Mosafir Ke Roza Ka Byan, Mosafir ke Liye Roza Rakhna Farz Hai Ya Nahi
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 مسافر کا روزہ
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں 👇👇👇
آئمہ اربعہ اورجمہور صحابہ کرام اورتابعین کا مسلک ہے کہ سفر میں روزہ جائزاورصحیح ہے اوراگر مسافر روزہ رکھ لے تو وہ ادا ہوجائے گا ۔
دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 73 ) ۔
لیکن افضلیت میں تفصیل ہے :
🌟 پہلی حالت :
جب سفرمیں روزہ رکھنا اورچھوڑنا برابر ہو ، یعنی مسافر پر روزہ اثر انداز نہ ہو تواس حالت میں مندرجہ ذيل دلائل کے اعتبار سے روزہ رکھنا افضل ہوگا :
👈 ا – ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم رمضان کے مہینہ میں سخت گرمی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفر پر نکلے اورگرمی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سر پر رکھتے تھے ، اورہم میں نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم اورعبداللہ بن رواحہ کے علاوہ کسی اورشخص کا روزہ نہیں تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 18945 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1122 ) ۔
👈 ب - نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری الذمہ ہونے میں جلدی کرتے تھے ، کیونکہ قضاء میں تاخیر ہوتی ہے ، اوررمضان کے روزوں کی ادائيگی کو مقدم کرنا چاہیے ۔
👈 ج - مکلف کے لیے اغلب طور پر یہ زيادہ آسان ہے ، اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا اورافطار کرنا دوبارہ نئے سرے سے روزے شروع کرنے سے زيادہ آسان ہے ۔
👈 د - اس سے فضیلت کا وقت پایا جاسکتا ہے ، کیونکہ رمضان باقی مہینوں سے افضل ہے اورپھریہ وجوب کا محل بھی ہے ۔
ان دلائل کی وجہ سے امام شافعی کاقول راجح ہوتا ہے کہ جس مسافر کے لیے روزہ رکھنا اورافطار کرنا برابر ہوں اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے ۔
🌟 دوسری حالت :
روزہ چھوڑنے میں آسانی ہو ، تویہاں ہم یہ کہيں گے کہ اس کے لیے روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے ، اورجب اسے سفرمیں روزہ رکھنا کچھ مشقت دے تواس کا روزہ رکھنا مکروہ ہوگا ، کیونکہ رخصت کےہوتے ہوئے مشقت کا ارتکاب کرنا صحیح نہيں اوریہ اللہ تعالی کی رخصت قبول کرنے سے انکار ہے ۔
🌟 تیسری حالت :
اسے روزہ کی بنا پرشدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے جسے برداشت کرنا مشکل ہو توایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہوگا ۔
اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں پائی جاتی ہے :
امام مسلم نے جابر رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفتح میں مکہ کی طرف رمضان المبارک کے مہینہ میں نکلے اورروزہ رکھا جب کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے ، تولوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اوراوپر اٹھایا حتی کہ لوگوں نے دیکھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : یہی نافرمان ہیں یہی نافرمان ہیں ۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزے کی وجہ سے مشقت ہو رہی ہے اوروہ اس انتظار میں ہيں کہ آپ کیا کرتے ہيں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1114 ) ۔
لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کو نافرمان قرار دیا ۔
دیکھیں الشرح الممتع للشیخ محمدابن عثیمین رحمہ اللہ ( 6 / 355 ) ۔
امام نووی اورکمال بن ھمام رحمہم اللہ تعالی کہتے ہیں :
سفرمیں روزہ نہ رکھنے کی افضلیت والی احادیث ضرر پر محمول ہیں کہ جسے روزہ رکھنے سے ضررپہنچے اس کے حق میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے ، اوربعض احادیث میں تو اس کی صراحت بھی موجود ہے ۔
احادیث میں جمع اور تطبیق دینے کے لیے یہ تاویل کرنا ضروری ہے کیونکہ کسی ایک حدیث کے اھمال یا بغیرکسی قطعی دلیل کے منسوخ کے دعوی سے یہ زيادہ بہتر ہے ۔
اورجن لوگوں نے سفرمیں روزہ رکھنا اورنہ رکھنا دونوں کو برابر قرار دیا ہے وہ مندرجہ ذيل حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے استدلال کرتے ہيں :
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أأصوم في السفر وكان كثير الصيام. فقال " إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفرمیں روزہ رکھ لوں ( کیونکہ وہ بہت زيادہ روزے رکھا کرتے تھے ) ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں جواب میں ارشاد فرمایا :
اگرچاہو تو روزہ رکھ لو ، اوراگر چاہوتو نہ رکھو ۔ متفق علیہ ۔ .
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشر احمدربانی احکام و مسائل میں فرماتے ہیں ۔ 👇👇👇
سفر خواہ ہوائی جہاز کا ہو یا گاڑی کا ،ایسے شخص کےلیے روزہ ترک کرنا جائز ہے۔کیونکہ روزہ ترک کرنےکی وجہ سفر کی مشقت نہیں ہے بلکہ سفرہے۔سفر خواہ با مشقت ہو یا سہولت والا ہو،روزہ ترک کرنا اسکے لیے جائزہے۔قرآن وحدیث کے عمومی دلائل اس پر موجود ہیں۔چنانچہ سورة البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ﴿۱۸۴﴾
گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا
سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے
اس آیت کریمہ میں سفرکی وجہ سے روزہ ترک کرنے کا جواز ملتا ہے۔اس میں مشقت کا ذکر نہیں ہے۔نیز ایک صحیح حدیث میں ہے کہ محمد بن کعبؓ فرماتے ہیں
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن أبي إسحاق الشيباني، سمع ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقال لرجل " انزل فاجدح لي ". قال يا رسول الله الشمس. قال " انزل فاجدح لي ". قال يا رسول الله الشمس. قال " انزل فاجدح لي ". فنزل، فجدح له، فشرب، ثم رمى بيده ها هنا، ثم قال " إذا رأيتم الليل أقبل من ها هنا فقد أفطر الصائم ". تابعه جرير وأبو بكر بن عياش عن الشيباني عن ابن أبي أوفى قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے (روزہ کی حالت میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہئے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابواوفی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔
صحیح البخاری /کتاب الصیام /حدیث نمبر: 1941
(ترمذی ، کتاب الصوم ،باب ما جاء فیمن اکل ثم خرج برید سفرا ،٨٠٠٬٧٩٩۔بیہقی٢٤٨/٤)
اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذیؒ نے صحیح قراردیاہے اور علامہ ناصرالدین البانیؒ نے بھی اسے صحیح الترمذی(٧٩٩) میں ذکر کیا ہے۔انس بن مالکؓ اپنے گھر میں کوچ کرنے سے قبل ہی روزہ نہیں رکھ رہے۔حالانکہ انہیں ابھی کوئی مشقت بھی نہیں پہنچی
اور اس عمل کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کررہے ہیں۔
امام ترمذیؒ یہ حدیث درج کرنے کے بعد رقمطرازہیں کہ اکثراہل علم نے اس حدیث کو دلیل بنا کریہ فرمایا ہےکہ مسافر کے لیے درست ہےکہ وہ گھر سے نکلنے سے پہلےہی روزہ افطار کرے ، مگر نماز اپنےشہر یا بستی سے نکلنے سے قبل قصر نہیں کرسکتا
یہی مذہب اسحاق بن ابراہیم الحنظلی یعنی اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔
عبید بن جبیرؒ فرماتے ہیں !
” میں صحابی رسول ابو بصرہ غفاریؓ کے ساتھ ماہ رمضان میں کشتی میں سوار تھا
کہ انہوں نے کشتی روکی پھر انکے لیے کھانا لایا گیا ۔حالانکہ ابھی ہم گھروں
سےزیادہ دورنہیں گئے تھے۔ابوبصرہ غفاریؓ نےدسترخوان منگواکرکہا”قریب
آ جاؤ “ میں نے کہا آپ گھروں کو نہیں دیکھ رہے (یعنی ہم ابھی زیادہ دور
نہیں آئے ) ؟ تو ابو بصرہ ؓ نے جواب دیا ” کیا تورسول اللہ کی سنت سے بے
رغبتی کرتا ہے؟ پھر انہوں نے کھانا کھا لیا ۔
( مسند احمد ، ٤٨٨/١٨ ۔ بیہقی ، ٢٤٦/٤ )
ابو بصرہ غفاریؓ نےکشتی میں سوار ہوتے ہی روزہ افطار کرلیا اور سفر کی مشقت کا بھی انتظار نہیں کیا ۔ پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ سفر میں مشقت و تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں اور شارع نے سفر میں افطار کرنے کا یہ وصف بیان نہیں کیا۔نیز صحابہ اکرامؓ سفر کرتے تو ان میں سے بعض کا روزہ ہوتا اور بعض روزہ نہیں رکھتے تھے۔لیکن کوئی بھی ایکدوسرے پر نکتہ چینی نہیں کرتا تھا ،کیونکہ سفر میں روزہ سے رخصت ہے ۔اب جس نے روزہ رکھ لیا اس نے بھی درست کام کیا ، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ رخصت قبول کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔جس طرح کے وہ دیگر عطا کردہ امور پر عمل کو پسند فرماتا ہے ۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتویمہے کہ 👇👇👇
مسافر کے لئے رمضان میں روزہ نہ رکھنا اور چار رکعت والی نمازوں میں قصر کرنا جائز ہے، اور روزہ رکھنے یا پوری نماز پڑھنے کی بہ نسبت یہی افضل بھی ہے، اور اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت یہ حدیث ہے:
بےشک اللہ جس طرح عزیمت پر عمل کو پسند کرتا ہے،
مسند أحمد بن حنبل (2/108).
اسی طرح رخصت پر عمل کو بھی پسند کرتا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں۔
مسند أحمد 3 / 299، 317، 319، 352، 399، 5 / 434،
صحیح بخاري 2 / 238،
صحیح مسلم 2 / 786 حدیث نمبر (1115)،
سنن أبو داود 2 / 796 حدیث نمبر (2407)،
سنن نسائي 4 / 175، 177 حدیث نمبر (2255- 2258، 2260- 2262)،
سنن ابن ماجہ 1 / 532 حدیث نمبر (1664، 1665)،
سنن دارمي 2 / 9،
مصنف ابن أبوشيبہ 3 / 14،
صحیح ابن حبان 2 / 70- 71، 8 / 317، 320، 321- 322، 322 حدیث نمبر (355، 3548، 3552، 3553، 3554)،
منتقی بن جارود ،
(غوث المكدود.) 2 / 46 حدیث نمبر (399)،
سنن بیہقی 4 / 242، 243. سفر میں
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 مسافر کا روزہ
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں 👇👇👇
آئمہ اربعہ اورجمہور صحابہ کرام اورتابعین کا مسلک ہے کہ سفر میں روزہ جائزاورصحیح ہے اوراگر مسافر روزہ رکھ لے تو وہ ادا ہوجائے گا ۔
دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 73 ) ۔
لیکن افضلیت میں تفصیل ہے :
🌟 پہلی حالت :
جب سفرمیں روزہ رکھنا اورچھوڑنا برابر ہو ، یعنی مسافر پر روزہ اثر انداز نہ ہو تواس حالت میں مندرجہ ذيل دلائل کے اعتبار سے روزہ رکھنا افضل ہوگا :
👈 ا – ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم رمضان کے مہینہ میں سخت گرمی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفر پر نکلے اورگرمی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سر پر رکھتے تھے ، اورہم میں نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم اورعبداللہ بن رواحہ کے علاوہ کسی اورشخص کا روزہ نہیں تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 18945 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1122 ) ۔
👈 ب - نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری الذمہ ہونے میں جلدی کرتے تھے ، کیونکہ قضاء میں تاخیر ہوتی ہے ، اوررمضان کے روزوں کی ادائيگی کو مقدم کرنا چاہیے ۔
👈 ج - مکلف کے لیے اغلب طور پر یہ زيادہ آسان ہے ، اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا اورافطار کرنا دوبارہ نئے سرے سے روزے شروع کرنے سے زيادہ آسان ہے ۔
👈 د - اس سے فضیلت کا وقت پایا جاسکتا ہے ، کیونکہ رمضان باقی مہینوں سے افضل ہے اورپھریہ وجوب کا محل بھی ہے ۔
ان دلائل کی وجہ سے امام شافعی کاقول راجح ہوتا ہے کہ جس مسافر کے لیے روزہ رکھنا اورافطار کرنا برابر ہوں اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے ۔
🌟 دوسری حالت :
روزہ چھوڑنے میں آسانی ہو ، تویہاں ہم یہ کہيں گے کہ اس کے لیے روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے ، اورجب اسے سفرمیں روزہ رکھنا کچھ مشقت دے تواس کا روزہ رکھنا مکروہ ہوگا ، کیونکہ رخصت کےہوتے ہوئے مشقت کا ارتکاب کرنا صحیح نہيں اوریہ اللہ تعالی کی رخصت قبول کرنے سے انکار ہے ۔
🌟 تیسری حالت :
اسے روزہ کی بنا پرشدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے جسے برداشت کرنا مشکل ہو توایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہوگا ۔
اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں پائی جاتی ہے :
امام مسلم نے جابر رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفتح میں مکہ کی طرف رمضان المبارک کے مہینہ میں نکلے اورروزہ رکھا جب کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے ، تولوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اوراوپر اٹھایا حتی کہ لوگوں نے دیکھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : یہی نافرمان ہیں یہی نافرمان ہیں ۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزے کی وجہ سے مشقت ہو رہی ہے اوروہ اس انتظار میں ہيں کہ آپ کیا کرتے ہيں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1114 ) ۔
لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کو نافرمان قرار دیا ۔
دیکھیں الشرح الممتع للشیخ محمدابن عثیمین رحمہ اللہ ( 6 / 355 ) ۔
امام نووی اورکمال بن ھمام رحمہم اللہ تعالی کہتے ہیں :
سفرمیں روزہ نہ رکھنے کی افضلیت والی احادیث ضرر پر محمول ہیں کہ جسے روزہ رکھنے سے ضررپہنچے اس کے حق میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے ، اوربعض احادیث میں تو اس کی صراحت بھی موجود ہے ۔
احادیث میں جمع اور تطبیق دینے کے لیے یہ تاویل کرنا ضروری ہے کیونکہ کسی ایک حدیث کے اھمال یا بغیرکسی قطعی دلیل کے منسوخ کے دعوی سے یہ زيادہ بہتر ہے ۔
اورجن لوگوں نے سفرمیں روزہ رکھنا اورنہ رکھنا دونوں کو برابر قرار دیا ہے وہ مندرجہ ذيل حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے استدلال کرتے ہيں :
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أأصوم في السفر وكان كثير الصيام. فقال " إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفرمیں روزہ رکھ لوں ( کیونکہ وہ بہت زيادہ روزے رکھا کرتے تھے ) ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں جواب میں ارشاد فرمایا :
اگرچاہو تو روزہ رکھ لو ، اوراگر چاہوتو نہ رکھو ۔ متفق علیہ ۔ .
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشر احمدربانی احکام و مسائل میں فرماتے ہیں ۔ 👇👇👇
سفر خواہ ہوائی جہاز کا ہو یا گاڑی کا ،ایسے شخص کےلیے روزہ ترک کرنا جائز ہے۔کیونکہ روزہ ترک کرنےکی وجہ سفر کی مشقت نہیں ہے بلکہ سفرہے۔سفر خواہ با مشقت ہو یا سہولت والا ہو،روزہ ترک کرنا اسکے لیے جائزہے۔قرآن وحدیث کے عمومی دلائل اس پر موجود ہیں۔چنانچہ سورة البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ﴿۱۸۴﴾
گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا
سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے
اس آیت کریمہ میں سفرکی وجہ سے روزہ ترک کرنے کا جواز ملتا ہے۔اس میں مشقت کا ذکر نہیں ہے۔نیز ایک صحیح حدیث میں ہے کہ محمد بن کعبؓ فرماتے ہیں
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن أبي إسحاق الشيباني، سمع ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقال لرجل " انزل فاجدح لي ". قال يا رسول الله الشمس. قال " انزل فاجدح لي ". قال يا رسول الله الشمس. قال " انزل فاجدح لي ". فنزل، فجدح له، فشرب، ثم رمى بيده ها هنا، ثم قال " إذا رأيتم الليل أقبل من ها هنا فقد أفطر الصائم ". تابعه جرير وأبو بكر بن عياش عن الشيباني عن ابن أبي أوفى قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے (روزہ کی حالت میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہئے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابواوفی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔
صحیح البخاری /کتاب الصیام /حدیث نمبر: 1941
(ترمذی ، کتاب الصوم ،باب ما جاء فیمن اکل ثم خرج برید سفرا ،٨٠٠٬٧٩٩۔بیہقی٢٤٨/٤)
اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذیؒ نے صحیح قراردیاہے اور علامہ ناصرالدین البانیؒ نے بھی اسے صحیح الترمذی(٧٩٩) میں ذکر کیا ہے۔انس بن مالکؓ اپنے گھر میں کوچ کرنے سے قبل ہی روزہ نہیں رکھ رہے۔حالانکہ انہیں ابھی کوئی مشقت بھی نہیں پہنچی
اور اس عمل کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کررہے ہیں۔
امام ترمذیؒ یہ حدیث درج کرنے کے بعد رقمطرازہیں کہ اکثراہل علم نے اس حدیث کو دلیل بنا کریہ فرمایا ہےکہ مسافر کے لیے درست ہےکہ وہ گھر سے نکلنے سے پہلےہی روزہ افطار کرے ، مگر نماز اپنےشہر یا بستی سے نکلنے سے قبل قصر نہیں کرسکتا
یہی مذہب اسحاق بن ابراہیم الحنظلی یعنی اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔
عبید بن جبیرؒ فرماتے ہیں !
” میں صحابی رسول ابو بصرہ غفاریؓ کے ساتھ ماہ رمضان میں کشتی میں سوار تھا
کہ انہوں نے کشتی روکی پھر انکے لیے کھانا لایا گیا ۔حالانکہ ابھی ہم گھروں
سےزیادہ دورنہیں گئے تھے۔ابوبصرہ غفاریؓ نےدسترخوان منگواکرکہا”قریب
آ جاؤ “ میں نے کہا آپ گھروں کو نہیں دیکھ رہے (یعنی ہم ابھی زیادہ دور
نہیں آئے ) ؟ تو ابو بصرہ ؓ نے جواب دیا ” کیا تورسول اللہ کی سنت سے بے
رغبتی کرتا ہے؟ پھر انہوں نے کھانا کھا لیا ۔
( مسند احمد ، ٤٨٨/١٨ ۔ بیہقی ، ٢٤٦/٤ )
ابو بصرہ غفاریؓ نےکشتی میں سوار ہوتے ہی روزہ افطار کرلیا اور سفر کی مشقت کا بھی انتظار نہیں کیا ۔ پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ سفر میں مشقت و تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں اور شارع نے سفر میں افطار کرنے کا یہ وصف بیان نہیں کیا۔نیز صحابہ اکرامؓ سفر کرتے تو ان میں سے بعض کا روزہ ہوتا اور بعض روزہ نہیں رکھتے تھے۔لیکن کوئی بھی ایکدوسرے پر نکتہ چینی نہیں کرتا تھا ،کیونکہ سفر میں روزہ سے رخصت ہے ۔اب جس نے روزہ رکھ لیا اس نے بھی درست کام کیا ، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ رخصت قبول کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔جس طرح کے وہ دیگر عطا کردہ امور پر عمل کو پسند فرماتا ہے ۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتویمہے کہ 👇👇👇
مسافر کے لئے رمضان میں روزہ نہ رکھنا اور چار رکعت والی نمازوں میں قصر کرنا جائز ہے، اور روزہ رکھنے یا پوری نماز پڑھنے کی بہ نسبت یہی افضل بھی ہے، اور اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت یہ حدیث ہے:
بےشک اللہ جس طرح عزیمت پر عمل کو پسند کرتا ہے،
مسند أحمد بن حنبل (2/108).
اسی طرح رخصت پر عمل کو بھی پسند کرتا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں۔
مسند أحمد 3 / 299، 317، 319، 352، 399، 5 / 434،
صحیح بخاري 2 / 238،
صحیح مسلم 2 / 786 حدیث نمبر (1115)،
سنن أبو داود 2 / 796 حدیث نمبر (2407)،
سنن نسائي 4 / 175، 177 حدیث نمبر (2255- 2258، 2260- 2262)،
سنن ابن ماجہ 1 / 532 حدیث نمبر (1664، 1665)،
سنن دارمي 2 / 9،
مصنف ابن أبوشيبہ 3 / 14،
صحیح ابن حبان 2 / 70- 71، 8 / 317، 320، 321- 322، 322 حدیث نمبر (355، 3548، 3552، 3553، 3554)،
منتقی بن جارود ،
(غوث المكدود.) 2 / 46 حدیث نمبر (399)،
سنن بیہقی 4 / 242، 243. سفر میں
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment