Jab Musalmanon ne Andalas ko fateh kiya?
Char Hazar Lashkar (4,000) Se Muqabla Karne wala Shakhs Aaj 15,000 Ke lashkar ke Sath hote hue bhi Hamla Kyu nahi kar raha hai?
<فاتح اندلس>
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 39________Part 39 ________
تدمیر کی چالاکی____عبدالعزیز اور اس کے لشکر نے رات نہایت اطمینان سے گزاری-
چونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں عیسائی رات کو قلعہ سے باہر نکل کر شب خون نہ ماریں، اس لیے ایک بڑا دستہ پہرے پر مقرر کر دیا گیا اور وہ ساری رات گشت کرتا رہا-
صبح ہونے ہی سب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑهی اور نماز پڑھتے ہی مسلح ہو کر قلعہ کی طرف چلے-
ابهی وہ فصیل کے قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ عیسائیوں کا ٹڈی دل لشکر چاروں طرف فصیل کے اوپر پھیل گیا-
عبدالعزیز اور تمام مسلمان حیران تھے کہ قلعہ کے اندر اس قدر لشکر ہوتے ہوئے تدمیر اتنا تھوڑا لشکر لے کر ان کے مقابلے کے لئے کیوں آیا تھا؟ "
عیسائیوں کے سپاہی چاروں طرف فصیل پر کھڑے تھے اور اس قدر تهے کہ ان کا شمار نہ ہو سکتا تھا -
کم سے کم دس پندرہ ہزار ہوں گے-
مسلمانوں کو یہ بھی حیرت تھی کہ تدمیر اتنا عظیم لشکر رکھتے ہوئے محصور ہو کر کیوں لڑ رہا تھا، جو شخص صرف چار ہزار سپاہیوں سے مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے وہ دس پندرہ ہزار لشکر کے ہوتے ہوئے کیوں نہیں لڑ رہا.
کچھ دیر مسلمانوں نے کھڑے ہو کر اس بات کا انتظار کیا کہ عیسائیوں کی طرف سے جنگ کا آغاز ہو تو وہ بھی لڑائی شروع کریں.
لیکن عیسائی سپاہی تھے کہ خاموش کھڑے تھے کمانیں ان کے ہاتھوں میں تهیں اور ان میں تیر جڑے ہوئے تھے غالباً وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ جونہی مسلمان آگے بڑھیں وہ تیروں کی بارش کر دیں-
تهوڑی انتظار کے بعد عبدالعزیز نے اللہ اکبر کے تین نعرے لگائے تیسرے نعرے کی تکرار تمام لشکر نے کی-
اب مسلمانوں نے ہر طرف سے بڑھنا شروع کر دیا عبدالعزیز باب جبل پر تهے جو شمالی جانب تھا -
جنوب کی طرف عثمان اور مغرب کی سمت حبیب بن عبیدہ اور مشرق کی طرف ادریس بن میسرا تهے -
یہ تینوں سردار نہایت پر جوش اور تجربہ کار تھے -
متعدد لڑائیوں میں شریک ہو کر فتح یاب ہو چکے تھے -
مگر بڑے استقلال اور نہایت ضبط سے انہوں نے ڈھالوں کا سایہ کر کے اپنے آپ کو اور گھوڑوں کو محفوظ کر لیا تھا-
عبدالعزیز گھوڑے پر سوار ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں تلوار بلند کیے سب سے آگے جا رہے تھے -
ان کی نگاہیں دروازے پر تهیں -
غالباً وہ دروازے پر پہنچ کر اسے توڑ ڈالنے کی فکر میں تهے -
دروازہ کهلا اور ایک بوڑها آدمی جس کی لمبی اور سفید ڈاڑھی تهی پادریوں کا سا جنہوں پہنے اور سفید علم ہاتھ میں لئے ہوئے پھاٹک سے نکلا-
مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ قلعے والوں کا قاصد ہے، عبد العزیز اسے دیکھتے ہی رک گئے اور ان کے رکتے ہی تمام لشکر بھی رک گیا-
بوڑها قاصد گهوڑا دوڑاتے ہوئے ان کی طرف آ رہا تھا اس کے علم کا سفید پھریرا ہوا میں لہرا رہا تھا -
وہ عبدالعزیز کے پاس آ کر رکا اور عربی زبان میں کہا-
میں قاصد ہوں اور آپ کے سردار عبد العزیز سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں - "
عبدالعزیز نے کہا میرا نام ہی عبدالعزیز ہے کہو کیا کہنا ہے میں تمہارے سامنے موجود ہوں.
قاصد: میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں -
عبد العزیز: میں تم کو خوش آمدید کہتا ہوں.
قاصد کیا آپ مہربانی کر کے اپنے تمام لشکر کو یورش کرنے سے روک لیں گے جب تک کہ میں اور آپ گفتگو مصالحت میں مصروف رہیں؟
عبد العزیز: ہاں میں روک دوں گا -
قاصد: تو مہربانی کر کے روک دیجئے-
عبد العزیز نے فوراً تین سواروں کو دوڑایا اور انہیں ہدایت دے دی کہ وہ ہر سہ اطراف کے افسروں کو یہ پیغام دیں کہ جب تک ان کے پاس دوسرا حکم نہ پہنچے وہ جس جگہ پہنچ گئے ہیں اسی جگہ پر رک جائیں-
سواروں کو روانہ کرتے ہی عبد العزیز نے قاصد سے کہا-
کہو اب تم کیا کہنا چاہتے ہیں قاصد: پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ میں اہل قلعہ کی طرف سے مختار کل بن کر آیا ہوں گویا جن شرائط کو مناسب سمجھوں گا ان پر صلح نامہ لکھ دوں-
عبدالعزیز: جب تو تدمیر نے عقلمندی کی ہے.
قاصد: تدمیر زی فہم اور خدا ترس آدمی ہے وہ نہیں چاہتا کہ خون ریزی کا بازار گرم ہو-
عبدالعزیز خون ریزی تو ہم مسلمانوں کو بھی پسند نہیں ہے ہماری تلواریں بہ امر مجبوری میانوں سے باہر نکلتی ہیں -
قاصد: یہ درست ہے اور اب میں عرض کروں گا کہ صلح کی شرائط ایسی ہونی چاہیے کہ جو فیاض اور شجاع مسلمانوں کی فیاضی اور دریا دلی نیز صلح جو جنرل تدمیر کی توقیر و منزلت کے شایان شان ہوں.
عبدالعزیز: اطمینان رکھو ہم غیر مناسب شرائط پیش نہیں کریں گے -
قاصد: اچھا تو فرمائیے کہ کن شرائط پر صلح ہو سکتی ہے ۔
عبد العزیز سب سے پہلی بات تو یہ کہ تدمیر اور تمام قلعہ والے مسلمان ہو جائیں اسلام قبول کرنے سے وہ عالم اسلام کے بهائی بن جائیں گے نیز اسلامی حکومت میں بھی انہیں وہی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو ہمیں حاصل ہیں.
قاصد: معاف کیجئے یہ تو نا ممکن ہے.
عبدالعزیز: تو اسلامی حکومت کے تابع دار بن جاؤ اور حفاظت کے صلہ میں حکومت اسلام کو جزیہ دو-
: عبدالعزیز: تو اسلامی حکومت کے تابع دار بن جاؤ اور حفاظت کے صلہ میں حکومت اسلام کو جزیہ دو-
قاصد: اگر یہ بات منظور کر لی جائے تو ہم پر کوئی اور سختی تو نہ ہو گی؟
عبدالعزیز: بالکل نہیں!
قاصد ہماری مذہبی آزادی.
عبدالعزیز ہاں تمہارے مزہب میں کوئی دست اندازی نہ کی جائے گی -
قاصد: گرجے محفوظ رہیں گے؟
عبدالعزیز قطعی محفوظ رہیں گے!
قاصد اور جزیہ کس قدر ہو گا؟
عبدالعزیز بہت معمولی تدمیر اور اس کے افسران کو ایک ایک دینار سالانہ چار پیمانے جو گیہوں چار پیمانے شربت اور شہد اور ہر قسم کا روغن چار چار پیمانے دینا ہو گا اور عوام کو اس کا نصف ادا ہو گا -
قاصد ہمیں منظور ہے.
عبدالعزیز ان باتوں کا حلف دینا ہو گا کہ ہم مسلمانوں سے وفاداری کریں گے ہمارے کسی دشمن کو پناہ نہیں دیں گے ہمارے دشمنوں کی جو بات تمہیں معلوم ہو جائے تم ہمیں فوراً آگاہ کرو گے اور. تم میں سے جو لوگ اپنی خوشی سے مسلمان ہو جائیں گے، ان پر سختی نہ کرو گے اور نہ انہیں ستاوں گے -
قاصد : ہم ان باتوں کا حلف اٹھائیں گے اور ان پر قائم رہیں گے -
عبدالعزیز ہمارا ایک افسر معہ دو سو سواروں کے تمہارے قلعے میں رہے گا جن کے اخراجات تمہارے ذمہ ہوں گے اور ان کی حفاظت کے تم ہی ذمہ دار ہو گے-
قاصد : ہمیں یہ بھی منظور ہے-
عبدالعزیز اچھا نامہ لکھ لو-
قاصد : بہتر ہے -
عبدالعزیز اتنے میں کہ صلح نامہ لکھا جائے تم تدمیر کو بلا لاو کیونکہ صلح نامے پر اس کے ہی دستخط ہوں گے-
قاصد : آپ صلح نامہ تیار کیجئے میں اس کو بلا لوں گا!
اب عبدالعزیز نے اپنے خیمے کے سامنے جا کر صلح نامہ تیار کروانا شروع کیا-
یہ صلح نامہ تمام تاریخوں میں مرقوم ہے ہم اس کا اقتباس ذیل میں درج کئے دیتے ہیں-
شرائط صلی میاں عبدالعزیز بن موسیٰ بن نصیر و تدمیر بن گو یدوز بادشاہ ارض تدمیر خدائے ذوالجلال و جبار اور کریم کے نام سے عبدالعزیز اور تدمیر یہ صلح نامہ لکھتے ہیں وہی اس کا پورا کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے-
تدمیر کی حکومت بدستور قائم رہے گی.
عرب اس کی رعایا سے کی تمام رعایا کو مذہبی آزادی ہو گی اور کبھی ان کے مذہبی رسوم میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی نہ ان کے گرجے جلائے جائیں یا منہدم کئے جائیں گے اور نہ ان سے کوئی بیگار لی جائے گی نیز تدمیر اور اس کی رعایا کو درج زیل شرائط کا پابند رہنا پڑے گا -
1.ہمارے دشمنوں کی کوئی بات نہیں چھپائیں گے.
2.ہمارے دشمنوں کو پناہ نہیں دیں گے نہ ان کی مدد کریں گے -
3 . ہمیشہ مسلمانوں اور اسلامی حکومت کے وفادار رہیں گے -
4 . جزیہ سال بہ سال ادا کریں گے -
مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے -
جو لوگ مسلمان ہو جائیں گے ان پر سختی نہیں کی جائے گی -
7.
مسجدوں کے لیے جگہ دیں گے اور ان کی تعمیر میں مداخلت نہیں کریں گے نہ ان کی بے حرمتی کریں گے -
8.جو مسلمان قلعہ میں رہیں گے ان کے ساتھ دشمنی کریں گے نہ فریب کریں گے جب یہ صلح نامہ تیار ہو گیا تو عبدالعزیز نے کہا.
اب تم تدمیر کو بلا لاو تا کہ وہ بھی صلح نامہ کی شرائط پڑھ کر دستخط کر دے-"
قاصد : بہتر پہلے آپ دستخط کر دیں پھر میں ان کو بلا لوں گا!
عبد العزیز دستخط اسی وقت ہوں گے جب وہ آ کر یہ پڑھ لیں گے-
قاصد نے فوراً اپنی ڈاڑھی کھینچ کر الگ کر دی اور جبہ بھی اتار ڈالا اب عبدالعزیز اور دوسرے مسلمانوں نے اسے دیکھا-
وہ تدمیر ہی تھا تمام مسلمان اور عبدالعزیز اسے دیکھ کر نقش بدیوار اور آئینہ دار حیران رہ گئے_______تدمیر کی دانش مندی______
________
تدمیر کی دانشمندی____تدمیر کی ہوشیاری کا تذکرہ تمام تاریخوں میں مذکور ہے-
عیسائی اور عربی مورخین نے بالتفصیل اسے لکھا ہے اور اس کی ہوشیاری پر اسے داد دی ہے -
اس میں شک نہیں کہ اس نے نہایت جرات اور ہمت سے کام لیا-
دشمنوں کے بیچ میں اس طرح چلے آنا نہایت شجاعت و بسالت کا کام. عبدالعزیز اور ان کے پاس بیٹھ والے مسلمان بھی اس کی ہوشیاری اور ہمت کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے-
عبدالعزیز نے اس سے کہا-"
تدمیر اس میں شک نہیں کہ تم نہایت دانائی اور بڑی جرات سے کام لیا ہے مگر اس کے باوجود کچھ بیوقوفی بھی کی ہے-"
تدمیر : وہ کیا؟ "
عبدالعزیز: تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ تم نے آ کر مقابلہ کیا تھا-
تدمیر : ہاں میں جانتا ہوں!
عبد العزیز: اور تم نے اسمٰعیل کو گرفتار کیا تھا-
تدمیر : جی ہاں!
عبد العزیز پهر تم نے شاہ رازرق کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کی.
تدمیر : بے شک یہی درست ہے-
عبدالعزیز پهر تم نے میرے لشکر کے ساتھ مقابلہ کیا.
تدمیر : یہ تو کل کی بات ہے -
عبدالعزیز کیا تمہاری ان باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب تمہارے خون کے پیاسے نہیں؟
تدمیر : بے شک ہیں -
عبدالعزیز تو کیا دشمنوں کے نرغے میں اس طرح چلے آنا اور اپنے آپ کو ظاہر کر دینا عقل مندی ہے؟
تدمیر : مگر آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا!
عبد العزیز نہیں.
تدمیر : تو مجھ سے سنئے مجھے بالکل یقین ہو چکا ہے کہ مسلمان صادق القول اور عہد پورا کرنے والے ہیں چنانچہ صلح کی دستاویزات مکمل ہو گئی تو میں نے ایسا کر دیا -
عبدالعزیز اچھا اب دستاویزات لے کر اس پر دستخط کر کر دو.
تدمیر نے دستخط کر دیئے اور کہا کہ مہربانی کر کے اس کی ایک نقل مجھے بھی دے دیجئے-'
عبدالعزیز اچھا
انہوں نے اس کی ایک نقل کرا کے اس کے حوالے کی اس نے کہا اب ہم آپ کی دعوت کرنا چاہتے ہیں.
عبدالعزیز: ہمیں منظور ہے لیکن اگر تم نے کوئی فریب دیا تو؟
تدمیر : اطمینان رکھئے میں فریب کر ہی نہیں سکتا!
عبد العزیز کس وجہ سے؟
تدمیر آپ وجہ کل قلعہ میں آ کر معلوم ہو جائے گی!
عبد العزیز مگر ہم شرط پر قلعہ کے اندر جا سکیں گے.
تدمیر : کس شرط پر؟
عبدالعزیز تم قلعہ کے تمام دروازے کھلے رکھو گے -
تدمیر : مجھے منظور ہے دروازے صبح ہی کهلوا دوں گا -
تدمیر : بہت اچھا اب ہم کو دعوت منظور ہے.
تدمیر نے اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ غلام نے آ کر کہا حضور کهانا تیار ہے لہٰذا کها کر جائیے گا -
تدمیر : بہت بہتر-
تهوڑی دیر میں غلام کهانا لا کر چن دیا کهانا نہایت سادہ تها -
دونوں نے دوستوں کی طرح بیٹھ کر کهانا کهایا کهانا کها کر تدمیر اٹها سلام کر کے چلا گیا-
اس کے جاتے ہی عبدالعزیز نے عثمان حبیب اور ادریس کے پاس قاصد روانہ کر دیا کہ تدمیر کے ساتھ صلح ہو گئی ہے تینوں سردار اپنا اپنا لشکر لے کر خیموں میں واپس آ گئے.
چونکہ اب صلح ہو گئی تھی اس لیے مسلمانوں نے کمریں کهول دیں ہتھیار اتار لئے اور کهانا کها کر میدان میں پھیل گئے-
وہ دس بیس آدمیوں کے گروہوں میں تقسیم ہو کر جگہ جگہ سبزہ زار پر بیٹھ گئے اور مختلف کاموں میں مصروف ہو گئے.
وہ دن انہوں نے قلعہ کے باہر کھلے میدان میں گزارا.
دوسرے دن آفتاب نکلتے ہی قلعہ کے تمام دروازے کهل گئے اور کچھ ہی دیر میں تدمیر چند سواروں کے ساتھ پھاٹک سے نکل کر اسلامی لشکر کی طرف چلا -
مسلمانوں نے پھاٹک کھلتے اور اسے آتے ہوئے دیکھ لیا
عبدالعزیز نے مسلمانوں کو اس کی دلیری اور ہوشیاری کا واقعہ سنایا.
چونکہ مسلمان بہادر تھے اس لیے وہ بہادروں کی قدر و منزلت کرتے تھے -
چنانچہ وہ اس کے استقبال کے لئے تیار ہو گئے اور انہوں نے خیمہ سے باہر نکل کر اس کا پر تپاک خیر مقدم کیا-
تدمیر مسلمانوں کے اس طرح استقبال کرنے سے نہایت خوش ہوا اور اس نے خلوص دل سے ان کا شکریہ ادا کیا. عبدالعزیز بهی اسے لینے کے لیے چند قدم آئے تھے وہ انہیں دیکھتے ہی گھوڑے سے اتر پڑا.
اس کے ساتھ ہی اس کے ساتهی بھی اتر آئے اور سب نے عبدالعزیز کو سلام کیا اور خیمہ پر پہنچے اور خیمے کے باہر ہی فرش پر بیٹھ گئے-
تدمیر نے کہا شریف فاتح آپ نے اس وقت میرا استقبال کر کے میرے دل میں اپنی عزت و وقار کا جب ہی پیدا کر دیا ہے ۔
عبدالعزیز نے کہا مسلمان اخلاق کا پتلا ہے-
ہمیں ہمارے محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش اخلاقی کی تلقین کی ہے-
اس لیے ہر مسلمان ہر انسان کے ساتھ خلق و مروت سے پیش آتا ہے-
جو مسلمان خلیق نہیں اس کا ایمان مکمل نہیں.
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ہم پیرو کار ہیں دنیا ان کے اخلاق حسنہ کی مداح ہے، ہم دنیائے جہاں کو تلوار کے زور سے مطیع نہیں کرنا چاہتے بلکہ حسن خلق سے حلقہ بگوش اسلام کرنا چاہتے ہیں.
تدمیر یہی وجہ ہے کہ عیاش آپ کو دشمن سمجھتے ہوئے بھی آپ کی طرف جهکے ہیں -
عبدالعزیز یاد رکھئے تلوار کے زور سے فتح کیا ملک اسی وقت تک قبضہ میں رہتا ہے جب تک کہ اس کے باشندوں کے سروں پر تلوار لٹکتی رہتی ہے اور خلق و مروت سے فتح کیا ہوا ملک ہمیشہ مطیع رہتا ہے
تدمیر یہی بات ہے - اچھا کیا اب آپ میرے ساتھ قلعہ میں تشریف لے چلیں گے؟
عبدالعزیز میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے ضرور چلوں گا -
تدمیر چلئے!
عبد العزیز نے حبیب، ادریس دوسرے چند سرداروں اور سو سواروں کے ہمراہ تدمیر کے ہمراہ قلعہ کی طرف چلے -
انہوں نے قلعہ کے قریب پہنچ کر یہ دیکھ لیا کہ آج تمام فصیلیں خالی تهیں -
ایک سپاہی بھی نظر نہیں بهی نہیں تھا نظر آ رہا.
عبدالعزیز کو اندیشہ ہوا کہ کہیں تدمیر نے کوئی فریب دینے کا قصد نہ کیا ہو لیکن انہوں نے اس کی دعوت منظور کر لی تھی اس لیے اب وہ رد نہ کر سکتے تھے -
چنانچہ باوجود یہ اندیشہ لاحق ہونے کے وہ اس کے ساتھ نہایت اطمینان سے چلے جا رہے تھے -
جب وہ پھاٹک کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ نہایت عالی شان اور مضبوط پھاٹک تها قلعہ کا.
وہ دروازہ عبور کر کے اندر داخل ہوئے.
ان کے قلعہ میں داخل ہوتے ہی نہایت سریلے ساز بجنے لگے انہوں نے دیکھا کہ باجا کم سن لڑکیاں بجا رہی تهیں -
تمام لڑکیاں نہایت حسین اور اچھی پوشاکیں پہنے ہوئے تهیں.
باجے کی سریلی آواز کانوں کے ذریعے سے دلوں پر اترتی جا رہی تھی -
عبدالعزیز اور مسلمانوں نے صرف ایک نظر انہیں دیکھا اور اپنی نظریں فورا جھکا لیں-
تدمیر ان کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ ان مہوشوں کو دیکھ کر ان کے گرویدہ ہو جائیں گے مگر جب اس نے انہیں نظر جھکاتے ہوئے دیکھا تو ان کے زہد و تقویٰ کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکا-
عبدالعزیز نے اس سے کہا ہمارے مزہب میں گانا سننا جائز نہیں اس لئے مہربانی کر کے اسے بند کروا دیں.
تدمیر نے کہا بیت اچھا تدمیر باجا بند کرا دیا تمام مسلمان تدمیر کے ہمراہ چلتے رہے لیکن انہیں وہاں ایک بهی سپاہی نظر نہ آتا تھا تدمیر کچھ سمجھ گیا اس نے دریافت کیا ۔
کیا دیکھ رہے ہو؟
عبدالعزیز میں اس لشکر کو دیکھ رہا ہوں جو کل فصیل پر کهڑا تھا -
تدمیر نے مسکرا کر کہا -
میں نے اسے رخصت کر دیا ہے صلح کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی.
عبدالعزیز لیکن میں نے تو ایک سپاہی کو قلعہ کو بھی قلعہ سے نکل کر باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا!
تدمیر ان میں سے کوئی بھی باہر نہیں گیا.
عبدالعزیز تو سب کہاں چلے گئے ہیں؟
تدمیر قلعہ کے اندر ہی ہیں لیکن وہ سپاہی نہیں تهے.
عبدالعزیز اور کون تھے؟
یہ بات بھی آپ کو معلوم ہو جائے گی!
وہ چلتے رہے بازاروں سڑکوں پر عیسائی عورتوں کا اژدہام تھا -
مرد بھی تهے مگر بہت کم البتہ عورتیں بہت زیادہ تهیں وہ ان بہادر فاتحین کا خوش ہو ہو کر استقبال کر رہیں تھیں
کچھ دور چل کر انہوں نے سپاہیوں کا ایک دستہ دیکھا تقریباً پانچ سو سپاہی تھے لیکن سب کے قد زرا چھوٹے تھے -
جب مسلمان ان سپاہیوں کے پاس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سب نازک اندام عورتیں تھیں _
انہوں نے مردانہ لباس پہن رکهے تهے اور ہتھیار لگائے مردوں کی طرح تنے ہوئے کھڑی تھیں _
عبدالعزیز نے پوچھا-
کیا یہی لشکر ہے جو فصیل پر متعین تھا؟
تدمیر جی ہاں !
جب میں قلعہ کے اندر آیا تو میں نے دیکھا کہ مرد بہت کم ہیں اور سپاہی تو دو سو سے بھی زیادہ نہیں تهے.
چنانچہ میں نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر ان کے بالوں کے چہرے کے گرد اس طرح لپیٹ دیا کہ وہ ڈاڑھی معلوم ہو یہی میرا لشکر تها جسے میں نے رخصت کر دیا ہے.
اور خود بهیس بدل کر قاصد کا روپ لے کر آپ لوگوں کے پاس پہنچ گیا.
تمام مسلمان تدمیر کی دانش مندی دیکھ کر نہایت مسرور ہوئے عبدالعزیز نے کہا" حقیقت یہ ہے کہ تم نہایت ہوشیار اور دور اندیش ہو-
تم نے عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر اور خود بهیس بدل کر قاصد بنا کر خود کو ہمیں مغالطہ دیا تمہاری یہ دانش مندی تمہارے ملک کو بچا لے گئی-
تدمیر صرف میری دور اندیشی ہی نہیں بلکہ آپ کی انصاف پسندی نے بچایا ہے اگر آپ کل میرے ظاہر ہونے پر مجھے پکڑ کر قتل کر ڈالتے تو ملک پر آپ کا قبضہ ہو جاتا-
عبدالعزیز: مگر میں مسلمان ہوں اور مسلمان عہد کر کے توڑتے نہیں.
تدمیر : مجھے معلوم تھا اسی لیے میں نے جرات کی تهی آنے کی.
اب یہ قصر شاہی کے سامنے جا رکے اور گھوڑوں سے اتر کر محل میں داخل ہو گئے -
کچھ دیر بیٹھے پهر کهانا کهایا کهانا کها کر واپس لوٹ آئے-
دوسرے روز تدمیر نے زر جزیہ مع گیہوں اور جو کے پیمانوں کے پیش کیا-
مسلمانوں نے تمام چیزیں سنبھالیں اور اگلے ہی روز وہاں سے کوچ کر کے طلیطلہ کی طرف روانہ ہوئے_____آرزو بر آوری______
جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment