Aasma Jahangir KAun Thi Uska Aqeeda Kya Tha, Islam Se Uska Kya Talluq Tha
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں غور طلب امور
اللہ مالک الملک جس کو چاہے معاف کرے ، جسے چاہے عذاب دے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اخروی اور برزخی معاملات میں فیصلے کا اختیار مخلوق کے پاس نہیں ، خالق کے پاس ہے۔
لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے غلط عقائد و نظریات سے صرف نظر کر لیا جائے۔ لہٰذا کسی بھی مرنے والے کے ظاہری اقوال و افعال کو مد نظر رکھتے ہوئے ، کسی فیصلے پر پہنچنا ضروری ہے ۔ اہل علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ ظاہری قرائن کی روشنی میں حقائق کو واضح کرنے کے لیے رائے دیں ۔
*چنانچہ عاصمہ جہانگیر کے عقائد و نظریات اور اسکی زندگی کی تگ و تاز کے مطالعہ کے بعد درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں کہ موصوفہ* :
1۔ شریعت محمدی میں کھلم کھلا من مانی کرتی تھیں ، اور تاریخ شاہد ھے کہ انہوں نے عورت کی آدھی گواہی کے قرآنی قانون کے خلاف شور مچایا۔
2 ۔ کئی دفعہ اشاروں کنایوں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اُمّی کا بھی استہزاء کیا۔ اسی طرح بلاگرز کے خلاف جسٹس صدیقی کے فیصلہ پر ناروا تنقید کی۔
3۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والی تھیں ، سزائے موت کی منکر تھیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں کی آبرو ریزی کرنے والوں اور سفاکی کے ساتھ قتل کرنے والوں کے قتل کی بھی مخالف تھیں اور عدلیہ میں مذہبی عناصر کا مذاق اڑاتی تھیں۔
4۔ اعلانیہ ایک قادیانی کی بیوی تھیں ، جبکہ.کوئی مسلم عورت کسی کافر سے نکاح نہیں کرسکتی ۔
5۔ گستاخان رسول کی پشت پناہی کی۔ جیسے کہ ملعونہ آسیہ کی حمایت کرنا سب کے سامنے ہے۔
6۔ بذات خود مذہب سے بیزاری کا اظہار کرتی رہیں کہ ’ میں تمام مذہبوں کو ایک جیسا سمجھتی ہوں ، میرا اپنا کوئی مذہب ہے ہی نہیں ‘ گویا یہ دین برحق اسلام اور دوسرے ادیان و مذاہب میں فرق نہیں سمجھتی تھیں ، سب کو ایک جیسا مانتی تھیں ۔
7۔عمر بھر توہین رسالت اور ختم نبوت اور دیگر اسلامی قوانین کے خلاف عملی جدو جہد کا حصہ رہیں۔ بلکہامتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف عدالت میں گئیں۔
8۔ پاکستان کے نظریہ کی نفی کرتی رہیں اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ قرار دینے کی جدوجہد میں ملکی اداروں کی ، گالی کی حد تک مخالفت کرتی رہیں۔
9-مبینہ طور پر پاکستان توڑنے کی قرار داد شیخ مجیب نے ان کے والد کے گھر میں بیٹھ کر تیار کی تھی۔ اسی قسم کی کاوشوں کے تناظر میں بنگالی حکومت نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
*ان نو نکات کی روشنی میں ہر ایک مسلمان بخوبی فیصلہ کر سکتا ہے کہ*
*ایسی میّت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے یا انکی موت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اس قسم کے عناصر سے کلی برات کا اظہار کرنا چاہیے* ؟
*ہر درد مند مسلمان کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ اللہ اور اسکے رسول کی علانیہ مخالفت اور پھر ملک و ملت سے غداری کرنے والے ہماری محبت کے حقدار ہیں یا ہمیں ان سے برات کا اظہار کرنا چاہیے*
*علامہ حافظ ابتسام الہی ظہیر*
*اس تحریر کی تائید کرنے والے علمائے کرام* :
لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے غلط عقائد و نظریات سے صرف نظر کر لیا جائے۔ لہٰذا کسی بھی مرنے والے کے ظاہری اقوال و افعال کو مد نظر رکھتے ہوئے ، کسی فیصلے پر پہنچنا ضروری ہے ۔ اہل علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ ظاہری قرائن کی روشنی میں حقائق کو واضح کرنے کے لیے رائے دیں ۔
*چنانچہ عاصمہ جہانگیر کے عقائد و نظریات اور اسکی زندگی کی تگ و تاز کے مطالعہ کے بعد درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں کہ موصوفہ* :
1۔ شریعت محمدی میں کھلم کھلا من مانی کرتی تھیں ، اور تاریخ شاہد ھے کہ انہوں نے عورت کی آدھی گواہی کے قرآنی قانون کے خلاف شور مچایا۔
2 ۔ کئی دفعہ اشاروں کنایوں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اُمّی کا بھی استہزاء کیا۔ اسی طرح بلاگرز کے خلاف جسٹس صدیقی کے فیصلہ پر ناروا تنقید کی۔
3۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والی تھیں ، سزائے موت کی منکر تھیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں کی آبرو ریزی کرنے والوں اور سفاکی کے ساتھ قتل کرنے والوں کے قتل کی بھی مخالف تھیں اور عدلیہ میں مذہبی عناصر کا مذاق اڑاتی تھیں۔
4۔ اعلانیہ ایک قادیانی کی بیوی تھیں ، جبکہ.کوئی مسلم عورت کسی کافر سے نکاح نہیں کرسکتی ۔
5۔ گستاخان رسول کی پشت پناہی کی۔ جیسے کہ ملعونہ آسیہ کی حمایت کرنا سب کے سامنے ہے۔
6۔ بذات خود مذہب سے بیزاری کا اظہار کرتی رہیں کہ ’ میں تمام مذہبوں کو ایک جیسا سمجھتی ہوں ، میرا اپنا کوئی مذہب ہے ہی نہیں ‘ گویا یہ دین برحق اسلام اور دوسرے ادیان و مذاہب میں فرق نہیں سمجھتی تھیں ، سب کو ایک جیسا مانتی تھیں ۔
7۔عمر بھر توہین رسالت اور ختم نبوت اور دیگر اسلامی قوانین کے خلاف عملی جدو جہد کا حصہ رہیں۔ بلکہامتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف عدالت میں گئیں۔
8۔ پاکستان کے نظریہ کی نفی کرتی رہیں اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ قرار دینے کی جدوجہد میں ملکی اداروں کی ، گالی کی حد تک مخالفت کرتی رہیں۔
9-مبینہ طور پر پاکستان توڑنے کی قرار داد شیخ مجیب نے ان کے والد کے گھر میں بیٹھ کر تیار کی تھی۔ اسی قسم کی کاوشوں کے تناظر میں بنگالی حکومت نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
*ان نو نکات کی روشنی میں ہر ایک مسلمان بخوبی فیصلہ کر سکتا ہے کہ*
*ایسی میّت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے یا انکی موت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اس قسم کے عناصر سے کلی برات کا اظہار کرنا چاہیے* ؟
*ہر درد مند مسلمان کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ اللہ اور اسکے رسول کی علانیہ مخالفت اور پھر ملک و ملت سے غداری کرنے والے ہماری محبت کے حقدار ہیں یا ہمیں ان سے برات کا اظہار کرنا چاہیے*
*علامہ حافظ ابتسام الہی ظہیر*
*اس تحریر کی تائید کرنے والے علمائے کرام* :
No comments:
Post a Comment