Kale rang ki Ba haya Dulhan aur Deen dar Shauhar.
Kale Rang ki Ba haya Dulhan Part 1
Kale Rang ki Ba haya Dulhan Part 2
سانولے رنگ کی با حیا دلہن
سبق آموز کہانی باحیا عورت
{کُل 4 قسطیں ہیں قسط نمبر3}
لیکن اس کا ضمیر بار بار ملامت کر رہا تھا
احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے .
(صحیح مسلم )
کسی عورت سے ان چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے:
1 اس کا مال
2 اس کا حسب نصب
3 اس کا حسن و جمال
لیکن دیکھو!!
تم دین والی کو ترجیح دینا
(بخاری مسلم ابو داؤد نسائی بیہقی )
کتابوں کی ترتیب کے بعد عمر زلیخا کی طرف پلٹا اور بولا دیکھیں میں کتابی کیڑا ہوں کتابوں میں رہنے والا لہٰذا محدود وقت کی بنا پر آپ کے لیے ایک کتاب کا انتخاب کیا ہے *تحفتہ العروس* یہ صنف نازک کے موضوع پر پہلی جامع اور دلکش کتاب ہے امید ہے آپ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گی .
ان شاءاللہ
زلیخا جھکے چہرے اور دھیمے لہجے سے صرف *جی* کر پائی میرے خیال میں آپ یہ بھاری بھرکم لباس تبدیل کر سکتی ہیں عمر کو جیسے اس کے بناؤ سنگار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اس نے اس احساس کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی زلیخا بھی جوان جذبات احساسات رکھنے والی لڑکی تھی.
اسکے رویے کو سمجھ گئی اور لباس تبدیل کرنے کے لئے کونے میں پڑے سوٹ کیس کا رخ کیا اور سفید کاٹن کا سادہ سا شلوار قمیض نکالا جسکے اوپر ہلکے گلابی اور کالے رنگ کی کڑھائی تھی اور ساتھ بڑا سا چھوٹے چھوٹے پھولوں والا دوپٹہ.
اللهم انی أعوذ بك من الخبث و الخبایث
دعا پڑھتے ہی وہ واش روم کے اندر تھی اور پھر دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے بے قابو آنسوؤں کی جھڑی کو نہیں روک سکی خوب آنسو بہا کر شاور لیا اور باہر نکلنے سے پہلے چاروں طرف دوپٹا لپیٹ کر ماتھے پہ ہلکا سا گھونگھٹ نکال لیا باہر آئی تو عمر عشاء کے لیے جا چکا تھا تو اس نے بھی عافیت نماز میں ہی جانی اور پورے خشوع کے ساتھ نماز شروع کر لی.
اپنی ہمیشہ کی عادت کو اپناتے ہوئے لمبی سورتوں کا انتخاب کیا اور اپنی نماز کو تسلی سے مکمل کیا اپنے مرمریں ھاتھوں کو اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری سے پھیلا دیا .
اے میرے رب میرے خاوند کے دل میں میرے لیے محبت اور الفت پیدا کر مجھے ان کی نظر میں پر کشش بنا دے آمین
بنا کسی دقت کے آنسوؤں کی جھڑی زلیخا کے گالوں کو بھگوے جا رہی تھی نا چاہتے ہوئے بھی آنسو سارے بند توڑ کر لگا تار اس کے سوتی دوپٹے کو گیلا کیے جا رہے تھے ایک دم سے آہٹ سن کر اس نے اپنے چہرے کو رگڑ ڈالا اور بستر پہ پڑی تحفتہ العروس کے اوراق الٹنا پلٹنا شروع کر دئیے دوبارہ سے مردانہ سلام نے اس کے دل پہ دستک دی پھر وہی دھیما انداز اور جکھی جکھی گردن سے جواب آیا.
سنیں عمر پکارا
جی زلیخا کا جواب
آپ نے کھانا کھانا ہے؟
میں امی کو بولتا ہوں آپ کو گرم کر دیں .
جی نہیں شکریہ مجھے بھوک نہیں ہے زلیخا بولی
چلیں آپ نہیں کھاتی تو میں بھی نہیں کھاتا .
میں سونے کے لیے جا رہا ہوں دو دنوں سے سفر کی تھکاوٹ ہے اور آپ بھی لمبے سفر سے آئی ہیں آرام کریں .
زلیخا کسی روبوٹ کی طرح اٹھی اور بستر کے ایک کونے میں لیٹ کر خود کو اپنے دوپٹے میں لپیٹا اور *اذکار مسنونہ* میں مشغول ہو گئی ادھر دوسری طرف بھی یہی سلسلہ جاری تھا نیند کے آثار دونوں طرف دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن راہ فرار کا یہی ایک ذریعہ تھا بظاہر بند آنکھیں لیکن دل دماغ شدت غم سے چور تھا زلیخا بار بار اس نقطہ کو سوچے جا رہی تھی کہ کیا میری نادرا والی تصویر عمر کو نہیں دکھائی گی؟
جبکہ امی جان نے ممانی سے خاص درخواست کر کے عمر کو دیکھانے کے لیے لی تھی پھر آخر کیا ہوا ہے؟
جو ان کی آنکھوں میں میرے لئے کسی قسم کے جذبات نہیں ہیں؟
مجھے تو ان لوگوں نے تصویر دکھا دی پر اپنے بیٹے کو کیوں نا دکھائی؟
میں تو رشتوں سے ترسی ہوئی ہوں بچپن میں والدین کا انتقال نا کوئی بہن اور نا کوئی بھائی اور اب خاوند ملا ہے وہ اتنا قریب ہو کے بھی کوسوں دور دل میں ٹھیس اٹھی اور آنکھوں نے کھل کر برسنا شروع کر دیا کیا ہوا جو میرا رنگ سانولا ہے؟
دل و دماغ تو نہیں ہے ؟
آنکھوں میں برسات کا سلسلہ تسلسل سے جاری تھا دل شدت غم سے نڈھال تھا اور اپنے پسندیدہ شعر کو دہرا رہا تھا.
عجب رنگوں میں گزری ہے زندگی اپنی
دلوں پہ راج کیا پھر بھی پیار کو ترسے
سفید کاٹن کا دوپٹہ زخموں پہ مرہم کا کام کر رہا تھا آنکھوں سے برستی برسات کو کافی حد تک جزب کر چکا تھا نیند کوسوں دور تھی دل کر رہا تھا زور زور سے دھاڑیں مارے لیکن وہ عمر کو اپنی کمزوری نہیں دکھانا چاہتی تھی اگر وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہیں تو میں کبھی ان کو مجبور نہیں کروں گی ہاں اپنے حقوق ضرور پورے کروں گی جو کہ میری تربیت کا حصہ ہیں میں اپنے نبی کریم ﷺ اور صحابیاتؓ کی سنت پہ عمل پیرا ہوں گی ان شااللہ
بے شک خاوند کی فرمانبردار عورتیں ہی جنت جائیں گی کمرے میں دیوار پہ لگے گھڑیال کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی واپڈا کی آنکھ مچولی جاری تھی کمرے میں لگا زیرو واٹ کا بلب بھی بجھ چکا تھا.
زلیخا انتظار میں تھی کہ لائٹ آئے تو وہ وقت کا تعین کر سکے اور اپنی روزانہ کی روٹین *تہجد* کے نوافل شروع کرے تقریبا آدھے گھنٹے کے لگ بھگ بجلی کا نزول ہو چکا تھا رات کے دو بج رہے تھے زلیخا چپکے سے دھیمی چال سے کمرے سے نکل کر واش روم میں جا چکی تھی.
اچھی طرح سے وضو کیا چہرے پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے اور واپس خاموشی سے کونے میں پڑے جائے نماز پہ کھڑی ہو گئی نوافل میں طویل قیام کے بعد اپنے مرمری ہاتھ اپنے رب کے سامنے پھیلا دیئے پھر وہی برسات کا سلسلہ اور سینے میں تڑپ چار و ناچار خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود اپنی پیشانی کو سجدہ ریز کر دیا اور خوب گڑگڑائی میرے مالک میری اس آزمائش کو آسان کر بے شک تو ہی مشکل کشا ہے.
طویل دعاؤں کے بعد دل میں اطمینان محسوس کیا اتنے میں فجر کی آذان سنائی دی عمر تو نجانے رات کے کس پہر نیند کی گہری وادی میں جا چکا تھا
اب زلیخا اس شش و پنج میں تھی کہ ان کو اٹھاؤں یا نا اٹھاؤں اور اگر اٹھاوں تو کیسے؟
5 منٹ کی سوچ بچار کے بعد زلیخا نے عمر کے پاؤں کو ہلکا سا جھنجھوڑا لیکن وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا.
آخر تیسری کوشش پہ ہڑ بڑا گیا آنکھیں ملیں تو دیکھا زلیخا اسے کی پالتی پہ کھڑی تھی فوراً بولی ج ج جی وہ آپ کی فجر کی جماعت نکل جائے گی اذان ہو چکی ہے عمر دل ہی دل میں خوش ہوا چلو محترمہ نماز کی تو پابند ہیں فوراً اٹھ کھڑا ہوا وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا .
زلیخا نے فجر ادا کی اور تلاوت کلام پاک شروع کر دی .
خوبصورت آواز اور قواعد التجويد اور مخارج سے بخوبی واقف زلیخا رقت آمیز لہجے میں تلاوت میں مشغول.
زلیخا کی تلاوت نے عمر کو دروازے پہ ہی سننے پر مجبور کر دیا اتنی خوبصورت آواز اور شیریں لہجہ اس نے آج کے دن تک نہ سنا ماشااللہ .
وہ دل ہی دل میں داد دے گیا عمر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بابا نے آواز لگائی جی بابا جان فرمایئے وہ بیٹا مجھے لگتا ہے ہمیں کل اتوا کا ولیمہ ملتوی کرنا پڑے گا؟
سب خیریت ہے نا بابا جان؟
تھوڑی دیر پہلے تمھارے پھوپھا کا فون آیا تھا تمھاری پھپھو کافی بیمار ہیں اس لیے مجھے کھاریاں جانا پڑے گا ہو سکتا ہے کچھ دن رکنا بھی پڑھ جا ئے بابا جیسے آپ بہتر سمجھتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے.
پیچھے سے امی کی آواز آئی میں بھی جاؤں گی اتنا اچھا وقت گزرا ہے ہمارا باجی نصرت کے ساتھ زندگی موت کا کچھ پتا نہیں لہٰذا میں جاؤں گی پر عمر کی ماں پیچھے دلہن اکیلی ہے اس کو گھر کی کسی چیز کا پتا نہیں ہے کونسی چیز کدھر پڑی ہے مجھے اپنی زلیخا پہ پورا بھروسہ ہے یہ مجھے کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گی امی فاتحانہ انداز میں مسکرائیں آخر بابا کو ماننا ہی پڑا...
✍🏻📜 سلســـلہ جـــاری ہــے..
Bahut khub
ReplyDeleteAchi bat kahi hai
Aisi dulhan har kisi ko nahi milti