find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Azaab-E-Qaber Kya Hai Iska Talluq Jism Se HAi YA Rooh Se

Azab E Qaber Kya HAi

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 عذابِ قبر کیا ہے
👆 اس مضمون کو سمجھنے سے پہلے چند سوالات اور انکے جوابات 👇 :
⏪ ۱۔ عذابِ قبر سےکیا مراد ہے ؟ اس کا تعلق روح سے ہوتا ہے یا بدن بھی ملوث ہوتا ہے؟
⏪ ۲۔ اگر قبر میں جسم کو بھی عذاب ہوتاہے تو پھر اُخروی عذاب کے کیا معنی ہیں؟
⏪ ۳۔ازروئے قرآن زندگیاں دو ہیں، دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی۔ پھر برزخی زندگی کیا ہے ؟ موت کو زندگی کا نام دینا میرے فہم سے بالا تر ہے۔
⏪ ۴۔ مُردہ تو سننے سے قاصر ہوتا ہے۔ پھر انہ یسمع قرع نعا لھم کا کیا مطلب ہے۔ آخر قرآن ہی تو کہتا ہے ﴿اَمْ لَھُمْ اذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَاط﴾ ؟
⏪ ۵۔ روح اور جسم کا باہمی ملاپ کا نام زندگی ہے۔ پھر فیعاد روحہ فی جسدہ سے کیا مراد ہے؟ کئی لوگوں کی نعشیں (جیسے لندن میں فرعون کی اور چین میں ماوزسے تنگ کی) باہر سامنے پڑی ہیں لیکن ان میں اعادہ روح کے کوئی آثا ر نظر نہیں آتے مزید یہ کہ جب مردے زندہ ہونگے تو وہ قبروں سے باہر نکل پڑینگے؟
⏪ ۶۔ حدیث میں ہے : مستحق عذاب (کافر یا مشرک ) کو فرشتے مارتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی چیخ سوائے جن و انس کے تمام مخلوق سنتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے حضرت محمد ﷺ کا خچر تو بدک گیا مگر ہمارے ریوڑ کے ریوڑ قبرستانوں میں چرتے ہیں اور کبھی ان کے ڈرنے کا واقعہ نہیں سناگیا؟ آپ ﷺ کے خچر کا بدکنا تو خرقِ عادت تھا اور اس کو معجزہ کہیں گے۔
⏪ ۷۔ عالمِ خواب میں فوت شدگان کی روحیں اپنے لواحقین سے آکر ملتی ہیں یا یہ محض تخیل ہوتا ہے؟
(
الجواب : الشیخ محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ
سوالات کے مختصر جوابات پیشِ خدمت ہیں۔👇
⚪ ۱۔ عذابِ قبر سے مراد وہ عذاب ہے جو میت کو قبر میں دیا جاتاہے ۔ اور قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے ثابت ہے کہ قبر زمین میں ہوتی ہے اور قیامت کے دن انسانوں کو اسی ارضی قبر سے زندہ کر کے اٹحایا جائے گا ۔ ارضی قبر کے علاوہ کسی دوسری فرضی قبر کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اس عذاب کا تعلق جسد یعنی میت سے ہوتاہے اور روح جنت یا جہنم میں ہوتی ہے ۔(دیکھئے سورۃ نوح آیت: ۲۵ التحریم: ۱۰) نبی اکرم ﷺ عذابِ قبر اور عذابِ جہنم دونوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے :
“المیت یعذب فی قبرہ بمانیح علیھا”
میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس پر نوحہ کے سبب سے (بخاری : ۱۲۹۲ و مسلم : ۹۲۷)
یہ حدیث قبر میں میت (بدن) کے عذاب پر بالکل واضح ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ عذاب کا تعلق جسم سے بھی ہے اور روح کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ موت روح اور جسم کی جدائی کا نام ہے اور قیامت ہی کے دن روح اور جسم آپس میں دوبارہ ملیں گے۔
⚪ ۲۔ قبر میں جسم کو عذاب ہوتاہے اور قیامت کے دن بھی عذاب ہوگا۔ آپ کایہ اعتراض کہ پھر اخروی عذاب کا کیا مطلب ہے ؟ تو قرآنِ کریم سے ثابت ہے کہ قبض روح کے وقت کافروں کو عذاب دیا جاتا ہے ۔ دیکھئے سورۃ الانعام ۹۳، الانفال آیت ۵۔ آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ جب قبضِ روح کے وقت کافروں کو عذاب دیا جاتا ہے تو پھر اُخروی عذاب کے کیا معنی ہیں؟ اَب جوجواب آپ کا ہوگا، وہی ہمار ا بھی ہے ۔
⚪ ۳۔ دو زندگیوں کا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا میں جیسی زندگی ہمیں حاصل ہے اسی طرح کی محسوس اور ظاہری زندگی قیامت کے دن بھی حاصل ہوگی اور مرنے کے بعد حالتِ موت میں بھی عذاب اور راحت کو میت اور روح محسوس کرتی ہیں۔ قرآن نے ضِعْفَ الْمَمَاتِ کے ساتھ حالتِ موت میں عذاب کا ذکر کیا ہے ۔ دیکھئے بنی اسرائیل آیت ۷۵۔ علمائے اسلام نے موت کے بعد ثواب اور عذاب کی کیفیت کو سمجھانے کے لئے برزخی زندگی کا نام دیاہے بہرحال نام چھوڑیں اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
⚪ ۴۔ آپ کہتے ہیں کہ مردہ سننے سے قاصر ہوتا ہے، قرآن کی کونسی آیت ہے یا کسی حدیث میں ایسا کوئی مضمون آیاہے کہ مردہ سننے سے قاصر ہے ؟ البتہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آئے ہیں:
وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ﴿۲۲﴾اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنادے اور (اے نبی ﷺ) آپ ان لوگوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سناسکتے (فاطر: ۲۲)
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنا سکتاہے۔ البتہ نبی اکرم ﷺ یا کوئی دوسرا مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ یعنی نبی کے اختیار میں مردوں کوسنانا نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب سنانا چاہتا ہے تو قلیب بدر والوں کو نبی ﷺ کا فرمان سنا دیا (بخاری: ۱۳۷۱، ۱۳۷۲ مسلم : ۹۳۲)
میت واپس جانے والوں کی جوتیوں کی چاپ سنتی ہے (بخار ی: ۱۳۳۸) میت سے قبر میں سوالات کئے جاتے ہیں: مَنْ رَبُّکَ، تیرا رب کون ہے ؟ مَا تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الْرَّجْلِ، تُو اس شخص کے بارے میں کیا جانتاہے ؟ یہ تمام باتیں میت کو اللہ تعالیٰ سنا تا ہے۔ آپ نے جو آیت نقل کی ہے وہ بے موقع ہے ۔ آپ اس سلسلہ میں تحقیق کریں۔
⚪ ۵۔ فَتُعَادُ رُوْحُہٗ فِیْ جَسَدِہٖکا کیا مطلب ہے کہ سوال و جواب کے وقت روح کو میت میں لوٹایا جاتا ہے اور یہ آخرت کا معاملہ ہے اور آخرت کے معاملات کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ پھر یہ غیب کا معاملہ ہے ۔الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ایمان والے اِن اَن دیکھی حقیقتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ایسی حقیقتیں کہ جو پردہ غیب میں ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ نظر کیوں نہیں آتیں تو یہ طرزِ عمل کفارو مشرکین کا تھا۔ اور اگر آپ اِن حقیقتوں کو دیکھنے کے متمنی ہیں تو پھر کچھ انتظار کرلیں موت کے وقت یہ تمام حقائق آپ کو معلوم ہوجائیں گے۔
⚪ ۶۔ جب میت کو عذاب دیا جاتا ہے تو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق اِن کے چیخنے چلانے کی آواز سُنتی ہے۔ ایک حدیث میں “یعذبون حتی تسمع البھائم کلھا“ (بخاری : ۶۳۶۶ ومسلم : ۵۸۶)“تمام چوپائے میت کی آواز کوسنتے ہیں” ایک حدیث میں “یسمع من یلیہ” قریب کی ہر چیز میت کی آواز کو سنتی ہے ۔ (بخاری : ۱۳۳۸) میت کے چیخنے چلانے کی آواز ہر چیز سنتی ہے ، سوائے انسان کے اور اگر انسان ان کو سن لے تو بے ہوش ہوجاتا ہے۔ (بخاری: ۱۳۷۴)
اِن احادیث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ میت کے چیخنے چلانے کی آواز ہر چیز اور تمام جانور سنتے ہیں لیکن انسان اور جنات اسے نہیں سن سکتے ۔ جہاں تک بات نبی اکرم ﷺ کے خچر کے بدکنے کا معاملہ ہے تو یقیناً وہ بھی اس اچانک آواز سے بدک گیا تھا۔ دنیا میں جانور بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ شہری جانور جو سڑک پر سائرن کی زبردست آواز سے بھی متحرک نہیں ہوتے۔ دوسرے تھر پاکر کے علاقے کے جانور جو دُور کسی کار کی آواز سن کر ہی ایسے بدحواس ہو کر اور گھبرا کر بھاگتے ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے ۔ لہذا قبر کی آواز سے بھی ڈھیٹ قسم کے جانور نہیں بدکتے بلکہ یہ آوازیں اِس کی روزمرہ کا معمول اور فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہیں جبکہ حساس قسم کے جانور اس سے بدکتے ہیں۔
اور نبی اکرم ﷺ کا عذابِ قبر کو سننا آپ کے نبی ہونے کی وجہ سے تھا ۔ اور آپ ﷺ کے خچر کا عذاب کی آواز سے بدکنا تو اِسے معجزہ کا نام دینا غلط بلکہ جہالت ہے کیونکہ تمام ہی جانور عذابِ قبر کی آواز کو سنتے ہیں۔ لہذا عثمانی فلسفہ کے بجائے قرآن و حدیث پر سچے دل سے ایمان لے آئیں۔
⚪ ۷: خواب میں بعض دفعہ مرنے والے سے ملاقات ہوجاتی ہے جس سے اس کی حالت کا پتہ چل جاتا ہے ۔ جس طرح طفیل بن عمرو ؓنے اپنے ساتھ ہجرت کرنے والے ساتھی کو خودکشی کے بعد خواب میں دیکھا جس نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی اکرم ﷺ کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے بخش دیا ہے لیکن فرمایا کہ جس چیز کو یعنی ہاتھ کی انگلیوں کو تو نے خود خراب کیاہے میں انہیں ٹھیک نہیں کروں گا۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر دعا فرمائی کہ اللہ اس کی انگلیوں کو بھی معاف فرما دے ۔ (مسلم: ۱۱۶)
نبی کریم ﷺ نے سیدنا جعفر الطیار ؓ کو خواب میں دیکھا تھا، ان کے دو پر تھے جن پر خون لگا ہوا تھا دیکھئے المستدرک للحاکم (۲۱۲/۳ ح ۴۹۴۳ وسندہ حسن) ابو الصبھاء صلہ بن اشیم العدوی (ثقہ تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے (سیدنا ) ابو رفاعہ العدوی ؓ کو ان کی شہادت کے بعد (خواب میں) دیکھا، وہ ایک تیز اونٹنی پر جا رہے تھے۔ إلخ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۸۴/۱۱ ،۸۵ ح ۳۰۵۲۳ وسندہ صحیح)
الشیخ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ
🌏 عذاب قبر زمینی قبر میں
اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔
⚪ ائمہ سلف کا مذہب :
مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)
علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :
اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔
تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔
تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟
اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔
< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >
اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔
یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔
اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔
اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین
مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )
الشیخ محمد صالح المنجد

🌏 ارضی قبر میں عذاب کا ثبوت :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں پر سے گذرے ۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں ایسی چیز میں عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے بچنا ان کے لئے کوئی بڑی بات تھی بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا (اور مسلم: ۲۹۲کی ایک روایت میں لا یستنرہ من البول کے الفاظ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھتا تھا۔
اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی لی اور اسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہو جائیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے گا‘‘۔
(بخاری و مسلم۔ مشکاۃ المصابیح باب آداب الخلاء)۔ (بخاری رقم:۲۱۶، ۲۱۸، ۱۳۶۱، ۱۳۷۸، ۶۰۵۲، ۶۰۵۵۔ مسلم:۲۹۲)۔
صحیح مسلم میں جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں کمی نبی ﷺ کی دعا اور شفاعت کے ذریعے ہوئی تھی۔
(صحیح مسلم۔ ۲/۴۱۸عربی حدیث:۳۰۱۲)
بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بڑے گناہ ہیں۔ بعض منکرین عذاب قبر نے اس روایت کی بڑی عجیب توجیہہ بیان کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان قبر والوں کو یہاں نہیں بلکہ برزخی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا لیکن یہ حدیث ان کی اس باطل تأویل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ صحیح بخاری کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
اما ھذا فکان لا یستتر من بولہ و اما ھذا فکان یمشی بالنمیمۃ
رہا یہ شخص تو پس یہ پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھااور رہا یہ شخص پس یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب الغیبۃ)۔
اس روایت کے اگلے الفاظ یہ ہیں:
ثم دعا بعسیب برطب فشقہ باثنین فغرس علی ھذا واحدا و علی ھذا واحدا … (بخاری ۶۰۵۲)
پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا پھر ایک ٹہنی کو اس (قبر) پر اور دوسری ٹہنی کو اس (دوسری قبر) پر گاڑھ دیا۔
ایک روایت میں آخری الفاظ اس طرح ہیں:
فجعل کسرۃ فی قبر ھذا و کسرۃ فی قبر ھذا (بخاری:۶۰۵۵، کتاب الادب)
پس آپ ﷺ نے ایک ٹکڑے کو اس قبر پر اور دوسرے کو اس (دوسری) قبر پر گاڑھ دیا۔
اس حدیث میں اسم اشارہ قریب ’’ھذا‘‘ کا استعمال کر کے آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان دونوں قبر والوں کو انہی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور اس کی وضاحت سے ڈاکٹر عثمانی کی باطل تاویلات بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
اس حدیث میں دونوں اشخاص کے لئے ھذا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ھذا اسم اشارہ قریب کے لئے آتا ہے یعنی اس شخص کو اور اس شخص کو! اس اس بنا پر عذاب ہو رہا ہے۔ اور دوسری حدیث کے مطابق ٹہنی کا ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا اس قبر پر۔ لہٰذا ان احادیث کی بناء پر منکرین کے تمام شبہات غلط ثابت ہوجاتے ہیں اور پھر برزخی قبر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے لہٰذا حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو کون تسلیم کرے گا؟
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS