Mushrekin Ne Islam Ko failane se rokne ke liye kaun kaun si sajishen ki?
Musalmano ko Saja de dekar Un unke Deen se door rakha jaye.
Jab Quraish walo ne Badshah Nazashi ke pas jakar Musalmano ko saja dene ki peshkash ki.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 11...
4 نبوی میں اسلامی دعوت کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرکین نے اس کے خاتمے کے لیے سابقہ کارروائیاں رفتہ رفتہ انجام دیں.. مہینوں اس سے آگے قدم نہیں بڑھایا اور ظلم وزیادتی شروع نہیں کی لیکن جب دیکھا کہ یہ تدبیریں اسلامی دعوت کو ناکام بنانے میں مؤثر نہیں ہورہی ہیں تو باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ان کے دین سے باز رکھا جائے.. اس کے بعد ہر سردار نے اپنے قبیلے کے ماتحت لوگوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے , سزائیں دینی شروع کیں اور ہر مالک اپنے ایمان لانے والے غلاموں پر ٹوٹ پڑا.. اور یہ بات تو بالکل فطری تھی کہ دم چھلے اور اوباش اپنے سرداروں کے پیچھے دوڑیں اور ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق حرکت کریں.. چنانچہ مسلمانوں اور بالخصوص کمزوروں پر ایسے ایسے مصائب توڑے گئے اور انہیں ایسی ایسی سزائیں دی گئیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل پھٹ جاتا ہے.. ذیل میں محض ایک جھلک دی جارہی ہے..
ابو جہل جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا کہتا , ذلیل ورسوا کرتا اور مال کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا.. اور اگر کوئی کمزور آدمی مسلمان ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی بر انگیختہ کرتا..
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتا..
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی ماں کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو ان کا دانہ پانی بند کر دیا اور گھر سے نکال دیا.. یہ بڑے ناز ونعمت میں پلے تھے.. شدت سے دوچار ہوئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی جیسے سانپ کچلی چھوڑتا ہے..
حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے.. امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے.. یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا.. پھر بھی أحد أحد کہتے رہتے.. خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا.. بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا.. پھر کہتا.. "واللہ ! تو اسی طرح پڑا رہے گا.. یہاں تک کہ مر جائے یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کرے اور لات وعزیٰ کی پوجا کرے.."
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس حالت میں بھی کہتے.. "أحد ___ أحد" اور فرماتے.. "اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا.."
ایک روز یہی کاروائی جاری تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا.. انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی ) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا..
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے غلام تھے.. انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی.. مشرکین جن میں ابوجہل پیش پیش تھا , سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پر لے جا کر اس کی تپش سے سزا دیتے.. ایک بار انہیں اسی طرح سزا دی جارہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا.. آپ نے فرمایا.. "آل یاسر ! صبر کرنا.. تمہارا ٹھکانہ جنت ہے.." آخرکار یاسر رضی اللہ عنہ ظلم کی تاب نہ لاکر وفات پاگئے اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں , ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور وہ دم توڑ گئیں.. یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں.. ان کے والد کا نام خیاط تھا اور یہ ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کی لونڈی تھیں.. بہت بوڑھی اور ضعیف تھیں..
حضرت عمار رضی اللہ عنہ پر سختی کا سلسلہ جاری رہا.. انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی ان کے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا.. یہاں تک کہ وہ ہوش حواس کھو بیٹھتے.. ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی نہ دو گے یا لات وعزیٰ کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے.. مجبورا" انہوں نے مشرکین کی بات مان لی.. پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس روتے اور معذرت کرتے ہوئے تشریف لائے.. اس پر یہ آیت نازل ہوئی..
''جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا (اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے ) لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (اس پر کوئی گرفت نہیں)" (۱۶ : ۱۰۶ )
حضرت ابو فکیہہ رضی اللہ عنہ جن کا نام افلح تھا , جو اصلاً قبیلہ ازد سے تھے اور بنو عبدالدار کے غلام تھے , ان کے دونوں پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کر دوپہر کی سخت گرمی میں باہر نکالتے اور جسم سے کپڑے اتار کر تپتی ہوئی زمین پر پیٹ کے بل لٹا دیتے اور پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ حرکت نہ کرسکیں.. وہ اسی طرح پڑے پڑے ہوش حواس کھو بیٹھتے.. انہیں اسی طرح کی سزائیں دی جاتی رہیں یہاں تک کہ دوسری ہجرت حبشہ میں وہ بھی ہجرت کر گئے.. ایک بار مشرکین نے ان کا پاؤں رسی میں باندھ اور گھسیٹ کر تپتی ہوئی زمین پر ڈال دیا.. پھر اس طرح گلا دبایا کہ سمجھے یہ مر گئے ہیں.. اسی دوران وہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا.. انہوں نے خرید کر اللہ کے لیے آزاد کردیا..
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے اور لوہاری کا کام کرتے تھے.. مسلمان ہوئے تو ان کی مالکہ انھیں آگ سے جلانے کی سزا دیتی.. وہ لوہے کا گرم ٹکڑا لاتی اور ان کی پیٹھ یا سر پر رکھ دیتی تاکہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کریں مگر اس سے ان کے ایمان اور تسلیم ورضا میں اور اضافہ ہوتا.. انھیں مشرکین بھی طرح طرح کی سزائیں دیتے.. کبھی سختی سے گردن مروڑتے تو کبھی سر کے بال نوچتے.. ایک بار تو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ڈال دیا.. اسی پر گھسیٹا اور دبائے رکھا.. یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی پگھلنے سے آگ بچھی..
حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا رومی لونڈی تھیں.. وہ مسلمان ہوئیں تو انھیں اللہ کی راہ میں سزائیں دی گئیں.. اتفاق سے ان کی آنکھ جاتی رہی.. مشرکین نے کہا.. "دیکھو ! تم پر لات وعزیٰ کی مار پڑگئی ہے.." انہوں نے کہا.. "نہیں ___ واللہ ! یہ لات وعزیٰ کی مار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر وہ چاہے تو دوبارہ بحال کر سکتا ہے.." پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن نگاہ پلٹ آئی.. مشرکین کہنے لگے.. "یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو ہے.."
غلاموں میں عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے.. اسلام لانے پر انھیں بھی اس قدر سزائیں دی جاتیں کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتے اور انھیں پتہ نہ چلتا کہ کیا بول رہے ہیں..
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سارے غلاموں اورلونڈیوں کو خرید کو آزاد کردیا.. اس پر ان کے والد ابو قحافہ نے ان کو عتاب کیا.. کہنے لگے.. میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور گردنیں آزاد کر رہے ہو.. توانا لوگوں کو آزاد کرتے تو وہ تمہارا بچاؤ بھی کرتے.." انہوں نے کہا.. "میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں.." اس پر اللہ نے قرآن اتارا.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدح کی اور ان کے دشمنوں کی مذمت کی.. فرمایا..
"اور اس آگ سے وہ پرہیزگار آدمی دور رکھا جائے گا جو اپنا مال پاکی حاصل کرنے کے لیے خرچ کررہا ہے.. اس پر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جارہا ہو بلکہ محض اپنے رب اعلیٰ کی مرضی کی طلب ہے.." (۹۲: ۱۷ تا ۲۱)
اس سے مقصود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں..
یہ اس ظلم وجور کا ایک نہایت مختصر خاکہ ہے جو اہل اللہ اور سکان حرم ہونے کا دعویٰ رکھنے والے سرکش مشرکین کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو سہنا پڑ رہے تھے.. اس سنگین صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہ ایسا محتاط اور حزم وتدبیر پر مبنی موقف اختیار کریں کہ مسلمانوں پر جو آفت ٹوٹ پڑی تھی اس سے بچانے کی کوئی صورت نکل آئے اور ممکن حد تک اس کی سختی کم کی جاسکے.. اس مقصد کے لیے رسول اللہ نے دو حکیمانہ قدم اٹھائے جو دعوت کا کام آگے بڑھانے میں بھی مؤثر ثابت ہوئے..
1... ارقم بن ابی الارقم مخزومی رضی اللہ عنہ کے مکان کو دعوت وتربیت کے مرکز کے طور پر اختیار فرمایا..
2... مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم فرمایا..
قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آرہے تھے.. درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں.. چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے , تحقیر اور استہزاء , تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ظلم وتعدی کا ہاتھ بھی بڑھادیا..
یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا ابولہب سر فہرست ہو کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا.. اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا.. وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی , یہی تھا.. اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا , پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے..
بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوادی.. اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتر (نسل بریدہ) ہوگئے ہیں.. (نعوذ بااللہ)
ایام حج میں ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کے لیے بازاروں , اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا.. صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا بلکہ پتھر بھی مارتا رہتا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں..
ابو لہب کی بیوی اُم جمیل جس کا نام اَرْویٰ تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت میں اپنے شوہر سے پیچھے نہ تھی.. چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی.. خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی.. چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنا , لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری و افتراء پردازی سے کام لینا , فتنے کی آگ بھڑکانا اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا..
ابو لہب اس کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا اور پڑوسی تھا , یہ ساری حرکتیں کررہا تھا.. اس کا گھر آپ کے گھر سے متصل تھا.. اسی طرح آپ کے دوسرے پڑوسی بھی آپ کو گھر کے اندر ستاتے تھے.. ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جو گروہ گھر کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیا کرتا تھا وہ یہ تھا.. ابو لہب , حَکم بن ابی العاص بن امیہ , عقبہ بن ابی مُعیط , عَدِی بن حمراء ثقفی , ابن الاصداء ہذلی.. ان میں سے حکم بن ابی العاص (یہ اموی خلیفہ مروان بن الحکم کے باپ ہیں) کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا..
ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپ کے اوپر گرتی.. چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجبور ہوکر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں.. بہرحال جب آپ پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپ اسے لکڑی پر لے کر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے.. "اے بنی عبد مناف ! یہ کیسی ہمسائیگی ہے..؟" پھر اسے سائیڈ پر ڈال دیتے..
عُقبہ بن ابی مُعیط اپنی بدبختی اور خباثت میں اور بڑھا ہوا تھا.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑ ھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے کچھ رفقاء بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں بعض نے بعض سے کہا.. "کون ہے جو بنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے.." اس پر قوم کا بدبخت ترین آدمی عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اوجھ لاکر انتظار کرنے لگا.. جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو اسے آپ کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا.. اس کے بعد وہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہی پڑے رہے , سَر نہ اٹھایا.. یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ کی پیٹھ سے اوجھ ہٹا کر پھینکی.. تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سَر اٹھایا , پھر تین بار فرمایا.. "اللّٰھم علیک بقریش O اے اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے.."
جب آپ نے بدعا کی تو ان پر بہت گراں گزری کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام لے لے کر بددعا کی.. "اے اللہ ! ابوجہل کو پکڑ لے اور عتبہ بن ربیعہ , شیبہ بن ربیعہ , ولید بن عتبہ , امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے.." انہوں نے ساتویں کا بھی نام گنایا لیکن راوی کو یاد نہ رہا..
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گن گن کر لیے تھے , سب کے سب بدر کے کنویں میں مقتول پڑے ہوئے تھے..
ابو جہل نے پہلے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا.. ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا گزر ہوا.. دیکھتے ہی بولا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا..؟" ساتھ ہی دھمکی بھی دی.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا.. اس پر وہ کہنے لگا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کاہے کی دھمکی دے رہے ہو.. دیکھو , اللہ کی قسم ! اس وادی (مکہ ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے.."
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی.. " فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (۹۶: ۱۷) اچھا ! تو بلائے اپنی محفل کو (ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)"
اس ڈانٹ کے باوجود ابوجہل اپنی حماقت سے باز آنے والا نہ تھا بلکہ اس کی بدبختی میں کچھ اور اضافہ ہی ہوگیا.. چنانچہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ (ایک بار سردارانِ قریش سے) ابوجہل نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ حضرات کے رُو برو اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے..؟ جواب دیا گیا.. " ہاں " اس نے کہا.. "لات وعزیٰ کی قسم ! اگر میں نے (اس حالت میں) اسے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا.."
اس کے بعد اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس زعم میں چلا کہ آپ کی گردن روند دے گا لیکن لوگوں نے اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایڑی کے بل پلٹ رہا ہے اور دونوں ہاتھ سے بچاو کر رہا ہے.. لوگوں نے کہا.. "ابو الحکم ! تمہیں کیا ہوا..؟" اس نے کہا.. "میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے , ہولناکیاں ہیں اور پَر ہیں.." رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے.."
اُمَیہ بن خلف کا وطیرہ تھا کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا.. اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی.. وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (۱۰۴: ۱) ''ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے..'' ابن ہشام کہتے ہیں ہُمَزَہ وہ شخص ہے جو علانیہ گالی بکے اور آنکھیں ٹیڑھی کرکے اشارے کرے اور لُمَزَہ وہ شخص جو پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائیاں کرے اور انہیں اذیت دے..
اُمیہ کا بھائی اُبی بن خلف , عُقبہ بن ابی معیط کا گہرا دوست تھا.. ایک بار عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کچھ سنا.. اُبی کو معلوم ہوا تو اس نے سخت سست کہا , عتاب کیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ پر تھوک آئے.. آخر عُقبہ نے ایسا ہی کیا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شروع سے جناب ابو طالب کی حمایت وحفاظت حاصل تھی.. وہ مکہ کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے اتنے باعظمت تھے کہ کوئی شخص بڑی مشکل سے ان کے عہد توڑنے اور ان کے خانوادے پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت کرسکتا تھا..
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے دن بدن بڑھتے اثرات نے قریش کو سخت پریشانی اور کشمکش سے دوچار کر رکھا تھا.. یہ صورت حال تقاضا کررہی تھی کہ کسی ناپسندیدہ دائرے میں پڑے بغیر اس مشکل سے نکلنے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں.. بالآخر انہیں یہ راستہ سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑے ذمہ دار جناب ابو طالب سے بات چیت کریں..
اشراف قریش سے چند آدمی جن میں عتبہ بن ربیعہ , شیبہ بن ربیعہ (بنی عبدالشمس) , ابوالبختری بن ہشام (بنی اسد) , ولید بن مغیرہ (بنی مخزوم) , عاص بن وائل سہم (بنی سہم) , نبیہّ بن حجاج اور ابو سفیان بن حرب (بنی امیہ) شامل تھے , ابو طالب کے پاس گئے اور بولے.. "ابو طالب ! آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے , ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے , ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے.. لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر ہیں.. ہم ان کے معاملے میں آپ کے لیے بھی کافی رہیں گے.."
اس کے جواب میں جناب ابوطالب نے نرم بات کہی اور انھیں نرمی سے سمجھا کر رخصت کردیا.. چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سابقہ طریقہ پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے..
لیکن جب قریش نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تبلیغ سے باز نہیں آرہے ہیں تو انھوں نے سرداران قریش پر مشتمل دوسرا وفد حضرت ابو طالب کے پاس بھیجا.. اس وفد نے ابو طالب سے کہا.. "ہم نے اس سے قبل ایک وفد آپ کے پاس بھیجا تھا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا.. ہم نے آپ کا پاس و لحاظ رکھا ہے مگر ہم اپنے بزرگوں کی توہین اور اپنے دیوتاؤں کی بےعزتی کو برداشت نہیں کرسکتے.. اب ہمارا مطالبہ ہے کہ یا تو آپ اپنے بھتیجے کو تبلیغ سے روک دیں یا پھر درمیان سے ہٹ جائیں تاکہ دونوں میں سے کسی ایک کا تصفیہ ہو جائے.."
جب حضرت ابو طالب نے دیکھا کہ مخالفت بڑھتی جارہی ہے اور اب قریش مزید تحمّل نہیں کرسکتے اور میں تنہا قریش کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختصر لفظوں میں کہا.. "اے میرے بھتیجے ! اپنی اور میری جان پر رحم کرو اور میرے اوپر اتنا بار نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں.."
ظاہری طور پر تو حضرت ابو طالب ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حمایتی اور پشت پناہ تھے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے پائے ثبات میں بھی لغزش آرہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آبدیدہ ہو کر فرمایا..
"چچا جا ن ! اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آؤں گا.. (حتی کہ) اللہ اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا.."
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پُر اثر جواب نے ابو طالب کو سخت متاثر کیا اور انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا.. "بھتیجے ! جاؤ جو چاہو کہو.. اللہ کی قسم ! میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا.." پھر یہ اشعار کہے
''واللہ ! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے.. یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں.. تم اپنی بات کھلم کھلا کہو.. تم پر کوئی قدغن نہیں.. تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں.."
قریش کی ابو طالب کو ایک آفر..
_______________________
پچھلی دھمکی کے باوجود جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کام کیے جارہے ہیں تو ان کی سمجھ میں آگیا کہ ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ نہیں سکتے بلکہ اس بارے میں قریش سے جدا ہونے اور ان کی عداوت مول لینے کو تیار ہیں.. چنانچہ وہ لوگ ولید بن مغیرہ کے لڑکے عُمَارَہ کو ہمراہ لے کر ابوطالب کے پاس پہنچے اور ان سے یوں عرض کیا.. "اے ابو طالب ! یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے.. آپ اسے لے لیں.. اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے.. آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں.. یہ آپ کا ہوگا اور آپ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے , آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کر رکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلایا ہے.. ہم اسے قتل کریں گے.. بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے.."
ابو طالب نے کہا.. "اللہ کی قسم ! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کر رہے ہو.. تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں , پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو !!!!!! اللہ کی قسم ! یہ نہیں ہوسکتا.."
اس پر نوفَل بن عبد مناف کا پوتا مُطْعِم بن عَدِی بولا.. "اللہ کی قسم ! اے ابوطالب ! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور جو صورت تمہیں ناگوار ہے اس سے بچنے کی کوشش کی ہے لیکن دیکھتا ہوں کہ تم ان کی کسی بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے.."
جواب میں ابوطالب نے کہا.. "واللہ !تم لوگوں نے مجھ سے انصاف کی بات نہیں کی ہے بلکہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالف لوگوں کی مدد پر تُلے بیٹھے ہو تو ٹھیک ہے.....جو چاھو کرو
جور وستم کا مذکورہ سلسلہ نبوت کے چوتھے سال کے درمیان یا آخر میں شروع ہوا تھا اور ابتدا معمولی تھا مگر دن بدن اور ماہ بماہ بڑھتا گیا.. یہاں تک کہ نبوت کے پانچویں سال کا وسط آتے آتے اپنے شباب کو پہنچ گیا.. حتیٰ کہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا دوبھر ہوگیا اور انہیں ان پیہم ستم رانیوں سے نجات کی تدبیر سوچنے کے لیے مجبورہوجانا پڑا.. ان ہی سنگین اور تاریک حالات میں سورۂ زُمَر کا نزول ہوا اوراس میں ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے..
''جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھائی کی , ان کے لیے اچھا ئی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے.. صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا.." (۳۹: ۱۰ )
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ "اَصحَمَہ" نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے.. وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا.. اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ ہجرت کر جائیں..
(السنن الکبریٰ للبیہقی 9/9)
اس کے بعد ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق رجب 5 نبوی میں صحابہ کرام کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی.. اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں.. حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کے امیر تھے اور ان کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی..
یہ لوگ رات کی تاریکی میں چپکے سے نکل کر اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوئے.. رازداری کا مقصد یہ تھا کہ قریش کو اس کا علم نہ ہوسکے.. رُخ بحر احمر کی بندرگاہ شُعَیْبَہ کی جانب تھا.. خوش قسمتی سے وہاں دو تجارتی کشتیاں موجود تھیں جو انہیں اپنے دامنِ عافیت میں لے کر سمندر پار حبشہ چلی گئیں.. قریش کو کسی قدر بعد میں ان کی روانگی کا علم ہوسکا.. تاہم انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل تک پہنچے لیکن صحابہ کرام آگے جاچکے تھے.. اس لیے نامراد واپس آئے.. ادھر مسلمانوں نے حبشہ پہنچ کر بڑے چین کا سانس لیا..
(زاد المعاد 1/24)
مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا سجدہ اور مہاجرین کی واپسی..
____________________________________
لیکن اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار حرم تشریف لے گئے.. وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا.. ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دم اچانک کھڑے ہو کر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کردی.. ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا کیونکہ ان کا دائمی وطیرہ قرآن کے الفاظ میں یہ تھا کہ..
''اس قرآن کو مت سنو اور اس میں خلل ڈالو (اودھم مچاؤ) تاکہ تم غالب رہو..'' (۴۱: ۲۶)
لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک اس سورۂ کی تلاوت شروع کردی اور ان کے کانوں میں ایک ناقابل بیان رعنائی ودلکشی اور عظمت لیے ہوئے کلام الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا.. سب کے سب گوش برآواز ہوگئے.. کسی کے دل میں کوئی خیال ہی نہ آیا.. یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ کے اواخر میں دل ہلا دینے والی آیات فرماکر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ..
فَاسْجُدُوْا لِلَّہِ وَاعْبُدُوْا O
''اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو.." (۵۳: ۶۲ )
اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے.. حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حق کی رعنائی وجلال نے متکبرین ومستہزئین کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کردیا تھا.. اس لیے انہیں اپنے آپ پر قابو نہ رہ گیا اور وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے تھے..
(صحیح بخاری میں اس سجدے کا واقعہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مختصراً مروی ہے.. دیکھئے: باب سجدۃ النجم اور باب سجود المسلمین والمشرکین ۱/۱۴۶ اور باب ما لقی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واصحابہ بمکۃ ۱/۵۴۳)
لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگا م موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کر بیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیر موجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھ کے طوطے اُڑ گئے اور انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ افتراء پردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپ نے ان بتوں کا ذکر عزت واحترام سے کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ....
تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی..
''یہ بلند پایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے..''
حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑ لیا گیا تھا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو'' غلطی'' ہو گئی ہے اس کے لیے ایک ''معقول'' عذر پیش کیا جاسکے.. اور ظاہر ہے کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمیشہ جھوٹ گھڑتے اور آپ کے خلاف ہمیشہ دسیسہ کاری اور افتراء پردازی کرتے رہے تھے وہ اپنا دامن بچانے کے لیے اس طرح کا جھوٹ کیوں نہ گھڑتے..
بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی معلوم ہوئی لیکن اپنی اصل صورت سے بالکل ہٹ کر..... یعنی انہیں یہ معلوم ہوا کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں..
چنانچہ انہوں نے ماہ شوال میں مکہ واپسی کی راہ لی لیکن جب اتنے قریب آگئے کہ مکہ ایک دن سے بھی کم فاصلے پر رہ گیا تو حقیقت حال آشکارا ہوئی.. اس کے بعد کچھ لوگ تو سیدھے حبشہ پلٹ گئے اور کچھ لوگ چھپ چھپا کر یا قریش کے کسی آدمی کی پناہ لے کر مکے میں داخل ہوئے..
(زاد المعاد ۱/۲۴، ۲/۴۴، ابن ہشام ۱/۳۶۴)
پہلی ہجرت حبشہ سے واپس ہونے کے بعد مسلمانوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کی پناہ میں تھا.. اس کے باوجود کفّار قریش نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا کیونکہ قریش کو ان کے ساتھ نجاشی کے حسن وسلوک کی جو خبر ملی تھی اس پر وہ نہایت چیں بہ جبیں تھے.. یہ حال دیکھ کر اوائل 6 نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو دوبارہ حبشہ کو ہجرت کرنے کی اجازت دی..
دوسری ہجرت پہلی ہجرت کے بالمقابل اپنے دامن میں زیادہ مشکلات لیے ہوئے تھی کیونکہ اب کی بار قریش پہلے سے ہی چوکنا تھے اور ایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کا تہیہ کیے ہوئے تھے.. کفار مکہ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن اس کے باوجود بھی 83 مرد اور 18 عورتیں حبشہ پہنچ گئے..
پہلی مرتبہ ہجرت کرنے والے صحابہ میں سے بعض اس دوسرے قافلہ میں بھی شریک ہو گئے.. دوسری بار بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معہ زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُبوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ معہ زوجہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہجرت کی.. ان کے علاوہ عبیداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ معہ زوجہ حضرت اُم حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا بھی مہاجرین میں شامل تھے.. حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ دونوں خواتین یعنی حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں داخل ہوئیں..
دیگر مہاجرین میں ابو جہل کے سوتیلے بھائی حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ , رئیس مکہ عتبہ کے صاحبزادے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ , حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ , حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ , حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ , حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ , حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ , حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ , حضرت علی کے بڑے بھائی حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن حزام ابن خویلد رضی اللہ عنہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے) قابل ذکر ہیں.. حضرت خالد بن حزام رضی اللہ عنہ کی وفات حبشہ جاتے ہوئے راستہ میں سانپ کاٹنے سے ہوئی.. حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا تھیں جن کے بطن سے حبشہ میں تین فرزند پیدا ہوئے..
حبشہ جاتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جعفر کو نجاشی کے نام ایک تعارفی خط دیا تھا جسے ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی تصنیف "رسول اکرم کی سیاسی زندگی" میں طبری , ابن القیم اور قسطلانی کے حوالے سے نقل کیا ہے..
تعارفی خط..
"بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نجاشی اصحمہ بادشاہ حبشہ کے نام..
میں اس خدا کی تعریف تمہیں لکھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں.. جو بادشاہ مقدس , سلامتی والا , امان دہندہ اور سلامت رکھنے والا ہے.. اور میں اقرار کرتا ہوں کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں جن کو پاک اور برائی سے محفوظ مریم بتول کی طرف ڈالا گیا تو وہ خداکی روح اور پھونک سے حاملہ ہوئیں.. جیسا کہ خدا نے حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا..
میں تجھے خدا وحدہٗ لا شریک کی طرف بلاتا ہوں اور یہ کہ تو میری اتباع کرے اور مجھ پر نازل شدہ چیز پر ایمان لائے کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں اور میں تجھے اور تیرے لشکروں کو خدائے عزو جل کی طرف بلاتا ہوں..
میں نے پیام پہنچا دیا اور بہی خواہی کی ہے.. اب تم میری بہی خواہانہ نصیحت کو قبول کرو.. اور میں نے تمہارے پاس اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو بھیجا ہے جس کے ہمراہ چند مسلمان بھی ہیں.. جب وہ تیرے پاس آئیں تو ان کی مہمان داری کر اور تکبّر چھوڑ دے..
سلام اُس پر جو ہدایت پر چلے.."
ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق اس تعارفی خط کے واقف کارانہ انداز سے گمان ہوتا ہے کہ شاید نبوت سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود حبشہ بہ سلسلہ تجارت تشریف لے گئے ہوں (دیگر مکی تاجروں کے ساتھ).. اس لئے پہلی بار مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ "حبشہ میں ایک ایسے بادشاہ کی حکومت ہے جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا" واقف کارانہ انداز بتلاتا ہے..
حبشہ کا پایہ تخت اس زمانے میں "اکسوم" تھا.. بعد میں "عدیس ابابا" پایہ تخت بنا.. اس وقت کے نجاشی حکمران کا نام اصمحہ تھا.. یہ فرمانروا اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا..
مہاجرینِ حبشہ کے خلاف قریش کی سازش..
__________________________________
حبشہ کی ہجرت کرنے والے دوسرے قافلہ میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد شامل تھا اس لئے مکہ کے ہر گھر میں کہرام مچ گیا.. مسلمان حبشہ میں چین سے رہنے لگے.. یہ خبر سن کر قریش مکہ بہت مضطرب ہوئے.. یہ مسئلہ دارالندوہ میں پیش ہوا اور بعد غور و خوض طے کیا گیا کہ ایک سفارت نجاشی کے پاس بھیجی جائے.. چنانچہ عمرو بن العاص (بعد میں فاتح مصر) اور عبداللہ بن ابی ربیعہ ( ابو جہل کا ماں جایا بھائی) کو جو گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے , بہت سے تحفے دے کر حبشہ روانہ کیا گیا..
انھوں نے حبشہ جا کر سب سے پہلے نجاشی کے امرأ اور مذہبی پیشواؤں (بطریقوں) سے ملاقات کی اور ان سے نجاشی کے دربار میں اپنے معروضہ کی تائید کرنے کی درخواست کی.. جب بطریقوں نے اس بات سے اتفاق کرلیا کہ وہ نجاشی کو مسلمانوں کے نکال دینے کا مشورہ دیں گے تو یہ دونوں نجاشی کے حضور حاضر ہوئے اور تحفے پیش کرکے اپنا مُدّعا عرض کیا..
"اے بادشاہ ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں.. انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ.. ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین , چچائوں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے.. مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان کے پاس واپس بھیج دیں کیونکہ وہ لوگ ان پر سب سے اونچی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور عتاب کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں.."
جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کر چکے تو بطریقوں نے کہا.. "بادشاہ سلامت ! یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں.. آپ ان جوانوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں.. یہ دونوں انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچادیں گے.."
لیکن نجاشی نے سوچا کہ اس قضیے کو گہرائی سے کھنگالنا اور اس کے تمام پہلوئوں کو سننا ضروری ہے چنانچہ اس نے مسلمانوں کو بلا بھیجا..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
No comments:
Post a Comment