Aap Sallahu Alaihe Wasallam ke paidaish ke waqt Arab aur duniya ke halat kaise they?
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 1..
آج سے سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رھا ھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ھے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جاۓ تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے..
ملک عرب ایک جزیرہ نما ھے جس کے جنوب میں بحیرہ عرب , مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان , مغرب میں بحیرہ قلزم ھے.. تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ھے.. مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد بے آب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ھے جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ھیں.. طبعی لحاظ سے اس ملک کے پانچ حصے ھیں..
یمن :
یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رھا ھے جس کو پرامن ھونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا.. آب و ھوا معتدل ھے اور اسکے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ھیں جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ھوتے ھیں.. قوم "سبا" کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بناۓ جن میں "مارب" نام کا مشھور بند بھی تھا.. اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ھوگئی..
حجاز :
یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقغ ھے.. حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ھے جسے اللہ نے نور ھدائت کی شمع فروزاں کرنے کے لیے منتخب کیا.. اس خطہ کا مرکزی شھر مکہ مکرمہ ھے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ھے.. حجاز کا دوسرا اھم شھر یثرب ھے جو بعد میں مدینۃ النبی کہلایا جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شھر ھے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ھے.. حجاز میں بدر , احد , بیر معونہ , حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ھیں..
نجد :
ملک عرب کا ایک اھم حصہ نجد ھے جو حجاز کے مشرق میں ھے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت "الریاض" واقع ھے..
حضرموت :
یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ھے.. بظاھر ویران علاقہ ھے.. پرانے زمانے میں یہاں "ظفار" اور "شیبان" نامی دو شھر تھے..
مشرقی ساحلی علاقے (عرب امارات) :
ان میں عمان ' الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ھیں.. یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ھے..
وادی سیناء :
حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ھے جہاں قوم موسی' علیہ السلام چالیس سال تک صحرانوردی کرتی رھی.. طور سیناء بھی یہیں واقع ھے جہاں حضرت موسی' علیہ السلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں..
نوٹ :
ایک بات ذھن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب , یمن , بحرین , عمان کا علاقہ شامل تھا جبکہ شام , عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ھوۓ اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وھاں نقل مکانی کرکے آباد ھوئی اور نتیجتہ" یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے لیکن اصل عرب علاقہ وھی ھے جو موجودہ سعودیہ , بحرین , عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ھے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ھے..
عرب کو "عرب" کا نام کیوں دیا گیا اس کے متعلق دو آراء ھیں.. ایک راۓ کے مطابق عرب کے لفظی معنی "فصاحت اور زبان آوری" کے ھیں.. عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ھم پایہ اور ھم پلہ نہیں سمجھتے تھے اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے..
دوسری راۓ کے مطابق لفظ عرب "عربہ" سے نکلا ھے جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ھیں.. چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ھے اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا..
مؤرخین عرب قوم کو تین گروھوں میں تقسیم کرتے ھیں..
عرب بائدہ..
یہ قدیم عرب لوگ ھیں جو اس ملک میں آباد تھے.. ان میں قوم عاد و ثمود کا نام آپ میں سے اکثر نے سن رکھا ھوگا.. ان کے علاوہ عمالقہ ' طسم ' جدیس ' امیم وغیرہ بھی اھم ھیں.. ان لوگوں نے عراق سے لیکر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں.. بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے..
یہ قومیں کیسے صفحہ ھستی سے مٹ گئیں اس کے متعلق تاریخ ھمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ھے.. لیکن اب بابل ' مصر ' یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ھورھے ھیں اور کتابیں لکھی جارھی ھیں.. جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ھمیں بتاتا ھے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو انکو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ھوگئیں..
عرب عاربہ..
عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ھے.. یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ھیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباھی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ھوۓ..
قحطان حضرت نوح علیہ السلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلاۓ.. پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پذیر ھوۓ.. مشھور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا.. پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی.. اسکی ایک وجہ تووہ مشھور سیلاب ھے جو "مارب بند " ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا جسکے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا.. اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ھے..
اور دوسری وجہ یہ کہ جب انکی آبادی پھیلی تو مجبورا" ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے.. جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وھاں اپنی آبادیاں قائم کیں.. جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھم مکہ کی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..
بنو قحطان کا ھی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھ یثرب (مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنی اسرائیل کے رھتے تھے انہیں مغلوب کرلیا.. قلعے بناۓ اور نخلستان لگاۓ.. اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشھور قبیلے تھے جنکا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ھے..
عرب مستعربہ..
سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ھونے والے بنو اسمائیل تھے.. انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ھے.. حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ھاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا.. اور خود واپس چلے گئے..
یاد رھے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ ھی خانہ کعبہ کا وجود.. خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تعمیر ھوا مگر خانوادہ ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ھوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسمائیل علیہ السلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراھیم علیہ السلام مکہ تشریف لاۓ تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی راھنمائی اور نگرانی میں خانہ کعبہ کو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا..
جب شدت گرمی اور پیاس سے حضرت اسمائیل علیہ السلام کی حالت خراب ھونا شروع ھوئی تو حضرت ھاجرہ.. ایک عظیم ماں کی وہ بے قرار دوڑ شروع ھوئی جو آج بھی حج کا ایک لازم حصہ ھے..
آپ پانی کی تلاش میں کبھی صفا پہاڑی پر چڑھ کر دور دور تک دیکھتیں کہ شائد کہیں پانی نظر آۓ اور کبھی صفا کی مخالف سمت میں مروہ پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتیں مگر وھاں پانی ھوتا تو نظر آتا.. اس دوران جب حضرت اسمائیل علیہ السلام کے رونے کی آواز ماں کے کانوں میں پڑتی تو بے قرار ھوکر ان کے پاس دوڑی دوڑی جاتیں اور جب انکو پیاس سے جاں بلب اور روتا بلکتا دیکھتیں تو پھر دیوانہ وار پانی کی تلاش میں جاتیں..
اسی اثناء میں کیا دیکھتی ھیں کہ جہاں ننھے اسمائیل علیہ السلام اپنی ایڑھیاں رگڑ رھے تھے وھاں سے پانی کسی چشمہ کی صورت ابل رھا ھے.. بھاگ کر بیٹے کے پاس پہنچیں.. اللہ کا شکر ادا کرتے ھوۓ بیٹے کو پانی پلایا.. خود بھی پیا اور پھر اس چشمہ کے ارد گرد تالاب کی صورت میں مٹی کی منڈیر بنادی لیکن جب پانی مسلسل بڑھتے بڑھتے تالاب کے کناروں سے باھر نکلنے لگا تو بے اختیا ر آپ کے مونھ سے نکلا..
" زم زم " (ٹھہر جا ٹھہر جا)
اور انکے یہ فرماتے ھی پانی یکدم ٹھہر گیا..
یہاں آپ سے زم زم کے کنویں کے متعلق ایک معجزاتی بات شیئر کرنا چاھتا ھوں.. موجودہ دور میں اس کنوں میں بڑی بڑی موٹریں لگا کر پانی نکالا جاتا ھے.. کنویں میں پانی کا لیول خانہ کعبہ کی بنیادوں سے ھمیشہ 6 فٹ نیچے رھتا ھے.. کنویں سے 24 گھنٹے لگاتار پانی نکالا جاتا ھے جسکی مقدار ملیئنز آف ملیئنز گیلنز میں ھوتی ھے..
اب دو بہت ھی عجیب باتیں ظہور پذیر ھوتی ھیں.. ایک تو یہ کہ 24 گھنٹے میں مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے کنویں کا جو لیول کم ھوتا ھے وہ بہت تیزی سے محض گیارہ منٹوں میں اپنی اصل جگہ پر واپس آجاتا ھے.. اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ھے کہ اتنی تیزی سے اوپر چڑھنے والا پانی ھمیشہ ھی اپنے لیول یعنی خانہ کعبہ کی بنیادوں سے 6 فٹ نیچے پہنچ کر خود بخود رک جاتا ھے..
یہ اوپر کیوں نہیں چڑھتا..؟
اور اگر یہ پانی خود بخود نہ رک جاۓ تو تب غور کریں کہ اگر 24 گھنٹے نکالا جانے والا پانی صرف 11 منٹوں میں پورا ھوجاتا ھے تو اگر یہ پانی نہ رکے اور اوپر چڑھ کر باھر بہنا شروع کردے تو تب کیا صورت پیدا ھوگی..؟
یقینا" یہ حضرت ھاجرہ کے مبارک فرمان یعنی "زم زم.. ٹھہرجا ٹھہرجا" کی برکت ھے کہ یہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور جتنا بھی اس سے پانی نکال لیا جاۓ یہ بس اپنے اسی لیول تک آ کر خود بخود رک جاتا ھے جہاں کبھی اسے حضرت ھاجرہ نے روکا تھا.. اب اصل موضوع کی طرف پلٹتے ھیں..
اوپر بنو قحطان کے ایک قبیلہ جرھم کا ذکر کیا گیا.. سرزمین عرب کیونکہ زیادہ تر صحرا اور لق و دق پہاڑی علاقہ پر مشتمل ھے اور پانی بہت نایاب ھے تو کسی جگہ آبادی کے لیے بہت ضروری ھے کہ وھاں پانی میسر ھو.. قبیلہ جرھم جب اپنے علاقہ یمن سے نئے وطن کی تلاش میں نکلا تو دوران سفر جب مکہ کی وادی میں پہنچا تو وھاں انکو زم زم کے چشمہ کی وجہ سے ٹھہرنا مناسب لگا.. کیونکہ چشمہ کی مالک حضرت ھاجرہ تھیں تو انہوں نے بی بی ھاجرہ کی اجازت سے چشمہ کے ساتھ میں ڈیرے ڈال دیئے اور آباد ھوگئے.. یوں حضرت ھاجرہ اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کو ایک مضبوط عربی قبیلہ کا ساتھ میسر آیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی کے ساتھ حضرت اسمائیل علیہ السلام کی شادی ھوئی جبکہ خانہ کعبہ بھی ازسر نو تعمیر ھوا..
یوں مکہ بے آب وگیاہ وادی سے ایک آباد شھر کا روپ اختیار کر گیا..
پچہلے صفحات میں خانوادہ ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت اور پھر ننھے اسمائیل علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نیچے سے زم زم کے چشمے کے پھوٹ پڑنے کا ذکر کیا گیا.. یہ چشمہ دراصل مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں زندگی کی نوید تھا.. پہلے قبیلہ جرھم جو پانی کی تلاش میں عرب کے صحراؤں میں پھر رھا تھا زم زم کے چشمہ کے پاس قیام پذیر ھوا اور پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور قبیلہ بنی قطورا بھی حضرت ھاجرہ کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..
اور یوں مکہ جس کا قدیم اور اصل نام بکہ تھا (سورہ آل عمران).. ایک باقائدہ آبادی کا روپ اختیار کرگیا..
اگلے 15 ' 20 سال میں چند اھم واقعات ظہور پذیر ھوۓ.. ان میں سے ایک تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا وہ خواب ھے جس میں انہیں حضرت اسمائیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ھوا.. یقیننا" یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کی ایک عظیم آزمائش تھی..
حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ کا حکم پاکر مکہ تشریف لاۓ اور اپنے بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام سے اپنے خواب کا ذکر کیا.. سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے نے جو اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھے یہ کہہ کر اپنی رضامندی ظاھر کردی کہ اگر یہ اللہ کا حکم ھے تو پھر مجھے قبول ھے آپ حکم ربی کو پورا کریں.. اور پھر عین اس وقت جب کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام حضرت اسمائیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے والے تھے , اللہ نے ان کو آزمائش میں کامیاب پاکر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ایک مینڈھے سمیت زمین پر بھیجا اور پھر حضرت اسمائیل علیہ السلام کی جگہ اس مینڈھے کی قربانی کی گئی..
اللہ کو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کا یہ فعل اتنا پسند آیا کہ پھر تا قیامت اس قربانی کی یاد میں حج پر قربانی فرض کردی اور تب سے ھر سال یہ سنت ابراھیمی جاری ھے اور عید الاضحی' کے دن لاکھوں مسلمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرکے اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ھیں.. حضرت اسمائیل علیہ السلام مکہ میں ھی فوت ھوۓ اور ایک روایت کے مطابق وہ اور ان کی والدہ حضرت ھاجرہ بیت اللہ کے ساتھ حجر (حطیم) میں مدفون ھیں.. واللہ اعلم..
دوسرا اھم واقعہ خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر تھی.. خانہ کعبہ حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور یہ زمین پر اللہ کا پہلا گھر تھا مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی عمارت بھی سطح زمین سے معدوم ھوگئی اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے زمانہ میں اس کا کوئی نشان تک ظاھر نہ تھا.. لیکن پھر اللہ کے حکم پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی خانہ کعبہ کی بنیادوں کی طرف نشاندھی کی اور آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام کے ساتھ ملکر خانہ کعبہ کی پرانی بنیادوں پر تعمیر کی.. اللہ کا یہ گھر ایسا سادہ تعمیر ھوا کہ اس کی نہ چھت تھی , نہ کوئی کواڑ اور نہ ھی کوئی چوکھٹ یا دروازہ.. کعبہ کو "کعبہ" اس کی ساخت کے مکعب نما ھونے کی بنا پر کہا جاتا ھے.. عربی میں چھ یکساں پہلوؤں والی چیز معکب کہلاتی ھے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تعمیر مکعب حالت میں تھی تو اسے کعبہ کہا جانے لگا.. یاد رھے کہ موجودہ خانہ کعبہ چار کونوں والا ھے جسے قریش مکہ نے اس وقت تعمیر کیا جب ایک سیلاب میں خانہ کعبہ کی عمارت منہدم ھوگئی تھی.. اس کا ذکر آگے آۓ گا..
تیسرا اھم واقعہ قبائل جرھم اور بنی قطورا کا حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تبلیغ پر دین حنیف یعنی دین ابراھیمی قبول کرلینا تھا.. خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تولیت یعنی سارا مذھبی انتظام قبیلہ جرھم کے حوالے کردیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی سے حضرت اسمائیل علیہ السلام کی شادی ھوئی..
جب کچھ پشتوں بعد نسل اسمائیل علیہ سلام پھلی پھولی تو پھر خانہ کعبہ کا سارا انتظام خود آل اسمائیل نے سنبھال لیا.. کچھ عرصہ گزرا تو ایک اور قبیلہ "ایاد" مکہ پر حملہ آور ھوا اور شھر پر زبردستی قبضہ کرلیا.. اور اس دوران بنی اسمائیل کے بہت سے قبائل کو مکہ سے نکلنا بھی پڑا.. تاھم بعد میں یمن سے آنے والے ایک اور قبیلہ بنو خزاعہ نے مکہ کو بنی ایاد سے آزاد کرالیا..
حضرت اسمائیل علیہ السلام کی نسل سے "قصی بن کلاب" وہ نامور بزرگ گزرے ھیں (جن کی شادی بنو خزاعہ کے رئیس کی بیٹی سے ھوئی تھی) جنہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت واپس لینے کے لیے جدو جہد شروع کی اور بالآخر بنو خزاعہ کی بہت مخالفت کے باوجود اس مقصد میں کامیاب ھوۓ.. انہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت کا انتظام پھر سے ملنے پر قدیم عمارت گرا دی اور خانہ کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرایا اور پہلی بار کجھور کے پتوں کی چھت بھی ڈالی..
درحقیقت قصی بن کلاب ھی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مکہ کو ایک خانہ بدوشانہ شھر سے بدل کر ایک منظم ریاست کی شکل دی.. انہیں بجا طور پر مکہ کا مطلق العنان بادشاہ کہا جاسکتا ھے جن کا ھر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا.. تاھم انہوں نے دیگر قبائل کے سرکردہ افراد کو اپنی مشاورت میں شامل رکھا جبکہ مکہ کا انتظام و انتصرام چلانے کے لیے مختلف انتظامی امور کو چھ شعبوں میں تقسیم کیا اور اپنی اولاد میں ان عہدوں کی تقسیم کی.. یہ نظام بڑی کامیابی سے اگلے 150 سال سے زائد عرصہ تک چلا اور پھر بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب مکہ فتح ھوا تو اسے اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر تبدیل کردیا گیا..
پچھلے صفحات میں قصی بن کلاب کا ذکر کیا گیا.. ایک روایت کے مطابق انہی کا لقب قریش تھا جس کی وجہ سے ان کی آل اولاد کو قریش کہا جانے لگا جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق قصی بن کلاب سے چھ پشت پہلے بنی اسمائیل میں "فہر بن مالک" ایک بزرگ تھے جن کا لقب قریش تھا..
خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ قصی بن کلاب اور ان کی اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی عزت و سیادت حاصل ھوگئی تھی اور پھر اس قریش (آل قصی بن کلاب) نے خود کو اس کے قابل ثابت بھی کیا..
قصی بن کلاب نے نہ صرف خانہ کعبہ کا جملہ انتظام و انتصرام کا بندوبست کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مکہ کو باقائدہ ایک ریاست کا روپ دے کر چھ مختلف شعبے قائم کیے اور انہیں قابل لوگوں میں تقسیم کیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا اور یہی نظام بعث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بڑی کامیابی سے چلایا گیا..
اس تقسیم کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد حضرت ھاشم کو سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے کا کام) , عمارۃ البیت (حرم میں نظم و ضبط قائم رکھنا اور احترام حرم کا خیال رکھنا) اور افاضہ (حج کی قیادت کرنا) کی خدمات سونپی گئیں جو ان کے بعد بنو ھاشم کے خاندان میں نسل در نسل چلتی رھیں..
حضرت ھاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. نہائت ھی جلیل القدر بزرگ تھے.. انہوں نے شاہ حبشہ اور قیصر روم سے بھی اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرلیے تھے جبکہ مختلف قبائل عرب سے بھی معاھدات کرلیے.. ان کی اس پالیسی کی وجہ سے قریش کے باقی قبائل میں بنو ھاشم کو ایک خصوصی عزت و احترام کا مقام حاصل ھوگیا تھا..
ان کے علاوہ میدان جنگ میں فوج کی قیادت اور علم برداری کا شعبہ خاندان بنو امیہ کے حصے میں آیا.. لشکر قریش کا سپہ سالار بنو امیہ سے ھی ھوتا تھا چنانچہ "حرب" جو حضرت ھاشم کے بھتیجے امیہ کے بیٹے تھے' ان کو اور انکے بیٹے حضرت ابوسفیان کو اسی وجہ سے قریش کے لشکر کی قیادت سونپی جاتی تھی..
جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو تیم بن مرہ کو اشناق یعنی دیوانی و فوجداری عدالت , دیت و جرمانے کی وصولی اور تعین کی ذمہ داری سونپی گئی..
اس کے علاوہ شعبہ سفارت حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں آیا.. ان کا کام دوسرے قبائل کے ساتھ مذاکرات , معاھدات اور سفارت کاری تھا..
بنو مخزوم جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا.. ان کے حصے میں "قبہ و اعنہ" کا شعبہ آیا.. ان کا کام قومی ضروریات کے لیے مال و اسباب اکٹھا کرنا اور فوجی سازو سامان اور گھوڑوں کی فراھمی تھا.. قریش کے گھڑسوار دستے کا کمانڈر بھی اسی قبیلے سے ھوتا تھا.. اپنا وقت آنے پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مدتوں شہہ سوار دستوں کی کمان نہائت خوش اسلوبی سے سنبھالی..
اسی طرح باقی پانچ شعبوں کی ذمہ داری مختلف قبائل قریش کے حوالے کردی گئی..
حضرت ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے.. چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمی' سے ھوئی مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ھاشم کا انتقال ھوگیا..
ان کی وفات کے بعد ان کا ایک بیٹا پیدا ھوا جس کا نام " شیبہ " رکھا گیا مگر چونکہ شیبہ کو ان کے چچا مطلب بن عبد مناف نے پالا پوسا تو شیبہ کو عبدالمطلب (مطلب کا غلام) کہا جانے لگا اور پھر انہیں تاریخ نے ھمیشہ اسی نام سے یاد رکھا..
حضرت عبدالمطلب بے حد حسین جمیل , وجیہہ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.. اللہ نے انہیں بےحد عزت سے نوازا اور وہ قریش مکہ کے اھم ترین سردار بنے..
ایک مدت تک ان کی اولاد میں ایک ھی بیٹا تھا جن کا نام حارث تھا.. حضرت عبدالمطلب کو بہت خواھش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ھوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے..
اللہ نے ان کی دعا اور منت کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس یا بارہ بیٹے پیدا ھوئے جن میں سے ایک جناب حضرت عبداللہ تھے..
آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹ بیٹے تھے اور نہ صرف اپنے والد کے بلکہ پورے خاندان کے بہت چہیتے تھے.. حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی..
دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی.. چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے.. جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا..
حضرت عبدالمطلب یہ دیکھ کر بہت پریشان ھوۓ کیونکہ شدت محبت کی وجہ سے ان کا دل نہ چاھتا تھا کہ حضرت عبداللہ کو قربان کردیں مگر چونکہ وہ منت مان چکے تھے تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاھتے تھے.. چنانچہ حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے..
یہ دیکھ کر خاندان بنو ھاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا ' بہت پریشان ھوۓ.. وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاھنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا.. چنانچہ جب اس کاھنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ.. عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ھیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا..
چنانچہ ایسے ھی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا.. اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا..
حضرت عبداللہ کی شادی بنو زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف کی بیٹی جناب حضرت آمنہ سے ھوئی جن کے بطن سے تاجدار دوجہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی..
اس سے پہلے کہ ھم کا باقائدہ آغاز کریں ضروری ھے کہ پیج میمبرز کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت قریش مکہ کے مذھبی , سیاسی , معاشرتی , معاشی اور تمدنی حالات سے روشناس کرایا جاۓ.. نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے ظہور پذیر ھونے والے واقعہ "عام الفیل" سے بھی آگاہ کیا جاۓ جب حبشی نژاد "ابرھہ" خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا..
جاری ھے...
No comments:
Post a Comment