find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 16

Hazrat Tufail razillahu anahu ka islam Qubool karna.

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 16...

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ یثرب کے اطراف میں سکونت پذیر تھے.. جب سوید بن صامت رضی اللہ عنہ اور ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ذریعے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو غالباً یہ خبر ابوذر کے کان سے بھی ٹکرائی اور یہی ان کے اسلام لانے کا سبب بنی.. ان کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے مروی ہے.. سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا..

"میں قبیلہ غفار کا ایک آدمی تھا.. مجھے معلوم ہوا کہ مکے میں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے.. میں نے اپنے بھائی سے کہا.. "تم اس آدمی کے پاس جاؤ.. اس سے بات کرو اور میرے پاس اس کی خبر لاؤ.." وہ گیا , ملاقات کی اور واپس آیا..

میں نے پوچھا.. "کیا خبر لائے ہو..؟" بو لا.. "اللہ کی قسم ! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے.."

میں نے کہا.. "تم نے تشفی بخش خبر نہیں دی.." آخر میں نے خود توشہ دان اور ڈنڈا اٹھایا اور مکہ کے لیے چل پڑا.. (وہاں پہنچ تو گیا ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتا نہ تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کسی سے پوچھوں.. چنانچہ میں زمزم کا پانی پیتا اور مسجد حرام میں پڑا رہتا..

آخر میرے پاس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا.. کہنے لگے.. "آدمی اجنبی معلوم ہوتا ہے.." میں نے کہا.. "جی ہاں.." انہوں نے کہا.. "اچھا تو گھر چلو.." میں ان کے ساتھ چل پڑا.. نہ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے نہ میں ان سے کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ انہیں کچھ بتا ہی رہا تھا..

صبح ہوئی تو میں اس ارادے سے پھر مسجد حرام گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق دریافت کروں لیکن کوئی نہ تھا جو مجھے آپ کے متعلق کچھ بتاتا.. آخر میرے پاس پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ گزرے.. (دیکھ کر) بولے.. "اس آدمی کو ابھی اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہوسکا..؟" میں نے کہا.. "نہیں.." انہوں نے کہا.. "اچھا تو میرے ساتھ چلو.."

اس کے بعد انہوں نے کہا.."اچھا تمہارا معاملہ کیا ہے اور تم کیوں اس شہر میں آئے ہو..؟"

میں نے کہا.. "آپ راز داری سے کام لیں تو بتاؤں.." انہوں نے کہا.. "ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا.."

میں نے کہا.. "مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کا نبی بتاتا ہے.. میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ بات کرکے آئے مگر اس نے پلٹ کر کوئی تشفی بخش بات نہ بتلائی.. اس لیے میں نے سوچا کہ خود ہی ملاقات کر لوں.."

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا.. "بھئی تم صحیح جگہ پر آئے ہو.. میں بھی ان ہی کی طرف جا رہا ہوں اس لئے تم بھی میرے ساتھ چلے آو.. اگر راستہ میں کوئی ایسا شخص ملے جس سے تمھیں کچھ خطرہ ہے تو میں اپنا جوتا ٹھیک کرنے کے بہانے دیوار کی طرف چلا جاؤں گا لیکن تم راستہ پر چلتے رہنا.."

اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ چلنے لگے تو میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا.. یہاں تک کہ وہ اندر داخل ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا داخل ہوا اور عرض پرداز ہوا کہ آپ مجھ پر اسلام پیش کریں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہوگیا..

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا.. "اے ابوذر ! اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ.. جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا.."

میں نے کہا.. "اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل اس کا اعلان کروں گا.."

اس کے بعد میں مسجد الحرام آیا.. قریش موجود تھے.. میں نے کہا.. "قریش کے لوگو ! أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ___ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں..''

لوگوں نے کہا.. "اٹھو , اس بے دین کی خبر لو.." لوگ اٹھ پڑے.. مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجاؤں لیکن حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے آ بچایا.. انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا , پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے.. "تمہاری بربادی ہو.. تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہو..؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہوکر جاتی ہے.." اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے..

دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جو کچھ کل کہا تھا آج پھر کہا.. اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوچکا تھا اور آج بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی نے مجھے آ بچایا.."

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ یمن کے قبیلہ "دوس" کے سردار اور نہائت اعلی سوجھ بوجھ کے مالک اور شاعر تھے.. ان کے قبیلے کو نواح یمن میں امارت حاصل تھی.. وہ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے.. پھر ان سے عرض پرداز ہوئے.. "اے طفیل ! آپ ہمارے شہر تشریف لائے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے , اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے.. ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے.. اس کی بات جادو کا سا اثر رکھتی ہے کہ آدمی اور اس کے باپ کے درمیان اور آدمی اس کے بھائی کے درمیان اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے.. ہمیں ڈر لگتا ہے کہ جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے.. لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں.."

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے.. یہاں تک کہ میں تہیہ نے کرلیا کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی چیز سنوں گا نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت کروں گا.. حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے..

لیکن اللہ کو منظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے.. چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا.. پھر میں نے اپنے جی میں کہا.. "ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں ! میں تو واللہ ! ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں.. مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا.. پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں..؟ اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا , بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا.."

یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت , پھر کان میں روئی ٹھونسنے اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں.. پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی..

اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی.. چنانچہ میں نے وہیں اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے.. میں ان کے پاس پلٹ کر جاؤں گا اور انہیں اسلام کی دعوت دوں گا.. لہٰذا آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی..

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی.. انہوں نے کہا.. "یا اللہ ! چہرے کے بجائے کسی اور جگہ (یہ نشانی عطا فرما).. مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے.."

چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی.. پھر انہوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوں مسلمان ہوگئے لیکن قبیلہ والوں نے ان کی بات نہ سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ ان کے لئے بددعا فرمائیے..

لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بجائے بددعا کے یہ دعا کی.. "اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے.." حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا اور غزوہ ٔ طائف کے موقع پر پورا قبیلہ دوس حاضر تھا.. ان ہی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کی قسمت میں امام المحدثین بننا تھا..

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک مدینہ میں رہے اور 11 ہجری میں مسیلمہ کذّاب کے خلاف لڑتے ہوئے یمامہ میں شہید ہوئے..

یثرب کی. چھ سعادت مند. روحیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ قبائل کا دورہ فرماتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے اور ہر سال منیٰ , عکاظ , مجنٰہ وغیرہ کے میلوں میں قبائل عرب کو دعوت دیتے.. حج کا زمانہ آیا تو قافلوں کے قافلے منیٰ کی وادی میں پڑاؤ ڈالنے لگے.. اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس کے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے..

اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اور مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ کی گھاٹی میں پہنچے.. بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی.. انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا..

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا.. آپ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جا پہنچے.. یہ یثرب کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے..

یہ اہل یثرب کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا.. ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں "عادِ ارَم" کی طرح قتل کر ڈالیں گے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے دریافت کیا.. "آپ کون لوگ ہیں..؟" انھوں نے کہا کہ یثرب سے آئے ہیں اور بنو خزرج سے تعلق ہے.. پھر آپ نے پوچھا.. "کیا یہودیوں کے حلیف ہو..؟" عرض کیا کہ ہاں.. آپ نے فرمایا.. "کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں..؟"

وہ لوگ بیٹھ گئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی.. انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کا یثرب کے یہودی تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ دیکھو یہود ہم سے اس اولیت میں بازی نہ لے جائیں ___ یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا.. ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں..

1.. حضرت ابو امامہ اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ.. خزرج کی شاخ بنی مالک بن نجّار سے تعلق تھا.. صحابہ میں سب سے پہلے ان ہی نے 1 ھ میں وفات پائی..

2.. حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ رضی اللہ عنہ.. بنی نجّار سے تعلق تھا اور "ابن عفراء" کہلاتے تھے.. بدر میں وفات پائی..

3.. حضرت رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ.. بنی زریق کے معزز شخص تھے.. اس وقت تک جس قدر قرآن اتر چکا تھا , حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عنایت فرمایا.. اُحد میں شہید ہوئے..

4.. حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ رضی اللہ عنہ.. بنی سلمہ سے تعلق تھا..

5.. حضرت عقبہ بن عامر بن نابی رضی اللہ عنہ.. بنی خزام بن کعب سے تھے..

6.. حضرت جابر بن عبداللہ رُباب رضی اللہ عنہ.. بنی عبید بن عدی سے تھے..

ان افراد کا شمار دانشوران یثرب میں ہوتا تھا.. انھیں اندازا تھا کہ حال ہی میں اوس اور خزرج میں جو جنگ ہوئی تھی اس نے بڑی حد تک معاشرے کو پیس کر رکھ دیا تھا اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مزید ایسی کوئی جنگ ہو.. اس لئے انھوں نے یہ توقع قائم کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت جنگ کے خاتمہ کا ذریعہ ثابت ہوگی..

چنانچہ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت اور دشمنی نہیں پائی جاتی.. ہمیں توقع ہے کہ آپ کی دعوت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ ان میں یکجہتی پیدا کرے گا اور یہ کہ موجودہ حالات آپ کی تشریف آوری کے لئے سازگار نہیں.. ہم یثرب جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آپ کی دعوت کی طرف بلا کر ان کے سامنے دین اسلام پیش کریں گے اور آئندہ سال پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے..

اس کے بعد وہ لوگ یثرب واپس ہوئے اور ان کے ذریعہ گھر گھر اسلام کا چرچہ ہونے لگا..

اِسراء معراج کا واقعہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت وتبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم وستم کے اس درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کی دور دراز پہنائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی پڑنا شروع ہوچکی تھی کہ اِسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا.. یہ معراج کب واقع ہوئی..؟ اس بارے میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں البتہ سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے..

واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے تھے کہ دو فرشتے جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام آئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں صفا و مروہ کے درمیان لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا.. وہ گدھے سے بڑا لیکن خچر سے کچھ چھوٹا سفید رنگ کا بہشتی جانور تھا.. ران پر دو پر تھے اور زین بندھی تھی.. اس جنتی بُرّاق کا نام جارود تھا.. جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کروایا اور روانہ ہوئے.. دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں.. راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے.. جبرئیل علیہ السلام نے کہا.. "یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دارالہجرت ہے.." یہاں اتر کر آپ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی.. پھر جبرئیل علیہ السلام نے طور سینا پر براق کو روکا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی.. آپ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بارے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے.. وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی.. وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی.. وہاں آپ براق سے اترے.. استقبال کے لئے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی..

مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء آپ کے منتظر تھے.. وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی.. حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی مقتدیوں میں تھے.. یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو "اسرا ء" بھی کہا جاتا ہے.. اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے..

وہاں سے جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں.. وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی جس کے ذریعے اسی رات آپ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دروازہ کھولا گیا.. آپ نے وہاں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا.. انہوں نے آپ کو مرحبا کہا.. سلام کا جواب دیا اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا.. اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں..

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا.. آپ نے وہاں حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا.. دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا.. دونوں نے سلام کا جواب دیا , مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا..

پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا..

پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مرحبا کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا..

پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا مبارک باد دی اور اقرار نبوت کیا..

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مرحبا کہا اور اقرار نبوت کیا.. البتہ جب آپ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے.. ان سے کہا گیا.. "آپ کیوں رورہے ہیں..؟" انہوں نے کہا.. "میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا , اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے.."

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی.. آپ نے انہیں سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا..

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت المعمور دکھلایاگیا جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کے عین اوپر واقع ہے.. وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کر رہے تھے..

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا.. سدرہ ایک بیری کا درخت ہے.. اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے.. فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے.. اس پر سونے کے پتنگے , روشنی اور مختلف رنگ چھائے ہوئے تھے.. سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے.. اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے.. یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے.. اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں داخل ہوئے.. حضرت جبرائیل علیہ السلام سدرہ سے کچھ آگے رُک گئے اور عرض کیا کہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں.. اب آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے..

اسکے بعد اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا.. اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے , یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ کو کس چیز کا حکم دیا ہے..؟ آپ نے فرمایا.. "پچاس نمازوں کا.."

انہوں نے کہا.. "آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی.. اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے.."

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا.. گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں.. انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں , اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں.. اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور لے گئے.. اللہ عزوجل نے دس نمازیں کم کردیں اور آپ نیچے لائے گئے.. جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی.. انہوں نے پھر کہا.. "آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے.." اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت برابر جاری رہی.. یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں.. اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو واپسی اور طلب تخفیف کا مشورہ دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے.. میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں.."

امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں..؟ پھر امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دو قول منقول ہیں , ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان کی اپنی شکل میں دیکھا.. انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اپنی شکل میں دو مرتبہ دیکھا تھا.. ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ یہاں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس.. واللہ اعلم..

بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سفر کے دوران کئی چیزیں دکھلائی گئیں..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دودھ اور شراب پیش کی گئی تو آپ نے دودھ اختیار فرمایا.. اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ کو فطرت کی راہ بتائی گئی یا آپ نے فطرت پالی اور یاد رکھئے کہ اگر آپ نے شراب لی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت گمراہ ہوجاتی..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں چار نہریں دیکھیں.. دو ظاہری اور دو باطنی.. ظاہری نہریں نیل و فرات تھیں اور باطنی نہریں جنت کی دو نہریں ہیں.. (نیل و فرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نیل و فرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی.. واللہ اعلم)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "مالک" داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا.. وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی.. آپ نے جنت وجہنم بھی دیکھی..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں.. ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود خوروں کو بھی دیکھا.. ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کرنے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زنا کاروں کو بھی دیکھا.. ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا.. یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں.. (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا.. آپ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا.. اس وقت قافلہ سو رہا تھا.. پھر آپ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی..

جاری ھے....

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS