّہٖ، وَمَا أَعَدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ، مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَالَّذِي عَلَیْہِ الْجَمَاعَۃُ مِنْ أَہْلِ الْمِلَّۃِ .
”سورۃ عذاب قبر پر دال ہے۔ ہم اپنی کتاب ”التذکرۃ ” میں بیان کر چکے ہیں کہ اس پر ایمان واجب اور اس کی تصدیق لازم ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ مکلف بندے کو قبر میں زندہ کرے گا، اس کی طرف زندگی لوٹائے گا۔ اسے دنیا جیسی عقل دی جائے گی، تا کہ سوال و جواب سمجھ پائے، اللہ کی عطاؤں کا شعور ہو، اس کی تکریم یا عذاب، جو قبر میں اس کے لئے رکھا گیا ہے ، سمجھ سکے ، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی موقف پر اہل ملت کی ایک جماعت ہے۔”
(تفسیر قرطبي :٢٠/١٧٣)
نیز فرماتے ہیں:
أَنْکَرَتِ الْمُلْحِدَۃُ مَنْ تَمَذْہَبَ مِنَ الْـإِسْلَامِیِّینَ بِمَذْہَبِ الْفَلَاسِفَۃِ عَذَابَ الْقَبْرِ وَأَنَّہ، لَیْسَ لَہ، حَقِیقَۃٌ .
”بے دین ملحد فلسفیوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔”
(التذکرۃ بأحوال المَوْتٰی وأمورالأخرۃ، ص : ٣٧١)
(٢١) علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (٦٣٥۔٧٠٢ھ) لکھتے ہیں:
تَصْرِیحُہ، بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”انہوں نے مذہب اہل سنت کے مطابق عذاب قبر کے اثبات کی تصریح کی ہے۔ اس بارے میں احادیث مشہور ہیں۔”
(أحکام الأفہام شرح عمدۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٢) علامہ فاکہانی (٦٥٤۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
نَصٌّ صَرِیحٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ أَجَارَنَا اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدِ اشْتَہَرَتِ الْـأَخْبَارُ بِذٰلِکَ .
”عذاب قبر کے اثبات پر صریح نص موجود ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ ر کھے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے اور اس بارے احادیث بہت مشہور ہیں۔”
(ریاض الأفہام شرح عمد ۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٣) علامہ ابن العطار رحمہ اللہ (٦٥٤۔٧٢٤ھ) فرماتے ہیں:
دَلِیلٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ؛ وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَہُوَ مِمَّا یَجِبُ اعْتِقَادُ حَقِیقَتِہٖ، وَہُوَ مِمَّا نَقَلَتْہُ الْـأُمَّۃُ مُتَواتِرًا؛ فَمَنْ أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ، أَوْ نَعِیمَہ،، فَہُوَ کَافرٌ؛ لِـأَنَّہ، کَذَّبَ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَرَسُولَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فِي خَبَرِہِمَا .
”یہ عذاب قبر کے اثبات پر دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس پر اعتقاد واجب ہے۔ اسے امت نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے، جس نے عذاب قبر کا انکار کیا، وہ کافر ہے کیوں کہ اس نے اللہ اور رسول کو جھٹلا دیا ہے۔”
(العدۃ في شر ح العمدۃ في أحادیث الأحکام : ١/١٣٩، ١٤٠)
(٢٤) علامہ ابن سید الناس رحمہ اللہ (٦٧١۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ التَّصْرِیحٌ بِّإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، مِنْہَا قَوْلُہ، : عَلَیْہِ السَّلَامُ لَوْلَا أَنْ تُدَافِنُوا لَدَعَوْتُ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”اس میں تصریح ہے کہ عذاب قبر ثابت ہے، اہل سنت کے ہاں یہی معروف ہے، اس کے بارے میں احادیث مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے: ‘اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ آپ کو ان کی آواز سنائے، جنہیں قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔”
(النَّفْح الشَّذِي شرح جامع الترمذي : ٢/١٨٢)
(٢٥) شارح بخاری علا مہ کرمانی (٧١٧۔٧٨٦ھ) لکھتے ہیں:
مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، لِـأَنَّ الْعَقْلَ لَا یَمْنَعُہ، وَالشَّرْعُ وَرَدَ بِہٖ فَوَجَبَ قُبُولُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْہُ تَفَرُّقَ الْـأَجْزَاءِ فَإِنْ قِیلَ نَحْنُ نُشَاہِدُ الْمَیِّتَ عَلٰی حَالِہٖ فَکَیْفَ یُسْأَلُ وَیُقْعَدُ وَیُضْرَبُ؟ فَالْجَوَابُ أَنَّہ، غَیْرُ مُمْتَنِعٌ کَالنَّائِمِ فَإِنَّہ، یَجِدُ أَلَمًا وَّلَذَّۃً، وَنَحْنُ لَا نُحِسُّہ، وَکَذَا کَانَ جِبْرِیلُ یُکَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُدْرِکْہُ الْحَاضِرُونَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر شریعت کی نصوص موجود ہیں اور یہ عقلا محال بھی نہیں، سو اسے قبول کرنا واجب ہے، اعضائے جسمانی کا مختلف ٹکڑوں میں ہونا بھی عذاب قبر کو مانع نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میت ویسے ہی پڑی رہتی ہے، اسے کب بٹھایا جاتا ہے، سوال کیا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے ، کبھی مشاہدہ نہیں ہوا؟ تو جو اب یہ ہے کہ مشاہدے کے بغیر ایسا ہو جانا ممکن ہے۔ آپ سوئے ہوئے شخص کو نہیں دیکھتے، وہ تکلیف بھی محسوس کرتا ہے، لذت محسوس کرتا ہے، مگر ہم نہیں دیکھ پاتے، اسی طرح جبریلu نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کیا کرتے تھے، مگر حاضرین سن یا دیکھ نہیںپاتے تھے۔”
(الکوکب الدراري في شرح صحیح البخاري : ٧/١١٨)
(٢٦) علامہ مغلطائی حنفی(٦٨٩۔٧٦٢ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وَغَیْرِہَا إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”ان اور دیگر احادیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے، جیسا کہ اہل سنت کے ہاں معروف ہے اور اس کے بارے میں روایات مشہور ہیں۔”
(شرح ابن ماجۃ : ١/١٥٩)
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م : ٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
مَسْأَلَۃُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہِيَ أَسْہَلُ وَلَا بُعْدَ وَلَا نَکِیرَ فِي کَوْنِ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِرَدِّ الرُّوحِ إِلَیْہِ عَارِیَۃً ثُمَّ تَعْذِیبُہ، عَلٰی وَجْہٍ لَّا یَقْدِرُ الْبَشَرُعَلٰی رُؤْیَتِہٖ کَذٰلِکَ وَلَا سَمَاعِہٖ، فَنَحْنُ نَرٰی الْمَیِّتَ یُعَالِجُ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَیُخْبِرُ بِآلَامٍ لَّا مَزِیدَ عَلَیْہَا وَلَا نَرٰی عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَثَرًا وَّکَذٰلِکَ أَہْلُ الْـأَمْرَاضِ الْمُؤْلِمَۃِ، وَأَشْبَاہُ ذٰلِکَ مِمَّا نَحْنُ فِیہِ مِثْلُہَا، فَلِمَاذَا یُجْعَلُ اسْتِبْعَادُ الْعَقْلِ صَادًّا فِي وَجْہِ التَّصْدِیقِ بِأَقْوَالِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟
”عذاب قبر کا مسئلہ عام فہم ہے، بعد از عقل نہیں ہے۔ اس میں کوئی نکارت نہیںکہ عاریۃ روح لوٹا کر ایسی صورت میں عذاب دیا جائے کہ انسان اسے دیکھنے، سننے پر قادر نہ ہوئے۔ ہم قریب المرگ لوگوں کو دیکھتے ہیں، سکرات موت کی حالت میں ہوتا ہے، وہ صرف تکلیف کی خبر دیتا ہے، نہ ہم اس کا اثر اس پر دیکھتے ہیں۔ یہی صورت حال تکلیف میں مبتلا مریضوں کی ہے، ہم دیکھ نہیں پاتے، تو پھر کیوں عقل کو اخبار رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھکرانے کا ذریعہ بنائیں؟”
(الاعتصام : ٢/٨٤٢۔٨٤٣)
(٢٧) علامہ عراقی رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) لکھتے ہیں:
وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ أَدِلَّۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَلَا یَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبَہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہٖ الشَّرْعُ وَجَبَ قَبُولُہ،، وَقَدْ خَالَفَ فِي ذٰلِکَ الْخَوَارِجُ وَمُعْظَمُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَۃِ وَنَفَوْا ذٰلِکَ .
”یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس بارے میں قرآن و سنت کے دلائل واضح ہیں۔ عقل اس بات کا انکار نہیں کرتی کہ اللہ تعالی جسم کے کسی جزو میںز ندگی لوٹا دے اور اسے عذاب دے۔ اس پر قرآن و سنت کے دلائل اور عقل کی موافقت موجود ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا واجب ہے۔ خوارج، اکثرمعتزلہ اوربعض مرجیہ اس کا انکار کرتے ہیں۔”
(طَرْ ح التقریب في شرح التثریب : ٣/٣٠٦)
(٢٨) علامہ طیبی (م :٧٤٣ھ) لکھتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا)الْـآیَۃَ، وَأَمَّا الْـأَحَادِیثُ فَلَا تُحْصٰی کَثْرَۃً، وَلَا مَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یَّخْلُقَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیٰوۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ بَیْنَ الْـأَصْحَابِ فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِِ، کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْمَحْشَرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر کتا ب و سنت کے دلائل واضح ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح وشام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔) اس پر احادیث تو بے شمار ہیں۔ عقل اس کی انکاری نہیں کہ اللہ جسم کے جزو یا کل جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے جزا و سزا دے۔ عقل مانع نہیںاور شرعی دلائل موجود ہیں، سو یہ بات ماننا اور اس کے مطابق اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ میت کے اجزا بکھرے ہوں، درند، پرند ، چرند اسے کھا گئے ہوں، پھر بھی اللہ اسے اسی طرح واپس لا ئے گا، جس طرح روز محشر لائے گا اور اللہ اس پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔”
(شرح الطِیْبِي : ٢/٥٨٩)
علامہ محمد بن ابی بکر دمامینی (م: ٨٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِیہِ حَتّٰی قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ إِنَّہَا مُتَوَاتِرَۃٌ لَّا یَصِحُّ عَلَیْہَا التَّوَاطُؤُ وَإِنْ لَّمْ یَصِحَّ مِثْلُہَا لَمْ یَصِحَّ شَيْءٌ مِّنْ أَمْرِ الدِّینِ .
”اس کے بارے میں بکثرت احادیث موجود ہیں، کئی علماء نے ان کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے، جن میں جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے۔ اگر ایسی مسائل ثابت نہیں، تو دین کا کوئی مسئلہ صحیح نہیں ہو سکتا۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٢/٣٩٧)
(٢٩) علامہ ابن وزیر (٧٧٥۔٨٤٠ھ) لکھتے ہیں:
وَذَکَرَ إِجْمَاعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ أَنَّہ، یَجُوزُ وُقُوعُ الِامْتِحَانِ فِي الْبَرْزَخِ کَمَا یَقَعُ فِي الدُّنْیَا .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ برزخ میں اسی طرح امتحان ہو سکتاہے، جس طرح دنیا میں ہوتا ہے۔”
(العواصِم والقواصِم في الذبّ عن سنۃ أبي القاسم : ٥/٣٤٧)
(٣٠) علامہ برمادی (٧٦٣۔٨٣١) لکھتے ہیں:
ثُبُوتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر کا ثبوت اہل سنت کا مذہب ہے۔”
(اللامع الصبیح بشرح الجامع الصبیح : ٥/٢٤٧)
(٣١) علامہ محمد بن خلیفہ (م:٨٢٧ھ) لکھتے ہیں:
تَوَاتَرَتِ الْـأَحَادِیثُ بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”عذاب قبر کے اثبات پر احادیث متواتر ہیں ۔”
(إکمال إکمال المعلم شرح صحیح مسلم : ٣/٣٢٥)
(٣٢) شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) لکھتے ہیں :
وَاکْتَفٰی بِإِثْبَاتِ وُجُودِہٖ خِلَافًا لِّمَنْ نَّفَاہُ مُطْلَقًا مِّنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَۃِ کَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِیسِيِّ وَمَنْ وَّافَقَہُمَا وَخَالَفَہُمْ فِي ذٰلِکَ أَکْثَرُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَجَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَغَیْرِہِمْ .
”عذاب قبر کا وجود کا اثبات موجود ہے، خوارج، بعض ضرار بن عمرو اور بشر مریسی جیسے معتزلہ اور ان کے موافقین نے اس کا انکار کیا ہے، جب کہ اکثر معتزلہ اور جمیع اہل سنت اثبات کے قائل ہیں۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٣/٢٣٣)
شارح صحیح بخاری علامہ عینی حنفی (٧٢٦۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ الْمُلْحِدَۃَ وَمَنْ یَّذْہَبُ مَذْہَبَ الْفَلَاسِفَۃِ انْکَرُوہُ أَیْضًا، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ لَّازِمٌ حَسْبَ مَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْعَبْدَ وَیَرُدُّ الْحَیَاۃَ وَالْعَقْلَ، وَہٰذَا نَطَقَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃ، وَکَذٰلِکَ یُکْمِلُ الْعَقْلَ لِلصِّغَارِ لِیَعْلَمُوا مَنْزِلَتَہُمْ وَسَعَادَتَہُمْ، وَقَدْ جَاءَ أَنَّ الْقَبْرَ یَنْضَمُّ عَلَیْہِ کَالْکَبِیرِ .
”ملحدین اور فلاسفہ نے بھی اس کا انکار کیا ہے۔ اس پر ایمان واجب اور لازم ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اللہ بندے کو زندہ کرے گا، اس کی عقل واپس لائے گا۔ احادیث یہی بتاتی ہیں، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی طرح بچوں کو اتنی عقل دی جائے گی کہ اپنی منزل و سعادت پہچان لیں، یہ بھی آیا ہے کہ قبر اسے بڑے کی طرح جھٹکا دے گی۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٣/١١٨)
نیز فرماتے ہیں:
فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، وَأَنْکَرَ ذٰلِکَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو وَّبِشْرُ الْمَرِّیسِيُّ وَأکْثَرُ الْمُتَأَخِّرینَ مِنَ الْمُعْتَزلَۃِ .
”اس میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، ضرار بن عمرو اور بشر مریسی نے اس کا انکار کیا ہے۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٨/١٤٥)
(٣٤) شارح صحیح بخاری، علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ (٨٥١۔٩٢٣ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِہٖ، وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، وَلَامَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ الْمَعْرُوفِ، فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہِ الشَّرْعُ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ فِإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حَتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْحُلُولِ فِي غَیْرِہٖ، قَالَ فِي مَصَابِیحِ الْجَامِعِ وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”کتاب و سنت کے دلائل عذاب قبر کے ثبوت پر واضح ہیں، اہل سنت کا اس پر اجماع ہے، عقل اس بات کا بالکل انکار نہیں کرتی کہ اللہ جسم کے حصے میں یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے عذاب و ثواب کا معاملہ کرے، عقل اس کو قبول کرتی اور شریعت کی نصوص اسے بیان کرتی ہیں، لہٰذا عذاب قبر کا اثبات واجب ہے، میت کے اجزاء بکھر جائیں، درندے کھا لیں، یا پرندے کھا لیں اللہ اسی طرح زندہ کر سکتا ہے ، جس طرح حشر میں زندہ کرے گا، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے مشرق و مغرب میں بکرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، ہاں روح جسم میں حلول نہیں کرے گی، صاحب مصابیح الجامع کہتے ہیں : عذاب قبر کی احادیث بہت زیادہ ہیں، بہت سے علماء نے ان کے متواتر ہونے کا دعوی کیا ہے ۔”
(إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/٤٦٠)
(٣٥) شارح صحیح بخاری، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَفِیْہِ الْمَسْئَلَۃُ فِي الْقَبْرِ قَالَ أَبُو الْمَعَالِي : تَوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ وَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ مُسْتَفِیضًا قَبْلَ ظُہُورِ أَہْلِ الْبِدَعِ، والسُّؤَالُ یَقَعُ عَلٰی أَجْزَاءِ یَعْلَمُہَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنَ الْقَلْبِ وَغَیْرِہٖ یُحْیِیہَا اللّٰہُ تَعَالٰی ویُوَجِّہُ السُّؤَالَ عَلَیْہَا .
”اس میں عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ قبر میں سوال جواب کا ثبو ت بھی ہے۔ علامہ ابو المعالی کہتے ہیں : اس مسئلے میں متواتر حادیث موجود ہیں۔ اہل بدعت کے ظہور سے پہلے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کرتا تھا۔ سوال کے لئے دل کو یا جسے اللہ چاہے گا، اس عضو کو زندہ کیا جائے گا اور اس سے سوال ہوں گے۔”
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح : ٣/٤٣٤)
(٣٦) علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری (٨٢٣۔٩٢٦ھ)لکھتے ہیں:
بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ أَيْ مِنَ الْـآیَاتِ وَالْـأَحَادِیثِ، وَلَا مَانِعَ مِنْ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ فَیُثِیبُہ،، أَوْ یُعَذِّبُہ،، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ، کَمَا أَنَّہ، یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ تَعَالٰی قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، فَإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ آخَرَ، بَلْ ہُوَعَلٰی سَبِیلِ التَّدْبِیرِ .
”عذاب قبر کے بارے میں احادیث و آیات کا بیان، یہ بات عقلا محال نہیں کہ اللہ جسم کے ایک جزء یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے عذا ب و ثواب دے، میت کے اجزاء بکھر چکے ہوں، درند، پرنداور سمند ر کی مچھلیاں کھا چکی ہوں، اللہ اسے زندہ کرکے عذاب دینے پر قادر ہے، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے تمام مشارق و مغارب میں بکھرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، روح اجزاء جسم میں حلول نہیں کرتی بل کہ یہ تعلق اللہ کی طرف سے ایک خاص ہیت میں ہوتا ہے۔”
(مِنْحَۃ الباري بشرح صحیح البخاري : ٣/٤٩٩)
(٣٧) علامہ ،ابن المبرد (٨٤٠۔٩٠٩ھ) کہتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہے۔”
(جمع الجیوش، ص : ١٤٤)
(٣٨) علامہ ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ إِلٰی أَنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ مِثْلَ مَا عَاشَ عَلَیْہِ لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ وَیُجِیبَ عَنْہُ وَمَا یَفْہَمُ بِہٖ مَا أَتَاہُ مِنْ رَّبِّہٖ وَمَا أُعِدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ وَبِہٰذَا نَطَقَتِ الْـأَخْبَارُ وَالْـأَصَحُّ أَنَّ الْعَذَابَ عَلَی الرُّوحِ وَالْجَسَدِ .
”اہل سنت کا مذہب ہے کہ اللہ، مکلف کو قبر میں زندہ کر کے اسے دنیا کی عقل جیسی عقل عطا کرے گا تا کہ سوالات سمجھ کر ان کے جوابات دے سکے۔ جو اللہ اسے دے اسے سمجھ سکے۔ اس کی قبر میں کی جانے والی تعظیم یا رسوائی کی پہچان ہو۔ احادیث یہی بتاتی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عذاب روح اور جسد دونوں کو ہو گا۔”
(الفتاوٰی الفقہیۃ الکبرٰي : ٢/٩)
(٣٩) علامہ عبد الروف مناوی (٩٥٢۔١٠٣١ھ) لکھتے ہیں:
فَعَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَہُوَ مَا نُقِلَ مُتَوَاتِرًا فَیَجِبُ اعْتِقَادُہ، وَیُکَفَّرُ مُنْکِرُہ، .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر حق ہے۔ اس کے متعلق روایات متواتر ہیں۔ اس پر اعتقاد واجب اور اس کامنکر کافر ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٨٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ .
”کتاب و سنت کے دلائل ظاہر ہیں کہ عذاب قبر ثابت ہے۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٣٩٧)
(٤٠) حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاءُ : عَذَابُ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ أُضِیفَ إِلَی الْقَبْرِ لِـأَنَّہُ الْغَالِبُ وَإِلَّا فَکُلُّ مَیِّتٍ وَّإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَعْذِیبَہ، نَالَہ، مَا أَرَادَ بِہٖ قُبِرَ أَوْ لَمْ یَقْبُرْ وَلَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ أَوْ أَکَلَتْہُ الدَّوَابُّ أَوْ حُرِّقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا أَوْ ذُرِّيَ فِي الرّیحِ وَمَحَلُّہُ الرُّوحُ وَالْبَدَنُ جَمِیعًا بِّاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَکَذَا القَوْلُ فِي النَّعِیمِ .
”علماء کہتے ہیں کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے۔ اس کی نسبت قبر کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ اکثر قبر ہی میں ہوتا ہے۔ میت قبر میں ہو یا نہ ہو، غرق ہو جائے، درندے کھا لیں، جل کرراکھ ہو جائے یا ہوا میں اڑا دیاجائے، جب اللہ چاہے گا اسے عذاب دے گا۔ عذاب روح اور بدن دونوں کو دیا جائے گا۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، یہی معاملہ نعمتوں کا ہے۔”
(شرح الصُّدور بشرح حال المَوتٰی، ص : ٨١)
(٤١) ملا علی قاری حنفی (١٠١٩ھ) لکھتے ہیں:
وَالْـأَحَادِیثُ فِي ذٰلِکَ کَثِیرَۃٌ فِي الْمَبْنٰی، وَقَدْ تَّوَاتَرَتْ بِحَسْبِ الْمَعْنٰی، وَأَجْمَعُوا عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّبَعْضِ أَہْلِ الْبِدْعَۃِ .
”اس کے بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں، جو تواتر معنوی کے درجے کی ہیں۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، جب کہ اہل بدعت اس کے منکر ہیں۔”
(شرح مسند أبي حنیفۃ، ص : ٣٦٨)
(٤٢) علامہ ابن عابدین شامی حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ وَّسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ وَّضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ لٰکِنْ إِنْ کَانَ کَافِرًا فَعَذَابُہ، یَدُومُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُرْفَعُ عَنْہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَشَہْرَ رَمَضَانَ فَیُعَذَّبُ اللَّحْمُ مُتَّصِلًا بِّالرُّوحِ وَالرُّوحُ مُتَّصِلًا بِّالْجِسْمِ فَیَتَأَلَّمُ الرُّوحُ مَعَ الْجَسَدِ، وَإِنْ کَانَ خَارِجًا عَنْہُ، وَالْمُؤْمِنُ الْمُطِیعُ لَا یُعَذَّبُ بَلْ لَّہ، ضَغْطَۃٌ یَّجِدُ ہَوْلَ ذٰلِکَ وَخَوْفَہ، وَالْعَاصِي یُعَذَّبُ .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر، منکر نکیر کے سوال اور قبر کا جھٹکا حق ہے، لیکن کافر کو دائمی عذاب ہو گا۔ جمعہ اور رمضان میں بہر حال اٹھا لیا جاتا ہے (یہ بے دلیل بات ہے از ناقل)، جسم اور روح دونوں کو عذاب دیا جاتا ہے۔ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی تکلیف محسوس کرتی ہے، اگرچہ روح جسم میں موجود نہ ہو۔ فرمانبردار مومن کو عذاب نہیںدیا جائے گا۔ اسے صرف جھٹکا دیا جائے گا، اس کا ڈر اور خوف اسے رہے گا، جب کہ گنہگار عذاب دیا جائے گا۔”
(رد المُحتار علی در المُخْتار المعروف بہٖ فتاوٰی شامي : ٢/١٦٥)
یہ عبارت علامہ ابو المعین نسفی حنفی (٤١٨۔٥٠٨ھ) کی ہے، جسے علامہ طحاوی نے ”حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح : ١/٥٢٤) اور علامہ حموی حنفی نے ”غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر ۔”میں ذکر کیا ہے۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب، جسے پانچ سو حنفی علما ء نے مرتب کیا ہے، میں ہے :
کُفِّرَ بِإِنْکَارِ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَزَّ وَجَلَّ بَعْدَ دُخُولِ الْجَنَّۃِ وَبِإِنْکَارِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَبِإِنْکَارِ حَشْرِ بَنِي آدَمَ لَا غَیْرُہِمْ وَلَا بِقَوْلِہٖ أَنَّ الْمُثَابَ وَالْمُعَاقَبَ الرُّوحُ فَقَطْ کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ .
”جنت میںرویت الٰہی ،عذاب قبر اور حشر کا منکر کافر ہے، لیکن جو کہتا ہے کہ عذاب ثواب صرف روح کو ہو گا وہ کافر نہیں۔ بحر الرائق میں اسی طرح لکھا ہے۔”
(فتاوٰی عالمگیري : ٢/٢٧٤)
(٤٣) علامہ صنع اللہ حنفی (١١٢٠ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنْ قِیلَ : عَذَابُ الْقَبْرِ وَثَوَابُہ، ثَابِتٌ لِّلرُّوحِ وَالْبَدَنِ، فَیَلْزَمُ الْإِتِّصَالُ بَیْنَھُمَا بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قُلْنَا : ذَالِکَ حَقٌّ، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ، وَہُوَ مِنَ الْغَیْبِ، وَاتِّصَالُ ذَالِکَ لَا یَعْلَمُ کَیْفِیَّتَہ، إِلَّا الْعَلِیمُ الْخَبِیرُ . وَمَنْ تَأَمَّلَ قُدْرَۃَ اللّٰہِ وَعَجِائِبَ تَدْبِیرِہٖ، وَغَرَائِبَ صُنْعِہٖ لَمْ یَسْتَنْکِفْ عَنْ قُبُولِ الْإِیمَانِ بِہٖ .
”کوئی کہے کہ عذاب قبر کا روح اور جسم کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ موت کے بعد بھی ان میں اتصال ہوتا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ یہ حق ہے۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ یہ غیبی امور میں سے ہے اور اس کے اتصال کی کیفیت علیم اور خبیر ذات ہی جانتی ہے۔ جو اللہ کی قدرت، اس کے تدبیری عجائبات اور قدرت کے کرشموں میں تدبر کرے، وہ اس پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔”
(سیف اللّٰہ علی من کذب علی أولیاء اللّٰہ، ص ٤٥)
(٤٤) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٧٩ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ دَّلَّ ہٰذَا الْحَدِیثُ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْإِیمَانَ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَاجِبٌ لِّلْـأَحَادِیثِ الْوَارِدَۃِ فِیہِ، وَہُوَ مَذْکُورٌ فِي الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ أَبِي أَیُّوبَ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَۃَ، وَأُمِّ خَالِدٍ .
”یہ حدیث عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے۔ ذہن نشین رکھئے کہ عذاب قبر پر احادیث نبویہ کی بنا پر ایمان واجب ہے، اس بارہ میں سیدنا ابوایوب ا نصا ر ی ، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا جابر، سیدہ عائشہ اور سیدہ ام خالدy سے احادیث بیان ہوئی ہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٢/٨٥)
(٤٥) ابو الوفا بن عقیل (٤٣١۔٥١٣ھ) منکرین عذاب قبر کے شبہات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الْإِیمَانُ وَاجِبٌ بِّالتَّعْذِیبِ مِنْ غَیْرِ تَفْصِیلٍ .
”عذاب قبر پر بغیر تفصیل پوچھے ایمان واجب ہے۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی : ٢/٨٥)
(٤٦) کورانی حنفی (٨١٣۔٨٩٣ھ) کہتے ہیں:
وَفِي الْحَدِیثُ دَلَالَۃٌ صَرِیحَۃٌ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَالرُّوحِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ .
”اس حدیث میں عذاب قبر اور روح پر صریح دلالت ہے۔”
(الکوثر الجاري إلی ریاض أحادیث البخاري : ٣/٣٤٨)
(٤٧) حافظ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ إِثْبَاتٌ عَذَابُ الْقَبْرِ .
”اس حدیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔”
(معالم السنن : ١/١٩)
(٤٨) امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (٢٦٠۔٣٢٤ھ) اہل بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ .
”گمراہوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، نیز کہ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، جب کہ اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے۔”
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ، ص : ١٥)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَإِنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَعْدَ أَنْ یُّحْیَوْنَ فِیھَا وَیُسْأَلُونَ، فَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ لوگوں کو قبروں میں زندہ کیا جائے گا اور آزمایا جائے گا، اللہ جسے چاہے گا ثابت قدم رکھے گا۔”
(رسالۃ إلی أہل الثغر، ص : ٦٢)
(٤٩) علامہ شاطبی (م :٧٩٠) لکھتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر اور فتنہ قبر کے بارے میں متواتر احادیث کا انکار کر دیا ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٤٩)
(٥٠) امام اہل سنت ابو بکر بن ابی داو د (م :٣١٦ھ) اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں:
وَقُلْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَقٌّ مُوضِحٌ .
”یہ عقیدہ رکھیں کہ عذاب قبر واضح حق ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
اس قصیدہ کے بارے میں امام ابوبکر بن ابی دواد فرماتے ہیں:
ہٰذَا قَوْلِي وَقَوْلُ أَبِي وَقَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَّقَوْلُ مَنْ أَدْرَکْنَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَمَنْ لَّمْ نُدْرِکْ مِمَّنْ بَّلَغَنَا عَنْہُ، فَمَنْ قَالَ عَلَیَّ غَیْرَ ہٰذَا، فَہُوَ کَذَّابٌ .
”میرا، میرے والد محترم امام ابوداود، امام احمد بن حنبل، ان اہل علم کا ہے، جن سے ہماری ملاقات ہوئی اور جن سے ملاقات نہیں ہو سکی، صرف ان کے عقیدے پر اطلاع ملی ان سب کا یہی عقیدہ ہے۔ جو اس کے خلاف کوئی عقیدہ میرے متعلق بیان کرے، وہ جھوٹا ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
(٥١) امام ابو الحسین آجری رحمہ اللہ (م : ٣٦٠ھ) فرماتے ہیں:
مَا أَسْوَأَ حَالَ مَنْ کَذَّبَ بِہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ لَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَّعِیدًا وَّخَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِینًا .
”ان احادیث کا انکار ی کتنا برا شخص ہے۔ وہ گمراہی کی گہری کھائی میں جا گرا ہے اور واضح خسارے کا سودا گر ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٣/١٢٨٥)
مسئلہ عذاب قبر اہل سنت کے عقائد میں سے ہے، جس پر بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث متواترہ دلالت کرتی ہیں۔ اس کے حق ہونے پر اہل حدیث کا اجماع و اتفاق ہے، جس نے اہل سنت کا اتفاقی فہم نظر انداز کیا وہ ذلیل اور گمراہ ہے، اس کی رائے بدعت اور گم راہی ہے، فہم و منہج سلف صالحین کو ترک کرنا در حقیقت قرآن و حدیث سے دشمنی ہے ، جس نے قرآن و حدیث کی من پسند تعبیر کی وہ راہ ہدایت سے بھٹک گیا، دنیا میں جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے سب نے قرآن و حدیث کو نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا، محدثین کے دشمنوں نے قرآن و سنت پر عقلی اعتراضات وارد کئے ہیں، ایسا کوئی مسلمان کر سکتا ہے بھلا؟ جو اپنی نارسا عقل سے وحی کو جھٹلا دے، اگر اسلامی عقائد و اعمال کی بنیاد عقل پر ہوتی، تو بعثت انبیا ئے کرام کا مقصد فوت ہو جاتا۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام کے بارے میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م:٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
وَالرَّأْيُ إِذَا عَارَضَ السُّنَّۃَ فَہُوَ بِدْعَۃٌ وَّضَلَالَۃٌ فَالْحَاصِلُ مِنْ مَّجْمُوعِ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ لَمْ یُعَارِضُوا مَا جَاءَ فِي السُّنَنِ بِآرَائِہِمْ، عَلِمُوا مَعْنَاہُ أَوْ جَہِلُوہُ، جَرٰی لَہُمْ عَلٰی مَعْہُودِہِمْ أَوْ لَا، وَہُوَ الْمَطْلُوبُ مِنْ نَقْلِہٖ، وَلْیَعْتَبِرْ فِیہِ مَنْ قَدَّمَ النَّاقِصَ وَہُوَ الْعَقْلُ عَلَی الْکَامِلِ وَہُوَ الشَّرْعُ .
”رائے اور سنت کا تصادم ہو جائے، تو رائے بدعت اور گمراہی کہلائے گی۔ ہماری گزشتہ نگارشات کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ و تابعین، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کامعنی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، عقل میں آئے یا نہ آئے، حدیث سے عقلیں نہیں لڑاتے تھے۔ یہی مطلوب شریعت ہے۔ شریعت و عقل کے تصادم میں ناقص پر کامل کو مقدم کیا جائے اور کامل شریعت ہی ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٥٠)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ ہٰذَا بِأَوَّلِ خَبَرٍ یَّجِبُ عَلَیْنَا الْإِیمَانُ بِہٖ وَإِنْ جَہِلْنَا مَعْنَاہُ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ وَسُؤَالِ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِیہِ حَقٌّ، وَلَا یُطَّلَعُ عَلٰی حَقِیقَۃِ ذٰلِکَ، وَمَتٰی ضَاقَتِ الْحِیَلُ فِي کَشْفِ الْمُشْکِلَاتِ لِلْـإِحْسَاسِ لَمْ یَبْقَ إِلَّا فَرْضُ التَّسْلِیمِ .
”یہ کوئی پہلی حدیث تو نہیں کہ جس کے معنی سے عدم واقفیت کے با وجود ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، قبر میں جزا و سزا اور منکر نکیر کے سوال جواب حق ہیں، اس کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں، جب مشکلات شریعت حد عقل سے ما وراء ہیں، تو سوائے تسلیم و رضا کے کوئی چارہ ہی نہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٣/٣٨٣)
عذاب قبر کا انکار بشر بن غیاث مریسی (م : ٢١٨ھ) جیسے زندیق، بدعتی اور گم راہوں نے کیا ہے، اس کے عقائد کفریہ تھے ، قرآن کو مخلوق کہتا تھا، محدثین نے اس کی تکفیر کر رکھی تھی، امام عثمان بن سعید، دارمی نے اس کے رد میں”الرد علی بشر المریسی فیما ابتدعہ من التاویل لمذہب الجہمیہ”نامی کتا ب لکھی ہے۔ امام اسحاق بن اہویہ (١٦٦۔٢٣٨ھ) فرماتے ہیں:
دَخَلَ حُمَیْدٌ الْطُّوسِيُّ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، وَعِنْدَہ، بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ لِحُمَیْدٌ أَتَدْرِي مَنْ ہٰذَا یَا أَبَا غَانِمٍ؟ قَالَ لَا، قَالَ ہٰذَا بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ حُمَیْدٌ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، ہٰذَا سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ ، ہٰذَا قَدْ رَفَعَ عَذَابَ الْقَبْرِ وَمَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، وَالْمِیزَانَ، والصِّرَاطَ، أُنْظُرْ ہَلْ یَقْدِرُ أَنْ یَّرْفَعَ الْمَوْتَ، ثُمَّ نَظَرَ إِلٰی بِشْرٍ، فَقَالَ : لَوْ رَفَعْتَ الْمَوْتَ کُنْتَ سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ حَقًّا .
”حمید طوسی رحمہ اللہ امیرالمومنین کے ہاں گئے، ان کے پاس بشر مریسی کھڑا تھا۔ امیر المومنین کہنے لگے : حمید جانتے ہو، یہ کون ہیں؟ کہا : نہیں۔ امیر المومنین کہنے لگے : یہ بشر مریسی ہے، تو حمید کہنے لگے : یہ تو فقہا کے سردار ہیں، جناب نے عذاب ِقبر ختم کر دیا اور منکر نکیر، میزان، پل صراط وغیرہ بھی اسلام بدر کر دئیے ہیں۔ دیکھئے ا ب موت ہی بچی ہے، قریب ہے کہ اس کا بھی انکار ہو جائے، پھر بشر سے کہنے لگے، ارے آپ تو فقہاء کے سردار ہوئے، موت کو بھی اسلام سے نکال دیجئے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب بغدادي : ٧/٦٠، المنتظم لابن الجوزي : ١١/٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
آخر میں علامہ، عبد السلام بن عبد الرحمن بن ابی الرجال ، ابو الحکم المعروف ابن برجان (م : ٥٣٦ھ) کا واقعہ ملاحظہ ہو:
أَنَّہُمْ دَفَنُوا مَیِّتًا بِّقَرْیَتِہِمْ فِي شَرَفِ أَشْبِیلِیَّۃَ فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ دَفْنِہٖ قَعَدُوا نَاحِیَۃً یَتَحَدَّثُونَ وَدَابَّۃٌ تَرْعٰی قَرِیبًا مِّنْہُم فَإِذَا بِالدَّابَّۃِ قَدْ أَقْبَلَتْ مُسْرِعَۃً إِلَی الْقَبْرِ فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً ثُمَّ عَادَتْ إِلَی الْقَبْر فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً فَعَلَتْ ذٰلِکَ مَرَّۃً بَّعْدَ أُخْرٰی
قَالَ أَبُو الْحَکَمِ فَذَکَرْتُ عَذَابَ الْقَبْرِ وَقَوْلِ النَّبِيِّ أَنَّہُمْ لَیُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُہُ الْبَہَائِمُ .
”انہوں نے اشبیلیہ کی ایک بستی میں ایک میت کی تدفین کی، تدفین سے فارغ ہو کر قریب ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جانور جو پاس ہی چر رہا تھا، تیزی سے اس قبر کے پاس آیا اور کان لگا کے کچھ سننے لگا، پھر اچانک وہاں سے بھاگ گیا، پھر اس ایساکئی بار کیا۔ ابوالحکم کہتے ہیں : یہ منظر دیکھا، تو میرا ذہن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا گیا کہ انہیں عذاب دیا جاتا ہے ، جسے چوپائے سنتے ہیں۔”
(الروح لابن القیم، ص : ٥٣، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْـأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
”الٰہی! ہمارے تمام معاملات سنوار دے، ہمیں دنیا کی رسوائیوں اور عذاب قبر سے بچا ۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٥٢/٤٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
✧------------------✦✦✦------------------✧✧------------------
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
”ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ نظریہ کہ قبر میں صرف روح کو سوال ہو گا، درست نہیں۔ ان کا نظریہ تو اور بھی برا ہے، جو کہتے ہیں کہ عذاب صرف جسم کو ہو گا روح کو نہیں۔ احادیث صحیحہ سے دونوں نظریات کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر روح اور بدن دونوں کو ہو گا، جزا و سزا روح کو الگ سے بھی ملے گی اور جب بدن کے ساتھ ہو گی تب بھی۔ یاد رکھئے ! کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے، ہر مستحق عذاب مرنے کے بعد اپنی سزا پا لے گا، اسے قبر میںدفنایا جائے، درندوں کی خوراک بن جائے، جل جائے، مٹی بن جائے، ہوا میںبکھر جائے یا پانیوں میں غرق ہو جائے، اس کی روح اور بدن کو وہ عذاب پہنچتا رہے گا جو قبر میں ہونا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر بلا کمی بیشی ایمان لے آئیے، آپ کی حدیث میں بے وجہ احتمالات نہ پیدا کیجئے، اس کے ہدایت پر مبنی مفہوم میں جھول نہ لائیے، اللہ ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کیا ہے ، جو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنا کر جادہ حق سے بھٹک گئے، یاد رکھئے! الٹا فہم ہی ہر بدعت و ضلالت کی ما ں ہے ، یہ ہر خطا کی اصل ِاصول ہے، گو کہ برا ارادہ بھی ان برائیوں کا موجب ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جہان تین ہیں، دنیا، جہان ِبرزخ اور جہان ِقرار، ہر جہان کے احکام اس کے ساتھ ہی خاص ہیں، انسان بدن و روح کا مرکب ہے، تو احکام دنیا، بدن و روح پر لاگو ہوں گے، احکام برزخ بھی بدن و روح پر لاگو ہیں، جب حشر کا دن ہو گا ، تو عذا ب و ثواب بدن اور روح دونوں پر ہو گا، آپ جان چکے ہیں کہ قبر کا باغیچہ جنت ہونا یا پاتال جہنم ہونا عقل کے عین موافق ہے، حق ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں، اسی سے مومن و غیر مومن کی تمییز ہو تی ہے، لازما جا ن لیجئے! کہ قبر کی جزاء و سزاء دنیا کی جزاء و سزاء سے الگ ہیں، ممکن ہے کہ اللہ قبر کی مٹی اور پتھروں ہی کو مرنے والے کے لئے اتنا گرم کر دے کہ وہ انگارے سے زیادہ تکلیف دہ ہو، جب کہ زندہ اسے ہاتھ لگائیں تو انہیں محسوس بھی نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ساتھ لیٹے دو شخص ایک نار جہنم میں ہو دوسرا باغ جنت میں۔ اس کو پڑوس سے جہنم کی آگ نہ لپیٹے، جہنم والے کو پڑوسی کی جنت سے مس نہ ہو، اللہ کی قدرت اس سے بھی بلند اور بالا ہے، لیکن مصیبت ہے کہ انسان ان چیزوں کا انکاری ہو جاتا ہے جو اس کی عقل میں سما نہ پائیں، حالاں کہ اللہ نے ہمیں اس دنیا میں ہی ایسے عجائب دکھا رکھے ہیں جو عذاب قبر سے بھی زیادہ تعجب خیز ہیں، جب اللہ چاہتا ہے اپنے بندوں پر بعض چیزیں ظاہر کر دیتا ہے، اگر اللہ ہر بندے پر یہ چیزیں ظاہر کردے تو مکلف بنانے اور ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہ رہتی، لوگ مردوںکو دفنانا چھوڑ دیتے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ آپ کو قبر میں عذاب دئیے جانے والوں کی آواز سنا دیتا۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ٤٠٠، ٤٠١)
( مفسر قرآن، مورخ اسلام، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذِہِ الْآیَۃُ أَصْلٌ کَبِیرٌ فِي اسْتِدْلَالِ أَہْلِ السُّنَّۃِ عَلٰی عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِي الْقُبُورِ، وَہِيَ قَوْلُہ، : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) .
”قبر میں برزخی عذاب کے اثبات پر یہ آیت اہل سنت کی عظیم دلیل ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔)”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/١٤٦)
) علامہ مفسر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) لکھتے ہیں:
فَتَضَمَّنَتِ السُّورَۃُ الْقَوْلَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِي کِتَابِ التَّذْکِرَۃِ أَنَّ الْإِیمَانَ بِہٖ وَاجِبٌ، وَالتَّصْدِیقَ بِہٖ لَازِمٌ، حَسْبَمَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، وَأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحْيِ الْعَبْدَ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ، بِرَدِّ الْحَیَاۃِ إِلَیْہِ، وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ فِي مِثْلِ الْوَصْفِ الَّذِي عَاشَ عَلَیْہِ، لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ، وَمَا یُجِیبُ بِہٖ، وَیَفْہَمَ مَا أَتَاہُ مِنْ رَبِّہٖ، وَمَا أَعَدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ، مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَالَّذِي عَلَیْہِ الْجَمَاعَۃُ مِنْ أَہْلِ الْمِلَّۃِ .
”سورۃ عذاب قبر پر دال ہے۔ ہم اپنی کتاب ”التذکرۃ ” میں بیان کر چکے ہیں کہ اس پر ایمان واجب اور اس کی تصدیق لازم ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ مکلف بندے کو قبر میں زندہ کرے گا، اس کی طرف زندگی لوٹائے گا۔ اسے دنیا جیسی عقل دی جائے گی، تا کہ سوال و جواب سمجھ پائے، اللہ کی عطاؤں کا شعور ہو، اس کی تکریم یا عذاب، جو قبر میں اس کے لئے رکھا گیا ہے ، سمجھ سکے ، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی موقف پر اہل ملت کی ایک جماعت ہے۔”
(تفسیر قرطبي :٢٠/١٧٣)
نیز فرماتے ہیں:
أَنْکَرَتِ الْمُلْحِدَۃُ مَنْ تَمَذْہَبَ مِنَ الْـإِسْلَامِیِّینَ بِمَذْہَبِ الْفَلَاسِفَۃِ عَذَابَ الْقَبْرِ وَأَنَّہ، لَیْسَ لَہ، حَقِیقَۃٌ .
”بے دین ملحد فلسفیوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔”
(التذکرۃ بأحوال المَوْتٰی وأمورالأخرۃ، ص : ٣٧١)
(٢١) علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (٦٣٥۔٧٠٢ھ) لکھتے ہیں:
تَصْرِیحُہ، بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”انہوں نے مذہب اہل سنت کے مطابق عذاب قبر کے اثبات کی تصریح کی ہے۔ اس بارے میں احادیث مشہور ہیں۔”
(أحکام الأفہام شرح عمدۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٢) علامہ فاکہانی (٦٥٤۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
نَصٌّ صَرِیحٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ أَجَارَنَا اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدِ اشْتَہَرَتِ الْـأَخْبَارُ بِذٰلِکَ .
”عذاب قبر کے اثبات پر صریح نص موجود ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ ر کھے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے اور اس بارے احادیث بہت مشہور ہیں۔”
(ریاض الأفہام شرح عمد ۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٣) علامہ ابن العطار رحمہ اللہ (٦٥٤۔٧٢٤ھ) فرماتے ہیں:
دَلِیلٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ؛ وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَہُوَ مِمَّا یَجِبُ اعْتِقَادُ حَقِیقَتِہٖ، وَہُوَ مِمَّا نَقَلَتْہُ الْـأُمَّۃُ مُتَواتِرًا؛ فَمَنْ أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ، أَوْ نَعِیمَہ،، فَہُوَ کَافرٌ؛ لِـأَنَّہ، کَذَّبَ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَرَسُولَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فِي خَبَرِہِمَا .
”یہ عذاب قبر کے اثبات پر دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس پر اعتقاد واجب ہے۔ اسے امت نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے، جس نے عذاب قبر کا انکار کیا، وہ کافر ہے کیوں کہ اس نے اللہ اور رسول کو جھٹلا دیا ہے۔”
(العدۃ في شر ح العمدۃ في أحادیث الأحکام : ١/١٣٩، ١٤٠)
(٢٤) علامہ ابن سید الناس رحمہ اللہ (٦٧١۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ التَّصْرِیحٌ بِّإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، مِنْہَا قَوْلُہ، : عَلَیْہِ السَّلَامُ لَوْلَا أَنْ تُدَافِنُوا لَدَعَوْتُ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”اس میں تصریح ہے کہ عذاب قبر ثابت ہے، اہل سنت کے ہاں یہی معروف ہے، اس کے بارے میں احادیث مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے: ‘اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ آپ کو ان کی آواز سنائے، جنہیں قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔”
(النَّفْح الشَّذِي شرح جامع الترمذي : ٢/١٨٢)
(٢٥) شارح بخاری علا مہ کرمانی (٧١٧۔٧٨٦ھ) لکھتے ہیں:
مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، لِـأَنَّ الْعَقْلَ لَا یَمْنَعُہ، وَالشَّرْعُ وَرَدَ بِہٖ فَوَجَبَ قُبُولُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْہُ تَفَرُّقَ الْـأَجْزَاءِ فَإِنْ قِیلَ نَحْنُ نُشَاہِدُ الْمَیِّتَ عَلٰی حَالِہٖ فَکَیْفَ یُسْأَلُ وَیُقْعَدُ وَیُضْرَبُ؟ فَالْجَوَابُ أَنَّہ، غَیْرُ مُمْتَنِعٌ کَالنَّائِمِ فَإِنَّہ، یَجِدُ أَلَمًا وَّلَذَّۃً، وَنَحْنُ لَا نُحِسُّہ، وَکَذَا کَانَ جِبْرِیلُ یُکَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُدْرِکْہُ الْحَاضِرُونَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر شریعت کی نصوص موجود ہیں اور یہ عقلا محال بھی نہیں، سو اسے قبول کرنا واجب ہے، اعضائے جسمانی کا مختلف ٹکڑوں میں ہونا بھی عذاب قبر کو مانع نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میت ویسے ہی پڑی رہتی ہے، اسے کب بٹھایا جاتا ہے، سوال کیا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے ، کبھی مشاہدہ نہیں ہوا؟ تو جو اب یہ ہے کہ مشاہدے کے بغیر ایسا ہو جانا ممکن ہے۔ آپ سوئے ہوئے شخص کو نہیں دیکھتے، وہ تکلیف بھی محسوس کرتا ہے، لذت محسوس کرتا ہے، مگر ہم نہیں دیکھ پاتے، اسی طرح جبریلu نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کیا کرتے تھے، مگر حاضرین سن یا دیکھ نہیںپاتے تھے۔”
(الکوکب الدراري في شرح صحیح البخاري : ٧/١١٨)
(٢٦) علامہ مغلطائی حنفی(٦٨٩۔٧٦٢ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وَغَیْرِہَا إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”ان اور دیگر احادیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے، جیسا کہ اہل سنت کے ہاں معروف ہے اور اس کے بارے میں روایات مشہور ہیں۔”
(شرح ابن ماجۃ : ١/١٥٩)
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م : ٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
مَسْأَلَۃُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہِيَ أَسْہَلُ وَلَا بُعْدَ وَلَا نَکِیرَ فِي کَوْنِ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِرَدِّ الرُّوحِ إِلَیْہِ عَارِیَۃً ثُمَّ تَعْذِیبُہ، عَلٰی وَجْہٍ لَّا یَقْدِرُ الْبَشَرُعَلٰی رُؤْیَتِہٖ کَذٰلِکَ وَلَا سَمَاعِہٖ، فَنَحْنُ نَرٰی الْمَیِّتَ یُعَالِجُ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَیُخْبِرُ بِآلَامٍ لَّا مَزِیدَ عَلَیْہَا وَلَا نَرٰی عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَثَرًا وَّکَذٰلِکَ أَہْلُ الْـأَمْرَاضِ الْمُؤْلِمَۃِ، وَأَشْبَاہُ ذٰلِکَ مِمَّا نَحْنُ فِیہِ مِثْلُہَا، فَلِمَاذَا یُجْعَلُ اسْتِبْعَادُ الْعَقْلِ صَادًّا فِي وَجْہِ التَّصْدِیقِ بِأَقْوَالِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟
”عذاب قبر کا مسئلہ عام فہم ہے، بعد از عقل نہیں ہے۔ اس میں کوئی نکارت نہیںکہ عاریۃ روح لوٹا کر ایسی صورت میں عذاب دیا جائے کہ انسان اسے دیکھنے، سننے پر قادر نہ ہوئے۔ ہم قریب المرگ لوگوں کو دیکھتے ہیں، سکرات موت کی حالت میں ہوتا ہے، وہ صرف تکلیف کی خبر دیتا ہے، نہ ہم اس کا اثر اس پر دیکھتے ہیں۔ یہی صورت حال تکلیف میں مبتلا مریضوں کی ہے، ہم دیکھ نہیں پاتے، تو پھر کیوں عقل کو اخبار رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھکرانے کا ذریعہ بنائیں؟”
(الاعتصام : ٢/٨٤٢۔٨٤٣)
(٢٧) علامہ عراقی رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) لکھتے ہیں:
وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ أَدِلَّۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَلَا یَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبَہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہٖ الشَّرْعُ وَجَبَ قَبُولُہ،، وَقَدْ خَالَفَ فِي ذٰلِکَ الْخَوَارِجُ وَمُعْظَمُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَۃِ وَنَفَوْا ذٰلِکَ .
”یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس بارے میں قرآن و سنت کے دلائل واضح ہیں۔ عقل اس بات کا انکار نہیں کرتی کہ اللہ تعالی جسم کے کسی جزو میںز ندگی لوٹا دے اور اسے عذاب دے۔ اس پر قرآن و سنت کے دلائل اور عقل کی موافقت موجود ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا واجب ہے۔ خوارج، اکثرمعتزلہ اوربعض مرجیہ اس کا انکار کرتے ہیں۔”
(طَرْ ح التقریب في شرح التثریب : ٣/٣٠٦)
(٢٨) علامہ طیبی (م :٧٤٣ھ) لکھتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا)الْـآیَۃَ، وَأَمَّا الْـأَحَادِیثُ فَلَا تُحْصٰی کَثْرَۃً، وَلَا مَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یَّخْلُقَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیٰوۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ بَیْنَ الْـأَصْحَابِ فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِِ، کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْمَحْشَرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر کتا ب و سنت کے دلائل واضح ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح وشام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔) اس پر احادیث تو بے شمار ہیں۔ عقل اس کی انکاری نہیں کہ اللہ جسم کے جزو یا کل جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے جزا و سزا دے۔ عقل مانع نہیںاور شرعی دلائل موجود ہیں، سو یہ بات ماننا اور اس کے مطابق اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ میت کے اجزا بکھرے ہوں، درند، پرند ، چرند اسے کھا گئے ہوں، پھر بھی اللہ اسے اسی طرح واپس لا ئے گا، جس طرح روز محشر لائے گا اور اللہ اس پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔”
(شرح الطِیْبِي : ٢/٥٨٩)
علامہ محمد بن ابی بکر دمامینی (م: ٨٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِیہِ حَتّٰی قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ إِنَّہَا مُتَوَاتِرَۃٌ لَّا یَصِحُّ عَلَیْہَا التَّوَاطُؤُ وَإِنْ لَّمْ یَصِحَّ مِثْلُہَا لَمْ یَصِحَّ شَيْءٌ مِّنْ أَمْرِ الدِّینِ .
”اس کے بارے میں بکثرت احادیث موجود ہیں، کئی علماء نے ان کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے، جن میں جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے۔ اگر ایسی مسائل ثابت نہیں، تو دین کا کوئی مسئلہ صحیح نہیں ہو سکتا۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٢/٣٩٧)
(٢٩) علامہ ابن وزیر (٧٧٥۔٨٤٠ھ) لکھتے ہیں:
وَذَکَرَ إِجْمَاعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ أَنَّہ، یَجُوزُ وُقُوعُ الِامْتِحَانِ فِي الْبَرْزَخِ کَمَا یَقَعُ فِي الدُّنْیَا .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ برزخ میں اسی طرح امتحان ہو سکتاہے، جس طرح دنیا میں ہوتا ہے۔”
(العواصِم والقواصِم في الذبّ عن سنۃ أبي القاسم : ٥/٣٤٧)
(٣٠) علامہ برمادی (٧٦٣۔٨٣١) لکھتے ہیں:
ثُبُوتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر کا ثبوت اہل سنت کا مذہب ہے۔”
(اللامع الصبیح بشرح الجامع الصبیح : ٥/٢٤٧)
(٣١) علامہ محمد بن خلیفہ (م:٨٢٧ھ) لکھتے ہیں:
تَوَاتَرَتِ الْـأَحَادِیثُ بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”عذاب قبر کے اثبات پر احادیث متواتر ہیں ۔”
(إکمال إکمال المعلم شرح صحیح مسلم : ٣/٣٢٥)
(٣٢) شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) لکھتے ہیں :
وَاکْتَفٰی بِإِثْبَاتِ وُجُودِہٖ خِلَافًا لِّمَنْ نَّفَاہُ مُطْلَقًا مِّنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَۃِ کَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِیسِيِّ وَمَنْ وَّافَقَہُمَا وَخَالَفَہُمْ فِي ذٰلِکَ أَکْثَرُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَجَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَغَیْرِہِمْ .
”عذاب قبر کا وجود کا اثبات موجود ہے، خوارج، بعض ضرار بن عمرو اور بشر مریسی جیسے معتزلہ اور ان کے موافقین نے اس کا انکار کیا ہے، جب کہ اکثر معتزلہ اور جمیع اہل سنت اثبات کے قائل ہیں۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٣/٢٣٣)
شارح صحیح بخاری علامہ عینی حنفی (٧٢٦۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ الْمُلْحِدَۃَ وَمَنْ یَّذْہَبُ مَذْہَبَ الْفَلَاسِفَۃِ انْکَرُوہُ أَیْضًا، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ لَّازِمٌ حَسْبَ مَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْعَبْدَ وَیَرُدُّ الْحَیَاۃَ وَالْعَقْلَ، وَہٰذَا نَطَقَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃ، وَکَذٰلِکَ یُکْمِلُ الْعَقْلَ لِلصِّغَارِ لِیَعْلَمُوا مَنْزِلَتَہُمْ وَسَعَادَتَہُمْ، وَقَدْ جَاءَ أَنَّ الْقَبْرَ یَنْضَمُّ عَلَیْہِ کَالْکَبِیرِ .
”ملحدین اور فلاسفہ نے بھی اس کا انکار کیا ہے۔ اس پر ایمان واجب اور لازم ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اللہ بندے کو زندہ کرے گا، اس کی عقل واپس لائے گا۔ احادیث یہی بتاتی ہیں، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی طرح بچوں کو اتنی عقل دی جائے گی کہ اپنی منزل و سعادت پہچان لیں، یہ بھی آیا ہے کہ قبر اسے بڑے کی طرح جھٹکا دے گی۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٣/١١٨)
نیز فرماتے ہیں:
فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، وَأَنْکَرَ ذٰلِکَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو وَّبِشْرُ الْمَرِّیسِيُّ وَأکْثَرُ الْمُتَأَخِّرینَ مِنَ الْمُعْتَزلَۃِ .
”اس میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، ضرار بن عمرو اور بشر مریسی نے اس کا انکار کیا ہے۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٨/١٤٥)
(٣٤) شارح صحیح بخاری، علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ (٨٥١۔٩٢٣ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِہٖ، وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، وَلَامَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ الْمَعْرُوفِ، فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہِ الشَّرْعُ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ فِإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حَتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْحُلُولِ فِي غَیْرِہٖ، قَالَ فِي مَصَابِیحِ الْجَامِعِ وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”کتاب و سنت کے دلائل عذاب قبر کے ثبوت پر واضح ہیں، اہل سنت کا اس پر اجماع ہے، عقل اس بات کا بالکل انکار نہیں کرتی کہ اللہ جسم کے حصے میں یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے عذاب و ثواب کا معاملہ کرے، عقل اس کو قبول کرتی اور شریعت کی نصوص اسے بیان کرتی ہیں، لہٰذا عذاب قبر کا اثبات واجب ہے، میت کے اجزاء بکھر جائیں، درندے کھا لیں، یا پرندے کھا لیں اللہ اسی طرح زندہ کر سکتا ہے ، جس طرح حشر میں زندہ کرے گا، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے مشرق و مغرب میں بکرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، ہاں روح جسم میں حلول نہیں کرے گی، صاحب مصابیح الجامع کہتے ہیں : عذاب قبر کی احادیث بہت زیادہ ہیں، بہت سے علماء نے ان کے متواتر ہونے کا دعوی کیا ہے ۔”
(إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/٤٦٠)
(٣٥) شارح صحیح بخاری، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَفِیْہِ الْمَسْئَلَۃُ فِي الْقَبْرِ قَالَ أَبُو الْمَعَالِي : تَوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ وَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ مُسْتَفِیضًا قَبْلَ ظُہُورِ أَہْلِ الْبِدَعِ، والسُّؤَالُ یَقَعُ عَلٰی أَجْزَاءِ یَعْلَمُہَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنَ الْقَلْبِ وَغَیْرِہٖ یُحْیِیہَا اللّٰہُ تَعَالٰی ویُوَجِّہُ السُّؤَالَ عَلَیْہَا .
”اس میں عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ قبر میں سوال جواب کا ثبو ت بھی ہے۔ علامہ ابو المعالی کہتے ہیں : اس مسئلے میں متواتر حادیث موجود ہیں۔ اہل بدعت کے ظہور سے پہلے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کرتا تھا۔ سوال کے لئے دل کو یا جسے اللہ چاہے گا، اس عضو کو زندہ کیا جائے گا اور اس سے سوال ہوں گے۔”
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح : ٣/٤٣٤)
(٣٦) علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری (٨٢٣۔٩٢٦ھ)لکھتے ہیں:
بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ أَيْ مِنَ الْـآیَاتِ وَالْـأَحَادِیثِ، وَلَا مَانِعَ مِنْ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ فَیُثِیبُہ،، أَوْ یُعَذِّبُہ،، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ، کَمَا أَنَّہ، یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ تَعَالٰی قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، فَإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ آخَرَ، بَلْ ہُوَعَلٰی سَبِیلِ التَّدْبِیرِ .
”عذاب قبر کے بارے میں احادیث و آیات کا بیان، یہ بات عقلا محال نہیں کہ اللہ جسم کے ایک جزء یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے عذا ب و ثواب دے، میت کے اجزاء بکھر چکے ہوں، درند، پرنداور سمند ر کی مچھلیاں کھا چکی ہوں، اللہ اسے زندہ کرکے عذاب دینے پر قادر ہے، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے تمام مشارق و مغارب میں بکھرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، روح اجزاء جسم میں حلول نہیں کرتی بل کہ یہ تعلق اللہ کی طرف سے ایک خاص ہیت میں ہوتا ہے۔”
(مِنْحَۃ الباري بشرح صحیح البخاري : ٣/٤٩٩)
(٣٧) علامہ ،ابن المبرد (٨٤٠۔٩٠٩ھ) کہتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہے۔”
(جمع الجیوش، ص : ١٤٤)
(٣٨) علامہ ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ إِلٰی أَنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ مِثْلَ مَا عَاشَ عَلَیْہِ لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ وَیُجِیبَ عَنْہُ وَمَا یَفْہَمُ بِہٖ مَا أَتَاہُ مِنْ رَّبِّہٖ وَمَا أُعِدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ وَبِہٰذَا نَطَقَتِ الْـأَخْبَارُ وَالْـأَصَحُّ أَنَّ الْعَذَابَ عَلَی الرُّوحِ وَالْجَسَدِ .
”اہل سنت کا مذہب ہے کہ اللہ، مکلف کو قبر میں زندہ کر کے اسے دنیا کی عقل جیسی عقل عطا کرے گا تا کہ سوالات سمجھ کر ان کے جوابات دے سکے۔ جو اللہ اسے دے اسے سمجھ سکے۔ اس کی قبر میں کی جانے والی تعظیم یا رسوائی کی پہچان ہو۔ احادیث یہی بتاتی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عذاب روح اور جسد دونوں کو ہو گا۔”
(الفتاوٰی الفقہیۃ الکبرٰي : ٢/٩)
(٣٩) علامہ عبد الروف مناوی (٩٥٢۔١٠٣١ھ) لکھتے ہیں:
فَعَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَہُوَ مَا نُقِلَ مُتَوَاتِرًا فَیَجِبُ اعْتِقَادُہ، وَیُکَفَّرُ مُنْکِرُہ، .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر حق ہے۔ اس کے متعلق روایات متواتر ہیں۔ اس پر اعتقاد واجب اور اس کامنکر کافر ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٨٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ .
”کتاب و سنت کے دلائل ظاہر ہیں کہ عذاب قبر ثابت ہے۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٣٩٧)
(٤٠) حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاءُ : عَذَابُ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ أُضِیفَ إِلَی الْقَبْرِ لِـأَنَّہُ الْغَالِبُ وَإِلَّا فَکُلُّ مَیِّتٍ وَّإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَعْذِیبَہ، نَالَہ، مَا أَرَادَ بِہٖ قُبِرَ أَوْ لَمْ یَقْبُرْ وَلَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ أَوْ أَکَلَتْہُ الدَّوَابُّ أَوْ حُرِّقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا أَوْ ذُرِّيَ فِي الرّیحِ وَمَحَلُّہُ الرُّوحُ وَالْبَدَنُ جَمِیعًا بِّاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَکَذَا القَوْلُ فِي النَّعِیمِ .
”علماء کہتے ہیں کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے۔ اس کی نسبت قبر کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ اکثر قبر ہی میں ہوتا ہے۔ میت قبر میں ہو یا نہ ہو، غرق ہو جائے، درندے کھا لیں، جل کرراکھ ہو جائے یا ہوا میں اڑا دیاجائے، جب اللہ چاہے گا اسے عذاب دے گا۔ عذاب روح اور بدن دونوں کو دیا جائے گا۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، یہی معاملہ نعمتوں کا ہے۔”
(شرح الصُّدور بشرح حال المَوتٰی، ص : ٨١)
(٤١) ملا علی قاری حنفی (١٠١٩ھ) لکھتے ہیں:
وَالْـأَحَادِیثُ فِي ذٰلِکَ کَثِیرَۃٌ فِي الْمَبْنٰی، وَقَدْ تَّوَاتَرَتْ بِحَسْبِ الْمَعْنٰی، وَأَجْمَعُوا عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّبَعْضِ أَہْلِ الْبِدْعَۃِ .
”اس کے بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں، جو تواتر معنوی کے درجے کی ہیں۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، جب کہ اہل بدعت اس کے منکر ہیں۔”
(شرح مسند أبي حنیفۃ، ص : ٣٦٨)
(٤٢) علامہ ابن عابدین شامی حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ وَّسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ وَّضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ لٰکِنْ إِنْ کَانَ کَافِرًا فَعَذَابُہ، یَدُومُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُرْفَعُ عَنْہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَشَہْرَ رَمَضَانَ فَیُعَذَّبُ اللَّحْمُ مُتَّصِلًا بِّالرُّوحِ وَالرُّوحُ مُتَّصِلًا بِّالْجِسْمِ فَیَتَأَلَّمُ الرُّوحُ مَعَ الْجَسَدِ، وَإِنْ کَانَ خَارِجًا عَنْہُ، وَالْمُؤْمِنُ الْمُطِیعُ لَا یُعَذَّبُ بَلْ لَّہ، ضَغْطَۃٌ یَّجِدُ ہَوْلَ ذٰلِکَ وَخَوْفَہ، وَالْعَاصِي یُعَذَّبُ .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر، منکر نکیر کے سوال اور قبر کا جھٹکا حق ہے، لیکن کافر کو دائمی عذاب ہو گا۔ جمعہ اور رمضان میں بہر حال اٹھا لیا جاتا ہے (یہ بے دلیل بات ہے از ناقل)، جسم اور روح دونوں کو عذاب دیا جاتا ہے۔ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی تکلیف محسوس کرتی ہے، اگرچہ روح جسم میں موجود نہ ہو۔ فرمانبردار مومن کو عذاب نہیںدیا جائے گا۔ اسے صرف جھٹکا دیا جائے گا، اس کا ڈر اور خوف اسے رہے گا، جب کہ گنہگار عذاب دیا جائے گا۔”
(رد المُحتار علی در المُخْتار المعروف بہٖ فتاوٰی شامي : ٢/١٦٥)
یہ عبارت علامہ ابو المعین نسفی حنفی (٤١٨۔٥٠٨ھ) کی ہے، جسے علامہ طحاوی نے ”حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح : ١/٥٢٤) اور علامہ حموی حنفی نے ”غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر ۔”میں ذکر کیا ہے۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب، جسے پانچ سو حنفی علما ء نے مرتب کیا ہے، میں ہے :
کُفِّرَ بِإِنْکَارِ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَزَّ وَجَلَّ بَعْدَ دُخُولِ الْجَنَّۃِ وَبِإِنْکَارِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَبِإِنْکَارِ حَشْرِ بَنِي آدَمَ لَا غَیْرُہِمْ وَلَا بِقَوْلِہٖ أَنَّ الْمُثَابَ وَالْمُعَاقَبَ الرُّوحُ فَقَطْ کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ .
”جنت میںرویت الٰہی ،عذاب قبر اور حشر کا منکر کافر ہے، لیکن جو کہتا ہے کہ عذاب ثواب صرف روح کو ہو گا وہ کافر نہیں۔ بحر الرائق میں اسی طرح لکھا ہے۔”
(فتاوٰی عالمگیري : ٢/٢٧٤)
(٤٣) علامہ صنع اللہ حنفی (١١٢٠ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنْ قِیلَ : عَذَابُ الْقَبْرِ وَثَوَابُہ، ثَابِتٌ لِّلرُّوحِ وَالْبَدَنِ، فَیَلْزَمُ الْإِتِّصَالُ بَیْنَھُمَا بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قُلْنَا : ذَالِکَ حَقٌّ، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ، وَہُوَ مِنَ الْغَیْبِ، وَاتِّصَالُ ذَالِکَ لَا یَعْلَمُ کَیْفِیَّتَہ، إِلَّا الْعَلِیمُ الْخَبِیرُ . وَمَنْ تَأَمَّلَ قُدْرَۃَ اللّٰہِ وَعَجِائِبَ تَدْبِیرِہٖ، وَغَرَائِبَ صُنْعِہٖ لَمْ یَسْتَنْکِفْ عَنْ قُبُولِ الْإِیمَانِ بِہٖ .
”کوئی کہے کہ عذاب قبر کا روح اور جسم کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ موت کے بعد بھی ان میں اتصال ہوتا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ یہ حق ہے۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ یہ غیبی امور میں سے ہے اور اس کے اتصال کی کیفیت علیم اور خبیر ذات ہی جانتی ہے۔ جو اللہ کی قدرت، اس کے تدبیری عجائبات اور قدرت کے کرشموں میں تدبر کرے، وہ اس پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔”
(سیف اللّٰہ علی من کذب علی أولیاء اللّٰہ، ص ٤٥)
(٤٤) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٧٩ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ دَّلَّ ہٰذَا الْحَدِیثُ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْإِیمَانَ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَاجِبٌ لِّلْـأَحَادِیثِ الْوَارِدَۃِ فِیہِ، وَہُوَ مَذْکُورٌ فِي الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ أَبِي أَیُّوبَ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَۃَ، وَأُمِّ خَالِدٍ .
”یہ حدیث عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے۔ ذہن نشین رکھئے کہ عذاب قبر پر احادیث نبویہ کی بنا پر ایمان واجب ہے، اس بارہ میں سیدنا ابوایوب ا نصا ر ی ، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا جابر، سیدہ عائشہ اور سیدہ ام خالدy سے احادیث بیان ہوئی ہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٢/٨٥)
(٤٥) ابو الوفا بن عقیل (٤٣١۔٥١٣ھ) منکرین عذاب قبر کے شبہات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الْإِیمَانُ وَاجِبٌ بِّالتَّعْذِیبِ مِنْ غَیْرِ تَفْصِیلٍ .
”عذاب قبر پر بغیر تفصیل پوچھے ایمان واجب ہے۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی : ٢/٨٥)
(٤٦) کورانی حنفی (٨١٣۔٨٩٣ھ) کہتے ہیں:
وَفِي الْحَدِیثُ دَلَالَۃٌ صَرِیحَۃٌ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَالرُّوحِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ .
”اس حدیث میں عذاب قبر اور روح پر صریح دلالت ہے۔”
(الکوثر الجاري إلی ریاض أحادیث البخاري : ٣/٣٤٨)
(٤٧) حافظ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ إِثْبَاتٌ عَذَابُ الْقَبْرِ .
”اس حدیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔”
(معالم السنن : ١/١٩)
(٤٨) امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (٢٦٠۔٣٢٤ھ) اہل بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ .
”گمراہوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، نیز کہ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، جب کہ اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے۔”
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ، ص : ١٥)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَإِنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَعْدَ أَنْ یُّحْیَوْنَ فِیھَا وَیُسْأَلُونَ، فَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ لوگوں کو قبروں میں زندہ کیا جائے گا اور آزمایا جائے گا، اللہ جسے چاہے گا ثابت قدم رکھے گا۔”
(رسالۃ إلی أہل الثغر، ص : ٦٢)
(٤٩) علامہ شاطبی (م :٧٩٠) لکھتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر اور فتنہ قبر کے بارے میں متواتر احادیث کا انکار کر دیا ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٤٩)
(٥٠) امام اہل سنت ابو بکر بن ابی داو د (م :٣١٦ھ) اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں:
وَقُلْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَقٌّ مُوضِحٌ .
”یہ عقیدہ رکھیں کہ عذاب قبر واضح حق ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
اس قصیدہ کے بارے میں امام ابوبکر بن ابی دواد فرماتے ہیں:
ہٰذَا قَوْلِي وَقَوْلُ أَبِي وَقَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَّقَوْلُ مَنْ أَدْرَکْنَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَمَنْ لَّمْ نُدْرِکْ مِمَّنْ بَّلَغَنَا عَنْہُ، فَمَنْ قَالَ عَلَیَّ غَیْرَ ہٰذَا، فَہُوَ کَذَّابٌ .
”میرا، میرے والد محترم امام ابوداود، امام احمد بن حنبل، ان اہل علم کا ہے، جن سے ہماری ملاقات ہوئی اور جن سے ملاقات نہیں ہو سکی، صرف ان کے عقیدے پر اطلاع ملی ان سب کا یہی عقیدہ ہے۔ جو اس کے خلاف کوئی عقیدہ میرے متعلق بیان کرے، وہ جھوٹا ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
(٥١) امام ابو الحسین آجری رحمہ اللہ (م : ٣٦٠ھ) فرماتے ہیں:
مَا أَسْوَأَ حَالَ مَنْ کَذَّبَ بِہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ لَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَّعِیدًا وَّخَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِینًا .
”ان احادیث کا انکار ی کتنا برا شخص ہے۔ وہ گمراہی کی گہری کھائی میں جا گرا ہے اور واضح خسارے کا سودا گر ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٣/١٢٨٥)
مسئلہ عذاب قبر اہل سنت کے عقائد میں سے ہے، جس پر بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث متواترہ دلالت کرتی ہیں۔ اس کے حق ہونے پر اہل حدیث کا اجماع و اتفاق ہے، جس نے اہل سنت کا اتفاقی فہم نظر انداز کیا وہ ذلیل اور گمراہ ہے، اس کی رائے بدعت اور گم راہی ہے، فہم و منہج سلف صالحین کو ترک کرنا در حقیقت قرآن و حدیث سے دشمنی ہے ، جس نے قرآن و حدیث کی من پسند تعبیر کی وہ راہ ہدایت سے بھٹک گیا، دنیا میں جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے سب نے قرآن و حدیث کو نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا، محدثین کے دشمنوں نے قرآن و سنت پر عقلی اعتراضات وارد کئے ہیں، ایسا کوئی مسلمان کر سکتا ہے بھلا؟ جو اپنی نارسا عقل سے وحی کو جھٹلا دے، اگر اسلامی عقائد و اعمال کی بنیاد عقل پر ہوتی، تو بعثت انبیا ئے کرام کا مقصد فوت ہو جاتا۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام کے بارے میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م:٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
وَالرَّأْيُ إِذَا عَارَضَ السُّنَّۃَ فَہُوَ بِدْعَۃٌ وَّضَلَالَۃٌ فَالْحَاصِلُ مِنْ مَّجْمُوعِ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ لَمْ یُعَارِضُوا مَا جَاءَ فِي السُّنَنِ بِآرَائِہِمْ، عَلِمُوا مَعْنَاہُ أَوْ جَہِلُوہُ، جَرٰی لَہُمْ عَلٰی مَعْہُودِہِمْ أَوْ لَا، وَہُوَ الْمَطْلُوبُ مِنْ نَقْلِہٖ، وَلْیَعْتَبِرْ فِیہِ مَنْ قَدَّمَ النَّاقِصَ وَہُوَ الْعَقْلُ عَلَی الْکَامِلِ وَہُوَ الشَّرْعُ .
”رائے اور سنت کا تصادم ہو جائے، تو رائے بدعت اور گمراہی کہلائے گی۔ ہماری گزشتہ نگارشات کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ و تابعین، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کامعنی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، عقل میں آئے یا نہ آئے، حدیث سے عقلیں نہیں لڑاتے تھے۔ یہی مطلوب شریعت ہے۔ شریعت و عقل کے تصادم میں ناقص پر کامل کو مقدم کیا جائے اور کامل شریعت ہی ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٥٠)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ ہٰذَا بِأَوَّلِ خَبَرٍ یَّجِبُ عَلَیْنَا الْإِیمَانُ بِہٖ وَإِنْ جَہِلْنَا مَعْنَاہُ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ وَسُؤَالِ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِیہِ حَقٌّ، وَلَا یُطَّلَعُ عَلٰی حَقِیقَۃِ ذٰلِکَ، وَمَتٰی ضَاقَتِ الْحِیَلُ فِي کَشْفِ الْمُشْکِلَاتِ لِلْـإِحْسَاسِ لَمْ یَبْقَ إِلَّا فَرْضُ التَّسْلِیمِ .
”یہ کوئی پہلی حدیث تو نہیں کہ جس کے معنی سے عدم واقفیت کے با وجود ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، قبر میں جزا و سزا اور منکر نکیر کے سوال جواب حق ہیں، اس کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں، جب مشکلات شریعت حد عقل سے ما وراء ہیں، تو سوائے تسلیم و رضا کے کوئی چارہ ہی نہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٣/٣٨٣)
عذاب قبر کا انکار بشر بن غیاث مریسی (م : ٢١٨ھ) جیسے زندیق، بدعتی اور گم راہوں نے کیا ہے، اس کے عقائد کفریہ تھے ، قرآن کو مخلوق کہتا تھا، محدثین نے اس کی تکفیر کر رکھی تھی، امام عثمان بن سعید، دارمی نے اس کے رد میں”الرد علی بشر المریسی فیما ابتدعہ من التاویل لمذہب الجہمیہ”نامی کتا ب لکھی ہے۔ امام اسحاق بن اہویہ (١٦٦۔٢٣٨ھ) فرماتے ہیں:
دَخَلَ حُمَیْدٌ الْطُّوسِيُّ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، وَعِنْدَہ، بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ لِحُمَیْدٌ أَتَدْرِي مَنْ ہٰذَا یَا أَبَا غَانِمٍ؟ قَالَ لَا، قَالَ ہٰذَا بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ حُمَیْدٌ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، ہٰذَا سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ ، ہٰذَا قَدْ رَفَعَ عَذَابَ الْقَبْرِ وَمَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، وَالْمِیزَانَ، والصِّرَاطَ، أُنْظُرْ ہَلْ یَقْدِرُ أَنْ یَّرْفَعَ الْمَوْتَ، ثُمَّ نَظَرَ إِلٰی بِشْرٍ، فَقَالَ : لَوْ رَفَعْتَ الْمَوْتَ کُنْتَ سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ حَقًّا .
”حمید طوسی رحمہ اللہ امیرالمومنین کے ہاں گئے، ان کے پاس بشر مریسی کھڑا تھا۔ امیر المومنین کہنے لگے : حمید جانتے ہو، یہ کون ہیں؟ کہا : نہیں۔ امیر المومنین کہنے لگے : یہ بشر مریسی ہے، تو حمید کہنے لگے : یہ تو فقہا کے سردار ہیں، جناب نے عذاب ِقبر ختم کر دیا اور منکر نکیر، میزان، پل صراط وغیرہ بھی اسلام بدر کر دئیے ہیں۔ دیکھئے ا ب موت ہی بچی ہے، قریب ہے کہ اس کا بھی انکار ہو جائے، پھر بشر سے کہنے لگے، ارے آپ تو فقہاء کے سردار ہوئے، موت کو بھی اسلام سے نکال دیجئے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب بغدادي : ٧/٦٠، المنتظم لابن الجوزي : ١١/٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
آخر میں علامہ، عبد السلام بن عبد الرحمن بن ابی الرجال ، ابو الحکم المعروف ابن برجان (م : ٥٣٦ھ) کا واقعہ ملاحظہ ہو:
أَنَّہُمْ دَفَنُوا مَیِّتًا بِّقَرْیَتِہِمْ فِي شَرَفِ أَشْبِیلِیَّۃَ فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ دَفْنِہٖ قَعَدُوا نَاحِیَۃً یَتَحَدَّثُونَ وَدَابَّۃٌ تَرْعٰی قَرِیبًا مِّنْہُم فَإِذَا بِالدَّابَّۃِ قَدْ أَقْبَلَتْ مُسْرِعَۃً إِلَی الْقَبْرِ فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً ثُمَّ عَادَتْ إِلَی الْقَبْر فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً فَعَلَتْ ذٰلِکَ مَرَّۃً بَّعْدَ أُخْرٰی
قَالَ أَبُو الْحَکَمِ فَذَکَرْتُ عَذَابَ الْقَبْرِ وَقَوْلِ النَّبِيِّ أَنَّہُمْ لَیُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُہُ الْبَہَائِمُ .
”انہوں نے اشبیلیہ کی ایک بستی میں ایک میت کی تدفین کی، تدفین سے فارغ ہو کر قریب ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جانور جو پاس ہی چر رہا تھا، تیزی سے اس قبر کے پاس آیا اور کان لگا کے کچھ سننے لگا، پھر اچانک وہاں سے بھاگ گیا، پھر اس ایساکئی بار کیا۔ ابوالحکم کہتے ہیں : یہ منظر دیکھا، تو میرا ذہن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا گیا کہ انہیں عذاب دیا جاتا ہے ، جسے چوپائے سنتے ہیں۔”
(الروح لابن القیم، ص : ٥٣، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْـأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
”الٰہی! ہمارے تمام معاملات سنوار دے، ہمیں دنیا کی رسوائیوں اور عذاب قبر سے بچا ۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٥٢/٤٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
✧------------------✦✦✦------------------✧✧------------------
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment