find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 05

Abu lahab Aap Sallahu Alaihe Wasallam ka sabse bara mukhalif tha.
हज़रत मोहम्मद साहब की जीवनी, उनके व्यवहार, उनके आचरण।
मोहम्मद साहब कैसे स्वभाव के थे?

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 5...
حضرت عبداللہ کی شادی کے وقت عمر تقریبا" سترہ (17) یا بائیس (22) برس تھی.. عرب میں دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین ماہ تک اپنے سسرال میں رھائش پذیر رھتا.. چنانچہ حضرت عبداللہ بھی تین ماہ اپنے سسرال میں مقیم رھے.. بعد ازاں حضرت آمنہ کو لیکر مکہ اپنے گھر واپس آگئے..

اسلام سے پہلے دور جہالت میں باقائدہ نکاح کا کوئی عام رواج نہ تھا.. صرف خال خال ھی طبقہ اشرافیہ میں باقائدہ نکاح کیا جاتا ورنہ عام طور پر مرد و زن کے ازدواجی تعلقات زنا کی ھی صورت تھے.. اسلام کے بعد جن کے باقائدہ طریقے سے نکاح ھوۓ تھے ان کی شادیوں کو جائز اور صحیح سمجھا گیا اور ایسے جوڑوں کے اسلام لانے کے بعد ان کے قبل اسلام نکاحوں کو شریعت اسلامی کے مطابق درست قرار دیتے ھوۓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں سمجھی تھی.. ایسا ھی ایک صحیح اور باقائدہ نکاح حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا ھوا.. اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ھے کہ "میری ولادت باقائدہ نکاح سے ھوئی.. نہ کہ (نعوذباللہ) زنا یا بدکاری سے.."

پہلے کی اقساط میں ذکر کیا جاچکا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا حضرت ھاشم کے دور سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے ایران و شام اور یمن و ھند تک جایا کرتے تھے تو ایسا ھی ایک تجارتی قافلہ لیکر حضرت عبداللہ بھی شام کی طرف گئے.. وھاں سے واپس مکہ کی طرف لوٹتے ھوۓ راستہ میں یثرب (مدینہ) کے قریب وہ شدید بیمار پڑگئے.. چنانچہ وہ مدینہ میں ھی اپنے ننھیال اپنے ماموؤں کے پاس ٹھہر گئے جبکہ ان کے ھمسفر مکہ واپس آگئے..

جب حضرت عبدالمطلب نے ان کے ساتھ اپنے چہیتے بیٹے کو نہ دیکھا تو ان سے حضرت عبداللہ کے بارے میں پوچھا.. انہوں نے جب حضرت عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ کی بیماری کا بتایا تو حضرت عبدالمطلب بےحد پریشان ھوگئے.. فورا" اپنے سب سے بڑے بیٹے "حارث" کو یثرب حضرت عبداللہ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا لیکن جب جناب حارث یثرب پہنچے تو ان کو یہ اندوھناک خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بیماری کی تاب نہ لاکر وفات پا چکے ھیں اور ان کو "دارالغابغہ" میں دفن بھی کیا جاچکا ھے..

جناب حارث جب یہ المناک خبر لیکر مکہ واپس آۓ تو حضرت عبدالمطلب اپنے جان سے پیارے بیٹے کی جواں موت کا سن کر شدت غم سے بےھوش ھوگئے.. حضرت آمنہ پر اپنے محبوب شوھر کی موت کا سن کر سکتہ طاری ھوگیا.. دوسری طرف سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ اس دکھ کے ھاتھوں بے حال تھے.. خاندان بنو ھاشم پر ایک مجموعی سوگ کا عالم چھا گیا کیونکہ حضرت عبداللہ اپنے حسن و جمال , لیاقت , کردار اور نابغہ روزگار شخصیت کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھ کا تارہ تھے مگر یہ روشن ستارہ محض پچیس سال کی عمر میں ھی ڈوب گیا اور یوں تمام جہانوں کے لیے رحمت بننے والے اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی شکم مادر میں ھی تھے کہ یتیم ھوگئے..

جواں سال اور چہیتے بیٹے کی وفات کا غم حضرت عبدالمطلب کے لیے اگر سوھان روح تھا تو دوسری طرف محبوب شوھر کی موت کا دکھ حضرت آمنہ کے لیے لمحہ لمحہ کرب و اذیت کا باعث تھا لیکن اللہ نے ان دونوں کو زیادہ عرصہ غمزدہ نہ رھنے دیا اور حضرت عبداللہ کی وفات سے چند ماہ بعد بروز سوموار 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 ء کو حضرت آمنہ کے ھاں اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ھوۓ..

ایک کنیز کو فورا" حضرت عبدالمطلب کی طرف بھیجا گیا جو خوشی کے مارے دوڑتی ھوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچی جو اس وقت (غالبا") حرم شریف میں موجود تھے.. اتنی بڑی خوش خبری کو سن کر حضرت عبدالمطلب فورا" گھر پہنچے اور جب انہوں نے "ننھے حضور" کو دیکھا تو اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا.. پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا..

یہاں ان چند محیر العقول واقعات کا ذکر ضروری ھے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آۓ.. اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ھے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ دردزہ میں مبتلا تھیں' آپ فرماتی ھیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا.. اس کے ساتھ ھی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی.. اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ھوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ھاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا..

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ھیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وھاں موجود تھیں اور انہوں نے وھاں سواۓ نور کے کچھ اور نہ دیکھا اور باھر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ھوں..

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رھی تھیں.. ان کا بیان ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ھاتھ میں آۓ تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ھوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے در و دیوار چمک اٹھے..

اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ھے.. ھشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاھرہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کرتے ھیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا.. جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا.. "کیا تمہیں معلوم ھے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ھوا ھے..؟"

وہ بولے.. "نہیں تو.." دریافت کرنے پر معلوم ھوا کہ حضرت آمنہ بنت وھب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ھاں ایک بچہ پیدا ھوا ھے.. اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وھاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ..

یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے.. جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روۓ مبارک چاند سے زیادہ روشن ھے.. یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے اور پیشانی سے ظاھر ھورھے تھے.. دوسری طرف جب یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت ___ جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ھوش ھوکر گرگیا.. جب اسے ھوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا.. "ارے تجھے کیا ھوا ..؟"

وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا.. "آج ھم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ھوگیا.."

پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمھاری سطوت کی اب یہ خبر مشرق تا مغرب پھیل جاۓ گی..

حافظ ابو نعیم اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں عبدالرحمان بن ابی سعید کے حوالے سے بیان کرتے ھیں کہ ایک روز عبدالرحمان ابی سعید بنی اشہل میں ٹھہرے ھوۓ تھے.. انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی کوئی خبر نہ تھی مگر اگلے روز جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبیلہ حرب میں مقام ھدنہ پہنچے تو انہوں نے یوشع نام کے ایک یہودی عالم کو کہتے سنا.. "میں دیکھ رھا ھوں کہ "احمد" نام کا ایک نبی مکہ میں پیدا ھونے والا ھے.."

یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا.. "تو مذاق تو نہیں کر رھا..؟ اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ھوں گے..؟"

یوشع بولا.. "اس کا ظہور حرم کی طرف سے ھوگا.. اس کا قد نہ چھوٹا ھوگا نہ بہت طویل.. اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ھوں گے.. لباس کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ ھوگا.."

جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ھوئی یہ باتیں سنائیں تو اس کے قبیلے والے یک زبان ھوکر بولے.. "تم ایک یوشع کی بات کرتے ھو.. کل سے یثرب (مدینہ) کے تمام یہودی یہی باتیں کررھے ھیں.."

اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ھیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے اتفاقا" قبیلہ بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) میں چلے گئے.. انہوں نے وھاں دیکھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ھیں اور ان کا ایک عالم " زبیر بن باطا" کہ رھا ھے.. "آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ھوا ھے اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ھوتا ھے جب کہیں کوئی نبی پیدا ھوتا ھے.. آج جو نبی پیدا ھوا ھے اس کا نام احمد ھے جو آخری نبی کا نام ھے اور وہ ھجرت کرکے یہیں آۓ گا.."

یاد رھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تمام مذاھب کی مذھبی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ھیں جن کے مطابق آپ کا نام مبارک تورات و انجیل میں "احمد" آیا ھے..

جب مدت بعد کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ھوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی کیونکہ وہ بھی اس کا اتباع کرتی.."

ابو نعیم چند دوسرے ثقہ راویوں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتے ھیں کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کا کہنا تھا کہ سرخ ستارہ صرف دنیا کے آخری نبی کی ولادت پر طلوع ھوگا.. اس کا نام احمد ھوگا اور وہ ھجرت کرکے یثرب (مدینہ) آۓ گا.. ھمارے لیے اس کی اطاعت لازم ھے..

مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ھجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وھی یہودی جو اپنی مذھبی کتابوں کی پیشگوئیوں پر کہ ان کا نجات دھندہ نبی عرب میں ظہور پذیر ھوگا اور وہ فلسطین سے اسی انتظار میں یہاں مدینہ آباد ھوگئے تھے , صرف اس حسد کی بنا پر کہ نبی آخرالزماں ان کی قوم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسمائیل میں کیوں پیداھوا , نہ صرف اپنے قول سے پھر گئے بلکہ جانتے بوجھتے اپنے کفر پر بھی قائم رھے..

ان واقعات کے علاوہ چند اور عجیب ترین واقعات ولادت مبارکہ کے وقت شہنشاہ ایران "کسر'ی" کے محل میں پیش آۓ جب وھاں زلزلہ آیا اور نہ صرف محل کے چودہ کنگرے گرگئے بلکہ ایک ھزار سال سے روشن شاھی آتش کدے کی آگ بھی یکدم بجھ گئی جبکہ بحیرہ ساوہ جوش کھا کر خشک ھوگیا..

حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب "ھواتف الجان" میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشھور بادشاہ "نوشیرواں" کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گرپڑے..

اگر بات یہاں تک ھی محدود رھتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ھی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پذیر ھوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ شاھی آتشکدے میں پچھلے ھزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی..ایک ھزار سال میں ایسا کبھی نہ ھوا تھا کہ اس مقدس آتشکدے کی آگ بجھی ھو.. دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش (کھا کر ابلنے) والا ھوگیا..

نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا.. اس نے اپنے مشیر "موبذان" کو بلا کر یہ سب واقعات سناۓ اور اس کی راۓ طلب کی..

موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ھے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرھے ھیں اور انہوں نے دریاۓ دجلہ کو بھی عبور کرلیا ھے..

نوشیرواں جو پہلے ھی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا , یہ خواب سن کر پریشان ھوگیا.. اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی..

موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ھیں تو بہتر ھے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لیے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاھیے.. چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم "نعمان بن منذر" کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ فورا" اس کی خدمت میں حاضر ھو اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لاۓ جو بڑا عالم ھو اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے..

کسر'ی ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسر'ی ھوتا تھا جیسے روم کے حکمران "قیصر" اور مصر کے حکمران "فرعون" کہلاتے تھے) کا یہ شاھی فرمان ملتے ھی نممان بن منذر فورا" نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ھوگیا اور کسر'ی کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص "عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی" کو بھی ساتھ لے آیا..

نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا اور پھر انکی تعبیر پوچھی.. عبدالمسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاھیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاھر کرسکتا ھوں لیکن میری گزارش ھے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں "سطیح" سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ھیں , دریافت کیا جاۓ کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ھیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ھیں اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ھیں..

نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا..

عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا جہاں وہ اپنی ذریں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا.. عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ھے اور نوشیرواں کی خواھش پر ان کی تعبیر جاننا چاھتا ھے..

عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ھو گیا اور کسی نہائت گہری سوچ میں ڈوب گیا.. عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اسکی بات کو کوئی اھمیت نہیں دی ھے شکایتا" چند اشعار پڑھے جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا..

سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باھر آیا اور کہا.. "جو واقعات تم نے بیان کیے ھیں اگر وہ صحیح ھیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ھے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ھے تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسر'ی ایران کے ھاتھ سے سلطنت چھن جاۓ گی بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصرروم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ھوں یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جاۓ گا جنہیں موبذان نے خواب میں دریاۓ دجلہ عبور کرتے دیکھا ھے.."

جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آ کر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی اس کے بعد جو ھوگا دیکھا جاۓ گا..

بہرکیف تاریخ بتاتی ھے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ھوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ھوئی وہ بلآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی' عنہ کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور نہ صرف ایران کی تین ھزار ایک سو چونسٹھ سال سے جاری شہنشائیت کو مجاھدیں اسلام نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند دیا بلکہ سرزمین شام پر بھی اسلامی علم لہرا دیا گیا..

روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ھوۓ تو فورا" حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اس خوشخبری کی اطلاع حضرت عبدالمطلب کو دینے کے لیے بھیجا گیا.. حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں.. ان کا اصل نام برکہ تھا.. ان کی شادی بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کردی تھی جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ھوۓ..

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا خوشی کے مارے دوڑتی ھوئیں حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دی.. حضرت عبدالمطلب جو اس وقت حرم کعبہ میں موجود تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا سن کر وہ بےحد مسرور ھوۓ اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ فورا" گھر پہنچے.. وھاں "ننھے حضور" صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا.. پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا..

(یاد رھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ , دادا حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ھاشم تینوں ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح نہائت خوبصورت اور مردانہ وجاھت کا پیکر تھے)

بہقی نے مختلف حوالوں سے یہ بھی بیان کیا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپرد کردیا.. وہ ھر صبح کو حضرت عبدالمطلب کو بتاتیں کہ انہوں نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا.. وہ بتاتیں کہ نومولود یعنی ننھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو ھمیشہ بیدار ھی نظر آتے ھیں اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتے رھتے ھیں.. اس پر حضرت عبدالمطلب خوشی کا اظہار فرماتے کہ انہیں امید ھے کہ ان کا پوتا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی شان والا ھوگا..

شروع کے چند دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا.. دو تین دن بعد آپ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ھوا.. حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا "ابو لہب" کی کنیز تھیں.. ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں انھیں آزاد کر دیا.. حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا.. ان کے علاوہ چند اور عورتوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا..

افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشیاں منانے والا ابو لہب بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بدترین مخالف بن کر سامنے آیا اور وہ اور اس کی بیوی "ام جمیل" ساری زندگی اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رھے..

ابولہب شروع اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شائد سب سے بڑا مخالف تھا.. غالبا" یہی وہ شخص ھے جس نے تب قریش مکہ کو بدراہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بربادی کی بدعائیں دیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر اپنی ساری قوم کو اکٹھا کرکے توحید کی دعوت دی.. اسکی بیوی ام جمیل کی سیاہ کاریوں میں ایک یہ سیاہ عمل بھی شامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن راستوں سے گزرنے والے ھوتے یہ ان راستوں پر کانٹے بچھا دیتی.. ان دونوں کی مذمت میں ایک پوری سورہ نازل ھوئی جس کا نام اسی بدبخت کے نام پر سورہ ابی لہب ھے.. اسکا تفصیلی ذکر آگے آۓ گا..

===========>جاری ھے..

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS