Jab bahu ne Saas ke khane me jahar dalne ki koshish ki.
Aaj ki Modern larkiya apne saas ko sabse bari dushman kyu samajhti hai?
Modern Society me hi sabse jyada talak ke mamle kyu pesh aarahe hai?
شادی شدہ ضرور پڑھیں.
یقینا لطف آئے گا سبق آموز تحریر ہے.
ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ آفرین ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ-
ﺑﮩﺖ جلد ہی آفرین ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﯽ.
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ آفرین ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﺎﺩﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﯽ.
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺱ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ آفرین ﭘﺮ ﻃﻨﺰ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺗﮭﺎ.
ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﮯ ﻟﯿﮑﻦ آفرین ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ.
ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺎﺍﺗﻔﺎﻗﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺑﮩﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮑﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ آفرین ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ.
ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ آفرین ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﺎ ﺑﺮﺍ ﺭﻭﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮے گی ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ.
آفرین ﺍﭘﻨﮯ ابّو ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﯽ ﺟﻮ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﺑﯿﭽﺘﮯ ﺗﮭﮯ. آفرین ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺯﮨﺮ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ.
ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ آفرین ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﻮ ﺣﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻭﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ. آفرین ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ.
ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻟﻮﭨﮯ. ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ آفرین ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻓﻮﺭﯼ ﺯﮨﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺳﺐ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺷﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ. ﺍﺳﻠﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﯾﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺯﮨﺮ ﭘﮭﯿﻼﺋﯿﮟ ﮔﯽ.
ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺗﻢ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﺎ ﭘﮑﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﻨﺎ. ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺷﮏ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﻭﯾﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺳﺘﺎﻧﮧ ﮨﻮ. ﺍﻥ ﺳﮯ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ، ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮑﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ سلوک ﮐﺮﻧﺎ. کسی بھی مسئلے پے بحث کرنے بیٹھ مت جانا۔
آفرین ﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﮐﺎ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ.
ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﮩﯿﻨﮯ، آفرین ﺭﻭﺯ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﺎ ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ. ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﺼﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﺎ سلوک ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ.
ﭼﮫ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ، ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻧﻘﺸﮧ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺑﺪﻝ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ.
آفرین ﻧﮯ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﺼﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ پانا ﺳﯿﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺏ ﺍﮐﺜﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺍﻭﺭ ﻏﺼﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ.
ﭼﮫ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﺳﮯ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ.
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮩﺖ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ آفرین ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ. ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺐ ملنے والوں ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ آفرین ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ.
آفرین ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺳﺎﺱ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺏ ایک دوسرے ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ لگی تھیں.
آفرین ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﺎ.
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ آفرین ﭘﮭﺮ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ...
ان سے کہنے لگی ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺯﮨﺮ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺅﮞ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ؟
ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯿﮟ ﮨﯿﮟ. ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ.
ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮈﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺟﻮ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﻭﭨﺎﻣﻦ ﮐﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ.
ﺯﮨﺮ ﺻﺮﻑ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺭﻭﺋﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﯾﺎ ہے.
اگر ہم اپنے رویوں، اخلاق اور سوچ کو درست کر لیں تو کئی پریشانیوں، بدگمانیوں اور اپنے آپ پر یا کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے سے بچ سکتے ہیں۔
آج کی نسل خود کو سب سے زیادہ ماڈرن سمجھتی ہے، اُسے لگتا ہے کے جو میں جانتا ہوں وہ یہ بوڑھے لوگ کیا جاننے گئے، یہ جاھل لوگوں کو کیا معلوم کے آج دنیا چاند پے چلی گئی اور ہم بس وہی پرانی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یاد رکھے کے گھر بسانے کے لیے کسی ڈگری، سرٹیفکیٹ، وھدے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہم ماڈرن معاشرے میں جینے والے خود کو سب سے زیادہ ہوشیار اور عقلمند سمجھتے ہیں اور جو لوگ اپنے روایتوں کے مطابق چلتے ہے اُسے ہم پرانی خیالوں والا، دیہاتی، جاھل، جانوروں کے جیسا رہنے والا سمجھتے ہے۔ کچھ لڑکیاں شادی کے بعد اپنے ساس سسر سے ویسا ہی سلوک کرنے لگتی ہے جیسا اس نے سیریل میں پہلے دیکھ چکی ہوتی ہے۔ آج سب سے زیادہ یونہی لوگو کا گھر برباد ہوا ہے جو سب سے زیادہ ماڈرن کہلاتے ہیں۔ جہاں سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور پیسے والے ہے انہی گھروں میں سب سے زیادہ طلاق کا معاملہ پیش آیا، کیوں ان لوگو نے تعلیم تو حاصل کیا مگر تربیت نہیں ملا، ان لوگو کا مقصد پیسے کمانا اور اپنے پیرو پے کھڑا ہونا تھا نہ کے گھر بسانا، پریوار کو ساتھ لیکر چلنا تھا۔ جو ماں باپ ہمیں بچپن میں ہزاروں بار معاف کرتے ہے ہماری غلطیوں پے، اگر وہ چاہتے تو ہمیں کسی یتیم خانے میں بھی رکھ سکتے تھے مگر نہیں ہمیں اپنے ساتھ رکھ کر اُنہونے والدین ہونے کہا فرض ادا کیا اور وہیں ماں باپ جب آج ضعیف ہو گئے تو ہم انہیں پرانے خیالوں والا کہنے لگ گئے، اور اولڈ ہاؤس میں رکھ دیئے، کیا ہمیں اپنا فرض یاد نہیں؟
ہمارا رول ماڈل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا چاہیے نہ کے کوئی فلمی دنیا کا ائیاش اور طوائف۔
مسلم لڑکیوں کا رول ماڈل فاطمہ رض ہونا چاہیے یا فیمنزم والے؟
اگر آج کی لڑکیاں اپنے ساس سسر پے ظلم کرتی ہے تو یاد رکھے کے اُسے بھی کل ساس بننا ہے اور اُسکا بھی حشر ویسا ہی ہوگا، آج جو لڑکیاں یہ کہتی ہے کے پرانے لوگوں کو نئے لوگو کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا چاہیے صحیح ہے مگر یہ نہ بھولے کے 20 سال بعد آپ بھی پرانے خیالوں والی ساس کہے جائینگے، پھر اس وقت آپ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائیگا جیسا آپنے اپنے ساس کے ساتھ کے تھے۔ یہ دنیا مقفات عمل ہے ہم آج جو کرینگے اُسکا بدلہ کل ہمیں ملےگا، پھر آپ اگر اچھے عمل کیے ہونگے تو اچھے کی امید رکھے اور اگر برے عمل کیے ہونگے تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اسکا حساب ملےگا۔ اپنے ساس سسر کو بڑھاپے کی عمر میں دیکھ کر بوجھ مت سمجھیے، آپ اگر اپنے ساس سسر کی خدمت نہیں کرینگے تو یہی حال آپ کے میکے میں بھی ہوگا، آپکی بھائی کی بیوی ( بھابھی) بھی آپکے ماں باپ پے اُسے طرح ظلم کریگی، پھر اس موقع پے آپ یہی کہنگی کے میرے بھی کے قسمت ہی پھوٹ گئی تھی کے ایسی بیوی ملی اس وقت یہ بھلا دیتے ہے کے میں بھی کسی کی بیوی اور بہو ہوں اور میں بھی تو اسی طرح اپنے ساس سسر کے ساتھ پیش آتی ہوں، پھر صرف اُسے ہی کیوں ہنسا جائے ایک بار اپنے گریبان میں بھی دیکھ لیجئے۔
ہم سب جانتے ہیں کے ساس سسر ہمیشہ نہیں رہینگے بس وہ آج کل کے مہمان ہے نہ جانے کب اللہ کے پیارے ہو جائینگے پھر انکو اپنا دشمن سمجھنا کتنا صحیح ہے؟ آخر ہے تو سب کچھ انہی کا، زمین و جائیداد سب کچھ، اگر انکو ہم سے محبت نہیں ہوتی تو وہ کب کا اسے بیچ چکے ہوتے مگر نہیں اُنہونے ایسا نہیں کیا۔ جس طرح اُنہونے ہماری غلطیوں کو معاف کیا اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کے انکی غلطیوں کو معاف کرے۔ ماں کے پیرو کے نیچے جنت ہے پھر ہم ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں؟
اللہ ہمیں صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، اللہ ہمیں یورپ کی سازشوں سے محفوظ رکھ، یا رب تو مسلمانوں کے گھر کو شیطان کے فتنے سے محفوظ رکھ۔ آمین ثمہ آمین
yah sirf islah ke liye hai.
No comments:
Post a Comment