Kis Masjid ko Masjid-E-Juma ke nam se jante hai?
Seerat-un-nabi Sallahu Alaihe Wasallam.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 20...
قبا میں چودہ روز قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 22 ربیع الاول 14 نبوت مطابق 8 اکٹوبر 622ء بروز جمعہ کوچ کا ارادہ ظاہر فرمایا.. عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کے قبیلہ والوں نے عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم سے کوئی خطا سر زد ہوئی جس کی وجہ سے آپ ہم سے ناراض ہو کر یہاں سے تشریف لے جارہے ہیں..؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان.. آپ یہیں قیام فرمائیے.."
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "مجھے آگے جانے کا حکم ہوا ہے.." چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے.. جب قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہنچے تو نماز جمعہ کا وقت ہو چکا تھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں مختصر قیام کرکے مسجد غیب میں نماز جمعہ ادا فرمائی جو بعد میں مسجد جمعہ کے نام سے مشہور ہوئی..
یہ تاریخ ِ اسلام کا پہلا جمعہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ادا ہوا جس میں شرکاء کی تعداد (100) تھی.. نماز سے قبل آپ نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا.. اس خطبہ میں آپ نے اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری پر زور دیا اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی.. اس خطبہ میں اہل مکہ کے مظالم کی شکایت کے متعلق ایک حرف بھی نہ تھا.. نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری آگے بڑھی.. (سیرت طیبہ)
جمعہ کے بعد نبی مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے "مدینۃ الرسول" (شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑگیا جسے مختصراً مدینہ کہا جاتا ہے.. یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا.. گلی کوچے تقدیس وتحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی ومسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں..
طلـع البـــــدر عـلـیـنـــــــــا مـــــــن ثنیــات الـوداع
وجــب الشکـــــر علینــــــــا مـــــا دعــا للــــــہ داع
أیــہــا الـــمـبـعــوث فـیـنـــا جـئـت بـالأمـر الـمـطاع
ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا..
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا..
ہے اطاعت تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیرا کبریا..
انصار اگرچہ بڑے دولت مند نہ تھے لیکن ہرا یک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے یہاں قیام فرمائیں.. چنانچہ آپ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑلیتے اور عرض کرتے کہ تعداد وسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں , تشریف لائیے.. مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑدو.. یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے.. چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے نہیں اترے.. یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی.. پھرمڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی.. اس کے بعد آپ نیچے تشریف لائے..
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ننہیال والوں یعنی بنو نجار کا محلہ تھا.. آپ کے پردادا ہاشم نے اس قبیلہ کی خاتون سلمیٰ بن عمرو سے نکاح کیا تھا جن سے عبدالمطلب پیدا ہوئے تھے.. یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ننہیال میں قیام فرماکر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے.. اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض معروض شروع کی لیکن ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے.. اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے.. "آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے.." ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی.. چنانچہ یہ اونٹنی انھی کے پاس رہی.. (زاد المعاد 2/55 , ابن ہشام 1/494.495)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے مکان تشریف لے گئے جو دو منزلہ تھا.. حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش کی کہ اوپری منزل میں قیام فرمائیں لیکن لوگوں سے ملاقات میں آسانی کی غرض سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیچے کی منزل میں رہنا پسند فرمایا اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ اوپری منزل میں رہنے لگے.. دونوں میاں بیوی کو یہ احساس تکلیف دہ رہتا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے عین نیچے نہ ہوں.. اس لئے دونوں کونوں میں پہنچ جاتے اور جاگتے رہتے.. جب دونوں نے اپنی حالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرکے خواہش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوپری منزل میں منتقل ہو جائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوپری منزل میں اقامت پذیر ہوئے..
دوران قیام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دونوں وقت کا کھانا حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ لے جاتے اور جو کچھ بچ رہتا , دونوں میاں بیوی کھاتے.. صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا تناول نہیں فرمایا اور وہ واپس آگیا.. یہ دیکھتے ہی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بے چین ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور تناول طعام نہ کرنے کی وجہ دریافت کی.. آپ نے فرمایا کہ کھانے میں لہسن تھا.. حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے تو آپ نے فرمایا.. "نہیں ___ بلکہ میں اس کی بو اس وجہ سے نہیں پسند کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اس لئے پیاز اور لہسن کی بو سے احتیاط کرتا ہوں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کی حالت مجھ جیسی نہیں ہے اس لئے تم اسے کھا سکتے ہو.." (ابن ہشام بحوالہ سیرت احمد مجتبٰی)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ اہل و عیال کو لے آئیں.. چند دنوں کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سَوْدَہ اور آپ کی دونوں صاحبزایاں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم اور حضرت اسامہ بن زید اور ام ایمن رضی اللہ عنہم بھی آگئیں.. ان سب کو حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آل ابی بکر کے ساتھ جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں , لے کر آئے تھے.. البتہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا , حضرت ابوالعاص (رضی اللہ عنہ) کے پاس باقی رہ گئیں.. حضرت ابو العاص ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے.. انہوں نے آنے نہیں دیا اور وہ جنگ ِ بدر کے بعد تشریف لاسکیں.. (زاد المعاد ۲/۵۵)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا خیز جگہ تھی.. وادیٔ بطحان سڑے ہوئے پانی سے بہتی تھی.. ان کا یہ بھی بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بخار آگیا.. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا.. "اے اللہ ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضا ء صحت بخش بنا دے اور اس کے صاع اور مد (غلے کے پیمانوں) میں برکت دے اوراس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچادے.."(صحیح بخاری)
اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سن لی.. چنانچہ آپ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک پراگندہ سر کالی عورت مدینہ سے نکلی اور مہیعہ یعنی جحفہ میں جا اتری.. اس کی تعبیر یہ تھی کہ مدینہ کی وباء جحفہ منتقل کردی گئی اور اس طرح مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا کی سختی سے راحت مل گئی.. یہاں تک حیات طیبہ کی ایک قسم اور اسلامی دعوت کا ایک دَور (یعنی مکی دَور) پورا ہوجاتا ہے.. آئندہ اختصار کے ساتھ مدنی دور پیش کیا جارہا ہے.. وباللہ التوفیق..
جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے , اس وقت مدینہ منورہ کا یہ حال تھا کہ چند مدنی قبائل مسلمان ہوچکے تھے اور چند خاندان مثلاً بنی خطمہ ، بنی واقف ، بنی وائل ، بنی اُمیہ وغیرہ ایسے بھی تھے جنھوں نے اسلام کا کوئی اثر قبول نہیں کیا تھا اور چند قبائل ایسے تھے جن میں اسلام پوری طرح ہنوز پھیلا نہیں تھا اور جن قبائل میں اسلام پوری طرح دخیل ہو گیا تھا ان کا حال یہ تھا کہ چند روز پہلے اوس و خزرج دو رقیب قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے.. جنگ بعاث کی خوں ریزیوں نے جس کا خون بھی ہنوز خشک نہیں ہواتھا , دونوں کو کمزور اور بے جان کردیا تھا اور ان کی قومی طاقت برباد ہوچکی تھی.. اسلام نے ان دونوں کو اسلامی رشتہ "انما المومنون اخوۃ" (سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کے ناطے سے گرچہ باہم ملا دیا تھا لیکن پھر بھی اس دور کے قبائلی مزاج اور عربی خصائص کی بناء پر قبائل عصبیت کے نام پر مشتعل ہوجانے کا مادہ موجودتھا جس سے دشمن اسلام فائدہ اٹھاتے تھے..
چنانچہ یہود نے جو انصار کے مزاج شناس تھے , ایک دفعہ انصار کو باہم لڑادینے کے لئے یہ چال چلی کہ ان کی ملی جلی مجلس میں جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دیا اور اتنا بھڑکایا کہ معاملہ تیز و تند گفتگو سے بڑھ کر یہاں تک پہنچ گیا کہ مقابلہ کے لئے اسی وقت ایک سیاہ پتھریلا مقام مقرر ہوگیا اور دونوں طرف سے "ہتھیار لاؤ ہتھیار لاؤ" کی چیخ پکار ہوگئی اور دم کے دم میں دونوں طرف کے لوگ میدان میں نکل پڑے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین کو ساتھ لئے ہوئے میدان جنگ میں پہنچ گئے اور فرمایا..
"اے مسلمانوں کے گروہ ! اللہ سے ڈرو.. اللہ سے خوف کرو.. کیا جاہلیت کے دعوے پر لڑے پڑتے ہو حالانکہ میں تم میں موجود ہوں.. تمھیں ﷲ نے اسلام کی ہدایت دی اور تمھیں عزت دی اور اسلام کی وجہ سے جاہلیت کی باتیں تم سے الگ کردیں اور اس کے ذریعہ تمھیں کفر سے نجات دلائی اور اس کے ذریعہ تمھارے اندر الفت و محبت پیدا کردی.." (ابن ہشام)
پھر ان انصار کے ساتھ مدینہ منورہ میں ہزاروں کی تعداد میں ہمسایہ کی حیثیت سے یہود کے تین قبیلے رہتے تھے.. ان میں بھی آپس میں رقابتیں تھیں.. بنو قریظہ کو بنو نضیر کے لوگ کم رتبہ اور نیچی نگاہ سے دیکھتے تھے.. چنانچہ بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنونضیر اس کا آدھا خوں بہا دیتے تھے اور جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نظیر کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنو نظیر اس سے پورا خوں بہا دیتے تھے..
قبیلہ بنو قینقاع یہودیوں میں اپنے کو سب سے زیادہ جریح اور بہادر سمجھتے تھے اور اپنے مقابلہ میں کسی کو آنکھ نہیں لگاتے تھے.. ان کے پاس ہمیشہ اسلحہ جنگ کے ذخیرے مہیا رہتے تھے.. ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ جب مسلمان غزوہ بدر سے فتح و ظفر کا علم لہراتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے تو انھوں نے کہا "بیچارے مکہ کے قریش لڑنا کیا جانیں , ہم سے مقابلہ پڑے تو معلوم ہو" مگر یہ تینوں قبیلے اسلام دشمنی میں ایک رائے تھے اور اہل کتاب اور توحید کے دعوے دار ہونے کے باوجود بت پرست مشرکین عرب کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ مذہبی حیثیت سے یہ کفار مسلمانوں سے اچھے ہیں..
"اے پیغمبر! کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب الٰہی سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ سیدھے راستہ پر ہیں.." (سورہ نساء :51)
ان کے علاوہ بت پرست منافقین کی بھی ایک اچھی خاصی جماعت تھی جس کی سیادت عبداﷲ بن اُبی کو حاصل تھی.. ان سب کے علاوہ مہاجرین کی جماعت تھی جو بیسیوں قبائل سے تعلق رکھتے تھے..
حاصل یہ کہ مدینہ منورہ اس وقت اپنی گوناگوں آبادی کے لحاظ سے مجموعہ اضداد تھا اور ایک عجیب طرح کے اندرونی خلفشار اور انتشار میں مبتلا تھا اور بظاہر ان تمام عناصر میں وفاقی وحدت پیدا کرنی ناممکن معلوم ہوتی تھی..
مدینہ منورہ سے باہر تمام عربی قبائل باوجود اس کے کہ سب کے سب ایک قوم تھے اور ایک واحد ملک کے باشندے تھے , دن رات خانہ جنگیوں میں مبتلا رہتے تھے اور سارا ملک قتل ، غارت گری ، سفاکی اور خوں ریزی کا آماجگاہ بنا ہوا تھا.. ملک کا ذریعہ معاش غارت گری کے بعد فقط تجارت تھی مگر تجارت کے قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت دشوار تھا.. جب تک ان کے پاس مختلف قبائل کے خفارئے (اجازت نامہ رہ گذریا محافظ دستے) نہ ہوں جیسا کہ ابن قتیبہ کے استاد محمد بن حبیب (المتوفی ۲۴۵ہجری) نے اپنی کتاب "کتاب المحبر" میں لکھا ہے.. اس کے اقتباس کو "عہد نبوی میں نظام حکمرانی" (ڈاکٹر حمیداﷲ) سے انہی کے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے..
"جو تاجر بھی یمن اور حجاز سے نکلتا تو وہ اس وقت تک قریشی خفارئے یعنی محافظ دستہ کا محتاج رہتا جب تک وہ مغربی قبائل میں رہے کیونکہ ایک مضری قبیلہ دوسر ے مضری قبیلہ کے تاجروں کو نہ ستاتا.. مزید برآں جن جن قبائل سے مضریوں کی حلیفی تھی ان کے ہاں بھی ان کو امن رہتا اور یہ باہمی امن کے اصول پر مبنی تھا.. چنانچہ قبائل کلب ان کو مضری قبیلہ بنو تمیم سے حلیفی کے باعث نہ ستاتے اور قبائل طے بھی ان کو مضری قبیلہ بنو اسد سے حلیفی کے باعث نہ چھیڑتے اور مضری قبائل کہا کرتے تھے کہ قریش نے ہمارا وہ قرض ادا کردیا جو حضرت اسماعیل سے ہم کو وراثتاً مذمت کی صورت میں ملا تھا.. جب یہ آگے بڑھ کر عراقی سمت میں جاتے اور بنی عمرو بن مرثد سے خفارا حاصل کر لیتے تو تمام قبائل ربیعہ میں وہ کافی ہوتا.. جو تاجر دومتہ الجندل جاتے ان کو بھی قریش ہی سے خفارہ حاصل کرنا ہوتا.. رابیہ جو حضرموت میں واقع ہے , اگر وہاں جانا ہوتا تو قریش وہاں کا قبیلہ آکل المرار سے خفارا حاصل کرلیتے اور باقی لوگ آل مسروق سے.. (کتاب المحبر)
پھر دوسری جگہ لکھا ہے.. "اگر مسافر بنی عمرو بن مرثد کا خفارا حاصل کرلیتے تو اس پورے علاقہ میں جہاں قبائل ربیعہ بستے تھے , انھیں حفاظت حاصل تھی.. اگر بحرین کے سوق مشقر جانا ہوتا تو قریشی خفارہ ہی حاصل کرلیا جاتا.. اگر جنوبی عرب کے سوق مہرہ کو جانا ہوتا تو بنی محارب کا بدرقہ حاصل کیا جاتا.. حضرموت کے سوق رابیعہ کو جانے کے لئے قریش قبیلہ آکل المرار کا خفارا حاصل کرتے اور دیگر لوگ کندہ کے آل مسروق کا.. اس طرح دونوں ہی قبائل کو عزت حاصل تھی لیکن قریشی سرپرستی کے باعث آکل المرار کو اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہوگئی..
حاصل یہ کہ عربوں میں تجارتی قافلوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ گذرنے اور پہنچنے کے لئے خفارا حاصل کرنا پڑتا تھااور یہ ان کے ہاں ایک مستقل ادارہ بن گیا تھا اور عدنان اور قحطان اور مضر و ربیعہ کے سب قبائل اس میں داخل تھے.. ملک کی بدامنی کی وجہ سے عبدالقیس جو بحرین کا طاقتور قبیلہ تھا , 5 ہجری تک مضری قبائل کے ڈر سے اشہر حرم کے سوا اور مہینوں میں حجاز کا رخ نہیں کرسکتا تھا..
بخاری شریف میں ہے کہ جب وفد عبدالقیس مدینہ منورہ آیا تو انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا.. "یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم لوگ صرف شہر حرام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں.. ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ ہے.. ہم لوگوں کو فیصل شدہ امور بتا دیجیے تاکہ ہم ان لوگوں کو بتائیں جو حاضر نہیں ہوسکتے اور اس کے سبب سے ہم لوگ جنت میں داخل ہوں.." پھر ان اشہر حرم کا یہ حال تھا کہ اس میں وہ جب چاہتے تھے رد و بدل کردیتے تھے اور اپنی غارت گری کا موقع نکال لیتے تھے.. ابو علی قالی نے لکھا ہے کہ یہ رد و بدل اس لئے کرتے تھے کہ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلسل تین مہینے ان پر بغیر غارت گری کے گذر جائیں کیونکہ غارت گری ہی ان کا ذریعہ معاش تھا.. (کتاب الا مالی)
پھر اشہر حرم (حرمت والے مہینے) کے احترام کا یہ حال تھا کہ ابن عبد ربہ نے "عقد الفرید" میں لکھا ہے کہ قبیلہ طے اور قبیلہ قشعم کے دو ضرب المثل لٹیرے قبائل اشہر حرم کی حرمت و امتناع کی پرواہ نہیں کرتے تھے..
بہر حال مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ سے باہر قبائل عرب میں گذرنا اور عالمی مشن کی دعوت دینا دشوار ہی نہیں ناممکن تھا.. قرآن مجید نے مسلمانوں کی اس بے بسی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے..
"یاد کرو جب تم تھوڑے اورکمزور تھے.. ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو اُچک نہ لیں.."
(انفال)
گزشتہ صفحات میں مذکور حالات کو پیش نظر رکھ کر اب مدنی زندگی کا سن وار تفصیلی جائزہ ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی زندگی کس طرح گذاری لیکن یہ ضرور پیش نظر رہے کہ مدینہ منورہ کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از ابتدا تا انتہا جو کچھ کیا , چاہے مدافعت کی شکل میں یا پیشقدمی کی شکل میں یا تادیبی شکل میں کیا , اس کی غایت صرف یہ تھی کہ لوگ عالمی مشن کی عالمی دعوت کی تبلیغ کی راہ میں مزاحمت سے باز آجائیں..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا اور ان جیسے دشمنان اسلام کا استیصال کردیا جائے یا ان کو تباہ و برباد کردیا جائے کیونکہ یہ رحمتہ اللعالمین کے مزاج کے منافی تھا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہمیشہ ان کی ہدایت رہتی تھی , ان کی تباہی نہیں رہتی تھی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری مدنی زندگی میں خود نہ کوئی ایسا فیصلہ کیا نہ ایسا منصوبہ بنایا نہ ایسا عملی اقدام کیا جس کی بنیاد کسی جماعت کے استیصال اور بالکلیہ تباہ و برباد کردینے پر ہو یا جبراً اسلام پر ہو..
کفار عرب اور قریش کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست یہ تھی کہ ان کو محفوظ رکھ کر ان کا ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ اسلام کی مزاحمت سے باز آجائیں یا مصالحت کرلیں یا اسلام قبول کرلیں.. وہ سارے غزوات اور سریئے جو سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں , ان سب کی بنیاد اس پر تھی کہ خبر رساں جماعت اور جاسوس سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کی اطلاع ملتی کہ.....
۱) فلاں جگہ ، فلاں جماعت یا فلاں قبیلہ اسلام دشمنی میں یہ منصوبہ بنا رہا ہے..
۲) یا قریش کا فلاں قبیلہ فلاں راہ سے فلاں روز گذرے گا..
۳) یا فلاں قبیلہ یا جماعت حملہ یا غارت گری کا ارادہ کر چکی ہے..
۴) یا مسلمانوں یا اسلام کے استیصال کی خاطر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے کوئی جماعت فوج لے کر آرہی ہے تو حسب حال ان کی مدافعت ، ان کی تادیب ، ان کے منصوبہ میں ناکام کرنے کے لئے فوجی دستہ بھیجے جاتے تھے..
کبھی کبھی مخالفین اسلام کی نقل و حرکت کی تفتیش کے لئے بھی سریئے بھیجنے پڑتے تھے لیکن قریش اور قبائل عرب مسلمانوں کا اور اسلام کو استیصال کرنے کے لئے چڑھائی کرکے حملہ آور ہوتے تھے تو چار و ناچار مجبور ہوکر مردانہ وار مدافعت کے لئے سر اور دھڑ کی بازی ﷲ کے بھروسہ پر لگا دیتے تھے.. (پیغمبر عالم)
مدنی عہد کو تین مرحلو ں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے..
(1) اسلامی معاشرے کی تاسیس اور اسلامی دعوت کے قابو پانے کا مرحلہ.. اس میں فتنے اور اضطرابات بر پا کیے گئے.. اندر سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باہر سے دشمنوں نے مدینہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور دعوت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لیے چڑھائیاں کیں.. یہ مرحلہ مسلمانوں کے غلبے اور صورت حال پر ان کے قابو پانے کی صورت میں صلح حدیبیہ ذی قعدہ 6ھ پر ختم ہوجاتا ہے..
(2) دوسرا مرحلہ جس میں بت پرست قیادت کے ساتھ صلح ہوئی.. شاہان عالم کو اسلام کی دعوت دی گئی اور سازشوں کے اطراف کا خاتمہ کیا گیا.. یہ مرحلہ فتح مکہ رمضان 8 ھ پر منتہی ہوتا ہے..
(3) تیسرا مرحلہ جس میں خلقت اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئی.. یہی مرحلہ مدینہ میں قوموں اور قبیلوں کے وفود کی آمد کا بھی مرحلہ ہے.. یہ مرحلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے اخیر یعنی ربیع الاول 11 ھ تک کو محیط ہے..
ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پُرامن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے.. اسی لیے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی ، حفاظت اور رفعتِ شان میں اپنی کوشش صرف کرے..
یہ بات تو قطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام ، قائد اور رہنما تھے اور کسی نزاع کے بغیر سارے معالات کی باگ ڈور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہاتھ میں تھی.. مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین طرح کے قوموں سے سابقہ درپیش تھا جن میں سے ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جو دوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے.. یہ تینوں اقوام حسبِ ذیل تھیں..
1.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منتخب اور ممتاز جماعت..
2.. مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے..
3.. یہود..
الف..... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے.. مکے میں اگرچہ ان کا کلمہ ایک تھا اور ان کے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھر ے ہوئے تھے اور مجبور و مقہور اور کمزور تھے.. ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا.. سارے اختیار دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے.. مَکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکیں.. اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کیے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کرسکتا ہے.. اس کے علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے اور رَذِیل وذلیل کاموں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے..
اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمامِ کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی.. ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا.. اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب وعمرانیات ، معاشیات واقتصادیات ، سیاست وحکومت اور صلح وجنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال وحرام اور عبادات واخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھر پور تنقیح کی جائے..
وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالمِ انسانی کے اندرموجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں..
ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن ، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کیے جائیں اور قانون سازی کا کام مشق وتربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے.. لیکن اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے جن کی مختصرکیفیت یہ ہے..
مسلمانوں کی جماعت میں دو طرح کے لوگ تھے.. ایک وہ جو خود اپنی زمین ، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکرنہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل وعیال میں امن وسکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے.. یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشت ہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفر تیں چلی آرہی تھیں..
ان کے پہلو بہ پہلو دوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کر کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا.. ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہوسکے.. پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا تھا کیونکہ اعلان کردیا گیا تھا جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ آجائے.. اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی نہ آمدنی کے ذرائع و وسائل.. چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کردیا جس سے درآمدات بند ہوگئیں اور حالات انتہائی سنگین ہوگئے..
===========>جاری ھے..
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری...
No comments:
Post a Comment