Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam ki Seerat.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
قسط 8...
پچھلی قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوجوانی کے زمانہ کے دو مشھور واقعات کا تذکرہ کیا گیا.. اس قسط میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور شباب کے مذید حالات بیان کیے جائیں گے..
اللہ نے اپنے تمام انبیاء کو ساری زندگی شرک و گمراھی اور رسوم جاھلیت سے محفوظ رکھا.. چنانچہ تمام ھی انبیاء کرام اپنی نبوت و رسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان و قبیلہ اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پاۓ جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاھر ھے..
اسی طرح نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھی اپنی نبوت و رسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک و بت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بلکل پاک اور منزہ رھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیکی , خوش اطواری , دیانت , امانت اور راست بازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلکہ "الصادق یا الامین" کہہ کر پکارتے تھے جیسا کہ ابن ھشام کی روایت میں ھے کہ
"پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں جوان ھوۓ کہ اللہ تعالی' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاھلیت کی تمام گندگیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے.. اس لیے کہ اللہ تعالی' کا ارادہ یہ ھوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت اور ھر قسم کی عزت و کرامت سے سرفراز فرماۓ.. یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد کامل ھوگئے اور مروت و حسن خلق , حسب و نسب , حلم و بردباری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش و اخلاق رزیلہ (بری عادات و خصلت) سے انتہا درجہ دور ھوگئے.. یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم "(الصادق) الامین" کے نام سے مشھور ھوگئے.."
حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں کہ زمانہ جاھلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو "اساف و نائلہ" (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے.. ایک بار میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا.. جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھؤا.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا..
میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ھوتا کیا ھے اس لیے دوبارہ ان کو چھؤا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ھوۓ فرمایا.. "کیا تم کو منع نہیں کیا تھا.."
حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں.. " اللہ کی قسم ! اس کے بعد کبھی کسی بت کو ھاتھ نہیں لگایا.. یہاں تک کہ اللہ تعالی' نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا کلام اتارا.."
(مستدرک حاکم.. جلد 3 صفحہ 216)
ایک مرتبہ (ایک دعوت میں) قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھانا لا کر رکھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکار کیا.. وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی..
خلاصہ یہ کہ تمام انبیاء کرام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابتداء سے ھی نہایت صالح طبیعت والے اور کفروشرک اور ھر قسم کے فحشاء و منکر سے پاک اور منزہ تھے..
"مسز اینی بیسنٹ" ہندوستان میں تھیو سوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے ' وہ لکھتی ہے..
"پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات نے میرے دل میں اُن کی عظمت وبزرگی قائم کی ہے وہ اُن کی وہ صفت ہے جس نے اُن کے ہم وطنوں سے "الامین" (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا.. کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے قابلِ اتباع نہیں.. ایک ذات جو مجسم صدق ہو , اُس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے.. ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغامِ حق کا حامل ہو.."
لڑکپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی معین کام نہ تھا البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپ بکریاں چراتے تھے.. آپ نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں اور مکہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چراتے تھے.. جب جوان ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حصول ِ معاش کی فکر ہوئی.. مکہ وادیٔ غیر ذی زرع میں واقع تھا.. وہاں زراعت کرنے کا تو سوال ہی نہ تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آباو اجداد کی طرح تجارت کا پیشہ اپنایا..
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے والد کے چھوڑے ہوئے سرمایہ کو تجارت میں لگایا اور ان میلوں میں شرکت کے لئے سفر بھی کئے.. پیشہ تجارت میں آپ نے ہمیشہ امانت داری اور دیانت کو پیش نظر رکھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ساتھی عبداللہ بن ابی الحمسأ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ سے ایک تجارتی معاہدہ کیا لیکن بات پوری طے ہونے سے قبل مجھے ایک ضروری کام یاد آیا اور میں نے آپ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں..
وہاں جا کر کام میں ایسا مشغول ہو گیا کہ مجھے آپ سے کیا ہوا عدہ یاد نہ آیا.. اتفاقاً تین روز بعد میرا ادھر سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہیں انتظارکر رہے ہیں.. میں احساسِ شرمندگی کے ساتھ آپ کی طرف گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی.. اس لئے کہ میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں..
زمانہ جاہلیت میں قیس بن السائب مخزومی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک تجارت تھے.. وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر ساتھی نہیں پایا.. اگر ہم آپ کا سامان تجارت لے کر جاتے تو واپسی پر آپ ہمارا استقبال کرتے اور خیر و عافیت پوچھ کر چلے جاتے.. برخلاف اس کے اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجارتی سفر سے لوٹتے تو جب تک پائی پائی بے باق نہ کرتے اپنے گھر کو نہ جاتے.. تجارت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیانت داری اور معاملہ فہمی کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی..
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا قریش کی دولت مند بیوہ خاتون تھیں جنھیں عرب کے کئی نامور رئیسوں نے نکاح کا پیام دیا تھا.. ان کے والد خویلد بن اسد نے بہترین تجارتی کاروبار ورثہ میں چھوڑا تھا اس لئے انھوں نے بھی تجارت جاری رکھی.. اپنا مالِ تجارت اُجرت یا شراکت پر تاجروں کے ہمراہ روانہ کرتیں. ابتدائی عمر میں چچا زاد بھائی اور مشہور عیسائی عالم "ورقہ بن نوفل" سے منسوب تھیں لیکن شادی نہ ہوسکی.. 15 سال کی عمر میں ان کا پہلا نکاح ہند بن نباش سے ہوا جو ابوہالہ کے نام سے مشہور تھے.. ان سے دو بچے پیدا ہوئے جو بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے.. ابو ہالہ کے انتقال کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 21 سال کی تھیں.. آپ کا دوسرا نکاح عتیق بن عاید مخزومی سے ہوا جن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس نے بعد میں اسلام قبول کیا.. عتیق بن عاید مخزومی بھی انتقال کرگئے.. یکے بعد دیگرے دونوں شوہروں کے انتقال سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دل برداشتہ ہو گئی تھیں.. مالی دولت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں دولتِ حُسن سے بھی نوازا تھا.. نہایت ذہین اور سلیقہ مند تھیں.. انہی خصائص کی وجہ سے وہ "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں..
جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راست گوئی , امانت اور مکارمِ اخلاق کا علم ہوا تو انھوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیش کش کی کہ آپ ان کا مال لے کر تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں.. وہ دوسرے تاجروں کو جو کچھ دیتی ہیں اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے مشورہ کرکے یہ پیش کش قبول کرلی اور ان کا مال لے کر ملک شام تشریف لے گئے.. اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایک غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات دیکھ کر آپ کے گرویدہ ہوگئے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے مکہ واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی.. مال کی خرید و فروخت کا حساب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دیا تو منافع دوگنے سے زیادہ تھا.. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی طے شدہ معاوضہ کا دوچند آپ کو دیا یعنی بجائے چار اونٹ کے آٹھ اونٹ معاوضہ میں دیئے..
ادھر ان کے غلام مَیْسَرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریں اخلاق , بلند پایہ کردار , موزوں اندازِ فکر , راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کیے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اپنا گم گشتہ گوہرِ مطلوب دستیاب ہوگیا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر اس وقت 25 سال ہوچکی تھی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی.. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ستودہ صفات سے متاثر ہوکر خود ہی اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہّ کے ذریعہ آپ کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی اور اپنے ہم عمر چچا اور دودھ شریک بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا جنھوں نے اہلِ خاندان سے مشورہ کرکے خود ہی جا کر پیام منظور کرلیا.. چنانچہ آپ کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے ان کے چچا عمرو بن اسد اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت ابو طالب , حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ , حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سردارانِ قریش شریک تھے.. مہر بہ اختلاف روایات 20 اونٹ , 400 دینار یا 500 درہم قرار پایا..
یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ عام روایت کی بموجب نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیں سال بتائی جاتی ہے لیکن بین الاقوامی شہرت کے حامل اسکالر اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی کتاب "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی" میں محمد بن حبیب بغدادی مصنف کتاب "المحبّر" کے حوالہ سے 28 سال بتائی ہے..
اٹھائیس سال کی مزید تائید الزرقانی کے بیان سے بھی ہوتی ہے.. وہ القسطلانی کی کتاب المواھب کی مشہور شرح المغلطائی کے حوالہ سے لکھتے ہیں "اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ 28 سال کی تھیں جیسا کہ المغلطائی اور دوسروں نے بیان کیا ہے.." (الزرقانی , جلد 1)
سب سے زیادہ وقیع بات تو یہ ہے کہ ابن سعد (متوفی ۲۳۰ہجری) نے عبداللہ بن عباس کی سند سے روایت لکھی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر جس دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح کیا , 28 سال تھی.. (طبقات , جلد ۸ , فی النساء)
نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن بنی ہاشم کے محلہ میں گزار کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں آگئے.. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت کے لئے ایک غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا جو اس وقت پندرہ سال کے تھے اور جنھیں بچپن میں ڈاکوؤں نے عُکّاظ کے بازار میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت کردیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نذر کیا تھا.. کچھ عرصہ بعد زید رضی اللہ عنہ کے باپ کو معلوم ہوا کہ زید زندہ ہیں تو باپ اور چچا دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت حاضر ہو کر انھیں ان کے حوالے کرنے کی درخواست کی جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تمہارے باپ اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو ان کے ساتھ اپنے وطن لوٹ جاؤ , چاہو تو میرے ساتھ رہو.. اس پر زید رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ اور چچا کے ساتھ جانے کے مقابلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی..
اس کے بعد حسب دستور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر حرم کعبہ میں آئے اور حطیم کے پاس جا کر اعلان فرمایا.. "لوگو ! گواہ رہنا کہ زید آزاد ہے اور آج سے وہ میرا بیٹا ہے.." یہ اعلان سُن کر اُن کے باپ اور چچا بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس لوٹ گئے.. حضرت زید رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے..
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی.. حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بقیہ تمام اوّلاد انہی کے بطن سے تھیں.. سب سے پہلے قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور انہی کے نام پر آپ کی کنیت ابوالقاسم پڑی.. پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا, رقیہ رضی اللہ عنہا , اُم کلثوم رضی اللہ عنہا , فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے.. عبداللہ رضی اللہ عنہ کا لقب طیب اور طاہر تھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا , مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی سب کا انتقال آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا.. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھ ماہ بعد ہوئی..
.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی.. وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیواری کی شکل میں تھا.. حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی ۹ ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی.. اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا.. عمارت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیوار یں پھٹ گئی تھیں.. ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا.. اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھ سکتا تھا.. اس لیے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لیے اسے ازسرِ نو تعمیر کریں..
ان ہی ایام میں ایک رومی جہاز طوفان میں گھِر کر شعیبہ (جدّہ کا قدیم نام) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.. یہ اطلاع قریش کو ملی تو انھوں نے جہاز کے تختے کعبہ کی تعمیر کے لیے خرید لئے.. طوفان میں بچنے والوں میں "باقوم" نامی ایک مصری معمار بھی تھا.. اس نے تعمیر کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.. مکہ میں بھی ایک بڑھئی تھا جس سے کام لیا جا سکتا تھا.. اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے.. اس میں رنڈی کی اُجرت , سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے..
سہولت کی خاطر انھوں نے تعمیر کا کام تمام خاندانوں میں تقسیم کیا.. دروازہ والی دیوار کی تعمیر بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے ذمہ ہوئی.. حجر اسود اور رکن یمانی کی درمیانی دیوار کی تعمیر بنی مخزوم و تیم کے سپرد ہوئی اور پچھلی دیوار اٹھانے کا کام بنی سہم اور بنی حمج کے ذمہ ہوا.. بنی عبدالدار , بنی اسد اور بنی عدی نے مل کر حطیم والا رخ بنانے کی ذمہ داری لی..
نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا لیکن پُرانی عمارت کو گرانے سے لوگ ڈر رہے تھے.. اس لئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل یمن کا بادشاہ "ابرہہ" ہاتھیوں کو لے کر کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آیا تھا تو اس کا برا انجام ہوا تھا جسے دیکھنے والے لوگ موجود تھے.. بالآخر "ولید بن مغیرہ مخزومی" نے ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا.. "اے اللہ ! ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں.." اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ ڈھا دیا.. جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن ڈھانا شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک ڈھا چکے تو تعمیر کا آغاز کیا..
جب دیواریں حجر اسود نصب کرنے کے مقام تک اونچی ہوئیں تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا جو چار پانچ روز تک جاری رہا.. ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کو حاصل ہو.. نوبت یہا ں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں.. عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر ان میں انگلیاں ڈبولیتا تھا.. اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی.. اس جھگڑے کی وجہ سے چار دن تک کام رُکا رہا.. پانچویں دن قریش کے سب زیادہ معمر شخص "ابو امیہ بن مغیرہ" نے مشورہ دیا کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو وہی ثالث قرار دے دیا جائے.. سب نے یہ رائے تسلیم کی..
دوسرے دن تمام قبائل کے سردار موقع پر پہنچے.. اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.. لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ "ھذا الأمین رضیناہ ھذا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم).. یہ امین ہیں , ہم ان پر راضی ہیں , یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں..''
ذرا سوچیں اور غور کریں کہ جس عزت اور شرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اور خون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکے تھے اُس عزت وشرف کے معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں !!
یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کندھے سے ردائے مبارک اتاری اور اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود اس کے اندر رکھا.. پھر فرمایا کہ تمام قبائل اپنی چار بڑی جماعتوں میں سے ایک ایک نمائندہ چُن لیں.. پہلی بڑی جماعت نے عتبہ بن ربیعہ , دوسری نے ابوزمعہ , تیسری نے ابوحذیفہ بن مغیرہ اور چوتھی جماعت نے قیس بن عدی کو اپنا نمائندہ منتخب کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چاروں سے کہا کہ چادر کا ایک ایک کونہ تھام لیں اور اٹھا کر دیوار تک لے چلیں جہاں اسے نصب کرنا ہے.. جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب کردیا..
یہ گویا اشارہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہاتھوں سے نصب ہوگا.. تمام بوڑھے اورتجربہ کار سردارانِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذہانت , قوتِ فیصلہ اور منصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں..
جب خانہ کعبہ تعمیر ہوگیا تو بُت پرست اہل مکہ نے اس کی آرائش و زیبائش بھی شروع کی.. کعبہ کی دیواروں پر عمارت کے اندر قسم قسم کی تصویریں بنائیں جن میں فرشتے بھی تھے اور مختلف انبیاء کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی تیروں سے فال دیکھتے دکھائے گئے.. نیز بی بی مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویریں بھی بنائی گئیں.. اس کے علاوہ کعبہ کے اطراف تین سو ساٹھ بُت بھی رکھے گئے جو تمام ہی قبائل کے تھے.. کعبہ کو اس طرح ایک ہمہ مذہبی "دیوستھان" بنا دینے سے قریش کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے..
بنو جرہم کی شہوت پرستی کو اتنا اُجاگر کیا گیا کہ خانۂ کعبہ کے مجرم بھی دیوتا بنا دئیے گئے.. مثال کے طور پر "نائیلہ بنت دیک" ایک حسین عورت تھی جو نیم عریاں لباس میں اپنے حُسن کی نمائش کرتی اور اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کرتی.. اسے دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے شیدائیوں کا ہجوم رہتا تھا.. اس کے شیدائیوں میں ایک نوجوان سردار "اساف بن بغی" بھی تھا.. دوران طواف ایک دن اساف بے خود ہوکر دست درازی سے بھی آگے بڑھ گیا.. بنو جرہم کے لوگ جو شراب پئے ہوئے اور بد مست تھے , کعبہ کی اس بے حرمتی پر احتجاج کرنے کے بجائے اساف اور نائیلہ کے حسن و عشق کی داستان فخر سے بیان کرنے لگے.. نہ صرف یہ بلکہ نائیلہ اور اساف کے مرنے کے بعد ان کے بت بنائے اور انہیں عشق و محبت کا مظہر قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے.. یہ بت چاہ زم زم کے کنارے نصب تھے..
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کی ان ذلیل حرکتوں کو دیکھتے تو بہت افسردہ اور غمگین ہوجاتے اور ان سے بچنے کے لئے کسی پہاڑ کے دامن میں وقت گذارا کرتے.. مکہ میں اس وقت چند اور سلیم الطبع افراد بھی تھے جنھیں قوم کی یہ حرکتیں پسند نہ تھیں.. وہ اس فکری ہم آہنگی کی بدولت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریک صحبت رہتے.. ان میں بنو تیم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سال چھوٹے تھے.. وہ بھی اپنی قوم کی ذہنی گراوٹ پر افسوس کرتے.. بعثت کے بعد ان لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا..
اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی قریش کے ایک معزز فرد تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ سال بڑے تھے لیکن فطری طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم آہنگ تھے.. فتح مکہ کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کا پیشہ طب اور جراحی تھا.. بعثت کے بعد قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون مشہور کردیا تو وہ آپ کے علاج کی خاطر ملنے کے لئے آئے.. ان کے پوچھنے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرمائی جنھیں سن کر وہ ایمان لائے..
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی بت پرستوں سے نفرت کرتے تھے.. مکہ کے دیگر ہم خیال حضرات میں حضرت عثمان بن عفان , زبیر بن عوام , عبدالرحمن بن عوف , سعد بن ابی وقاص , جعفر بن ابو طالب , عبیداللہ بن جحش اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں.. مکہ سے باہر بنی غفار کے سردار ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی ہم فکر تھے.. عرب کے باہر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایران سے تلاش حق میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا..
گو کہ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بُتوں کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ کبھی دیگر رسوم جاہلیت میں شرکت کی.. قریش نے اس بناء پر کہ خود کو عام لوگوں سے ممتاز رہنا چاہئیے , یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں اور یہ کہ جو لوگ باہر سے آئیں وہ قریش کا لباس اختیار کریں ورنہ ان کو عریاں ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ہوگا.. چنانچہ اسی بناء پر طواف عریاں کا عام رواج ہوگیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان باتوں میں کبھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا..
عہد جاہلیت میں عرب میں افسانہ گوئی کا عام رواج تھا.. راتوں کو لوگ تمام کاموں سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے.. ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا , داستان شروع کرتا تھا.. لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے.. بچپن میں ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا, دیکھنے کے لئے کھڑے ہو گئے.. وہیں نیند آگئی.. اٹھے تو صبح ہو چکی تھی.. ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا.. چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کا ارادہ کیا لیکن دونوں دفعہ ھی توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ اللہ کے نبی کی شان ان مشاغل سے بالاتر ہوتی ہے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا , آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے لیے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی.. حتیٰ کی لات وعزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا تاہم لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے.. مثلاً قریش جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے..
یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا تقاضا تھا لیکن ایک شریعت کبریٰ کی تاسیس کے لئے کچھ اور درکار تھا.. اسی زمانہ میں دیگر افراد (ورقہ , زید , عثمان بن حویرث) تلاش حق میں سرگرداں تھے.. ان کے دل میں خیال آیا کہ بتوں کے آگے سر جھکانا حماقت ہے چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لئے نکلے لیکن ناکامی ہوئی.. ورقہ اور عثمان عیسائی ہوگئے اور زید یہ کہتے کہتے مر گئے.. "اے خدا ! اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح سے پوجنا چاہیے تو میں اسی طریقے سے تجھ کو پوجتا..''
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی.. طبیعت تنہائی کی طرف مائل ہونے لگی.. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے مزاج کو سمجھتی تھیں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بے چین فطرت کی آسودگی کے لئے شہر اور ان کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں کی طرف نکل جانے لگے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اب تک کے تاملات نے قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کردیا تھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی واضح راستہ , معین طریقہ اور افراط وتفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ اطمینان وانشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے.. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی محبوب ہوگئی.. جوں جوں آپ کی عمر چالیس سال کے قریب ہوتی گئی ' تنہائی اورخلوت نشینی بڑھتی گئی..
مکہ سے تین میل دور واقع جبل حِرا ہے (جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں).. اس میں ایک غار "حرا" ہے.. حِرا کے لفظی معنی تلاش و جستجو کے ہیں.. اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا.. جس طرح بعض انبیائے ماسبق کی زندگی میں بعض پہاڑوں کی اہمیت ہے اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں دو پہاڑ یعنی جبل نور (حرا) اور جبل ثور کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے.. جبل حِرا کی اس لئے کہ بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور تحنّث اسی پہاڑ پر گزرا تھا اور غار ثور کی اس سبب سے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے جاتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن وہاں قیام فرمایا تھا.. سابق انبیا علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی ملاقات جبل ِ رحمت پر ہوئی تھی , حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری , صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام , حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام سے خاص نسبت ہے.. حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوہِ طور سے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوہِ زیتون سے خاص نسبت ہے..
غارِ حرا کو بڑی فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دور تحنّث یہیں گزارا اور یہیں حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی لے کر آئے.. یہ غار سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے.. غار مستطیل شکل کا ہے اور قدرتاً کعبہ رخ ہے.. اندر سے تقریباً چار گز لمبا , پونے دو گز چوڑا اور اتنا اونچا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر آسانی سے نماز ادا کر سکتا ہے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا جا کر مہینوں قیام کرتے اور مراقبہ فرماتے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے.. وہ ختم ہو جاتا تو گھر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے..
صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا میں تحنّث یعنی عبادت کیا کرتے تھے.. یہ عبادت کیا تھی..؟ شرح بخاری میں ہے "یہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کیا تھی..؟ جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری.. یہ وہی عبادت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلی کی تھی.. ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی , چاند نکلا ہوا تو اور بھی شبہ ہوا , آفتاب پر اس سے زیادہ ___ لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اُٹھے.. "میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا.. میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا.." (سورۃ لانعام : ۷۹)
غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کیفیت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کے بعد ہی سے شروع ہو چکی تھی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور تحنُّث پانچ سالوں پر محیط ہے..
پانچ برس کا زمانہ اسی شوقِ عبادت اور توجہ الی اللہ میں گزرا مگر آخری چھ مہینے میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمہ تن عبادت الہی اور غارِ حرا کی خلوت نشینی ہی میں مصروف رہے اور اسی چھ مہینے میں رویائے صادقہ کا سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا..
مستند روایات اور سوانح نگاروں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روحانی ترقیاتِ مدارج کے سلسلہ میں اولاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رویائے صادقہ (سچے خواب) پیش آنے لگے.. رویائے صادقہ کو نبوت کا ۴۶ واں حصہ کہا جاتا ہے.. بارہا ایسے خواب نظر آتے جن کی بعد میں جلد تعبیر نکل آتی.. چالیس سال ہونے کو آئے تو قدرت کی طرف سے وحی و الہام کے لئے تیار کیا جانے لگا اور رسولِ اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب العالمین نے چاہا کہ "رحمتہ للعالمین" بنا دے..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
No comments:
Post a Comment