Mujhe Allah ne Paigambar bana kar bheja hai aapke pas.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 13...
ان دونوں بطلِ جلیل یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے مسلمان ہوجانے کے بعد ظلم وطغیان کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور مسلمانوں کو جور وستم کا تختۂ مشق بنانے کے لیے مشرکین پر جو بدمستی چھائی تھی اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی.. چنانچہ دانشوران کفر نے "دارالندہ" میں تمام سرداروں کو جمع کرکے مشورہ کیا جس میں طے ہوا کہ سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے راست گفتگو کریں.. اس کے بعد ایک دن سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کی پشت پر جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا بھیجا..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیر کی توقع لیے ہوئے جلدی سے تشریف لائے.. جب ان کے درمیان بیٹھ چکے تو انہوں نے ویسی ہی باتیں کہیں جیسی عتبہ نے کہی تھیں اور وہی پیشکش کی جو عتبہ نے کی تھی.. شاید ان کا خیال رہا ہو کہ ممکن ہے تنہا عتبہ کے پیشکش کرنے سے آپ کو پورا اطمینان نہ ہوا ہو , اس لیے جب سارے رؤساء مل کر اس پیشکش کو دہرائیں گے تو اطمینان ہوجائے گا اور آپ اسے قبول کر لیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا..
"میرے ساتھ وہ بات نہیں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں.. میں آپ لوگوں کے پاس جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ اس لیے نہیں لے کر آیا ہوں کہ مجھے آپ کا مال مطلوب ہے یا آپ کے اندر شرف مطلوب ہے یا آپ پر حکمرانی مطلوب ہے.. نہیں بلکہ مجھے اللہ نے آپ کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے.. مجھ پر اپنی کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو خوشخبری دوں اور ڈراؤں.. لہٰذا میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور آپ لوگوں کو نصیحت کردی.. اب اگر آپ لوگ میری لائی ہوئی بات قبول کرتے ہیں تو یہ دنیا اور آخرت میں آپ کا نصیب ہے اور اگر رد کرتے ہیں تو میں اللہ کے امر کا انتظار کروں گا.. یہاں تک کہ وہ میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ فرمادے.."
اس جواب کے بعد انہوں نے ایک دوسرا پہلو بدلا.. کہنے لگے.. "آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ہمارے پاس سے ان پہاڑوں کو ہٹا کر کھلا ہوا میدان بنادے او راس میں ندیاں جاری کردے اور ہمارے مُردوں بالخصوص قصی بن کلاب کو زندہ کر لائے.. اگر وہ آپ کی تصدیق کردیں تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس بات کا بھی وہی جواب دیا..
اس کے انہوں نے ایک تیسر اپہلو بدلا.. کہنے لگے.. "آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ایک فرشتہ بھیج دے جو آپ کی تصدیق کرے اور جس سے ہم آپ کے بارے میں مراجعہ بھی کرسکیں اور یہ بھی سوال کریں کہ آپ کے لیے باغات ہوں , خزانے ہوں اور سونے چاندی کے محل ہوں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کا بھی وہی جواب دیا..
اس کے بعد انہوں نے ایک چوتھا پہلو بدلا.. کہنے لگے.. "اچھا تو آپ ہم پر عذاب ہی لادیجیے اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرادیجیے جیسا کہ آپ کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اس کا اختیار اللہ کو ہے.. وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے.."
انہوں نے کہا.. "کیا آپ کے رب کو معلوم نہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے , آپ سے سوال وجواب کریں گے اور آپ سے مطالبے کریں گے کہ وہ سکھا دیتا کہ آپ ہمیں کیا جواب دیں گے اور اگر ہم نے آپ کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا..؟"پھر اخیر میں انہوں نے سخت دھمکی دی اور کہنے لگے.. "سن لو ! جوکچھ کر چکے ہو اس کے بعد ہم تمہیں یوں ہی نہیں چھوڑیں گے بلکہ یا تو تمہیں مٹادیں گے یا خود مٹ جائیں گے.."
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ گئے اور اپنے گھر واپس آگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غم وافسوس تھا کہ جو توقع آپ نے باندھ رکھی وہ پوری نہ ہوئی..
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے پاس سے اٹھ کر واپس تشریف لے گئے تو ابوجہل نے انہیں مخاطب کر کے پورے غرور وتکبر کے ساتھ کہا.. "برادران قریش ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے دین کی عیب چینی , ہمارے آباء واجداد کی بدگوئی , ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا.. اس لیے میں اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ ایک بہت بھاری اور بمشکل اٹھنے والاپتھر لے کر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو اس پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا.. اب اس کے بعد چاہے آپ لوگ مجھ کو بے یارومددگار چھوڑ دیں چاہے میری حفاظت کریں اور بنوعبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں.."
لوگوں نے کہا.. "نہیں واللہ ! ہم تمہیں کبھی کسی معاملے میں بے یارو مدد گار نہیں چھوڑ سکتے.. تم جو کرنا چاہو کر گزرو.." چنانچہ صبح ہوئی تو ابوجہل ویسا ہی ایک پتھر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھ گیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب دستور تشریف لائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے.. قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آچکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی دیکھنے کے منتظر تھے..
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو ابوجہل نے پتھر اٹھایا , پھر آپ کی جانب بڑھا لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا.. اس کا رنگ فق تھا اور اس قدر مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے.. وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا.. ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے اور کہنے لگے.. "ابوالحکم ! تمہیں کیا ہوگیا ہے..؟"
اس نے کہا.. "میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جارہا تھا لیکن جب اس کے قریب پہنچا تو ایک اونٹ آڑے آگیا.. واللہ ! میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی , ویسی گردن اور ویسے دانت دیکھے ہی نہیں.. وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا.."
ابن اسحاق کہتے ہیں.. مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ جبریل علیہ السلام تھے.. اگر ابوجہل قریب آتا تو اسے ادھر پکڑتے.
جب قریش ترغیب و تحریص اور دھمکی و وعید سے ملی جلی اپنی گفتگو میں ناکام ہوگئے اور ابوجہل کو اپنی رعونت اور ارادہ ٔ قتل میں منہ کی کھانی پڑی تو قریش میں ایک پائیدار حل تک پہنچے کی رغبت بیدار ہوئی تاکہ جس ''مشکل'' میں وہ پڑ گئے تھے اس سے نکل سکیں..
ادھر انہیں یہ یقین بھی نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی باطل پر ہیں بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے وہ لوگ ڈگمگا دینے والے شک میں تھے.. لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ دین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سودے بازی کی جائے , اسلام اور جاہلیت دونوں بیچ راستے میں ایک دوسرے سے مل جائیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اپنی کچھ باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھوڑنے کے لیے کہا جائے.. ان کا خیال تھا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بر حق ہے تو اس طرح وہ بھی اس حق کو پالیں گے..
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ , ولید بن مغیرہ , امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آگئے.. یہ سب اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے.. بولے.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آئیے ! جسے آپ پوجتے ہیں اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے آپ بھی پوجیں.. اسی طرح ہم اور آپ اس کام میں مشترک ہوجائیں.. اب اگر آپ کا معبود ہمارے معبود سے بہتر ہے تو ہم اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے اور اگر ہمارا معبود آپ کے معبود سے بہتر ہوا تو آپ اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے.."
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نازل فرمائی جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو اسے میں نہیں پوج سکتا..
ابن جریر وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا.. "آپ ایک سال ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ہم ایک سال آپ کے معبود کی پوجا کریں.." اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی..
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ O ﴿٦٤﴾ (۳۹: ۶۴)
"آپ کہہ دیں کہ اے نادانو ! کیا تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کے لیے کہتے ہو.." ( تفسیر ابن جریر طبری)
اللہ تعالیٰ نے اس قطعی اور فیصلہ کن جواب سے اس مضحکہ خیز گفت وشنید کی جڑ کاٹ دی لیکن پھر بھی قریش پورے طور سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے دین سے مزید دست برداری پر آمادگی ظاہر کی.. البتہ یہ شرط لگائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جو تعلیمات لے کر آئے ہیں اس میں کچھ تبدیلی کریں.. چنانچہ انہوں نے کہا.. "اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی میں تبدیلی کردو.."
اللہ نے اس کا جو جواب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا اس کے ذریعہ یہ راستہ بھی کاٹ دیا.. چنانچہ فرمایا..
قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ O ﴿١٥﴾ (۱۰: ۱۵)
"آپ کہہ دیں مجھے اس کا اختیار نہیں کہ میں اس میں خود اپنی طرف سے تبدیلی کروں.. میں تو محض اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے.. میں نے اگر اپنے رب کی نافرمانی کی تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.."
مذکورہ بات چیت , اتنی ترغیبات , سودے بازیوں اور دست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہوگئے تھے.. وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں.. چنانچہ ان کے ایک شیطان "نضر بن حارث" نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا..
"قریش کے لوگو ! واللہ ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے.. محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے.. سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے.. اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہوچلے ہیں) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں , تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں.. نہیں ! واللہ ! وہ جادوگر نہیں.. ہم نے جادوگر دیکھے ہیں.. ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے..
اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں.. نہیں ! واللہ ! وہ کاہن بھی نہیں.. ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں.. ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں..
تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں.. نہیں ! واللہ ! وہ شاعر بھی نہیں.. ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف , ہجز , رجز وغیرہ سنے ہیں..
تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں.. نہیں ! واللہ ! وہ پاگل بھی نہیں.. ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے.. ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں..
قریش کے لوگو ! سوچو ___ واللہ ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے.."
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری ترغیبات پر لات مار دی ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں جبکہ سچائی , پاکدامنی اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آرہے ہیں تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہوگیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیا جائے.. چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے اور ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے کی تحقیق کرے..
چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو.. اگر وہ بتادے تو نبی مرسل ہے ورنہ سخن ساز..
1.. اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں , ان کا کیا واقعہ ہے..؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے..
2.. اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے اس کی کیا خبر ہے..؟
3.. اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے؟
اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تو اس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں.. اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی.. چنانچہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا.. چند دن بعد سورہ ٔ کہف نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا.. روح کے متعلق جواب سورۂ اسراء میں نازل ہوا..
اس سے قریش پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے اور برحق پیغمبر ہیں لیکن پھر بھی ان ظالموں نے کفر وانکار ہی کا راستہ اختیار کیا..
مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے.. انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے.. وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے.. سختی سے نرمی کی طرف اور نرمی سے سختی کی طرف.. جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف.. دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف.. کبھی بھڑکتے کبھی نرم پڑ جاتے.. کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے.. کبھی مرنے مارنے پر اتر آتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے.. کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے.. نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی.. اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہوجائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے..
لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارہ ٔ کار رہ گیا اور یہ تھا تلوار ___ مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا.. اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کریں..
کفّار قریش دیکھ رہے تھے کہ ان کی مزاحمت کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جاتا ہے , حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ایمان لا چکے ہیں , نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی اور وہاں سے ان کے سفراء بے نیل و مرام واپس آئے.. اس سے قریش کا رویّہ دن بہ دن سخت سے سخت تر ہوتا جاتا تھا.. معاندانہ سرگرمیاں اور سازشیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں.. اس سے بنی ہاشم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان) کے سردار کس طرح اپنی آنکھیں بند کر سکتے تھے.. انہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلّب کو جمع کیا.. عصبیتِ قبیلہ کی بناء پر سب ایک ہو گئے بجز ابو لہب کے..
یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں بلکہ قبیلہ کی حمایت کا سوال تھا.. سرداران قریش نے حضرت ابو طالب کے پاس جاکر یہ دھمکی دی کہ آپ اپنے بھتیجے کو ایسی باتوں سے روکیں یا ہم سے برسر پیکار ہوجائیں , یہاں تک کہ ایک فریق فنا ہوجائے.. اس کے بعد حضرت ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے بھتیجے آپ مجھ پر اور اپنی ذات پر رحم کھائیے اور ناقابل برداشت بوجھ مجھ پر نہ ڈالئے.. یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اے چچا جان واﷲ ! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر مہتاب بھی رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے باز نہ آوں گا.."
جب حضرت ابو طالب نے یہ متحدہ محاذ دیکھا تو انھوں نے یہ طے کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کی بات بنو ہاشم کے سامنے رکھیں اور ان کو بھی اس کی دعوت دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کا عہد ان سے لیں.. حضرت ابو طالب کی دعوت پر بجز دشمن اسلام ابو لہب کے بنو ہاشم کا ایک ایک فرد جمع ہوگیا.. جب بنو ہاشم کے سامنے ابو طالب نے قریش کی معاندانہ اور ظالمانہ کاروائیوں کی شدت کی روداد کو رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور حمایت کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا اور اپنے عہد و عزیمت کا ان کے سامنے اظہار کیا اور ان کو بھی اس کی دعوت دی تو سبھوں نے ابو طالب کی دعوت پر لبیک کہا اور عہد کیا کہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہیں گے..
حضرت ابوطالب اپنے نوجوانوں کے اس فیصلہ سے بہت مسرور ہوئے اور انتہائی مسرت میں پرجوش الفاظ میں خاندانی مفاخرت اور ہاشمی شجاعت اور ہمیشہ ظلم کی مدافعت میں سینہ سپر رہنے کی روایات پر اشعار کہے اور قصائد لکھ کر بنو ہاشم کو ان کی عظمت کا احساس دلایا.. یہ اشعار کعبہ میں بلند آواز میں پڑھے گئے.. اس پُرزور قصیدہ نے قبائلی وقار کی خاطر منتشر قوتوں کو یکجا کردیا اور حضرت ابو طالب کی کوششوں سے بنی ہاشم , بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کی عصبیت جاگ اٹھی اور تینوں گھرانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے متحد ہوگئے..
جب مشرکین نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ہر قیمت پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور بچاؤ کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں تو بالآخر وادئ مُحصَّب میں خیف بنی کنانہ کے اندر جمع ہو کر انھوں نے بنی ہاشم سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اس مقاطعہ کا تحریری عہد نامہ مختصر الفاظ میں چمڑہ پر لکھوایا گیا..
دانشوران کفر نے بعد مشورہ قبیلہ بنی ہاشم کے سماجی و معاشی مقاطعہ کی تجویز منظور کی.. اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق اسی گھرانہ سے تھا اور دوسرے یہ کہ بہ حیثیت سربراہ قبیلہ حضرت ابوطالب نے ان کی بار بار کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا.. انہوں نے خیال کیا کہ اگر بنی ہاشم کو یوں بے بس کر دیا جائے تو خود بخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے کردیں گے.. اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اک عہد نامہ مرتب ہوا جو بنی ہاشم , بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کے خلاف تھا..
یہ مقاطعہ کسی خاص مدت کے لئے نہیں تھا بلکہ غیر معینہ مدت کے لئے تھا جب تک محصورین خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حوالے نہ کردیں.. مقاطعہ کی اہم شرائط حسب ذیل ہیں..
1.. ذریعہ معاش تباہ کرنے کے لئے کوئی بھی ان کے ساتھ لین دین اور خرید و فروخت نہ کرے گا..
2.. بنی ہاشم سے صلہ رحمی باقی نہ رکھنے کے لئے کوئی بھی ان کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کرے گا اورنہ اپنی بیٹی انھیں دے گا..
3.. انھیں اپنی صحبت میں بھی نہیں بیٹھنے دیا جائے گا تاکہ کوئی شخص ان کی باتوں سے متاثر نہ ہو..
4.. ان سے قطع تعلق کرنے کے لئے کوئی بھی ان سے بات چیت نہیں کرے گا..
5.. انھیں بھوکے رکھنے کے لئے خوراک فراہم نہیں کی جائے گی اور ان کا کوئی حمایتی انھیں خوراک نہیں پہنچائے گا..
6.. سب لوگوں سے روابط ختم کرنے کے لئے انھیں بازاروں میں گھومنے پھرنے نہیں دیا جائے گا..
مشرکین نے اس بائیکاٹ کی دستاویز کے طور پر ایک صحیفہ لکھا جس میں اس بات کا عہد وپیمان کیا گیا تھا کہ وہ بنی ہاشم کی طرف سے کبھی بھی کسی صلح کی پیش کش قبول نہ کریں گے نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت برتیں گے جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مشرکین کے حوالے نہ کردیں..
بہر حال یہ عہد وپیمان طے پا گیا اور صحیفہ خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا.. اس کے نتیجے میں ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ مسلمان رہے ہوں یا کافر , سمٹ سمٹا کر "شِعَبِ ابی طالب" میں محبوس ہوگئے.. یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتویں سال محرم کی چاند رات کا واقعہ ہے....
قریش مکہ کے سماجی مقاطعہ کے بعد حضرت ابوطالب مجبور ہو کر بنو ہاشم اور بنی مطلّب کی حفاظت کی خاطر پہلی محرم 7 نبوی کی شب کو تمام خاندان بنی ہاشم کے ساتھ (بجز ابولہب کے) کوہ ابو قبیس میں واقع گھاٹی "شعب ابی طالب" میں پناہ گزیں ہو گئے.. گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں.. کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں جیسے شعب المطلب , شعب بنی ہاشم , شعب بنی اسد , شعب بنی عامر , شعب بنی کنانہ وغیرہ.. یہ شعب بنی ہاشم کی موروثی ملکیت تھی.. اس وقت بنی ہاشم کے سردار ابو طالب تھے اس لئے یہ گھاٹی ان ہی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی.. آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل" کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے.. اسے محلۂ ہاشمی بھے کہتے ہیں.. مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم , مولد علی رضی اللہ عنہ اور دارِ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس شعب میں واقع ہیں.. اسے شعب علی رضی اللہ عنہ یا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے..
اس محصوری کے زمانے میں تمام محصورین مصائب و آلام کا شکار تھے.. کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ چند مہینوں میں ختم ہو گیا.. قریش مکہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں غلّے اور سامان خوردونوش کی آمد بند ہوگئی کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے اس لئے فقر و فاقہ کی نوبت آگئی.. ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی وہ بھی پس پردہ.. بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں جب گھاٹی کے باہر سنائی دیتیں تو قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے..
حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے.. احادیث میں جو صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کرتے تھے , یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے.. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو اونٹ کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا.. میں نے اس کو پانی سے دھویا , پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا.. اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو نازو نعم میں پلی بڑھی تھیں لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لئے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں..
محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تاکہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے جس کا منشاء صرف ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنا تھا.. بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا.. ایک روز حکیم بن حزام نے (جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا.. اتفاق سے ابوالبختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا.. وہ اگرچہ کافر تھا لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لئے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے لیکن ابوجہل نے سرکشی دکھائی تو ابوالبختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زدو کوب کیا.. یہ منظر شعب سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے..
عبد مناف کا ایک رشتہ دار ہشام بن عمرو بن حارث تھا جو بہت شریف اور نیک طینت انسان تھا.. محصورین کی حالت پر رحم کھا کر رات میں اونٹ پر اجناس لاد کر شعب میں ہانک دیتا.. بنی ہاشم سامان اتار کر اونٹ کو باہر بھیج دیتے.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے داماد ابوالعاص بن ربیع (رضی اللہ عنہ.. حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) جن کا تعلق بنی اُمیہ سے تھا , وہ بھی اکثر راتوں میں کھجور اور گیہوں شعب میں بھجوا دیتے..
ادھر محصوری کے دوران حضرت ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا.. حضرت ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لئے دراز ہوجاتے تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بستر پر لیٹنے کے لئے کہتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے کہ آپ یہاں سو رہے ہیں.. جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو حضرت ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ بدل دیتے یعنی اپنے بیٹوں , بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سلا دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے کہ آپ اس کے بستر پر چلے جائیں..
اس محصوری کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے مسلمان حج کے ایام میں باہر نکلتے تھے اور حج کے لیے آنے والوں سے مل کر انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے.. اس موقع پر ابو لہب کی جو حرکت ہوا کرتی تھی اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
No comments:
Post a Comment