Kin logo par Ramzan ke Roze rakhna maaf hai?
Kaise logo par Roza nahi rakhne par Gunah nahi hoga?Sawal: kin kin logo ke liye roza chhodna Jayez hai? Iska kaffara kya hoga? Kya Hamila (Pragnent) Aurat Ya Doodh pilaane wali Aurat Roza chhor sakti hai?
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-115"
سوال_ کن کن لوگوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ؟ اور انکی قضائی یا کفارہ کیا ہو گا؟ اور کیا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت بھی روزہ چھوڑ سکتی ہے؟
Published Date: 28-5-2018
جواب..!
الحمدللہ..!!
*روزہ چھوڑنے والوں کی تین قسمیں ہیں،*
1- ایک وہ جو روزہ چھوڑ سکتے مگر بعد میں انکی قضائی دینا ضروری ہے،
2_ دوسرے وہ لوگ جو روزہ چھوڑ سکتے اور ہر روزہ کے بدلے فدیہ دیں گے،
3_ تیسرے وہ جو روزہ چھوڑ سکتے بعد میں یا قضائی دیں گے یا فدیہ
*پھر پہلی قسم میں 4 لوگ شامل ہیں،*
1_ مسافر،
2_ اور عارضی مریض( جسکو ٹھیک ہونے کی امید ہو)
جیسا کہ اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں،
وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ
جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے،
(سورہ البقرہ_آئیت نمبر 185)
3_حیض والی عورتیں
(ہر ماہ جو عورتوں کو خون آتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑ دیتی؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1951)
4_نفاس والی عورتیں،(یعنی جنکو بچہ پیدا ہوا ہو)
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں،
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر-648)
مسافر، عارضی مریض(یعنی جسکے ٹھیک ہونے کی امید ہو) اور حیض و نفاس والی عورتیں بھی عارضی بیماروں ہی میں شامل ہیں،
یہ سب روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور بعد میں انکی قضائی دینگے،
جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے،
وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ
جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے،
(سورہ البقرہ_آئیت نمبر 185)
__________&&________
* دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو دائمی مریض ہوں یعنی جنہیں ٹھیک ہونے کی امید نا ہو، اور وہ بوڑھے کمزور مرد اور عورتیں جو روزہ نا رکھ سکیں،*
یہ سب لوگ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلائیں گے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں،
فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ
پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے،
(سورہ البقرہ،آئیت نمبر_184)
اسکی تفسیر کرتے ہوئے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں،
اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہئیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے،
(صحیح بخاری، حدیث نمبر-4505)
___________&&________
*تیسرے نمبر پر وہ خواتین*
1_جو حاملہ ہیں یعنی جنکو بچہ ہونے والا٬
2_ وہ عورتیں جو بچوں کو دودھ پلانے والی ہیں،
یہ اگر روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کریں تو روزہ چھوڑ سکتی ہیں،
انکی قضا کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے،
کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہ بعد میں روزہ رکھیں گی، اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں
کہ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ ( دودھ پلانے والی ) سے روزہ معاف کر دیا ہے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1667)
یعنی جو حکم مسافر کا ہے وہی حکم حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا بھی ہو گا،یعنی وہ بعد میں قضائی دے گی،
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :
اگرحاملہ عورت کواپنے آپ یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:
پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو روزہ رکھنے سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اورنہ ہی اس کے بچے پر اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہيں ۔
دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔
اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضاء کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضاء واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئي اورعذر درپیش ہوجائے مثلا دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کھانے پینے کی محتاج ہوتی ہے اور خاص کر گرمیوں کے لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ نہ رکھنے کی ضرورت ہوگي تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے ۔
تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضاء کرلیں ۔ اھـ
(دیکھیں فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 162 )
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہنا ہے :
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :
انس بن مالک کعنبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔
تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں روزہ اس وقت نہيں رکھیں گی جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا پھر وہ دونوں اپنے بچے کا خطرہ محسوس کریں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 )
اور فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :
حاملہ عورت پر حمل کی حالت میں روزے رکھنا واجب ہیں لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ ہو توروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضاء رکھنا ہونگے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔
(مصدر-الاسلام سوال و جواب)
( از شیخ صالح المنجد )
___________&________
*اور کچھ علماءکہتے ہیں کہ وہ قضائی نہیں فدیہ دے گی،ان کے دلائل درج ذیل ہیں،*
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ ہو، آپ نے فرمایا ، وہ روزہ چھوڑدے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک”مد”(تقریباََ نصف کلوگرام) گندم دے دے ۔
(السنن الکبرٰی للبیھقی :ج4/ص230 وسندۂ صحیح )
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے ایک حاملہ عورت نے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
أفطری، أطعمی عن کل یوم مسکیناً ولا تقضی.”
تو روزہ چھوڑدے اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھا نا کھلا دے ، پھر قضائی نہ دے۔”
(سنن الدار قطنی: ج1/ص207 ح : 2363)
وسندۂ صحیح) .
نافع بیان کرتے ہیں کہ،
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ کی ایک بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھی،
وہ حاملہ تھی، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ روزہ چھوڑدے،
ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔
(سنن الدار قطنی : ج1/ص207 ح:2364)
وسندۂ صحیح)
عظیم تابعی سعید بن جبیر ؒ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عوت جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلادیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے۔
(مصنف عبد الرزاق:4ج، /ص216
حدیث نمبر- 7555، وسندۂ صحیح )
علامہ ناصر الدین الالبانیؒ " ارواء الغلیل " میں لکھتے ہیں :
عن ابن عباس قال: " إذا خافت الحامل على نفسها , والمرضع على ولدها فى رمضان قال: يفطران , ويطعمان مكان كل يوم مسكينا , ولا يقضيان صوما،
ترجمہ_
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حاملہ عورت کواگر اپنے بارے میں اندیشہ ہو اور دودھ پلانے والی کو اپنے بچے کے متعلق تکلیف کا خطرہ ہو تو یہ دونوں روزہ ترک کردیں ، اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ، اور یہ دونوں ان روزوں کی قضاء نہیں کریں گی،
اسے امام محمد بن جریر الطبری نے روایت کیا اور اس کی اسناد صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے "
(إرواء الغليل، ج4/صفحہ19)
(الطبرى-2758)
اور سنن الدارقطنیؒ میں مروی ہے ,
حدثنا أبو صالح، ثنا أبو مسعود، ثنا أبو عامر العقدي، ثنا هشام، عن قتادة ، عن عزرة، عن سعيد بن جبير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ تُرْضِعُ فَأُجْهِضَتْ , فَأَمَرَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ تُفْطِرَ يَعْنِي: وَتُطْعِمَ وَلَا تَقْضِيَ ". هَذَا صَحِيحٌ
یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی بچے کو دودھ پلانے والی تھی ، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ( ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین ) کو کھانا کھلادیا کرے اور قضاء نہیں کرے گی "
امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے
(سنن الدارقطني،ج2/ص435) صحيح
*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان صحیح قوال کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے،کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں جو روزے چھوڑیں گی انکے بدلے فدیہ دے دینا کافی ہے ،انکو قضائی دینے کی ضرورت نہیں،*
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت فدیہ ہی دے گی تو وہ روزے رکھ ہی نہیں سکتی،
کیونکہ حاملہ ایک رمضان تو حمل کی وجہ سے چھوڑے گی ، دوسرا اور تیسرا رمضان ، دودھ پلانے کی وجہ سے،اب تیسرے رمضان تک شائید وہ پھر حاملہ ہو جائے،
اور پھر حمل اور پھر دودھ کی مدت۔۔۔ایسے تو وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتی،
تو کیا وہ روزے رکھے گی ہی نہیں؟
*تو ان ساری باتوں کا بہتر حل یہ ہے،*
کہ پہلی بات تو سب عورتیں ایک جسیی نہیں ہوتی،صحت مند حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی عورتیں اگر کوشش کریں تو وہ روزے رکھ سکتی ہیں، اور ویسے بھی آج کل اللہ پاک نے سہولتیں کافی دی ہوئی ہیں، تو خواتین آسانی سے روزے رکھ سکتی ہیں،
اگر بالفرض نا رکھ سکیں،
گرمی کے ایام وغیرہ کی وجہ سے انکو تکلیف کا سامنہ کرنا پڑے تو بعد میں سردی کے دنوں میں قضا کر سکتی ہیں،کیونکہ سردی میں روزے رکھنا آسان ہوتا ہے،
اور اگر کوئی حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نا کرے اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے تو یہ بھی کافی ہے، اسکو قضا کرنے کی ضرورت نہیں، ان شاءاللہ
(مآخذ: محدث فورم/ از شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری و مقبول سلفی حفظہ اللہ )
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan
No comments:
Post a Comment