Kamjori Ya Kisi Bimari ki Wajah Se Kya Roze Chhor Sakte Hai?
سوال : ایک آدمی فالج کا مریض ھے علاج کے باعث کافی بہتر بھی ھے لیکن ساتھ میں بھولنے کی تکلیف بھی ھے کسی بھی کام کو کرنے کے بعد بھول جاتا ھے
ایسے آدمی کے روزوں کے متعلق کیا حکم ھے ؟؟ کیا اس پر سے روزے ساقط ھیں؟
اگر ہاں تو ان کا فدیہ کیا بنے گا؟؟
اور وہ ادا کس وقت کرنا ھے؟
جواب کا طالب ھوں ۔
اللہ تعالی آپ کو برکتوں اور عزتوں سے نوازے آمین
حافظ عبدالغفور طاہری مظفرآباد آزادکشمیر
________________________________۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
مریض کے روزہ چھوڑنے کے بارے میں الشیخ محمدصالح حفظہ اللہ کہتے ہیں
اکثر علماء کرام جن میں آئمہ اربعہ بھی شامل ہیں کا مسلک یہ ہے کہ مریض کے لیے اس وقت تک رمضان کے روزے چھوڑنے جائز نہيں جب تک کہ مرض شدید قسم کا نہ ہو ۔
اورشدید مرض سے مراد ہے کہ :
1 - روزے کی وجہ سے مرض زیادہ ہوجائے ۔
2 - روزے کی وجہ سے شفایابی میں تاخیر ہوجائے ۔
3 - روزے کی وجہ سے اسے شدید قسم کی مشقت ہو اگرچہ مرض کی زيادتی اورشفایابی میں تاخیر نہ بھی ہو ۔
4 - علماء کرام نے اس کے ساتھ روزے کے سبب سے مرض پیدا ہونے کے خدشہ کو بھی ملحق کیا ہے ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہيں :
( روزہ نہ رکھنا اس مرض سے مباح ہوتا ہے جومرض شدید ہو اورروزہ رکھنے سے اس میں زيادتی ہو یا پھر اس مرض سےشفایابی میں تاخیر ہو ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے کہا گیا کہ مریض کب روزہ نہيں رکھےگا ؟
توان کا جواب تھا :
جب وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھے ، تو ان سے کہا گيا کہ مثلا بخار ؟ توامام امحد کہنے لگے بخار سے زيادہ شدید مرض کونسا ہے ! ۔۔۔۔
اوروہ صحیح شخص جوروزہ کی وجہ سے مرض کا اندیشہ رکھے اس مریض کی طرح ہے جوروزہ کی وجہ سے مرض کے زيادہ ہونے کا خدشہ رکھتا ہو اسے بھی روزہ چھوڑنے کی ا جازت ہے ، کیونکہ مریض کے لیے روزہ چھوڑنا اس لیے مباح کیا گيا ہے کہ روزہ کی وجہ سے مرض زيادہ اورلمبا ہوجائے لھذا مرض کا خوف بھی اسی معنی میں آتا ہے )
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 403 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المجموع میں کہتے ہیں :
( وہ مريض جو اپنے ایسے مرض کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے جس کے زائل ہونے کی امید نہ ہو اسے روزہ رکھنا لازم نہیں ۔۔۔ اوراسی طرح اگر روزہ رکھنے سے ظاہری مشقت ملحق ہوتی ہو اس میں یہ شرط نہيں کہ وہ اس حد تک ختم ہوجائے جس میں روزہ رکھنا ممکن نہ ہو ، بلکہ ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ : روزہ چھوڑنے کی شرط یہ ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے مشقت ہوتی ہوجس کا متحمل نہ ہوا جائے ) اھـ دیکھیں المجموع ( 6 / 261 ) ۔
اوربعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ : ہر مریض کےلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ، اگرچہ روزے کی وجہ سے مشقت نہ بھی ہوتی ہو ۔
یہ قول شاذ ہے جسے جمہور علماء کرام نے رد کردیا ہے ۔
___________________________________۔
روزے کی قضا اور فدیہ کی بابت کچھ سوالات اور انکے جوابات درج ذیل ہیں ملاحظہ فرمائیے🔽
➖اگر کوئی مرد کسی بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑ قضا کرے تو کیا وہ فدیہ بھی دے؟
فدیہ صرف اسی صورت میں ہے جبکہ روزوں کی قضا کو ایک سال سے زیادہ لیٹ کر دیا جائے اور اگر قضا اگلے سال کے رمضان سے پہلے پہلے کر لی ہے تو پھر صرف قضا ہی ہے، فدیہ نہیں ہے۔
➖اگر کسی کو ایسی بیماری ہو کہ وہ روزے رکھ سکنے کے بالکل بھی قابل نہ ہو ،نہ رمضان میں نہ رمضان کے بعد تو کیا وہ صرف فدیہ دے؟ اور فدیے کی مقدار کیا ہے؟
ایسی صورت میں صرف فدیہ ہے اور ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٤﴾
اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔
➖آج کل ہمارے پیسوں کے حساب سے ایک مسکین کے کھانے کی کیا مقدار ہو گی؟
بعض اہل علم کے نزدیک فدیہ ایک وقت کا کھانا ہے جبکہ بعض کے نزدیک دو وقت کا کھانا ہے۔ لیکن یہ کھانا وہ ہے جو آپ خود کھاتے ہوں۔ یعنی اس کا حساب نہیں لگانا کہ غریب کا پیٹ کتنی روٹیوں سے بھرتا ہے بلکہ اس کا حساب لگانا ہے کہ آپ اپنے گھر میں جو کھانا کھاتے ہیں، اس کے اعتبار سے ایک آدمی کے ایک وقت کے کھانے کی کیا قیمت بنے گی۔ اس کے اعتبار سے فدیہ ادا کر دیں۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
Ny Mrs Jarjis Ansari
No comments:
Post a Comment