find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 18

Allah ke nabi ke Hijrat karne se makka pe kya asar pada?
Allah ke nabi Makka se madina kyu Hijrat kiye?

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 18...

جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی اور اسلام __ کفر وجہالت کے لق ودق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے وطن کی طرف ہجرت کرجائیں..

ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچالی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میں ہے.. ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جاسکتی ہے.. پھر سفر ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے , معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم والم رونما ہوں گے..

مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کردی.. ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں.. ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں..

سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ تھے.. انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کُبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی.. ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے.. جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی جان.. اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آگئے لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی..؟ آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں..؟ چنانچہ انہوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی..

اس پر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو تاؤ آگیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوں نے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے چنانچہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے.. خلاصہ یہ کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا..

اس کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے بعد روزانہ صبح صبح ابطح پہنچ جاتیں جہاں یہ ماجرا پیش آیا تھا اور شام تک روتی رہتیں.. اسی حالت میں ایک سال گزر گیا.. بالآخر ان کے گھرانے کے کسی آدمی کو ترس آگیا اور اس نے کہا کہ اس بیچاری کو جانے کیوں نہیں دیتے.. اسے خواہ مخواہ اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے.. اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ..

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیٹے کو اس ددھیال والوں سے واپس لیا اور مدینہ چل پڑیں.. اللہ اکبر ! کوئی پانچ سو کیلومیٹر کی مسافت کا سفر اور ساتھ میں اللہ کی کوئی مخلوق نہیں.. جب تَنَعِیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ مل گیا.. اسے حالات کی تفصیل معلوم ہوئی تو مشایعت کرتا ہوا مدینہ پہنچانے لے گیا اور جب قباء کی آبادی نظر آئی تو بولا.. "تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے اسی میں چلی جاؤ.. اللہ برکت دے.." اس کے بعد وہ مکہ پلٹ آیا..

ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی لیلیٰ بنت ابی حشمہ رضی اللہ عنہا کا نام مہاجرین کی فہرست میں اول ہے.. اس کے بعد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ , حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ہیں.. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چھپ کر مدینہ روانہ ہوئے.. اس کے بعد ہجرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا..

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا.. "تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیر وفقیر تھے لیکن یہاں آ کر تمہارا مال بہت زیادہ ہوگیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے.. اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دو تو واللہ ! ایسا نہیں ہوسکتا.."

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اچھا یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دوگے..؟" انہوں نے کہا.. "ہاں !" حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اچھا تو پھر ٹھیک ہے.. چلو میرا مال تمہارے حوالے.."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "صہیب نے نفع اٹھایا ___ صہیب نے نفع اٹھایا.."

حضرت عبداللہ بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ حبشہ میں تھے.. مسلمانوں کی مدینہ کو ہجرت سن کر مکّہ آئے.. والد نے پکڑ کر قید کردیا اور تکلیفیں دینی شروع کردیں.. آخر تنگ آ کر باپ کو یقین دلایا کہ آبائی دین کی طرف لوٹتا ہوں , اس طرح قید سے نجات پائی.. جنگ بدر میں جب مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہوئیں تو موقع پا کر مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوگئے.. ان کے والد سہیل (رضی اللہ عنہ) فتح مکہ کے روز ایمان لائے..

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ھجرت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے.. صحابہ کرام عموماً کافروں کے شر سے بچنے کے لئے بغیر کسی اعلان و اظہار کے خاموشی کے ساتھ ہجرت کر رہے تھے کیونکہ کفار انھیں ہجرت سے روکتے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی وہ واحد صحابی ہیں جنھوں نے علانیہ طور پر ہجرت کی..

جب آپ رضی اللہ عنہ سفر مدینہ کے لئے تیار ہوئے تو انھوں نے اس شان سے ہجرت کی کہ پہلے مسلح ہوئے.. پہلو میں تلوار لٹکائی , کندھے پر کمان دھری , تیر ہاتھ میں لئے , نیزہ سنبھالا اور خانہ کعبہ گئے.. صحن حرم میں قریش کی مجلس جمی تھی.. آپ رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کی.. پھر قریش جہاں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے , وہاں آئے اور کہا..

"دشمن مغلوب ہوں.. (میں ہجرت کرکے مدینہ جا رہا ہوں) جو چاہتا ہے اس کی ماں بین کرے , اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی رفیقۂ حیات بیوہ ہو , وہ مجھے اس وادی کے پار روک کر دیکھ لے.."

مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا.. چنانچہ وہ راہی مدینہ ہوئے.. راستہ میں کچھ مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگئے.. اس طرح بیس افراد کا یہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا..

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ جو ہجرت کے لئے نکلتے تھے وہ فتنہ میں مبتلا ہوجاتے تھے.. کفار کو ان کی ہجرت کا علم ہوتا تو انھیں گرفتار کرلیتے تھے اور اس بات کی بھی کوشش کرتے تھے کہ مدینہ سے ان کو کسی حیلے سے مکہ لاکر قید کر دیں.. چنانچہ حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا.. حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تینوں نے ایک ساتھ ہجرت کا ارادہ کیا اور ان میں یہ بات قرار پائی کہ بنی غفار کے تالاب کے پاس "مقام تناسب" میں جمع ہوجائیں.. ہم میں سے جو بھی صبح کو وہاں نہیں پہنچے گا تو سمجھ لیا جائے گا کہ وہ گرفتار ہوگیا.. اس لئے بغیر انتظار کے پہنچ جانے والے روانہ ہوجائیں گے.. صبح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عیاش رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کفار کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے جنھیں ایک گھر میں بیڑی پہنا کر قید کردیا گیا..

جب یہ دونوں حضرات مدینہ پہنچ کر قبا میں اتر چکے تو حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کے پاس ابوجہل اور اس کا بھائی حارث پہنچے.. تینوں کی ماں ایک تھی.. ان دونوں نے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا.. "تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لے گی , سر میں کنگھی نہ کرے گی اور دھوپ چھوڑ کر سائے میں نہ آئے گی.."

یہ سن کر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کو اپنی ماں پر ترس آ گیا.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا.. "عیاش ! دیکھو اللہ کی قسم یہ لوگ تم کو محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں لہٰذا ان سے ہوشیار رہو.. اللہ کی قسم ! اگر تمہاری ماں کو جوؤں نے اذیت پہنچائی تو کنگھی کرلے گی اور اسے مکہ کی ذرا کڑی دھوپ لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی.."

مگر حضرت عیاش رضی اللہ عنہ چونکہ رقیق القلب تھے , وہ نہ مانے اور مکہ جانے کے لئے تیار ہوگئے.. انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کرلیا..

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو.. یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے.. اس کی پیٹھ نہ چھوڑنا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا.."

حضرت عیاش رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے.. راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے کہا.. "وﷲ ! میں نے اپنے اونٹ پر بوجھ بہت لاد دیا ہے.. کیا تھوڑی دیر کے لئے اپنی اونٹنی پر نہیں بٹھاؤ گے.."

حضرت عیاش رضی اللہ عنہ نے کہا.. "کیوں نہیں.." اور اس کے بعد اونٹنی بٹھادی.. ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاں بٹھائیں تاکہ ابوجہل حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر پلٹ آئے لیکن جب تینوں زمین پر آگئے تو یہ دونوں اچانک حضرت عیاش رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور اسی بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا.. "اے اہلِ مکہ ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے.."

حضرت ہشام رضی اللہ عنہ اور حضرت عیاش رضی اللہ عنہ کفار کی قید میں پڑے رہے.. جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز کہا.. "کون ہے جو میرے لیے ہشام اور عیاش کو چھڑا لائے.."

حضرت ولید بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا.. "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں حاضر ہوں.." حضرت ولید رضی اللہ عنہ چھپ کر مکہ پہنچے.. ایک عورت کو دیکھا کہ کھانا لئے جارہی ہے.. پوچھا "ﷲ کی بندی کہاں جارہی ہے.." اس نے کہا.. "میں دو قیدیوں کے پاس جارہی ہوں.." یہ بھی اس کے پیچھے ہو لئے اور جس گھر میں وہ قید تھے اس کو پہچان لیا.. اس گھر پر چھت نہ تھی.. جب رات ہوئی تو دیوار پھاند کر ان کے پاس پہنچے اور بیڑیوں کو تلوار مار کر کاٹ دیا.. پھر ان دونوں کو اپنے اونٹ پر سوار کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے..

عازمین ہجرت کا علم ہوجانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے , اس کے یہ تین نمونے ہیں لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے.. چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم , حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا..

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "جلدی نہ کرو.. شاید اللہ تمہیں ایک ساتھی عطا فرمائے.." حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امید ہو گئی کہ وہ ساتھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں.. چنانچہ انھوں نے دو اچھی نسل کی اونٹنیاں خریدیں اور انھیں سفر کے لئے تیار کیا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوقت ہجرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑا.. محض اس لئے کہ اہل مکہ کی جو امانتیں ان کے پاس تھیں وہ لوٹا دیں اور پھر ہجرت کریں.. امانتیں اُسی وقت لوٹانے سے راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا..

یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ارشاد رکے ہوئے تھے البتہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا ساز وسامان تیار کرکے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رخت سفر بھی بندھا ہوا تھا..

جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرام تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کو لے کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جا پہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا.. بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد جب کفار قریش کو اس بیعت کی تفصیل معلوم ہوئی تو انھوں نے خیال کیا کہ مسلمانوں کو اب یثرب میں ٹھکانہ میسر آگیا ہے اور قبائل اوس و خزرج کی مدد بھی حاصل ہو گئی ہے.. بہت ممکن ہے کہ عنقریب تمام مسلمان یثرب کو ہجرت کر جائیں.. کفّاران قریش نے محسوس کیا کہ کچھ دن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہجرت کر جائیں گے..

مشرکین کو معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر کمال قیادت و رہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپ کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے.. پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں.. انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے , اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے.. درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی.. اہل ِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے..

ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے.. اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جو ان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا.. چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے..

مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد 26 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622 یوم جمعرات کو دن کے پہلے پہر مکے کی پارلیمنٹ "دار الندوہ" میں خفیہ اجتماع منعقد کیا.. اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے..

ابوجہل بن ہشام قبیلہ بنی مخزوم سے..
جبیر بن مطعم , طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے..
شیبہ بن ربیعہ , عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے..
نضر بن حارث بنی عبد الدار سے..
ابو البختری بن ہشام , زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے..
نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے..
امیہ بن خلف بنی جمح سے..

اجتماع مکمل ہوگیا تو تجاویز اور حل پیش کیے جانے شروع ہوئے اور دیر تک بحث جاری رہی.. پہلے ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاوطن کردیں.. پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہا ں رہتا ہے.. بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہوجائے گی.

ابوالبختری نے کہا کہ اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور باہر سے دروازہ بند کردو.. پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلا" زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہوچکا ہے..

یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ نے رد کردیں تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا.. اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابوجہل تھا..

اس نے کہا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں میری ایک رائے ہے.. میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے.."

لوگوں نے کہا.. "ابوالحکم وہ کیا ہے..؟"

ابوجہل نے کہا.. "میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر ہر قبیلے سے ایک مضبوط , صاحبِ نسب اور بانکا جوان منتخب کرلیں , پھر ہر ایک کو تیز تلوار دیں.. اس کے بعد سب کے سب کا رخ کریں اور اس طرح یکبارگی تلوار مار کر قتل کردیں جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو.. یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے.. لہٰذا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کردیں گے.."

پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی تنفیذ علی الفور کرنی ہے.. دن , تاریخ اور وقت قتل بھی خفیہ طور پر طے کرلیا گیا لیکن اس مقررہ تاریخ سے عین ایک روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفارانِ قریش کی رازدارانہ کارروائی سے مطلع فرمایا.. سورہ ٔ انفال کی آیت نمبر 30 میں اس جانب اشارہ فرمایا گیا ہے..

"اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ کفار تمہارے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا جلا وطن کر دیں.. وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے..

ہجرت کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسب ذیل امور پر روشنی ڈالی جائے..

ہجرت کیوں کی گئی ؟؟
_________________

مکہ کے صنم کدے میں جہاں بیت ﷲ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی کہ ساری دنیا میں یہاں سے توحید کی آواز پہنچائی جائے گی وہاں سینکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور انہی کی جئے کا نعرہ لگتا تھا.. اس پر عقیدت و ارادت کا ایسا رنگ چڑھ گیا تھا کہ اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا مصیبت کو دعوت دینا تھا اور جان بوجھ کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا تھا.. دنیا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب توحید کی صدا بلند کی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی اور کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرلیا تو مکہ کے صنم کدہ میں دفعۃ" زلزلہ پڑگیا اور بتوں کی حمایت اور توحید کی مخالفت میں ایک ساتھ پوری آبادی نے ہجوم و یلغار سے کام لیا..

وجہ نزاع صرف یہ تھی کہ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم کو اپنے اعتقاد و ضمیر کی آزادی دو , ہم کو اپنی عقل اور اپنی فہم کے فیصلہ پر چلنے دو , اس کے خلاف جبراً نہ ہم پر کوئی چیز لادو نہ اس پر مجبور کرو.. کفار قریش کہتے تھے یہ نہیں ہوگا.. تم کو توحید کا اقرار اور اعلان نہیں کرنا ہوگا بلکہ بتوں کا احترام اور اس کی پوجا کرنی ہوگی اور آبائی دین پر ہی قائم رہنا پڑے گا.. مکہ کے صنم کدہ میں اس کا حق کسی قیمت پر نہیں دیا جائے گا کہ تم توحید کا کلمہ پڑھو بلکہ جبراً تم کو آبائی دین پر لوٹایا جائے گا اور اس کے لئے ہر طرح کی اذیت دی جائے گی اور زندگی اجیرن کر دی جائے گی..

معاملہ جب اس حد کو پہنچ گیا کہ دین پر قائم رہنا مکہ کی مشرکانہ فضاء میں نا ممکن ہو گیا تو مجبوراً دین کو بچانے کے لئے مسلمانوں نے اپنا گھر چھوڑا , اپنا وطن چھوڑا , اعزاء و اقارب کو چھوڑا , مال و متاع کو چھوڑا اور جان سے بھی زیادہ عزیز اور محترم چیز بیت ﷲ کو چھوڑا جس پر ان کو بھی اتنا ہی حق تھا جتنا کفار قریش کو تھا..

ہجرت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مومن لوگ اپنے دین کی خاطر ﷲ اور ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس ڈر سے بھاگتے تھے کہ وہ فتنہ میں نہ مبتلا کردئیے جائیں یعنی ان کو ارتداد پر مجبور نہ کیا جائے.. حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی.. اس کا مقصد صرف خدا کی رضا تھی..

جب مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ ہجرت کرگئے اور صرف پیغمبر عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چند گنے چنے مسلمان رہ گئے اور سب کے ظلم و ستم کے آپ ہدف بن گئے اور معاملہ اس حد تک پہنچا کہ آپ کے قتل کے لئے متحدہ قبائل کے نوجوانوں نے متحدہ تجویز کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور اسلام کو مٹا دینے کی سازش اپنی آخر حد کو پہنچ گئی تو ﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھی ہجرت کا حکم دیا اور آپ عین محاصرہ کی حالت میں ان کے بیچ سے ہوکر نکل گئے اور بیت ﷲ چھوڑنے پر مجبور ہوئے..

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاشانۂ نبوت سے ہجرت کے خیال سے نکلے تو بیت ﷲ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور فرمایا.. "مکہ ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھ کو ہجرت پر مجبور نہ کرتے تو میں مکہ نہ چھوڑتا.."

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے ہر طرح کے خطرات سے محفوظ مدینہ منورہ پہنچ کر مہاجرین و انصار سے مل گئے تو مکہ اور مدینہ دونوں کی دنیا میں عجیب طرح کا انقلاب رونماء ہوا اور دونوں جگہ نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں.. نئے نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں جگہ کے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر خطرات کے نئے نئے بادل نظر آنے لگے..

ہجرت نبوی کا اثر مکہ پر یہ ہوا کہ...
________________________

(1) قریش کو اپنی سعیٔ ناکام پر ندامت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا.. ندامت اس لئے کہ عین محاصرہ کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بیچ سے ہو کر نکل گئے اور ان کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی.. غصہ اس لئے آیا کہ اسلام کے استیصال کی وہ سازش جو دارالندوہ میں قبائل عرب کے متحدہ اجتماع اور اجلاس عام میں ردو کد کے بعد طے پائی تھی , ناکام ہوگئی..

(2) یہ خطرہ جس کے انسداد کے لئے دارالندوہ میں اجلاس عام بلایا گیا تھا کہ مسلمان مدینہ منورہ میں جاکر انصار کی حمایت میں طاقت پکڑتے جارہے ہیں اور اسلام پھیلتا جارہا ہے کہیں مضبوط طاقت نہ بن جائیں , اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ پہنچ جانے کے بعد یہ خطرہ تصور اور خیال کی حد سے نکل کر واقعہ بن کر سامنے آگیا جس سے ان کے غیظ و غضب میں اور اشتعال پیدا ہوگیا..

(3) مسلمانوں میں اور کفار قریش میں دراصل وجہ مخالفت یہ تھی کہ بت پرستی کے تمام قبائل عرب کا سینکڑوں برس سے آبائی اور واحد مشترک دین تھا.. اسلام اس کی جڑ کھودتا تھا اور جن بتوں کو وہ معبود سمجھتے تھے اور جن کے لئے وہ ہر روز اپنی پیشانی رگڑتے اور اپنا حاجت روا عام سمجھتے تھے , اسلام ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا تھا.. اب وہ مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع سے ڈرے کہ اسلامی تحریک اگر قائم رہی اور پھیلتی رہی اور اس کو پھیلنے , پنپنے اور مدینہ کی چار دیواری سے باہر نکلنے اور جمنے کا موقع دیا گیا تو ان کے سینکڑوں برس کے آبائی دین کے طلسم کا برباد ہوجانا یقینی تھا..

(4) اسی کے ساتھ قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان خانماں برباد اور سخت جان مسلمانوں کو اگر چھوٹ دے دی جائے اور ان کی اسلامی تحریک سے پرخاش نہ کی جائے تو تمام عرب میں قریش کو جو تفوق حاصل ہے , وہ جاتا رہے گا اور عظمت و مرجعیت عام کا جو تاج ان کے سر پر ہے , وہ اتر جائے گا..
(5) پھر ان کے معاش کا دار و مدار چونکہ شام و فلسطین کی تجارت پر تھا اور وہاں سامان تجارت لے کر جانے کے لئے جو راہ سب سے قریب تر تھی , وہ مدینہ کے قریب سے ہو کر جاتی تھی اس لئے وہ اس یقین پر مجبور ہوگئے کہ اگر اس اسلامی تحریک کو قوت پکڑنے کی مہلت دی جائے گی تو وہ تجارت کی راہ میں روک ٹوک کریں گے اور اس طرح قریش معاشی کاروبار کے تعطل سے بے موت مرجائیں گے..

ہجرت نبوی کا اثر مدینہ پر یہ ہوا کہ...
__________________________
(1) انصار اول روز سے جب انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر عقبہ میں بیعت کی تھی , یہ سمجھتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دینا دنیا بھر سے عموماً اور قریش سے خصوصاً جنگ مول لینی ہے.. چنانچہ عین بیعت کے وقت بیعت کرنے والوں میں سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ تمہیں خبر ہے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو..؟ یہ عرب و عجم , جن و انس سے اعلان جنگ ہے.." تو سب نے کہا تھا کہ ہاں ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں.. چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو سب سے پہلا اثر یہ پڑا کہ مدینہ جو اب تک تمام بیرونی خطرات سے امن میں تھا , اب قریش اور قبائل عرب کی اسلام دشمنی کے باعث مخالفین اسلام کے قتل و غارت کا آماجگاہ بن گیا..

(2) انصار کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلمان جب پہلی دفعہ ہجرت کرکے حبشہ گئے تھے تو قریش کی سفارت نجاشی کے پاس گئی تھی کہ یہ مہاجرین ہمارے قومی مجرم ہیں لہذا ہمارے حوالے کردئیے جائیں , اس لئے ان کو خطرہ تھا کہ مدینہ میں قریش ان قومی مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے دفعتہ" فوجی دستہ لے کر نہ پہنچ جائیں.. چنانچہ انصار و مہاجرین ان خطرات کے تحت راتوں کو ہتھیار باندھ کر سوتے تھے.. خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حال تھا کہ راتوں کو جاگ کر بسر کرتے تھے..

(3) عبدﷲ ابن اُبی جو انصار کے قبیلہ اوس و خزرج کا متفقہ لیڈر اور سردار تھا اور جس کی تاج پوشی کی رسم متفقہ طور پر طے پاچکی تھی اور انصار نے اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کرنے کے لئے تاج تیار کرلیا تھا اور ہنوز اس نے منافقت کی راہ میں اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا , ہجرت کی وجہ سے اس کی رسم تاج پوشی ناکام ہوگئی.. اس کا اس پر اور اس کے ساتھیوں پر خصوصی اثر کا پڑنا لازمی امر تھا.. وہ سمجھتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حکومت چھین لی.. نتیجہ یہ ہوا کہ قدرتی طورپر مدینہ منورہ میں حاسدوں کی ایک منافق جماعت پیدا ہوگئی.. یہ نہایت خطرناک پارٹ ادا کرتی تھی اور ان سے اس امر کا بھی ہر وقت خطرہ رہتا تھا کہ کس وقت ان کی قریش سے سازباز ہوجائے.. چنانچہ چند مرتبہ ایسا ہوا کہ عبدﷲ بن اُبی کی وجہ سے مدینہ کے اندر خون کا بادل برستے برستے رہ گیا..

(4) حوالی مدینہ میں یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع , بنو نضیر , بنو قریظہ بستے تھے.. یہ لوگ عموماً دولت مند , زمین دار اور تجارت پیشہ تھے اس لئے مدینہ منورہ کے ملکی اور تجارتی معاملہ میں ان کو چودھراہٹ کی حیثیت حاصل تھی.. پھر انصار چونکہ بت پرست تھے اس لئے ان پر یہودیوں کا اچھا خاصہ مذہبی اور علمی اثر بھی تھا.. انصار ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی عافیت تسلیم کرتے تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد دفعتہ" یہ فوقیت جاتی رہی اور یہود کی چودھراہٹ پر بھی آنچ آگئی اور انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کی وجہ سے ان کے اقتدار کو , ان کے جابرانہ کاروبار کو , ان کے سودی لین دین کو اور مذہبی وقار کو سخت دھچکہ لگا.. اس کی وجہ سے ان میں سخت ناراضگی پیدا ہوگئی اور اسلام کی خانہ بربادی کا عزم کرلیا اور صرف عزم نہیں کیا بلکہ عملاً وہ طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے..

ان حالات میں مدینہ منورہ داخلی اور خارجی حیثیت سے غیر محفوظ تھا.. داخلی نزاکت کا یہ حال تھا کہ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ جب مرنے لگے تو انھوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مرجاؤں تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر نہ کرنا.. ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی حادثہ گذرجائے..

خارجی حالت یہ تھی کہ قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردی تھیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں (فوجی دستے) مدینہ کے اطراف میں گشت لگاتی رہتی تھیں..

ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

جب دارالندوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی وحی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کی تَعِیین بھی فرمادی کہ آپ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے..

اس اطلاع کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھیک دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرما لیں..

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرے پر کپڑا ڈالے ہوئے تشریف لائے.. یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ تشریف نہیں لایا کرتے تھے.. آپ اندر داخل ہوئے , پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا.. "تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو.."

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر میرے باپ فدا ہوں.. بس آپ کی اہلِ خانہ ہی ہیں.." (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا.. ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ہو چکا تھا)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا ! مجھ کو ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے.."

عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے بارے میں کیا حکم ہے..؟"

فرمایا.. "تم ساتھ چلو گے.."

عرض کیا.. "میں نے اس غرض کے لئے دو اونٹنیاں تیار رکھی ہیں.. ان میں سے جو پسند ہو وہ حاضر ہے.."

فرمایا.. "اچھا مگر قیمت کے ساتھ.."

واقدی نے اس اونٹنی کا نام قصواء اور ابنِ اسحاق نے جدعآ لکھا ہے.. اس کے بعد ہجرت کا پروگرام طے کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے..

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی سے ایک راستوں کے ماہر شخص عبداللہ بن اُریقط کا اجرت پر انتظام کر رکھا تھا جو بنی الدّیل سے تعلق رکھتا تھا.. اگرچہ مشرک تھا مگر قابل اعتماد تھا.. اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور کہا کہ جس جگہ بلایا جائے , پہنچ جانا..

ادھر قریش کے اکابر مجرمین نے اپنا سارا دن مکے کی پارلیمان دارالندوہ کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزاری اور اس مقصد کے لیے ان اکابر مجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کیے گئے.. ابن سعد کے مطابق ان بارہ سرداروں کے نام یہ ہیں..

1.. ابو جہل 2.. حکم بن العاص 3.. عقبہ بن ابی معیط 4.. نضر بن حارث 5.. اُمیہ بن خلف 6.. حارث بن قیس بن الغیطلہ 7.. زمعہ بن الاسود 8.. طعیمہ بن عدی 9.. ابو لہب بن عبدالمطلب 10.. ابی بن خلف 11.. بنیّہ بن حجاج 12.. منبّہ بن حجاج

جب رات ہوئی تو حسب قرار داد یہ بارہ سرداران قریش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کے گرد جمع ہوگئے کہ آپ سوجائیں تو یہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں..

محاصرہ کی اطلاع بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہو چکی تھی.. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ شروع رات میں عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور آدھی رات کے بعد گھر سے نکل کر مسجد حرام تشریف لاتے اور وہاں تہجد کی نماز ادا فرماتے.. اس رات آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی سبز حضرمی چادر اوڑھ لیں.. (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے) یہ بھی بتلادیا کہ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی..

ادھر رات جب ذرا تاریک ہوگئی اور ہر طرف سناٹا چھا گیا اور عام لوگ اپنی خوابگاہوں میں جاچکے تو مذکورہ بالا افراد نے خفیہ طور پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر جمع ہوکر گھات میں بیٹھ گئے.. وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوئے ہوئے ہیں.. اس لیے انتظار کرنے لگے کہ آپ اٹھیں اور باہر نکلیں تو یہ لوگ یکایک آپ پر ٹوٹ پڑیں اور مقررہ فیصلہ نافذ کرتے ہوئے آپ کو قتل کردیں..

ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی.. یہاں تک کہ ابوجہل نے بڑے متکبرانہ اور پُرغرور انداز میں مذاق واستہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہوکر اس کی پیروی کرو گے تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے.. پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے.. پھر تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے لیے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے.."

جب زیادہ رات ہو گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹھی بھر خاک پر سورہ یسٰں کی آیات "فاغشینٰھم فَھُم لا یبصرون" تک پڑھ کر دم کیں اور خاک ان کے سروں پر ڈالی لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے.. ان کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے اور آپ ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر نہ ہوئی.. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے.. ان کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ماں تھیں , سفر کا سامان تیار کیا.. دو تین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا.. نطاق جس کو عورتیں اپنے کمر سے لپیٹتی تھیں , پھاڑ کر اس سے ناشتہ دان کا منہ باندھا.. یہ وہ شرف تھا جس کی بناء پر آج تک ان کو "ذات النطاقین" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلے جانے کے بعد ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ تم کس کا انتظار کررہے ہو.. انھوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا.. اس نے کہا کہ وہ تمھارے سامنے سے تمھارے سروں پر خاک ڈال کر نکل گئے.. ﷲ نے تم کو محروم کردیا.. ان لوگوں نے کہا.. "وﷲ ! ہم نے نہیں دیکھا" اور وہ لوگ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے.. کہنے لگے.. "اللہ کی قسم ! یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے پڑے ہیں.. ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے.." چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے.. ادھر صبح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے.. بہرحال قریش اپنے پلان کے نفاذ کی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری...

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS