Shauhar aur Biwi ka ek Dusre se Shikayat ke wo meri Bat nahi Sunte.
خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے کی باتوں کو نہیں سمجھنا۔
शौहर और बिवी का एक दूसरे से शिकायत के वो मेरी बात नहीं सुनते है?
بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی رشتہ سمجھا جاتا ہے کہ اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت کہیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ لیتے ہیں۔
یقنناً آپ کی بھی یہی رائے ہوگی ، مگر ایک حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریے کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دو اجنبی شخص ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں ، مگر میاں بیوی یا شریک زندگی کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے جوڑے نہیں۔
میاں بیوی کا رشتہ سب سے پکا، سب سے کچا، سب سے لطیف اور بسا اوقات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ لطیفوں کی دنیا میں سب سے زیادہ لطیفے میاں بیوی سے ہی منسوب ہیں ۔ اور یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ وہ ان کی نہیں سنتے اور اکثر شوہروں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بیگم ان کی بات پر دھیان نہیں دیتی۔ ان دنوں فاصلوں کے درمیان جو چیز اپنا وجود رکھتی ہے، اس کے بارے میں نفسیاتی ماہرین کا کہناہے کہ وہ ہے ایک دوسرے کے بارے میں نہ جاننا۔
ہر شوہر اور ہر بیوی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتی ہے۔ جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر صورتوں میں اس دعویٰ کی حقیقت ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں ہوتی اور بسا اوقات تو اجنبی انہیں ایک دوسرے کی نسبت زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
گویا دوسرے لفظوں میں آپ کہیں کوئی ایسا جوڑا دیکھیں جو ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ رہا ہو تو یقین کرلیں کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ میاں بیوی ہیں۔
ایک انگریزی کہاوت ہے کہ شادی باہمی غلط فہمیوں کے مجموعے کا نام ہے۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کہاوت کو ایک لطیفہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اکثر میاں بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے شریک حیات ان کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لہذا انہیں کچھ بتاتے ہوئے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خرابی کی اصل بنیاد یہی ہے کہ ہم اجنبی افراد کو تو سب کچھ وضاحت سے بتاتے اور سمجھاتے ہیں، مگر اپنے شریک حیات کے بارے میں یہ اپنے طور پر یہ طے کر لیتے ہیں کہ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو مجھے جانتا ہے۔
امریکی یونیورسٹی شکاگو کے ماہرین کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بارے میں یہ فرض کرلینا کہ وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات فاصلوں اور تنازعات کی صورت میں نکلتا ہے۔
مطالعاتی ٹیم کے ایک رکن پروفیسر بائز کیسار کہتے ہیں کہ قریبی تعلق یا رشتے کی خوش فہمی کے باعث ہم گفتگو کرتے وقت تفصیل کی بجائے محض اشارے کنائے یا مختصر جملے سے کام لیتے ہیں کہ اسے سمجھ آجائے گی۔ اور جب ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف ذہن کو دھچکا لگتا ہے بلکہ شکوے شکائتیں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔
پروفیسر کیسار کہتے ہیں کہ اس کے برعکس جب ہم کسی اجنبی سے گفتگو کرتے ہیں تو یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور اسے ہر چیز اچھی طرح سمجھاتے ہیں۔
پروفیسر کیسار کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے اس ریسرچ کا خیال اپنی بیوی کو دیکھ کر آیا جو کئی چیزیں بتائے بغیر مجھ سے یہ توقع رکھتی تھی کہ شوہر ہونے کے ناطے مجھے ان کا علم ہوگا۔
پروفیسر کیسار کی ٹیم نے اس تحقیق کے لیے 24 شادی شدہ جوڑوں کا انتخاب کیا اور انہیں ایک کمرے میں اس طرح بٹھایا گیا کہ ان کی کرسیوں کی پشت ایک دوسرے کی طرف تھی اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ پھر انہیں چند ایسے مبہم چند جملے بولنے کے لیے کہا گیا جنہیں وہ اپنی روزمرہ زندگی میں عموماً استعمال کرتے تھے۔
ماہرین نے اس تجزبے کے لیے ایسے جملوں کا انتخاب کیا تھا جن کا تعلق روزمرہ کی گفتگو سے تھا، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان کے شریک حیات اجنبی افراد کے مقابلے میں ان جملوں کا مفہوم کتنا بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
ماہرین کو معلوم ہوا کہ تجربے میں شامل افراد نے اپنے شریک حیات کے بارے میں خوش فہمی پر مبنی اندازے لگائے۔ اور ان کے شریک حیات ، وہ پیغام نہ سمجھ سکے اور جو وہ ان جملوں کے ذریعے دینا چاہ رہے تھے۔
ریسرچ ٹیم کے ایک اور رکن پروفیسر کینتھ سوٹسکی کا کہنا ہے کہ تحقیق میں شامل کچھ جوڑے ایک دوسرے کے جملوں کا مفہوم سمجھنے میں کامیاب رہے مگر اس حد تک نہیں جتنا کہ ان کے دوسرے ساتھی کا خیال تھا۔
ایک ایسا ہی مطالعاتی جائزہ میساچوسٹس کے ولیمز کالج کی ماہرین کی ایک ٹیم نے کیا جس کے لیے کالج کے 60 ایسے طالب علموں کو چنا گیا جنہیں گہری دوستی کا دعویٰ تھا۔
اس تجربےکے نتائج شکاگو یونیورسٹی سے مختلف نہیں تھے اور گہری دوستی کے دعوے داروں کو بھی ایک دوسرے کو سمجھنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ولیمز کالج کے پروفیسر نکولس اپیلی کہتے ہیں کہ جب دو افراد کے درمیان دوستی یا تعلق گہرا ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں جب کہ حقیقتا جاننے کی سطح اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔
پروفیسر سوٹسکی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے کہ چاہے آپ ایک دوسرے کے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں، یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہر بات اسے وضاحت کے ساتھ بتانے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے ’ایکسپیریمنٹل سوشل سائیکالوجی‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment