Jab Badshah Nazashi Ne Musalmano se kalma padhne ko kaha.
Jab Musalmano me Nazashi ko sajda nahi kiya?
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 12...
دوسرے دن مسلمان حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا ترجمان بنا کر نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے.. مسلمان یہ تہیہ کرکے اس کے دربار میں آئے کہ ہم سچ ہی بولیں گے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو.. اندر داخل ہونے سے قبل انھوں نے آواز دی.. "بادشاہ سلامت ! اللہ والوں کا گروہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے.."
نجاشی نے یہ آواز سن کر دربان سے کہلوایا کہ ان کلمات کو پھر سے دہرائیں.. مسلمانوں نے ان کلمات کو دہرایا تو نجاشی نے جواب میں کہا.. "اللہ کے حکم سے داخل ہوجاؤ کہ تم اس کی ہی حفاظت میں ہو.."
مسلمان "السلام علیکم" کہتے ہوئے دربار میں داخل ہوئے لیکن نجاشی کو سجدہ نہیں کیا تو امراء نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی.. مسلمانوں نے جوابا" کہا کہ ہم اللہ کے سِوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے.. اس کے بعد نجاشی نے کفّار قریش سے کچھ سوالات کئے..
عمرو بن العاص نے عرض کیا.. "اے بادشاہ ! ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر تھے.. "انھوں نے اسے چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کیا ہے.."
نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا.. "یہ کونسا دین ہے جس کی بنیاد پر تم نے اپنی قوم سے علٰیحدگی اختیار کرلی ہے لیکن میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہو اور نہ ان ملتوں ہی میں سے کسی کے دین میں داخل ہوئے ہو..؟"
انھوں نے جواب دیا.. "ہم نے اپنے آبا و اجداد کے بُت پرستی کے دین کو چھوڑ کر دین اسلام کو اختیار کر لیا ہے جسے ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا ہے جن پر بذریعہ وحی اللہ کے احکام نازل ہو رہے ہیں.."
یہ سن کر نجاشی نے دربار میں راہبوں , مذہبی پیشواؤں اور علماء کو جمع کرکے ان سے پوچھا.. "کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روزِ قیامت کے درمیان کوئی اور نبی آئے گا..؟"
انھوں نے کہا.. "قسم ہے اللہ کی ! ایک رسول ضرور آئے گا جس کی آمد کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے اور فرمایا کہ جو اس رسول پر ایمان لائے گا وہ مجھ پر ایمان لائے گا اور جو ان کے ساتھ کفر کرے گا وہ مجھ سے کفر کرے گا.."
یہ سن کر نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے پوچھا.. "مجھے بتاؤ کہ وہ کس بات کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے..؟"
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عرب جاہلیت کی حالت اور اسلامی تعلیمات کا بہترین خلاصہ پیش کیا جسے اہلِ بلاغت نے "ابلغ الخطبات" کا نام دیا ہے.. حضرت جعفر نے کہا..
"اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے.. بتوں کو پوجتے تھے , مردار کھاتے تھے , بدکاریاں کرتے تھے , ہمسایوں کو ستاتے تھے , بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا , قوی لوگ کمزوروں کو کھا جاتے تھے..
ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے ہی واقف تھے.. اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں , سچ بولیں , خونریزی سے باز آئیں , یتیموں کا مال نہ کھائیں , ہمسایوں کو چین سے رہنے دیں , عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں , نماز پڑھیں , روزے رکھیں , زکوٰۃ دیں , صرف ایک خدا کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں..
ہم اس پر ایمان لائے , شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام بُرے کاموں سے باز آئے.. اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ اُسی گمراہی میں پھر واپس آجائیں.. آخر ہم مجبور ہوکر آپ کے ملک میں نکل آئے.. دوسروں کے بجائے آپ کے پاس آنا پسند کیا اس امید پر کہ اے بادشاہ ! یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا.."
نجاشی نے کہا.. "جو کلام الہٰی تمہارے پیغمبر پر اترا ہے اس کا کچھ حصہ سناؤ.."
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی چند آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی جسے سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی اور آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہو گئی.. پھر کہا.. "خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں.."
یہ کہہ کر نجاشی نے سفرائے قریش سے کہا.. "تم واپس چلے جاؤ.. میں ان مظلوموں کو ہرگز ہرگز تمہارے حوالے نہ کروں گا.." مسلمان مہاجروں سے مخاطب ہو کر بولا.. 'جاؤ ! میری مملکت میں امن کے ساتھ زندگی بسر کرو.." پھر تین بار کہا.. "اگر تمہیں کوئی گالی بھی دے گا تو اس پر تاوان لگے گا.."
یہ سنتے ہی قریش کے دونوں سفراء بڑے بے آبرو ہو کر دربار سے نکل گئے لیکن پھر عمرو بن عاص نے عبداللہ بن ربیعہ سے کہا.. "اللہ کی قسم ! کل ان کے متعلق ایسی بات لاؤں گا کہ ان کی ہریالی کی جڑ کاٹ کر رکھ دوں گا.." عبد اللہ بن ربیعہ نے کہا.. "نہیں ! ایسا نہ کرنا.. ان لوگوں نے اگرچہ ہمارے خلاف کیا ہے لیکن ہیں بہرحال ہمارے اپنے ہی کنبے قبیلے کے لوگ.." مگر عَمرو بن عاص اپنی رائے پر اَڑے رہے..
دوسرے دن عمرو بن العاص نے دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے عرض کیا.. "حضور ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہیں..؟"
نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا.. تمام راہب اور علماء بھی دربار میں بلائے گئے.. مسلمانوں کو تردد ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی ناراض ہو جائے گا , اس لئے کہ وہ عیسائی ہے.. مسلمانوں کو گھبراہٹ ہوئی لیکن انہوں نے طے کیا کہ سچ ہی بولیں گے , نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو..
نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے پوچھا.. "عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں تم لوگوں کا کیا عقیدہ ہے..؟"
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "ہم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں.. یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے , اس کے رسول , اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاکدامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا.."
یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا.. "واللہ ! جو تم نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں.."
پادری اور راہب جو دربار میں موجود تھے نہایت برہم ہوئے.. ان کے نتھنوں سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی.. نجاشی نے ان کے غصہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کے سفیر ناکام نکل آئے.. نجاشی نے حکم دیا کہ قریش کے وفد کے تمام تحائف واپس کردئے جائیں اور وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں..
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے اس واقعے کو بیان کیا ہے , فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم لوگ وہاں بہترین ملک میں بہترین پڑوسی کے ساتھ مقیم رہے..
جب مشرکین اپنی چال میں کامیاب نہ ہوسکے اور مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے کی کوشش میں منہ کی کھانی پڑی تو آپے سے باہر ہوگئے اور لگتا تھا کہ غیظ وغضب سے پھٹ پڑیں گے.. چنانچہ ان کی درندگی اور بڑھ گئی.. جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اب مکہ میں جو مسلمان بچے کھچے رہ گئے تھے وہ بہت ہی تھوڑے تھے اور پھر صاحب شرف وعزت بھی تھے یا کسی بڑے شخص کی پناہ میں تھے.. اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے بھی تھے اور حتی الامکان سرکشوں اور ظالموں کی نگاہوں سے دور رہتے تھے مگر اس احتیاط اور بچاؤ کے باوجود بھی وہ ظلم وجور اور ایذاء رسانی سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکے..
مکہ کی فضا ظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے.. ان کے اسلام لانے کا واقعہ 6 نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے..
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص محبت تھی.. وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو تین سال بڑے تھے اور ساتھ کے کھیلے تھے.. دونوں نے ثویبہ رضی اللہ عنہا کا دودھ پیا تھا اور اس رشتہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی تھے.. وہ ابھی تک اسلام قبول نہیں کئے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے..
ان کا مذاقِ طبیعت شکار اور سپاہ گری تھا.. ان کا معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لے کر نکل جاتے اور دن بھر کے شکار کے بعد شام میں واپس ہوتے تو پہلے حرم میں جاتے اور طواف کے بعد قریش کے سرداروں کے پاس جاتے جو صحنِ حرم میں بیٹھا کرتے تھے.. اس طرح سب سے ان کی دوستی تھی اور سب ان کی قدر کرتے تھے..
ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا کی پہاڑی پر سے گزر رہے تھے کہ ابوجہل کا سامنا ہوا.. وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ازلی دشمن تھا.. اس نے آپ کو تنہا دیکھ کر گالیاں دیں اور سخت بدکلامی کی.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر ایک پتھر دے مارا جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا.. پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا..
دور سے "عبداللہ بن جدعان" کی آزاد کردہ کنیز کوہ صفاء پر واقع اپنے مکان سے یہ سب دیکھ رہی تھی.. جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے واپس ہوئے تو اس کنیز نے سارا ماجرا سنایا.. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصے سے بھڑک اٹھے..
یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے.. ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور مشتعل ہو کر ابوجہل کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ وہ مسجد حرام میں بنی مخزوم کے حلقہ میں بیٹھا ہے.. سیدھے وہیں پہنچے اور کہا.. "تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے ؟ (تیری اتنی جرآت ؟.. لو) میں بھی اسی کے دین پر ہوں.. (اب مجھے بھی گالی دے کر دکھاو).. اس کے بعد کمان اس کے سر پر اس زور کی ماری کہ اس کے سر پر زخم آگیا..
اس پر ابوجہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کردیا کہ ابوعمارہ کو جانے دو.. میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بری گالی دی تھی..
ابتدا میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت میں انھوں نے اسلام کا اظہار تو کردیا لیکن گھر پر آئے تو متردد تھے کہ آبائی دین کو دفعتا" کیوں کر چھوڑ دوں.. تمام دن کی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دین حق یہی ہے.. اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں "دار ِارقم" میں حاضر ہوئے اور کہا.. "برادر زادے ! خوش ہو جاؤ کہ میں نے ابوجہل سے آپ کا بدلہ لے لیا ہے.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "چچا ! میں تو اس وقت خوش ہوتا جب آپ دینِ اسلام قبول کر لیتے.."
یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا.. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد قریش نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت کے ساتھ حفاظت و حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانا چھوڑ دیا..
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں عتبہ کو قتل کیا.. 3 ہجری میں غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدالشہدأ کا خطاب دیا.. اسداللہ ان کا لقب تھا..
دار ِارقم..
_______
کعبہ کے مقابل کوہِ صفا پر واقع حضرت ارقم بن ابی الارقم مخزومی رضی اللہ عنہ کے مکان کو اسلام کے پہلے مرکز کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی.. یہ مکان سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور کوہ صفا کے دامن میں الگ تھلگ واقع تھا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ خفیہ طور پر جمع ہوں.. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں اطمینان سے بیٹھ کر مسلمانوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرماتے , ان کا تزکیہ کرتے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتے.. مسلمان بھی امن وسلامتی کے ساتھ اپنی عبادت اور اپنے دینی اعمال انجام دیتے اور اللہ کی نازل کی ہوئی وحی سیکھتے.. جو آدمی اسلام لانا چاہتا , یہاں آکر خاموشی سے مسلمان ہوجاتا اور ظلم وانتقام پر اترے ہوئے سرکشوں کو اس کی خبر نہ ہوتی.. روزانہ کوئی نہ کوئی شخص آتا اور اسلام قبول کرتا.. اس طرح ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 38 ہو گئی..
دار ارقم میں ایمان لانے والے 39 ویں صحابی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے.. یہیں پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی آ کر اسلام قبول کیا.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ چالیسویں صحابی تھے.. ان کے قبول اسلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اگلی قسط میں بیان کیا جائے گا..
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام....
حضرت عمر رضی الله عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ 6 نبوی کا ہے.. وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے.. قریش کے سربر آوردہ اشخاص میں ابوجہل اور حضرت عمر رضی الله عنہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لئے اسلام کی دعا فرمائی..
اعزالاسلام باحدالرجلین اما ابن ہشام واماعمر بن الخطاب..
"اے اللہ ! اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) سے معزز کر.."
(جامع ترمذی , مناقب عمر)
اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا..
اَ لّٰھُمَّ اَعِزَّ الاِسلاَمِ بِاَحَبِّ الَّجُلَینِ اِلَیکَ بعمر بن الخطاب اَو بِاَبِی جہل بن ہشام
"اے اللہ ! عمر بن الخطاب (رضی الله عنہ) اور ابوجہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوّت پہنچا.."
مگر یہ دولت تو قسام ازل نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی , ابوجہل کے حصہ میں کیونکر آتی..؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا یعنی حضرت عمر رضی الله عنہ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا..
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ"
تاریخ و سیر کی کتابوں میں حضرت عمر کی تفصیلات اسلام میں اختلاف ہے.. ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں , یہ ہے..
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت حضرت عمر رضی الله عنہ کی عمر ستائیس سال تھی.. حضرت عمر رضی الله عنہ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے.. مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں..
حضرت عمر رضی الله عنہ کی بہن فاطمہ رضی الله عنہا کا نکاح حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ سے ہوا تھا جو اسلام قبول کر چکے تھے.. حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بھی اسلام قبول کر چکی تھیں لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے.. قبیلہ کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے حضرت عمر رضی الله عنہ ان کے دشمن ہو گئے.. لبینہ رضی الله عنہا ان کے خاندان کی کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا.. اس کو بے تحاشہ مارتے.. مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ"دم لے لوں تو پھر ماروں گا".. لبینہ رضی الله عنہا کے علاوہ اور جس جس پر قابو چلتا اس کو خوب مارتے تھے لیکن ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے دل بر داشتہ نہ کرسکے.. آخر مجبور ہو کر (نعوذ باللہ) خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار حمائل کرکے سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کی طرف چلے..
راستہ میں بنی زہرہ کے نعیم بن عبداللہ النّحام رضی الله عنہ سے ملاقات ہوئی.. پوچھا.. "کدھر کا ارادہ ہے..؟" جواب دیا کہ "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں.." انھوں نے کہا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے..؟"
حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا.. "معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو.."
نعیم بن عبداللہ رضی الله عنہ نے کہا.. "عمر ! ایک عجیب بات نہ بتا دوں..؟ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر "بے دین" ہوچکے ہیں.. پہلے اپنے گھر کی خبر لو.."
یہ سن کے غصے سے بے قابو ہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا.. وہاں انہیں حضرت خباب بن ارت رضی الله عنہ سورۂ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب رضی الله عنہ کا معمول تھا.. بات یہ تھی کہ جب کوئی محتاج شخص مسلمان ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے کسی آسودہ حال صحابی کے سپرد کر دیتے تاکہ اس کی ضروریات کی کفالت کرے.. اُم انمار کے غلام حضرت خبّاب بن ارت رضی الله عنہ ایمان لائے تو انہیں حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کے سپرد کیا گیا.. یہ دونوں حضرت خبّاب بن ارت رضی الله عنہ ہی سے قرآن سیکھ رہے تھے..
جب حضرت خباب رضی الله عنہنے حضرت عمر رضی الله عنہ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے.. ادھر حضرت عمر رضی الله عنہ کی بہن فاطمہ رضی الله عنہا نے صحیفہ چھپا دیا لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب رضی الله عنہ کی قراءت سن چکے تھے.. چنانچہ پوچھا.. "یہ کیسی دھیمی دھیمی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی..؟"
انہوں نے کہا.. "کچھ بھی نہیں.. بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے.."
حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا.. "غالبا" تم دونوں بے دین ہوچکے ہو.."
بہنوئی نے کہا.. "اچھا عمر ! یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اور دین میں ہو تو..؟"
حضرت عمر رضی الله عنہ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا.. ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلود ہوگیا..
بہن نے جوش غضب میں کہا.. "عمر ! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو..؟ أشھد أن لا الٰہ الا اللہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.."
یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی.. کہنے لگے.. "اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو.."
بہن نے کہا.. "تم ناپاک ہو.. اس کتا ب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں.. اٹھو غسل کرو.." حضرت عمر رضی الله عنہ نے اٹھ کر غسل کیا.. پھر کتاب لی اور پڑھی.. کہنے لگے.. "یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں.." اس کے بعد سے (۲۰: ۱۴) تک قراءت کی.. کہنے لگے.. "یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے.. مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پتہ بتاؤ.."
حضرت خباب رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آگئے.. کہنے لگے.. "عمر ! خوش ہو جاؤ.. مجھے امید ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی (کہ اے اللہ ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ صفا کے پاس حضرت ارقم کے مکان میں تشریف فرما ہیں.."
یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی.. ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں.. لپک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے..
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے پوچھا.. "کیا بات ہے..؟"
لوگوں نے کہا.. "عمر ہیں.."
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے کہا.. "بس ! عمر ہے.. دروازہ کھول دو.. اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو بہتر ہے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا..
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف فرما تھے.. آپ پر وحی نازل ہورہی تھی.. وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس تشریف لائے.. بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا.. "عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے..؟"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرجلال آواز نے ان کو کپکپا دیا.. نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا.. "ایمان لانے کے لئے.." اور فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں..
یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی , ابویعلیٰ , حاکم اور بیہقی میں حضرت انس سے مروی ہے..
ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے جو گو ایک تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے.. حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھیڑنے نکلا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہوگئے اور نماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ الحاق تلاوت فرمائی.. میں کھڑا سنتا رہا اور قرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا.. دل میں کہا.. "جیسا قریش کہا کرتے ہیں خدا کی قسم ! یہ شاعر ہے.." ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی..
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ O وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ O قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O
"یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں.. تم بہت کم ایمان رکھتے ہو.."
میں نے کہا.. "یہ تو کاہن ہے.. میرے دل کی بات جان گیا ہے.." اس کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی..
وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ O قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ O
"یہ کاہن کا کلام بھی نہیں.. تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو.. یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے.."
آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا.. (مسند ابن حنبل , ج۱ : ۱۷)
اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی الله عنہ کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندر سے آواز آئی.. "اے جلیج ! ایک فصیح البیان کہتا ہے O لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ O اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی.. اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں..
اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا حضرت عمر رضی الله عنہ پر کیا اثر ہوا..
پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اور نبوت کا کوئی ذکر نہ تھا.. تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لئے ادھر میلان ہوا ہوگا لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا , اس لئے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہوسکی..
اس کے بعد جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اور حشر ونشر کا نہایت موثر بیان ہے , نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے.. "وقع الاسلام فی قلبی کل موقع O یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا" تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لئے انہوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور در اقدس پر حاضری کی درخواست کی..
اور اگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اور مخفی رہی تھی اس لئے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہوسکا اور مخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جانے اور قرآن سننے کا موقع نہ ملا.. پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی.. بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہوگئے..
حضرت عمر رضی الله عنہ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا.. اس لیے ان کے مسلمانوں ہوجانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت ورسوائی محسوس ہوئی.. دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت وقوت , شرف واعزاز اور مسرت وشادمانی حاصل ہوئی..
ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکے کا کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے.. پھر میں نے جی ہی جی میں کہا 'یہ ابو جہل ہے'.. اس کے بعد میں نے اس کے گھر جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا.. وہ باہر آیا.. دیکھ کر بولا.. "أھلًا وسھلًا (خوش آمدید , خوش آمدید) ___ کیسے آنا ہوا..؟"
میں نے کہا.. "تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاچکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کرچکا ہوں.."
حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی ) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا.. "اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کا بھی برا کرے.."
امام ابن جوزی نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہو جاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے , اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا.. اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاص بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی.. وہ گھر کے اندر گھس گیا.. پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا (شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے) اور اسے خبر دی.. وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا..
ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے.. یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا.. حضرت عمر نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں.. اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ "خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے"
حضرت عمر رضی الله عنہ اس کے پیچھے ہی تھے.. بولے.. "یہ جھوٹ کہتا ہے.. میں مسلمان ہوگیا ہوں.." بہر حال لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہوگئی.. لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر رضی الله عنہ لوگوں کو مار رہے تھے.. یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ تھک کر بیٹھ گئے.. لوگ سر پر سوار تھے.. حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا.. "جو بن پڑے کرلو.. اللہ کی قسم ! اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکے میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے.."
حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی.. باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجاہد نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی الله عنہ سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا تو انہوں نے کہا.. "مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہ رضی الله عنہ مسلمان ہوئے.." پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے اخیر میں کہا کہ "پھر جب میں مسلمان ہوا تو میں نے کہا.. "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں.. خواہ زندہ رہیں , خواہ مریں..؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیوں نہیں.. اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ حق پر ہو.. خواہ زندہ رہو , خواہ موت سے دوچار ہو.."
حضرت عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا.. "پھر چھپنا کیسا..؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! ہم ضرور باہر نکلیں گے.."
چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے.. ایک صف میں حمزہ رضی الله عنہ تھے اور ایک میں ' میں تھا.. ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا.. یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے.. حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی.. اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا لقب "فاروق" رکھ دیا.."
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا.. اس کی علانیہ دعوت دی گئی.. ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے , بیت اللہ کا طواف کیا اور جس نے ہم پر سختی کی اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا..
حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے.. یہاں تک کہ حضرت عمر نے اسلام قبول کیا.. جب سے حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسلام قبول کیا تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے..
===========>جاری ھے..
No comments:
Post a Comment