find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 07

Boot parasti Ko kaise Ahle Arab ne chhora?
Gane bajane, ishq maushiqi se kaise Nijat paya?

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 7...
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے شق صدر کے واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار یا پانچ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کے حوالے کر دیا.. انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لئے "اُم ایمن" (رضی اللہ عنہا) کو مامور کیا جو آپ کے والد کی کنیز تھیں.. ان کا اصلی نام برکہ تھا..

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ حضرت آمنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے مرحوم شوہرحضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لئے یثرب روانہ ہوئیں.. دو اونٹوں پر مشتمل اس مختصر سے قافلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی ھمراہ تھیں.. وہ "دارالنابغہ" میں اتریں جہاں حضرت عبداللہ مدفون تھے اور ایک مہینہ وہاں قیام کیا..

وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نجار کے تالابوں میں تیرنا سیکھا اور گڑھی کے سامنے ننھیالی لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتے.. حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ یثرب کے یہود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑے غور سے دیکھتے.. میں نے سنا کہ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ یہ اس اُمت کے نبی ہیں اور یہی ان کا دارالہجرت ہے.. میں نے اُن کی یہ بات ذہن میں محفوظ کرلی.. واپسی میں بدر کے قریب "ابواء" کے مقام پر حضرت آمنہ بیمار ہوئیں جس کی وجہ سے اس قافلہ نے وہاں قیام کیا.. حضرت آمنہ نے وہیں وفات پائی.. وقتِ آخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھے تھے.. ماں نے اپنے جلیل القدر بیٹے کو جی بھر کے دیکھا اور چند شعر پڑھے جن کا متن "مواہب لدنیہ" میں محفوظ ہے.. بوقت وفات حضرت آمنہ کی عمر تقریباً ۲۸ سال تھی اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بعد چھ سال تین مہینے تک زندہ ہیں..

حضرت آمنہ کو اسی جگہ دفن کیا گیا اور حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا آپ کو لیکر مکہ واپس حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں.. یوں شکم مادر میں ھی یتیم ھونے والے "ننھے حضور" اپنی والدہ کے ساتھ بھی زیادہ دن نہ گزار سکے..

حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے ایک ماں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی کی.. ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ خاتون میری والدہ کے بعد میری ماں ہیں.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نبی بنائے گئے تو حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا اولین تصدیق کرنے والوں میں سے ہو گئیں.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا.. ان کا پہلا نکاح بنی حارث کے عبید بن زید بن عمرو سے ہوا جن سے ایمن پیدا ہوئے جن کے نام پر ان کی کنیت اُمّ ایمن تھی.. پہلے شوہر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کروایا جن سے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے.. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی..

والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی کفالت میں لے لیا.. حضرت عبدالمطلب کو آپ سے بہت محبت تھی اور آپ کو سب اولادوں سے بڑھ کر محبوب جانتے تھے.. روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب کو یقین تھا کہ ان کا پوتا بڑا نام پانے والا ہے چنانچہ جب بنی مدلج کی ایک جماعت اُن سے ملنے آئی تو ان میں بہت سے قیافہ شناس تھے.. انہوں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشِ کف پا دیکھا تو اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ کفِ پا (جو مصلیٰ ابراہیم کہلاتا ہے) کے مشابہ پایا.. اس لئے انہوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ اس بچے کی بطور خاص حفاظت اور نگرانی کریں.. چنانچہ حضرت عبدالمطلب حطیم میں اپنی نشست پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قریب بٹھا کر پشت پر ہاتھ پھیرا کرتے اور کہتے کہ اس کی تو بہت بڑی شان ہے.. دادا اپنے پوتے کو ہمیشہ ساتھ رکھتے اور اپنے ساتھ ہی کھانا کھلاتے.. اسی سال حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی..

حضرت عبدالمطلب کے زیرسایہ آپ کا بچپن بہت آرام سے گزر رھا تھا.. صرف حضرت عبدالمطلب ھی نہیں بلکہ آپ سے آپ کے تمام چچا اور پھوپھیاں بھی بےحد محبت کرتی تھیں لیکن اللہ کی مشیت کچھ اور تھی اور ابھی آپ اٹھ سال کے تھے کہ حضرت عبدالمطلب کا بھی انتقال ھوگیا.. آپ کو اپنے دادا سے بہت انس و محبت تھی.. جب حضرت عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آپ بھی جنازہ کے ساتھ تھے اور شدت غم سے روتے جاتے تھے.. اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر بیاسی سال تھی..

آٹھ سال کا ایک معصوم بچہ جس کے ماں باپ بھی وفات پا چکے اور اب شفیق دادا بھی.. نہ کوئی بہن نہ کوئی بھائی.. تن تنہا.. لیکن کون جانتا تھا کہ بظاھر یہ بےآسرا , معصوم بچہ کچھ ھی عرصہ بعد ھزاروں لاکھوں کا آسرا بننے والا ھے.. بلاشک و شبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے لمحہ لمحہ میں ھمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ھے..

حضرت عبدالمطلب کی وفات کا واقعہ ایک اور لحاظ سے بھی بہت اھمیت کا حامل ھے.. قصی بن کلاب نے جملہ امور ریاست آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد "عبدمناف" کے حوالے کیے تھے جو کہ بعدازاں ان کے بیٹے اور آپ کے پردادا حضرت ھاشم کے حصہ میں آۓ.. دوسری طرف حضرت ھاشم کے ھی دور میں خانہ کعبہ کی تولیت کے زیادہ تر حقوق بھی حضرت ھاشم نے حاصل کرلیے اور ان سے یہ تمام اختیارات حضرت عبدالمطلب کو بھی وراثتا" حاصل ھوۓ.. ان کی حیثیت اپنے والد حضرت ھاشم کی طرح مکہ کے سردار کی تھی لیکن ان کی وفات نے دفعتا" بنو ھاشم کے اس رتبہ امتیاز کو گھٹا دیا اور کئی دھائیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیاوی اعتبار سے خاندان بنوامیہ خاندان بنو ھاشم پر غالب آگیا اور مکہ کی مسند ریاست پر "حرب" متمکن ھوا جو "امیہ" کا نامور فرزند تھا.. حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ انہی حرب بن امیہ کے بیٹے تھے اور حرب کے بعد مکہ کے سردار اور سپہ سالار بنے.. حرب بن امیہ نے ریاست اور تولیت خانہ کعبہ کے جملہ اختیارات اپنے قبضہ میں کرلیے اور صرف "سقایہ" یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت ھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس باقی رھی جو حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے..

حضرت عبدالمطلب کے مختلف ازواج سے دس بیٹے تھے جن میں سے آنحضرت کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی' عنہ کے والد جناب ابو طالب ماں کی طرف سے سگے بھائی تھے.. اس لیے حضرت عبدالمطلب نے آپ کو حضرت ابوطالب کے ھی آغوش تربیت میں دے دیا.. اس کے علاوہ حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹیوں یعنی آپ کی پھوپھیوں اروی' , امیمہ , برہ , صفیہ , عاتکہ اور ام حکیم البیضاء کو بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش اور خیال رکھنے کی وصیت کی..

حضرت ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر لے آئے.. ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش میں انہوں نے بڑی دلجمعی سے حصہ لیا.. حضرت ابوطالب بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور مرتے دم تک آپ کے سر پر کسی مضبوط سائبان کی طرح سایہ کیے رکھا.. ان کی محبت اس درجہ بڑھی ھوئی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں اپنی سگی اولاد کی بھی پرواہ نہ کرتے اور حضرت عبدالمطلب کی طرح ھر وقت آپ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے..

حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے اس لئے بڑی عُسرت اور تنگدستی سے گزر بسر ہوتی تھی.. باوجود کم سِنی کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے گھر کی یہ حالت دیکھی تو کام کاج کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا.. لوگوں کی بکریوں کو اُجرت پر چراتے اور بکریوں کو مکہ کی ایک پہاڑی "اجیاد" کے قریب "اریقط" نامی مقام پر لے جایا کرتے اور اس سے جو کچھ اجرت ملتی وہ اپنے چچا کو دیتے.. عرب میں بکریاں چرانا کوئی معیوب کام نہ تھا.. بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چرایا کرتے تھے اور یہ ان بچوں کے لیے کوئی کام نہیں بلکہ ایک مشغلہ کی حیثیت رکھتا تھا اور عرب طرز معاشرت کا جائزہ لیا جاۓ تو اسے باآسانی سمجھا جاسکتا ھے..

زمانہ رسالت میں آپ اس سادہ اور پرلطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے.. ایک مرتبہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ اسی جنگل میں تشریف لے گئے.. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اراک (پیلو کے درخت) کے پھل چُن رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "جو سیاہ ہو گیا وہ لے لو کہ وہی سب سے اچھا ہوتا ہے.." اس پر صحابہ نے عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ بھی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے.." فرمایا.. "ہاں ! کوئی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں.."

دس بارہ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مشغلہ جاری رہا..

ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا.. لوگ قحط سے دوچار تھے.. قریش نے کہا.. ابو طالب ! وادی قحط کا شکار ہے , بال بچے کال کی زد میں ہیں ,چلیے ! (کعبہ چل کر) بارش کی دعا کیجیے..

حضرت ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے.. بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو.. اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے.. حضرت ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی.. بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی.. اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا لیکن (دیکھتے دیکھتے ) اِدھر اُدھر سے بادل کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر وبیاباں شاداب ہوگئے.. بعد میں حضرت ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں کہا تھا..

وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ..
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل..

"وہ ایسے روشن و منور ہیں کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے.. یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں.."

گانے بجانے کی محفل سے محفوظ..
_________________________

حضرت ابو طالب کے مکان میں قیام کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے.. ایک یہ کہ ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ میں ایک جگہ گانے بجانے کی محفل منعقد ہوئی تھی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس محفل میں شرکت کی خاطر بکریوں کو ایک ساتھی چرواہے کے حوالے کیا اور محفل کے مقام تک پہنچے جو چراگاہ سے دُور تھی.. گرمی میں دور تک چل کر آنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت تھک گئے تھے اور محفل ابھی شروع نہیں ہوئی تھی.. اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے سایہ تلے لیٹ گئے تو آنکھ لگ گئی.. جب بیدار ہوئے تو محفل ختم ہو چکی تھی.. اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس محفل سرود میں شریک نہ ہو سکے اور آئندہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کے لہو و لعب میں شرکت کرنے کا خیال تک نہ آیا..

بت پرستی سے محفوظ..
_________________________

دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مقام پر کھجور کے دو مقدس درخت تھے جہاں بوانہ نامی بت نصب تھا.. لوگ وہاں جا کر بت پر جانور بھینٹ چڑھاتے , سر منڈاتے اور دیگر مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر سال اس تقریب میں شرکت کے لئے کہا جاتا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار فرماتے.. ایک مرتبہ چچاؤں اور پھوپھیوں کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں گئے لیکن بہت دیر تک نظروں سے اوجھل رہے.. جب دکھائی دئیے تو چہرے پر خوف کے آثار تھے.. پھوپھیوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بھی اُس بُت کے قریب جانا چاہتا تو ایک سفید رنگ اور دراز قد شخص میرے قریب آتا اور کہتا کہ "ائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پیچھے ہٹ جائیے اور بت کو ہاتھ مت لگائیے" اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ایسی تقریب میں نہیں گئے جہاں بتوں پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی..

ایک بار قبیلہ لہب کا ماہر قیافہ شناس مکہ آیا.. سب لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لے گئے.. حضرت ابو طالب بھی اپنے بچوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے پاس لے گئے.. اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور پھر کسی کام میں مشغول ہو گیا.. تھوڑی دیر بعد اس نے آپ کو اپنے سامنے لانے کو کہا لیکن حضرت ابو طالب نے اس کا تجسس دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر بھیج دیا.. اس نے کہا کہ اس بچہ کو میرے پاس لاؤ.. خدا کی قسم ! وہ بہت بڑا آدمی بننے والا ہے..

شام کا تجارتی سفر..
__________________________

حضرت ابوطالب کا پیشہ بھی اپنے آباؤاجداد کی طرح تجارت تھا.. وہ سال میں ایک بار تجارت کی غرض سے ملک شام کو جاتے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تقریبا" بارہ برس تھی کہ حضرت ابوطالب نے حسب دستور شام کے تجارتی سفر کا ارادہ کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے ساتھ چلنے کی خواھش کا اظہار کیا.. حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کم عمری , دوران سفر مشکلات اور تکلیفوں یا کسی اور وجہ سے آپ کو ساتھ نہ لے جانا چاھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شفیق چچا سے اتنی محبت تھی کہ جب حضرت ابوطالب چلنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے لپٹ گئے.. اب حضرت ابوطالب کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود سے جدا کرنا ممکن نہ رھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا..

مؤرخین کے مطابق اسی سفر شام کے دوران ایک عیسائی راھب "بحیرہ" کا مشھور واقعہ پیش آیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں.. اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پالیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کو خطرہ ھو سکتا ھے چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کردیا اور واپس مکہ آ گئے..

روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر نکلے.. حضرت ابوطالب کا تجارتی قافلہ سرزمین شام میں بصری' شہر کی اہم تجارتی منڈی کے قریب پہنچا تو وھاں پڑاؤ ڈال دیا.. بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے.. اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا..

وھیں قریب ھی ایک صومعہ (گرجا) تھا جس میں "جرجیس" نامی ایک عیسائی عبادت گزار راھب رھتا تھا جو " بحیرہ راھب " کے نام سے مشھور تھا.. اھل تحقیق کے نزدیک بحیرا راھب موحد تھا , مشرک یا بت پرست نہ تھا.. وہ تمام آسمانی کتابوں کا عالم اور نبی آخرالزماں کی جو علامات آسمانی کتابوں میں مذکور تھیں , ان سے بخوبی واقف تھا..

اس سے پہلے بھی بارھا اس کے صومعہ (گرجا) پاس سے تجارتی قافلے گزرتے رھے تھے مگر بحیرا کبھی کسی کی طرف ملتفت نہ ھوا تھا لیکن جب اس بار حضرت ابوطالب کا کاروان تجارت اس کے گرجا کے پاس اترا تو اس راہب نے اپنی خانقاہ میں سے دیکھا کہ قافلہ والوں میں سے ایک نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے.. بحیرا راہب اپنی بصیرت سے پہچان گیا کہ یہ نوجوان خصوصی اہمیت کا حامل ہے..

بحیرا راھب خلاف معمول اپنی عبادت گاہ سے باھر نکل آیا اور متجسسانہ نظروں سے ایک ایک کو دیکھنے لگا.. پھر جیسے ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو دیکھتے ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ھاتھ پکڑ لیا اور پکار اٹھا..

"یہی ھے سردار دوجہانوں کا.. یہی ھے رسول پروردگار عالم کا جس کو اللہ جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا.."

حضرت ابوطالب نے کہا.. "آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا..؟"

بحیرا راھب نے بتایا.. "جب آپ سب لوگ پہاڑ کی گھاٹی سے نکلے تو اس وقت میں اپنی عبادت گاہ سے آپ سب کی طرف دیکھ رھا تھا.. میں نے دیکھا کہ اس نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے.. پھر میں نے دیکھا کہ کوئی شجر و حجر ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ھو اور شجر و حجر نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ (تعظیم) نہیں کرتے ھیں.. اس کے علاوہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مہرنبوت کی وجہ سے بھی پہچان چکا ھوں جو آپ کے کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس ھے اور ھم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ھیں.."

راھب یہ کہ کر واپس ھوگیا اور بصد اشتیاق تمام قافلہ کے لیے کھانا تیار کرایا.. جب کھانا تیار ھوا تو سب کھانے کے لیے حاضر ھوۓ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود نہ تھے.. راھب کے دریافت کرنے پر معلوم ھوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ چرانے آس پاس نکل گئے ھیں.. ایک آدمی بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا گیا.. سب لوگ جس درخت کے نیچے بیٹھے ھوۓ تھے وھاں کوئی سایہ دار جگہ آپ کے لیے بچی ھوئی نہ تھی.. سایہ دار جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھوپ میں ھی بیٹھ گۓ تو درخت کی شاخیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئیں.. بحیرہ ان سارے معاملات کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رھا تھا..

اس نے حضرت ابوطالب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن راہب نے کہا کہ اس کے علم کے مطابق اس لڑکے کا باپ زندہ نہیں ہے.. حضرت ابو طالب نے کہا کہ حقیقت میں ان کے باپ زندہ نہیں ہیں..

اس کے بعد بحیرا راہب نے حضرت ابوطالب سے کہا.. "آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ تمام نشانیاں موجود ھیں جو آسمانی کتابوں میں اللہ کے آخری نبی کے متعلق بتائی گئی ھیں.. اگر شام کے یہود و نصاری' نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ نشانیاں پہچان لیں تو مجھے ڈر ھے کہ کہیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کو نقصان نہ پہنچا دیں.."

چنانچہ بحیرہ کے مشورہ پر حضرت ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کو مکہ واپس بھیج دیا.. اس کے بعد حضرت ابوطالب پھر کبھی شام کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ نہیں لے گئے' مبادا کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچے.. اسی سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی..

مستند روایات سے ثابت ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاھلیت کے تمام اکل و شرب , لہو و لعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رھا.. باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بےحیائی میں ڈوبا ھوا تھا اور ایسے تمام بداعمال عرب معاشرہ میں نہایت ھی پسند کیے جاتے تھے , اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا.. اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ھوۓ تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آۓ..

دوسری طرف ایسا کبھی نہ ھوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرک و گمراھی کے کسی فعل میں شریک ھوۓ ھوں.. خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ھوتے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے.. اس دوران نہ صرف خود ایسی بداعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رھتے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے دین ابراھیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا.. اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل بعثت ھر قسم کی بےحیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراھی سے بھی محفوظ رکھا..

"جنگ فجار" میں شرکت..
___________________

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بیس سال تھی جب قبیلہ قریش اور قبیلہ "قیس عیلان" کے درمیان ایک بہت ھی زبردست جنگ ھوئی.. یہ جنگ "حرب الفجار" کے نام سے مشھور ھے.. "بنی کنانہ" بھی اس جنگ میں قریش کے اتحادی تھے.. یہ جنگ چونکہ ان مقدس مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتل و غارت کرنا , فسق و فجور ناجائز اور حرام تھا اس لیے اس جنگ کو "حرب الفجار" کا نام دیا گیا..

قبیلہ قریش کے تمام ذیلی قبائل نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں.. بنو ھاشم کے علمبردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب زبیر بن عبدالمطلب تھے جبکہ ان تمام قریشی فوجوں کی مشترکہ کمان حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے والد اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دادا "حرب بن امیہ" کے ھاتھ میں تھی جو رئیس قریش اور نامور جنگجو تھے..

ابن ھشام کے مطابق بازار عکاز میں ھونے والا ایک قتل اس جنگ کی وجہ بنا.. دونوں ھی فریقوں نے ایک دوسرے کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا.. بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آگئی..

چونکہ اس تنازعہ میں قریش خود کو برسرحق سمجھتے تھے اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ بھی تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ھوۓ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران جنگ کسی پر ھاتھ نہیں اٹھایا بلکہ صرف اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رھے.. اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ ان مقدس مہینوں میں ھوئی جن میں جنگ کرنا حرام تھا.. دوسری طرف ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ھی فریق مشرک تھے اس لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بےمقصد قتل و غارتگری سے محفوظ رکھا کیونکہ مومن کو قتال اور جہاد و جنگ و جدل کا حکم فقط اس لیے دیا گیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ھو اور اسی کا بول بالا ھو جبکہ یہ جنگ محض نسلی و قبائلی نام و نمود کے لیے لڑی گئی..

جنگ شروع ھوئی تو اول اول قبیلہ قیس عیلان کا پلہ بھاری رھا لیکن دوپہر کے بعد بعد قریش بتدریج غالب ھوتے گئے اور بلآخر قریش ھی فتح یاب ھوۓ تاھم دونوں طرف کے بزرگوں کی کوشش سے دونوں قبائل میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں , جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے.. چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی اور یوں قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ تھم گیا..

معاھدہ "حلف الفضول" میں شرکت..
___________________________

معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا جس نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے.. حرب الفجار کے بعد بعض صالح طبیعتوں میں اس بےمعنی جنگ و جدل سے بیزاری پیدا ھوئی اور یہ خیال پیدا ھوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے " فضل بن فضالہ , فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث" نے ایک معاھدہ مرتب کیا تھا جو انہی کے نام پر "حلف الفضول" کے نام سے مشھور ھوا اسی طرح اب دوبارہ اس کی تجدید کی جاۓ.. (چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا اس لئے معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں) جنگ فجار سے جب لوگ واپس مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور خاندان بنو ھاشم کے سردار جناب زبیر بن عبدالمطلب نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی.. چنانچہ خاندان بنو ھاشم , بنو زھرہ اور بنو تیم "عبداللہ بن جدعان تیمی" کے گھر میں جمع ھوۓ.. وہ سن وشرف میں ممتاز تھا.. وھاں یہ معاھدہ طے پایا کہ ھم میں سے ھر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رھنے پاۓ گا..

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ھیں کہ "اس معاھدہ کے وقت میں بھی عبداللہ بن جدعان کے گھر حاضر تھا.. اس معاھدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو ھرگز پسند نہ کرتا اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاھدہ کی طرف بلایا جاؤں تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا.."

اس معاہدے کا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور "عاص بن وائل" نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا.. اس نے حلیف قبائل عبد الدار , مخزوم , جمح , سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی.. اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی.. اس پر جناب زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے..؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے.. پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا..

"حلف الفضول" کا یہ واقعہ حرب الفجار کے 4 ماہ بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے 20 سال پہلے پیش آیا جسے قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کی روک تھام میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ھوا.. اس لیے اس معاھدہ کو زمانہ جاھلیت کے بہترین معاھدہ کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ھے..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS