Apne Qaum ko Deen ki Dawat de aur Batil ko khubsurati ke sath byan karein.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 10...
جب مومنین کی ایک جماعت اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ اٹھا سکتی تھی تو وحی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکلف کیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دعوت دیں اور ان کے باطل کا خوبصورتی کے ساتھ رد کریں.. اس کے بعد سورہ شعراء کی آیت ۲۱۴ اور ۲۱۵ نازل ہوئیں..
"اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرایئے اور جو مؤمن آپ کے پیچھے چلیں اُن کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکادیں.."
(سورہ شعراء , ۲۱۴، ۲۱۵)
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا.. "اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے سامنے اپنی دعوت پیش کروں.. اس لئے ایک دعوت کا اہتمام کرو اور بنی عبد المطلب کو اس میں شرکت کے لئے بلا بھیجو.."
چنانچہ تقریباً چالیس پینتالیس اہل خاندان جمع ہوئے.. بعد طعام ابولہب نے بات لپک لی اور بولا.. "دیکھو ! یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں.. بات کرو لیکن نادانی چھوڑدو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑلوں.. پس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے اور اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں.. پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے باپ کے خانوادے کے لیے تم سے بڑھ کر شر (اور تباہی) کا باعث ہوگا.."
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی.. ابولہب کے کہنے پر سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنے بغیر ہی منتشر ہو گئے.. چنانچہ دوسرے دن پھر ضیافت کی گئی.. کھانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا..
"اے بنی عبدالمطلب ! مجھے کسی ایسے عرب جوان کا علم نہیں جو اپنی قوم کے لئے میری لائی ہوئی دعوت سے بہتر دعوت لایا ہو.. یہ دین حق کی دعوت ہے.. ساری حمد اللہ کے لیے ہے.. میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں.. اس پر ایمان رکھتا ہوں , اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں.. وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.." پھر آپ نے فرمایا.. "رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا.. اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! میں تمہاری طرف خصوصا" اور لوگوں کی طرف عموما" اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں.. واللہ ! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سو جاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو.. پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا.. اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم.."
اس پر حضرت ابو طالب نے کہا.. "(نہ پوچھو ) ہمیں تمہاری معاونت کس قدر پسند ہے.. تمہاری نصیحت کس قدر قابلِ قبول ہے اور ہم تمہاری بات کس قدر سچی جانتے اور مانتے ہیں اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں.. فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری پسند کی تکمیل کے لیے ان سب سے پیش پیش ہوں.. لہٰذا تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو.. واللہ ! میں تمہاری مسلسل حفاظت واعانت کرتا رہوں گا البتہ میری طبیعت عبدالمطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں.."
ابو لہب نے کہا.. "اللہ کی قسم ! برائی ہے.. اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو.."
اس پر حضرت ابوطالب نے کہا.. "اللہ کی قسم ! جب تک جان میں جان ہے ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے.."
دفعۃ" حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر کہا.. "گو مجھ کو آشوب چشم ہے , گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور میں سب سے نوعمر ہوں تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دوں گا.." (طبری , جلد ۳)
اس کے بعد سورہ حجر کی آیت ۹۴ کے ذریعہ علانیہ تبلیغ کا حکم نازل ہوا..
"پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا جارہا ہے , کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے.." (سورہ حجر , ۹۴).
خاندان عبدالمطلب کو دین حق کی دعوت دینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اعلانیہ تبلیغ کا حکم مل گیا تو ایک روز آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور پکارا..
"یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ ! (ہائے صبح کا خطرہ ! ہائے صبح کا خطرہ !)"
یہ نعرہ شدید خطرہ کے وقت لگایا جاتا تھا.. عربوں کا دستور تھا کہ وہ شب خون نہیں مارا کرتے تھے بلکہ شب خون کے لئے صبح کا وقت مقرر تھا.. اسی لئے رات میں ہتھیار کھول دیتے تھے.. یہ نعرہ لگانے کا مطلب صبح کا حملہ سمجھا جاتا تھا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ نعرہ لگایا تو سب لوگ تیزی سے جمع ہوئے.. ان میں ابولہب بھی تھا..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آ رہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم کو یقین آئے گا..؟"
سب نے کہا.. "ہاں ! کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سے سچ بولتے دیکھا ہے.. ہم نے آپ پر کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا.."
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں.. میری اور تمہاری مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے دشمن کو دیکھا.. پھر اس نے کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنے خاندان والوں پر نظر ڈالی تو اسے اندیشہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے پہنچ جائے گا لہٰذا اس نے وہیں سے پکار لگانی شروع کردی.. "یا صبا حاہ !"
قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ سے خرید لو , جہنم سے بچالو.. میں تمہارے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا , نہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں..
بنو کعب بن لؤی ! بنو مرہ بن کعب ! بنو قصی ! بنو عبد مناف ! بنو عبد شمس ! بنو ہاشم ! بنو عبد المطلب ! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو کیونکہ میں تمہارے نفع ونقصان مالک نہیں اورنہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں.. میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو مگر میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا..
تم سب لَا اِلٰہ اِ لاَّ اللہ کے قائل ہو جاؤ ورنہ تم پر شدید عذاب نازل ہوگا.. "
یہ سن کر سب لوگ جن میں آپ کا چچا ابو لہب بھی شامل تھا , سخت برہم ہوئے اور واپس چلے گئے.. ابولہب نے یہ گستاخی کی کہ غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنے کے لئے پتھرا ٹھایا اور بدتمیزی کی.. کہنے لگا.. "تو سارے دن غارت ہو.. تونے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا.." اس پر سورۂ تبت یدا أبی لہب نازل ہوئی..
ابولہب کی بیوی "ارویٰ یا حمنہ بنت حرب" جو اُم جمیل کی کنیت سے مشہور تھی , حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن و ہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ سکی..
دعوتِ حق کی اس پہلی للکار نے ساری قوم کو چونکا دیا اور گلی گلی اس کا چرچا ہونے لگا.. چند روز بعد قوم کو ڈرانے کےلئے سورۂ انبیاء کی آیت ۹۸ کے ذریعہ حکم نازل ہوا..
"یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہے.. تمہیں اسی جہنم میں جا اُترنا ہے.."
(سورہ انبیاء , ۹۸)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی سے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اہلیان مکہ کو سنایا جس کو سن کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی.. اس لئے کہ کعبہ میں موجود 360 بت ہی ان کی معیشت اور اقتدار کا ذریعہ تھے جن کو پوجنے کے لئے سارا عرب آتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بت پرستی سے منع کرتی تھی..
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا.. کفار کے نزدیک یہ حرم کی سب سے بڑی توہین تھی.. اس لئے دفعۃ" ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر ٹوٹ پڑے.. مسلمانوں کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی دوڑے دوڑے آئے جن میں حضرت حارث بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کی اولاد) بھی تھے.. وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کے لئے لپکے لیکن ہر طرف سے ان پر تلواریں برس پڑیں اور وہ شہید ہو گئے.. اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جس سے زمین رنگین ہوئی..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو دن بہ دن قبولیت حاصل ہوتی گئی اور لوگ اللہ کے دین میں اکا دکا داخل ہوتے گئے.. پھر جو اسلام لاتا اس میں اور اس کے گھر والوں میں بغض , دوری اور اختلاف کھڑا ہوجاتا.. قریش اس صورت حال سے تنگ ہو رہے تھے اور جو کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے آرہا تھا انہیں ناگوار محسوس ہو رہا تھا.. ان ہی دنوں قریش کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی یعنی ابھی کھُم کھلا تبلیغ پر چند ہی مہینے گزرے تھے کہ موسم حج قریب آگیا..
قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ہوگی اس لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جس کی وجہ سے اہل عرب کے دلوں پر آپ کی تبلیغ کا اثر نہ ہو.. چنانچہ وہ اس بات پر گفت وشنید کے لیے "ولید بن مغیرہ" کے پاس اکٹھے ہوئے.. ولید نے کہا.. "اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کرلو.. تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ خود تمہارا ہی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کردے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کاٹ دے.."
لوگوں نے کہا.. "آپ ہی کہئے.." اس نے کہا.. "نہیں تم لوگ کہو , میں سنوں گا.." اس پر چند لوگوں نے کہا.. "ہم کہیں گے وہ کاہن ہے.."
ولید نے کہا.. "نہیں واللہ ! وہ کاہن نہیں ہے.. ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے.. اس شخص کے اندر نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے نہ ان کے جیسی قافیہ گوئی اور تُک بندی.."
اس پر لوگوں نے کہا.. "تب ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے.."
ولید نے کہا.. "نہیں, وہ پاگل بھی نہیں.. ہم نے پاگل بھی دیکھا ہے اور اس کی کیفیت بھی.. اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دَم گھٹنے کی کیفیت اور الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں.."
لوگوں نے کہا.. "تب ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے.."
ولید نے کہا.. "وہ شاعر بھی نہیں.. ہمیں رَجَز , ہجز , قریض , مقبوض , مبسوط ___ سارے ہی اصنافِ سخن معلوم ہیں.. اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے.."
لوگوں نے کہا.. "تب ہم کیا کہیں گے..؟"
ولید نے کہا.. "اللہ کی قسم ! اس کی بات بڑی شیریں ہے.. اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھلدار.. تم جو بات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے.. اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے.. اس سے باپ بیٹے , بھائی بھائی , شوہر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے.."
بالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے..
یہ قرارداد طے پاچکی تو اسے جامۂ عمل پہنانے کی کارروائی شروع ہوئی.. کچھ کفارِ مکہ عازمین حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ''خطرے'' سے آگاہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تفصیلات بتانے لگے..
جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عُکاظ , مجنہ اور ذوالمجازکے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے.. ادھر ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بددین ہے.. مسند احمد ۳/۴۹۲، ۴/۳۴۱ میں اس کی یہ حرکت مروی ہے..
اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوی ٔنبوت کیا ہے اور یوں ان کے ذریعے پورے دیارِ عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چرچا پھیل گیا..
جب قریش نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ دین سے روکنے کی حکمت کارگر نہیں ہورہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے غور وخوض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جن کا خلاصہ یہ ہے.. ہنسی , ٹھٹھا , تحقیر , استہزا اور تکذیب ___ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بددل کرکے ان کے حوصلے توڑ دیئے جائیں.. اس کے لیے مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناروا تہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنایا.. چنانچہ وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاگل کہتے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادوگر اور جھُوٹے ہونے کا الزام لگاتے.. یہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے پُر غضب , منتقمانہ نگاہوں اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے تھے..
وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ O
''اور جب کفار اس قرآن کو سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کے قدم اکھاڑدیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ یقینا ً پاگل ہے.."
(۶۸: ۵۱)
اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ تشریف فرما ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد کمزور اور مظلوم صحابہ کرام موجود ہوتے تو انہیں دیکھ کر مشرکین استہزاء کرتے ہو ئے کہتے..
أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا O
''اچھا ! یہی حضرات ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان سے احسان فرمایا ہے..؟''
(۶: ۵۳)
جواباً اللہ کا ارشاد ہے..
أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ O
''کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا.."
(۶: ۵۳)
عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ ذیل کی آیات میں کھینچا گیا ہے..
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ O وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ O وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ O وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ O وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ O
''جو مجرم تھے وہ ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے اورجب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مارتے تھے اور جب اپنے گھروں کو پلٹتے تو لُطف اندوز ہوتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہی گمراہ ہیں.. حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے.."
(۸۳: ۲۹تا۳۳)
انہوں نے سخریہ اور استہزاء کی بڑی کثرت کی اور طعن وتضحیک میں رفتہ رفتہ آگے بڑھتے گئے.. یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر اس کا اثر پڑا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے..
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ O
''ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے.."
(۱۵: ۹۷)
لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور بتلایا کہ سینے کی یہ تنگی کس طرح جاسکتی ہے چنانچہ فرمایا..
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ O وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ O
''اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور سجدہ گزاروں میں سے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ.. یہاں تک کہ موت آجائے.."
(۱۵:۹۸،۹۹)
اور اس سے پہلے یہ بھی بتلادیا کہ ان استہزاء کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے چنانچہ فرمایا..
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ O الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ O
''ہم آپ کے لیے استہزاء کرنے والوں سے (نمٹنے کو) کافی ہیں.. جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو معبود ٹھہراتے ہیں انہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا.."
(الحجر: ۹۵، ۹۶)
اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ ان کا یہ فعل جلد ہی وبال بن کر ان پر پلٹے گا چنانچہ ارشاد ہوا..
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ O
''آپ سے پہلے پیغمبروں سے بھی استہزاء کیا گیا.. تو ان کی ہنسی اڑانے والے جو استہزاء کر رہے تھے , اس نے انہیں کو گھیر لیا.."
(الانعام :۱۰ ۔ الانبیاء :۴۱ )
یہ کام انہوں نے اس کثرت سے کیا اور ایسے ایسے انداز سے کیا کہ عوام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت وتبلیغ پر غور وفکر کا موقع ہی نہ مل سکا.. چنانچہ وہ قرآن کے بارے میں کہتے کہ "یہ پریشان خواب ہیں جنہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں دیکھتے اور دن میں تلاوت کردیتے ہیں.." کبھی کہتے "بلکہ اسے انہوں نے خود ہی گھڑ لیا ہے.." کبھی کہتے "انہیں کوئی انسان سکھاتا ہے.." کبھی کہتے "یہ قرآن تو محض جھوٹ ہے اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر ان کی مدد کی ہے.." یعنی آپ اور آپ کے ساتھیوں نے مل کر اسے گھڑ لیا ہے.. اور یہ بھی کہا کہ "یہ پہلوں کے افسانے ہیں جنہیں اس نے لکھوا لیا ہے اور اب یہ اس پر صبح وشام پڑھے جاتے ہیں.." کبھی یہ کہتے کہ "کاہنوں کی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی کوئی جن یا شیطان اترتا ہے.."
اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا.. "آپ کہہ دیں میں بتلاؤں کس پر شیطان اترتے ہیں..؟ ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار پر اترتے ہیں.."
(۲۶:۲۲۱، ۲۲۲)
یعنی شیطان کا نزول جھوٹے اور گناہوں میں لت پت لوگوں پر ہوتا ہے اور تم لوگوں نے مجھ سے نہ کبھی کوئی جھوٹ سنا اور نہ مجھ میں کبھی کوئی فسق پایا.. پھر قرآن کو شیطان کا نازل کیا ہوا کیسے قرار دے سکتے ہو..؟
کبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ کہا کہ آپ ایک قسم کے جنون میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے آپ معانی کا تخیل کرتے ہیں اور انہیں عمدہ اور نادر قسم کے کلمات میں ڈھال لیتے ہیں جس طرح شعراء اپنے خیالات کو حسین الفاظ کا جامہ پہنایا کرتے ہیں لہٰذا وہ بھی شاعر ہیں اور ان کا کلام شعر ہے..
اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا.. "شعراء کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں.. تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی کا چکر کاٹتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں کرتے نہیں.."
(۲۶: ۲۲۴ تا ۲۲۶)
یعنی یہ شعراء کی تین خصوصیات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی خصوصیت نبی میں موجود نہیں.. چنانچہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار ہیں وہ ہدایت یاب وہدایت کار ہیں.. اپنے دین , اخلاق , اعمال اور تصرفات ہر چیز میں صالح اور پرہیز گار ہیں.. ان پر ان کی زندگی کے کسی بھی معاملے میں گمراہی کا نام ونشان نہیں.. پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعراء کی طرح ہر وادی کا چکر نہیں کاٹتے بلکہ ایک رب , ایک دین اور ایک راستے کی دعوت دیتے ہیں.. علاوہ ازیں آپ وہی کہتے ہیں جو کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں.. لہٰذا آپ کو شعراء اور ان کی شاعری سے کیا واسطہ..؟ اور شعراء اور ان کی شاعری کو آپ سے کیا واسطہ..؟
یوں وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اور قرآن واسلام کے خلاف جو شبہ بھی اٹھاتے تھے اللہ تعالیٰ اس کا کافی وشافی جواب دیتا تھا.. ان کے زیادہ تر شبہات توحید , حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور مرنے کے بعد قیامت کے روز دوبارہ اٹھائے جانے سے متعلق ہوا کرتے تھے.. قرآن نے توحید کے متعلق ان کے ہر شبہے کا ردّ کیا ہے بلکہ مزید اتنی باتیں بیان کی ہیں جن سے اس قضیے کا ہر پہلو واضح ہوگیا ہے اور اس کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا ہے.. اس ضمن میں ان کے معبودوں کی عاجزی ومجبوری اس طرح کھول کر بیان کی ہے کہ اس پر اضافے کی گنجائش نہیں اور شاید اسی بات پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا اور پھر جو کچھ پیش آیا وہ معلوم ہے..
جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبری کے بارے میں ان کی شبہات کا تعلق ہے تو وہ تو یہ تسلیم کرتے تھے کہ آپ سچے , امانتدار اور انتہائی صلاح وتقویٰ پر قائم ہیں لیکن وہ سمجھتے تھے کہ منصب نبوت ورسالت اس سے کہیں زیادہ عظیم وجلیل ہے کہ وہ کسی انسان کو دیا جائے.. یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہوسکتا اور جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا.. اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نبوت کاا علان کیا اور اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا.. "یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے.." (۲۵:۷)
انہوں نے یہ بھی کہا.. "اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری ہے.." (۶: 91)
اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا.. "آپ کہہ دیں وہ کتاب کس نے اتاری ہے جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے اور جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت ہے.." (۶: ۹۱)
وہ چونکہ جانتے تھے اور مانتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بشر ہیں اس لیے جواب نہ دے سکے.. اللہ نے ان کے رد میں یہ بھی فرمایا کہ ہر قوم نے اپنے پیغمبروں کی پیغمبری کا انکار کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ
"تم لوگ ہمارے ہی جیسے بشر ہو.." (۱۴: ۱۰)
اور اس کے جواب میں پیغمبروں نے ان سے کہا تھا کہ "ہم لوگ یقینا ً تمہارے ہی جیسے بشرہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے.." (۱۴: ۱۱)
مطلب یہ کہ انبیاء ورسل ہمیشہ بشر ہی ہوا کیے ہیں.. بشریت اور رسالت میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے.. چونکہ انہیں اقرار تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام پیغمبر تھے اور بشر بھی تھے اس لیے وہ اپنے اس شبہ پر زیادہ اصرار نہ کر سکے.. اس لیے انہوں نے پینترا بدلا اور کہنے لگے.. "اچھا اگر ایسا ہے بھی کہ بشر پیغمبر ہوسکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اپنی پیغمبری کے لیے یہی یتیم ومسکین انسان ملا تھا..؟ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکہ اور طائف کے بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر اس مسکین کو پیغمبر بنالے..
اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا.. "کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں.." (مطلب یہ ہے کہ وحی ورسالت تو اللہ کی رحمت ہے) اور "اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری کہاں رکھنی چاہیے.." (۶: ۱۲۴)
ان جوابات کے بعد مشرکین نے ایک اور پہلو بدلا اور کہنے لگے کہ دنیا کے بادشاہوں کے ایلچی تو خدم وحشم کے جلو میں چلتے ہیں ان کا بڑا جاہ وجلال ہوا کرتا ہے اور ان کے لیے ہر طرح کے سامان زندگی مہیا رہا کرتے ہیں پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا معاملہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں لقمۂ زندگی کے لیے بازاروں کے چکر بھی کاٹنا پڑتے ہیں..
"ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو ان کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا.. یا ان کی طرف خزانہ کیوں نہیں ڈال دیا گیا.. یا ان کا کوئی باغ ہی ہوتا جس سے وہ کھاتے اور ظالموں نے کہا کہ تم لوگ تو ایک جادو کیے ہوئے آدمی کی پیروی کر رہے ہو.." (۲۵:۷،۸)
اللہ نے اس ساری کٹ حجتی کا ایک مختصر سا جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں یعنی آپ کی مہم یہ ہے کہ آپ ہر چھوٹے بڑے , کمزور اور طاقتور , شریف اور پست , آزاد اور غلام تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں.. لہٰذا اگر ایسا ہوتا کہ آپ بھی بادشاہوں کے ایلچیوں کی طرح جاہ وجلال , خدم وحشم , اردلی اور جلو میں چلنے والوں کے ساتھ بھیجے جاتے تو کمزور اور چھوٹے لوگ تو آپ تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے کہ آپ سے کسی طرح کا استفادہ کر سکیں حالانکہ یہی جمہور ہیں.. لہٰذا ایسی صورت میں پیغمبر بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا اور اس کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہ ہوتا..
جہاں تک مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے معاملے کا تعلق ہے تو اس کے انکار کے لیے مشرکین کے پاس حیرت واستعجاب اور عقلی استبعاد کے علاوہ کوئی دلیل نہ تھی.. وہ تعجب سے کہتے تھے..
"کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے تو پھر اٹھادئے جائیں گے.. کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی..؟ (الصافات :۱۶، ۱۷)
پھر خود ہی کہتے تھے یہ دور کی واپسی ہے.. تعجب سے کہتے..
"کیا ہم تمہیں ایک ایسا آدمی نہ بتلائیں جو خبر دیتا ہے کہ جب تم لوگ بالکل ریزہ ریزہ ہو جائوگے تو پھر تمہاری ایک نئی پیدائش ہوگی.. معلوم نہیں اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے یا اس کو پاگل پن ہے.." (۳۴: ۷،۸)
اللہ نے اس کی تردید کے لیے دنیا میں پیش آنے والے حالات پر ان کی نظر ڈلوائی کہ دیکھو ! ظالم اپنے ظلم کی جزا پائے بغیر دنیا سے گزر جاتا ہے اور مظلوم بھی ظالم سے اپناحق وصول کیے بغیر موت سے دوچار ہو جاتاہے.. محسن اور صالح اپنے احسان اور صلاح کا بدلہ پائے بغیر فوت ہوجاتا ہے اور فاجر اور بدکار اپنی بدعملی کی سزا پائے بغیر مر جاتا ہے.. اب اگر انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھایا جائے اور اس کے عمل کا بدلہ نہ دیا جائے تو دونوں فریق برابر ہو جائیں گے بلکہ ظالم اور فاجر مظلوم اور نیکوکار سے زیادہ ہی خوش قسمت ہوں گے اور یہ بات قطعاً غیر معقول ہے.. اور اللہ کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اپنی مخلوق کے نظام کی بنیاد ایسے فساد پر رکھے گا.. اللہ فرماتا ہے..
"کیا ہم تابعداروں کو مجرموں جیسا ٹھہرائیں گے.. تمہیں کیا ہوگیا ہے..؟ تم کیسے فیصلے کررہے ہو..؟ (۶۸: ۳۵،۳۶)
"کیا ہم ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو زمین کے اندر فساد برپا کرنے والوں جیسا بنائیں گے..؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں کو فاجروں جیسا ٹھہرائیں گے..؟ (۳۸: ۲۸)
"کیا برائیاں کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں جیسا بنائیں گے کہ ان (دونوں گروہوں) کی زندگی اور موت یکساں ہو.. بر افیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں.." (۲۹: ۴)
جہاں تک ان کے عقل استبعاد کا تعلق ہے تو اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا..
"کیا تم پیدائش میں زیادہ سخت ہو یا آسمان..؟" (۷۹: ۲۷)
"کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کو پیدا کرنے سے نہیں تھکا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے..؟ کیوں نہیں ! یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے.." (۴۶: ۳۳)
"تم پہلی پیدائش تو جانتے ہی ہو , پھر حقیقت کیوں نہیں مانتے.." (۵۶: ۶۲)
اللہ تعالیٰ نے وہ بات بھی بتلائی جو عقلاً اور عرفاً دونوں طرح معروف ہے کہ کسی چیز کو دوبارہ کرنا پہلی بار سے زیادہ آسان ہوتا ہے.. فرمایا..
"جیسے ہم نے پہلی بار پیدائش کی ابتدا کی تھی اسی طرح پلٹا بھی لیں گے.." (۲۱: ۱۰۴)
"کیا پہلی بار پیدا کرنے سے ہم تھک گئے ہیں.."
یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک ایک شبہے کا نہایت اطمینان بخش جواب دیا جس سے ہر سوجھ بوجھ والا آدمی مطمئن ہو سکتا ہے.. لیکن کفار مکہ ہنگامہ پسند تھے.. ان میں استکبار تھا.. وہ زمین پر بڑے بن کر رہنا چاہتے تھے اور مخلوق پر اپنی رائے لاگو کرنا چاہتے تھے اس لیے اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہے..
مشرکین اپنے مذکورہ شبہات کو پھیلانے کے علاوہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو قرآن کی سماعت سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے.. چنانچہ وہ لوگوں کو ایسی جگہوں سے بھگاتے اور جب دیکھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت وتبلیغ کے لیے اٹھنا چاہتے ہیں یا نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں تو شور کرتے اور تالیاں اور سیٹیاں بجاتے..
اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے مجمعوں اور محفلوں کے اندر پہلی بار قرآن تلاوت کرنے کا موقع پانچویں سن نبوت کے اخیر میں مل سکا.. وہ بھی اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت شروع کردی اور پہلے سے کسی کو اس کا اندازہ نہ ہو سکا..
نضر بن حارث قریش کے شیطانوں میں سے ایک شیطان تھا.. وہ حیرہ گیا.. وہاں بادشاہوں کے واقعات اور رستم و اِسْفَنْدیار کے قصے سیکھے.. پھر واپس آیا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کی باتیں کرتے اور اس کی گرفت سے لوگوں کو ڈراتے تو آپ کے بعد یہ شخص وہاں پہنچ جاتا اور کہتا.. "واللہ ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں مجھ سے بہتر نہیں.." اس کے بعد وہ فارس کے بادشاہوں اور رُستم واسفندیار کے قصے سناتا , پھر کہتا.. "آخر کس بنا پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مجھ سے بہتر ہے.."
نضر بن حارث نے ایک لونڈی خرید رکھی تھی.. جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبی کریم کی طرف مائل ہے تو اس کو اس لونڈی کے پاس لیجا کر کہتا کہ اسے کھلاؤ پلاؤ اور گانے سناؤ.. یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاتے ہیں..
دوسری طرف مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے.. اس کام میں آپ کا چچا ابو لہب اور اسکی بیوی سر فہرست تھے.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی , کٹر دشمنی کا تھا.. اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا , پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی , اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے..
بعثت سے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوادی.. اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) "ابتر" (نسل بریدہ ) ہوگئے ہیں.. (نعوذ بااللہ)
ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ایام حج میں ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کے لیے بازاروں , اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا.. یہ شخص صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا، بلکہ پتھر بھی مارتارہتا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں..
ابولہب کی بیوی اُم جمیل جس کا نام "اَرْویٰ" تھا اور جو حَرب بن اُمیہ کی بیٹی اور حضرت ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کی بہن تھی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت میں اپنے شوہر سے پیچھے نہ تھی.. چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی.. خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنا , لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری وافتراء پردازی سے کام لینا , فتنے کی آگ بھڑکانا اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا.. اسی لیے قرآن میں اس کو وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ (لکڑی ڈھونے والی ) کا لقب عطا کیا..
جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی اور اس کے شوہر کی مَذَمت میں قرآن نازل ہوا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کرتی ہوئی آئی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس مسجد حرام میں تشریف فرما تھے.. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے.. یہ مُٹھی بھر پتھر لیے ہوئے تھی.. سامنے کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی نگاہ پکڑلی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ سکی.. صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہی تھی.. اس نے سامنے پہنچتے ہی سوال کیا.. "ابوبکر ! تمہارا ساتھی کہاں ہے..؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ میری ہجو کرتا ہے.. واللہ ! اگر میں اسے پاگئی تو اس کے منہ پر یہ پتھر دے ماروں گی.. دیکھو ! اللہ کی قسم ! میں بھی شاعرہ ہوں.." پھر اس نے یہ شعر سنایا..
''ہم نے مذمم کی نافرمانی کی.. اس کے امر کو تسلیم نہ کیا اور اس کے دین کو نفرت وحقارت سے چھوڑدیا.."
مشرکین جل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "محمد" کے بجائے مُذمم کہتے تھے جس کا معنی محمد کے معنی کے برعکس ہے.. "محمد" وہ شخص ہے جس کی تعریف کی جائے.. "مذمم وہ شخص ہے جس کی مذمت اور برائی کی جائے..
اس کے بعد واپس چلی گئی.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں تھا..؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "نہیں ! اس نے مجھے نہیں دیکھا.. اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی تھی.."
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری...
No comments:
Post a Comment